ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
ہے کہ میت کے ذمہ کچھ نماز اور روزہ تو قضاء نہیں اگر ہے تو اس کا فدیہ دیں اگر اس کے ذمہ زکوۃ ہو اس کو ادا کریں ۔ محلہ میں جو غرباء یتیم بیوہ محتاج ہوں ان کو تقسیم کر دیا جائے ۔ یہ دوسری تطوع ایصال ثواب سے بڑھ کر ہے مگر اس کی طرف آج کل لوگوں کو قطعا التفات نہیں ۔ علی الحساب سینکڑوں ہزاروں روپیہ مرحوم کی طرف سے خرچ کر دیں گے اور یہ سب خرابیاں رسموں کی ہیں اب دیکھ لیا جائے کہ یہ ضروری ہے یا نہیں ۔ اس کو ہر دیندار سمجھ سکتا ہے ۔ لیجئے اہل حق کو بدنام کیا جاتا ہے کہ مولوی وہابی ایصال ثواب کو منع کرتے ہیں ۔ لو ایصال ثواب کرو مولوی اجازت دیتے ہیں منع نہیں کرتے مگر ایصال ثواب کا طریقہ بتلاتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص بجائے قبلہ رخ ہونے کے پورب کو منہ کر کے نماز پڑھنے کا طریقہ بتلا رہا ہے اگر کوئی کہے کہ دیکھو مجھ کو نماز پڑھنے سے منع کر رہا ہے تو تم کیا فیصلہ دو گے جو وہاں فیصلہ دو وہی یہاں سمجھ لو ۔ (68) محبت و خلوص پر نظر خداوندی ایک صاحب کے سوال کے جواب میں ثواب کےلئے کھانا کھلانے کے متعلق فرمایا کہ اگر ایک دم کھانا پکا کر کھلایا جائے اس صورت میں تو زیادہ تر برادری ہی کھا جاوے گی ۔ جیسے کہ رسم ہو رہی ہے اس سے وہ صورت بہتر ہے جو میں عرض کرتا ہوں کہ اس کی تین صورتیں ہیں پکا کر کھلایا جائے خشک جنس دے دی جائے ۔ نقد تقسیم کر دیا جاوے ۔ سو سب سے افضل اور بہتر صورت تو یہی ہے کہ مستحقین کو نقد تقسیم کر دیا جاوے کیونکہ معلوم نہیں ان کو کیا ضرورت پیش ہو ۔ انسان کے ساتھ علاوہ کھانے کے اور بہت سی ضرورتیں ہوتی ہیں مثلا بیوہ عورت پردہ نشین ہے ۔ اب کسی کو کیا خبرکہ اس کو کیا حاجت اور ضرورت پیش ہے ۔ دوسرے درجہ کی صورت یہ ہے کہ خشک جنس دے دی جاوے کہ جب جی چاہے گا اور جس طرح جی چاہے گا پکا کر خود کھا لیں گے تیسرے درجہ کی صورت یہ ہے کہ پکا کر کھلایا جاوے ۔ سو اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ روازانہ ایک دو خوراک پکا کر مستحقین کو پہنچا دی جایا کرے ایک دم پکانے سے مستحق اور غیر مستحق سب جمع ہو جاتے ہیں بلکہ ہنگاموں میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مستحق رہ جاتے ہیں اور غیر مستحق کھا جاتے ہیں یہ سب تجربات کی بناء پر عرض کر رہا ہوں ۔ عرض کیا گیا کہ جس طریق سے آج کل قرآن شریف پڑھ کر ایصال ثواب کیا جاتا ہے کیا اس طرح پر قرآن