ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
دکھلانے کو لا چکا اور مجھ سے زبانی مذہبی گفتگو کرنا چاہت تھا ۔ میں نے کہہ دیا کہ میں عالم نہیں ہوں اپنے مذہب سے پورا واقف نہیں ۔ یہ باتیں تم ہمارے علماء سے پوچھو اور انہیں سے گفتگو کرو ۔ فرمایا یہی جواب مناسب ہے ۔ جتنے اہل باطل فرقے ہیں شب و روز اسی فکر میں رہتے ہیں اور اہل حق کے پیچھے پڑے رہتے ہیں پھر ان کے پاس اتفاق سے اشاعت اور تبلیغ کا سامان موجود ہے ۔ کافی سرمایہ ہے ۔ دوسرے ممالک تک میں تبلیغ کےلئے پہنچ گئے آج کل حق و باطل کو تو کوئی دیکھتا نہیں صرف ان باتوں کو دیکھتے ہیں کہ تبلیغ کا کام کرتے ہیں ۔ آریوں سے مناظرہ کرتے ہیں اسلام کے ہمدرد ہیں ۔ اگر تبلیغ اور اشاعت کی کثرت حق کا معیار ہے تو اس وقت عیسائیوں سے زیادہ کوئی بھی تبلیغ نہیں کر رہا تمام ممالک میں ان کے مشن کھلے ہوئے ہیں اسی طرح مناظرہ کرنا بھی حق کا معیار نہیں ہو سکتا ۔ عقل اور فہم لوگوں سے جاتا رہا جو ایک بہت بڑ قہر خداوندی ہے ۔ اب تو یہاں تک نوبت آ گئی ہے کہ لوگوں کو اس پر شبہ ہوتا ہے کہ قادیانی تو اپنے کو مسلمان کہتا ہے پھر علماء اس کو کافر کیوں کہتے ہیں خوب سمجھ لو کہ اس کا اپنے کو مسلمان کہنا ایسا ہے جیسے مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کیا اور اپنے کو مسلمان کہتا تھا نماز پڑھتا تھا حضور کی رسالت کی تکذیب نہ کرتا تھا بلکہ صرف اپنی رسالت کا دعوی بھی کرتا تھا کہ جیسے یہ رسول ہیں ایسا ہی میں بھی رسول ہوں ۔ (494) اصول صحیحہ سے پریشانی نہیں ہوتی ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اگر صحیح اصول کا اتباع کیا جاوے تو کوئی بھی پریشان نہیں خصوصا اس طریق میں تو پریشانی ہے ہی نہیں ۔ دین اور پریشانی عجیب بات ہے ۔ دین میں پریشانی تو ہے ہی نہیں خواہ وہ احکام ظاہرہ ہوں یا باطنہ ۔ لوگوں نے بوجہ لا علمی کے اور فن سے ناواقف ہونے کے خود اپنے اوپر پریشانیاں لے رکھی ہیں اور سختیوں میں پڑے ہوئے ہیں اور اگر کوئی بات نفس کے خلاف بھی ہو تو جب اس میں عبد کا سراسر نفع ہے تو پھر اعتراض اور شبہ پریشانی کا کیسا تعجب ہے کہ دین ہی اس قسم کی نکتہ چینیوں اور اعتراضوں کے لئے رہ گیا ہے ۔ طبیب مسہل دیتا ہے کسی روز منضج ہے کسی روز تبرید ۔ غرضکہ اس قدر جھگڑا کہ نمٹانے نہیں نمٹتا ۔ وہاں کبھی یہ اعتراض نہ پیدا ہوا کہ اس میں تو بڑی پریشانی ہے ۔ حاصل یہ کہ اول تو دین کے اتباع میں کوئی پریشانی نہیں اور اگر بالفرض ہو بھی تو ایمان والوں کی تو یہ