ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
26 / رمضان المبارک 1360 ھ مجلس شام ( ملفوظ 263 ) ہدی للمتقین کا مفہوم فرمایا ایک بار مولانا محمد قاسم صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ قرآن کے متعلق ارشاد ہو رہا ہے ھدی للمتقین تو پہلے ہی ہدایت پر ہیں تو یہ تحصیل حاصل ہوا ۔ اس کے جواب مختلف حضرات نے مختلف دئے ہیں چنانچہ ایک جواب صاحب جلالین نے دیا ہے کہ مراد متقین سے صائرین الی التقوٰی ہیں مگر مولانا محمد قاسم صاحب نے ایک دوسرا جواب دیا کہ یہاں تقوٰی سے مراد اس کے اصطلاحی معنے نہیں بلکہ لغوی معنے ہیں یعنی خوف اور کھٹک تو آیت کے معنے یہ ہیں کہ جن لوگوں کے قلب میں کھٹک ہے اور فکر ہے اور قصد ہے اپنی اصلاح کا ان کو قرآن ہدایت کرتا ہے باقی جو شخص اپنی اصلاح کا قصد ہی نہ کرے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے قرآن کا اس میں کیا نقص ہے تو مولانا محمد قاسم صآحب کا جب یہ جواب میں نے سنا تو فورا اس جواب کی ایک تائید قرآن سے میری سمجھ میں آئی وہ یہ کپ سوہ والیل میں ارشاد ہے فامامن اعطٰے واتقی وصدق بالحسنے اس کے بعد ارشاد ہے وامامن بخل واستغنے وکذب بالحسنے یہاں صنعت تقابل کا استعمال کیا گیا ہے چنانچہ پہلی آیت میں اعطاء کا ذکر ہے تو دوسری آیت میں اس کے مقابل میں لفظ بخل کا ستعمال کیا گیا ہے اور بخل میں تقابل ظاہر ہے اسی طرح پہلی آیت میں کذب ہے تو دوسری میں مصدق اور صدق اور کذب میں بھی تقابل موجود ہے بس اسی طرح پہلی آیت میں استغنے ہے تو دوسری میں اس کے مقابل کوئی مفہوم ہونا چاہئے اور وارد اتقی ہے پس اس تقابل کی وجہ سے یہاں تقوی کے معنے مراد ہوں گے جو استغناء کے مقابل ہوں پس استغناء کے معنے ہیں بے فکری کے تو یہاں تقوی کے معنی ہوں گے فکر اوت کھٹک ورنہ فصاحت کے خلاف ہوگا ۔ پس معلوم ہوا کہ متقین کے وہ معنے