ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
تھے یہاں کسی ہندوستانی عورت سے شادی کرلی ۔ پھر جب سرحد پہنچے تو وہاں پہنچ کر وہ ہندوستانی بی بی مرگئی ۔ پھر ایک سرحدن سے شادی کی سرحدن بے چاری سیدھی سادی تھی اس میں بھلا ہندوستانی عورتوں کے سے ناز واندازکہاں سرحدی صاحب عادی ہوگئے تھے ناز وانداز کے اس بے چاری کو دھمکاتے اور کہتے کہ ناز بکن ناز بکن ایسا زبردستی کا ناز کوئی ناز ہو سکتا تھا تو وہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ہیجڑے عورتوں کے سے ناز وانداز کیا کرتے ہیں جن سے بجائے کشش کے نفرت پیدا ہوتی ہے ۔ (219) تقوٰی وطہارت سے لطافت بڑھ جاتی ہے بہ سلسلہ گفتگو فرمایا کہ انسان کو فطرۃ گوشت خور ثابت کرنے کے لئے یہ جو استدلال کیا جاتا ہے کہ اس کے دانتوں میں کیلے ہوئے ہیں یہ کوئی قوی استدلال نہیں کیونکہ بعضے اور جانوروں کے بھی کیلے ہوتے ہیں اور وہ گوشت خور نہیں اسیی کمزور بات کیوں کہی جائے ٹکسالی بات تو بس یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گوشت کھانے کی اجازت دی ہے اس لئے کھاتے ہیں پھر فرمایا کہ کسی آریہ نے اعتراض کیا تھا کہ گوشت کھانا تو بے رحمی ہے پھر اس کی کیوں اجازت ہے جن صاحب سے اس آریہ نے ی سوال کیا تھا انہوں نے مجھ سے اعتراض کا جواب پوچھا میں نے انہیں جواب دیا کہ کہ اس آریہ سے پوچھو کہ جو جانور بلا ذبح کئے ہوئے اپنی موت مرتے ہیں انہیں کون مارتا ہے ہے ۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالی ہی مارتے ہیں ۔ اگر جان لینا بے رحمی ہے تو وہ تو رحیم وکریم ہیں اور جانوروں کو کیوں مارتے ہیں ۔ پھر فرمایا کہ جس طرح ویسے جان لینا بے رحمی نہیں ذبح کی اجازت دے کر جان لینا بھی بے رحمی نہیں ہے ۔ ایک انگریزی خوان کہتے تھے کہ کسی انگریز نے ایک بڑی کتاب لکھی ہے جس میں دلائل اور سائنس کے اصولوں سے ثابت یہ کیا ہے کہ جتنی ترکاریاں اور پھل وغیرہ ہیں ان میں بھی جان ہے اور ایسی جان ہے کہ اگر کو کھایا جائے تو اس سے انہیں بھی اذیت ہوتی ہے یہ اس قوی دلائل سے ثابت کردیا ۔ چونکہ یورپ میں ایک ایسی جماعت بھی ہے گوشت نہیں کھاتی ان پر اس کتاب کے ذریعہ سے احتجاج کیا ہے اور ان ہی سے یہ سوال کیا ہے کہ جب بقولات میں بھی ایسی جان ہے کہ ان کو کھائے جانے سے اذیت ہوتی ہے چنانچہ اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب آلات سے ان کو کاٹا جاتی ہے تو وہ اذیت سے سکڑتے ہیں تو اب بتلاؤ کیا کھاؤ گے عرض کیا گیا کہ