ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
الامتہ دام ظلہم العالی نے اس خط کا جواب تحریر فرمایا اور پھر وہ جواب حاضرین مجلس کو سنایا ـ جو حسب ذیل ہے اس کا علاج مرکب ہے چار اجزاء سے ـ ایک صبر ـ دوسرے تفویض ـ تیسرے مراقبہ حکمت چوتھے دعا ـ تھوڑے عرصہ کے بعد ان صاحب کا دوسرا خط آیا جس کے اندر انہوں نے تحریر کیا کہ حضرت والا کے اس ارشاد فرمودہ علاج سے بے حد فائدہ ہوا جس کا دست بستہ شکر یہ ادا کرتا ہوں ـ اس پر حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ واقعی چیز ہے ہی ایسی ـ ( 109 ) غیر ضروری بات کا جواب دینا ضروری نہیں فرمایا عموما آج کل یہ حالت ہو رہی ہے کہ اول تو لوگ دین کا مسئلہ علماء سے پوچھتے نہیں اور اگر علماء سے سوالات بھی کئے جاتے ہیں تو وہ سوالات ایسی باتوں کے متعلق ہوتے ہیں کہ ان باتوں کا یا تو علماء سے بالکل تعلق نہیں ہوتا اور زیادہ ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ جو بالکل فضول اور بے کار ہوتی ہیں اور علماء جو قوم کی مذہبی خدمات میں مشغول ہیں ان کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ فضول باتوں کے جوابات تحریر کیا کری لہٰذا وہ جب ایسی فضول باتوں کے جواب دینے سے اپنی معذوری ظاہر کرتے ہیں اور ایسی فضول باتوں کا جواب نہیں دیتے تو لوگ ان علماء پر اعتراض کرتے ہیں ـ اور منشاء اس اعتراض کا یہ ہے کہ عوام الناس کا یہ خیال ہے کہ ہر عالم کو ہر بات کا جواب دینا ضروری ہے حالانکہ یہ غلط ہے بلکہ اس کے اندر تفصیل ہے وہ یہ کہ اگر وہ بات جس کو دریافت کیا گیا ہے کوئی دین کی ضروری ہے اور اگر وہ بات غیر ضروری ہے تو اس کا جواب دینا علماء پر ضروری نہیں ـ اسی طرح اگر وہ بات ضروری تو ہے مگر جواب دینے والے صرف وہی ایک عالم نہیں بلکہ دوسرے علماء بھی ملک کے اندر موجود ہیں جن سے اس ضروری بات کا جواب لیا جا سکتا ہے تو بھی کسی خالص عالم سے ہی اس بات کے جواب کے مطالبہ کا حق نہیں ـ بلکہ جب ایک عالم عذر کرے تو دوسرے سے اس کا جواب لیا جا سکتا ہے ـ اسی طرح جن صورتوں میں جواب دیا جانا ضرروی ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ جواب تحریر ہی دیا جائے اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ جواب فتوی کی صورت میں ہی دیا جائے بلکہ اگر اس بات کا جواب زبانی دے دیا جائے تو بھی کافی ہے ـ اسی طرح اگر اس بات کا جواب فتوی کی صورت میں نہ دیا جائے بلکہ خط کی شکل میں جواب دے دیا جائے تب بھی کافی ہے ـ