ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
ایک قسم کا رد ہے ۔ اس شخص پر اتنا ہی واجب ہے اس سے زیادہ نہیں اگر دوسرے سامعین چاہیں تو اس کی اتنی تنبیہ پر گمراہی سے اس طرح بچ سکتے ہیں کہ وہ اہل حق سے حق کی تحقیق کریں اور باوجود اس کے بھی کوئی گمراہی سے نہ بچے تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا اہل حق سے اس کا مواخذہ نہ ہوگا پھر ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جس جگہ لوگوں کو کسی مسئلہ کا علم ہو اور ان لوگوں کو اس مسئلہ کو تبلیغ کرنے میں فتنہ کا بھی اندیشہ ہو توایسے موقع پر مفاسد ومضار خاصہ کے ترتب کی بناء پر عجب نہیں بعض اوقات تبلیغ ناجائز ہے ۔ (ملفوظ 174) محبت عقلیہ مفضی الی الطاعۃ الکاملہ مطلوب ہے فرمایا حدیث میں آیا ہے لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین اس حدیث میں جو محبت کو شرط ایمان برقرار دیا گیا تو عام طور پر لوگ اس محبت سے محبت طبعیہ مراد سمجھتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے بلکہ محبت عقلیہ کاملہ مفضی الی الطاعتہ الکاملہ مراد ہے کیونکر محبت طبعیہ تو بعض اوقات فاسق فاجر کو بھی حاصل ہوتی ہے پھر محنت عقلیہ جو شرط ایمان کامل ہے وہ بھی مطلق محبت عقلیہ نہیں بلکہ محبت عقلیہ کا وہ درجہ جو کامل اور مفضی الی الطاعۃ الکاملہ ہو باقی محبت طبعیہ کو شرط الایمان کہا ہی نیہں جاسکتا اس لئے کہ محبت طبعیہ غٰیر اختیاری ہے اگر ایمان کو محبت طبعیہ کے ساتھ مشروط کیا گیا تو ایمان غیر اختیاری ہوجائے گا حالانکہ ایمان مامور بہ ہے اور ماموربہ کا اختیاری ہونا ضروری ہے غرض یہاں محبت عقلیہ کاملہ الی الطاعۃ الکاملہ مراد ہے اور یہی محبت عقلیہ مقصود بھی ہے پھر فرمایا کہ حضرات صحابہ کی جو محبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اصل کمال اور فضیلت ان کی یہی محبت عقلیہ تھی ۔ اور گو صحابہ کو محبت طبعیہ بھی حضور کے ساتھ تما عالم سے زیادہ تھی مگر اس محبت طبعیہ پر بھی غالب محبت عقلیہ تھی اور حضرت زلیخا کو جو محبت حضرت یوسف علیہ السلام سے تھی وہ محبت طبعیہ تھی پھر فرمایا کہ محبت عقلیہ کو دوام ہوتا ہے