ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
خاطر ہے جو خود مصلی کے متعلق ہے تو لکڑی نہ ملنے کی صورت میں خط کھنیچ دینے سے یہ مقصود تو حاصل ہے کہ مصلی کی خاطر جمع رہے ۔ چنانچہ علماء حنفیہ میں سے ابن ہمام اس کے قائل ہوگئے تو یہ حدیثیں شغل کی اصل نکل آئیں ۔ میں نے حضرات صوفیہ کے اور اقوال کی تائید میں بھی حدیثیں جمع کی ہیں ۔ جس پر بعضے غیر مقلد خفا ہیں کہ تم شر القرون کے صوفیوں کی بھی حمایت کرتے ہو ۔ ارے میں کیا حمایت کرتا ہوں ان کی حمایت میں تو حدیثیں موجود ہیں ۔ گو شغل کی جو حکمت ہے اس میں کسی نص کی حاجت نہیں جیسا تدابیر کے لئے بعد اثبات جواز شرعی کسی نص خاص کی حاجت نہیں ۔ مثلا گل بنفسھ کی خاصیت کا منصوص ہونا ضروری نہیں ۔ اسی لئے غالبا آپ تعجب کریں گے میں نے تو اسی بناء کو سمجھ کر ایک عجیب شغل تجویز کیا ہے اگر کسی حسین پر نظر پڑجائے جس سے طبیعت مشوش ہوجائے ۔ اور تعلق خاطر ہو جانے کا اندیشہ ہو تو اس مصلحت سے کہ تعلق خاطر بڑھ نہ جائے اسی وقت بازار جاکر کسی موٹے بننے کو دیکھے جس کی تو ند نکلی ہوئی ہو ۔ بدن بے ڈول ہو ۔ رنگ لا بھجنگ ہو میلا کچیلا ہو مکھیاں بھنک رہی ہوں اٹھتے بیٹھے رہیں نکالتا ہو اور دیر تک اس کو دیکھتا رہے تاکہ وہ اچھی طرح ذہن میں جم جائے بس پھر اس کے تصور کو ذہن میں لے چل دئے اس شغل سے تشویش خاطر زائل ہوجائے گی اور یہی حکمت تھی شغل کی ۔ تو لیجئے میں نے کافروں سے بھی دین کا کام لے لیا ۔ بعض احوال میں تصور شیخ تو ناجائز ہوگیا مگر تصور کافر عبادت ہوگیا کیونکہ عبادت کا ذریعہ ہے تو اللہ تعالیٰٰ اگر ذہن میں فن کی حقیقت ڈال دے تو ہر چیز سے فن کا کام لے سکتا ہے ۔ ( 201 ) حضرت حکیم الامت کا جوش فیض رسانی ایک طالب نے جو متجر عالم ہیں ایک صاحب کو جو مقیم خانقاہ ہیں ایک طویل خط میں اپنے مفصل حالات اس غرض سے لکھے کہ وہ حضرت اقدس کے گوش گزار کر دئے جائیں اس میں بار بار تحریر تھا کہ کاش یہ ہوتا کاش وہ ہوتا ۔ حضرت اقدس نے اس کو سن کر فرمایا کہ میری سمجھ میں تو کچھ آیا نہیں کہ ان کا مقصود کیا ہے یہ تو حالات ہوئے کہ کاش یہ ہوتا کاش وہ ہوتا ۔ اس پر فرمایا کہ ہے تو فحش لیکن یہ // ہوتا ہوتا // تو ایسا ہی ہے جیسا حضرت مولانا روم رحتہ اللہ علیہ کا ایک شعر ہے ۔