ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
ایک بزرگ کی حکایت ہے کہ ان کے ایک مرید جب ذکر شغل کرتے تو انوار نظر آتے ان کے کے شیخ کو اس کا پورا اطمینان نہ ہوا کہ یہ انوار رحمانی ہیں یا شیطانی ۔ بعض اوقات شیخ کو بھی استدلال کی ضرورت پڑتی ہے ۔ انہیں بھی ٹھیک طور پر یہ پتہ نہ لگا کہ یہ انوار کیسے ہیں چنانچہ انہوں نے اس کا امتحان لیا ۔ مرید سے کہا کہ تم کسی اصطبل میں سے بلا اجازت ایک تنکا اٹھا لاؤ تاکہ گناہ نہ ہو کیونکہ ایک تنکے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اس لئے اس کا اٹھا لانا بوجہ غیر متقوم ہونے کے گناہ تو نہیں جیسا کہ فقہاء نے بالتصریح لکھا ہے لیکن خلاف اولی سے چنانچہ وہ مرید تنکا اٹھا لایا ۔ اس کے بعد وہ نور نظر نہیں آیا ۔ شیخ نے یہ حال سن کر فرمایا کہ جاؤ اب تنکا ڈال آؤ معلوم ہوگیا کہ الحمد للہ وہ نور رحمانی ہے کیونکہ جو چیز شریعت میں پسند نہ تھی اس کے کرنے سے وہ غائب ہوگیا اگر وہ نور شیطانی ہوتا تو اس فعل کے ارتکاب سے اس میں اور ترقی ہوتی ۔ اھ پھر حضرت اقدس مد ظلہم العالی نے فرمایا کہ اب بعض اہل سلوک فخر کرتے ہیں کہ ہم زنا بھی کرلتے ہیں تب بھی ہماری نسبت سلب نہیں ہوتی یہی دلیل ہے اس کی کہ وہ شیطانی نسبت ہے ورنہ رحمانی ہوتی تو بھلا معصیت کے ارتکاب کے بعد باقی رہ سکتی تھی اس کی وہ حالت ہے جیسے پان کی ذرا ہوا لگی اور خراب ہوا ۔ بردل سالک ہزاراں غم بود گر زباغ دل خلالے کم بود نسبت رحمانی میں تو ادنی ادنی بات سے تغیر آجاتا ہے اور جب معصیت کے ہونے سے بھی تغیر نہ ہو تو وہ شیطانی نسبت ہے ۔ نسبت روحانی تو ایسی ہوتی ہے جیسے چھوئی موئی جس کو شرمندہ کہتے ہیں کہ اس کو ذرا ہاتھ لگا نہیں کہ وہ مرجھائی نہیں اور ایک شمشاد ہے کہ اس کو جتنا چاہے چھویئے بلکہ ہتوڑے بجایئے اس پر کوئی اثر نہیں پھر فرمایا کہ یہاں صحیح تعلیم کی ضرورت ہے جو آج کل بالکل کم ہے اس لئے ان صحیح حقائق کو یوں سمجھتے ہیں کہ ملاپن ہے فلسفیت ہے تصوف کو ایک مستقل فن بنا رکھا ہے شریعت کے مقابلہ میں ۔ ( 231 ) حضرت امام اعظم کی ذہانت غالبا کچھ ہدایات کے متعلق تذکرہ تھا ۔ فرمایا کہ کہنے کی تو بات نہیں لیکن میرے یہاں تو اخفا ہی نہیں نہ نقص کا نہ کمال کا اور پھر اس میں میرا کیا کمال ہے اللہ تعالٰی نے جس کا جیسا دل بنا دیا بن