ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
کی تقریر ترجیح الراجح میں جو امدادی الفتاوی کا ایک جزو ہے نقل کرادی جس پر تاریخ 23 ذیقعدہ 1357 ھ لکھی ہے ۔ (175) قلب کی شہادت سے احتیاط کا برتاؤ ایک بار حضرت والا یہ بیان فرما رہے تھے کہ سلوک کے اندر اصل چیز اصلاح اخلاق واعمال ہے مگر اسی کی طرف سے لوگ بالکل بے تو جہی کرتے ہیں اور جن لوگوں کو اصلاح کی طرف توجہ ہوتی بھی ہے تو وہ صرف وظیفوں کو اصلاح نفس کے لئے کافی سمجھ بیٹھتے ہیں اسی کے ضمن میں ارشاد فرمایا کہ اصلاح یعنی ازالہ رزائل کا اہتمام یوں تو تمام سلاسل میں ہے مگر سلسلہ چشتیہ میں سب سے زیادہ اس کا اہتمام کیا گیا ہے یہی چشتیہ میں مرید کا تخلیہ مقدم ہے تجلیہ سے ۔ بخلاف نقشبندیہ کے ہاں تجلیہ مقدم ہوتا ہے تخلیہ سے ۔ ( 176 ) حضرت خواجہ صاحب ضبط ملفوظات کے مشورہ کا جواب ایک صاحب نے دریافت کیا کہ یہ تو عقیدہ ہے کہ حق تعالٰی کے سوا تمام اشیاء حادث ہیں اور ان اشیاء میں عرش بھی داخل ہے لیکن اگر عرش کو قدیم نہ مانیں بلکہ حادث کہیں اور کسی دو سری چیز میں قدم کا شبہ بھی نہیں تو کوئی چیز بھی قدیم نہ ہوگی اور اس صورت میں ظاہرا صفات باری تعالٰی کا تعطل لازم آتا ہے کہ ان کا کوئی اثر ہی ظاہر نہیں ہوا اس کا کیا جواب ہوگا ارشاد فرمایا کہ یہ غلط ہے کہ صفات کا تعطل لازم آئے گا کیونکہ صفات کے تعطل کے معنی یہ ہیں کہ موصوف اگر اس صفت کے اثر کو ظاہر کرنا چاہے تو بھی نہ کرسکے تب کہہ سکتے ہیں کہ تعطل ہوا اور اگر اس کو ظاہر کرسکے اور پھر اپنے اختیار سے نہ کرے تو اس کو تعطل نہیں کہتے چنانچہ اگر کوئی شجاع ہوتو اس کے شجاع ہونے کے معنی یہ نہیں کہ اس کا ہاتھ کبھی رکتا ہی نہیں بلکہ ہر وقت وہ حرب وضرب ہی میں مشغول رہتا ہے حتی کہ اگر کسی وقت وہ شخص میدان جنگ سے واپس آکر اپنے گھر میں خوردو نوش وغیرہ یا کسی دوسرے کام میں مصروف ہو تو وہ شجاع نہ رہے اسی طرح جو شخص تلوار چلانا اچھی جانتا ہوتو اس کے معنی یہ نہیں کہ وہ ہروقت مار دھاڑ ہی کرتا رہتا ہے پس جب تعطل کے معنی معلوم ہوگئے تو اب دیکھنا چاہیے کہ جب عرش نہ تھا اور نہ کوئی اور مخلوق موجود تھی تو اس وقت بھی حق تعالٰی اپنی صفات کے اظہار پر قادر تھے یا نہیں سو ظاہر ہے کہ جیسی مخلوقات کے پیدا کرنے کے بعد اپنی صفات کے اظہار پر