ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
حضرت مولانا گنگوی ہی نے فرمایا کہ حدیث میں آیا ہے ۔ یراھا المسلم اوتری لہ یا تو خود یکھے یا اس کے بارہ میں دوسرا دیکھے ۔ جناب نے اگر نہیں دیکھا مگر اوروں نے تو آپ کے بارہ میں دیکھا ہے یہ سن کر نہایت ہی خوش ہوئے اس حدیث کی طرف ان کا ذہن نہ گیا تھا اور حالانکہ وہ عالم تھے ۔ پاس رہنے کا فائدہ اور مناظرہ کا ذکر واقعہ : حضرت نے پاس رہنے کا فائدہ بیان کیا اور مناظرہ کا بھی ذکر تھا اس کے متعلق فرمایا ۔ ارشاد : صحبت سے ایسا نفع ہوا کہ ایک ایک جلسہ میں بیس بیس شہبات دفع ہوگئے ہیں پاس رہنے سے یہ ہوا کہ مادہ پیدا ہوگیا قبول حق کا یوں تو کتابیں موجود ہیں مگر پھر بھی ان سے تسلی نہیں ہوتی ۔ اگر کتابیں کافی ہوتیں تو مرجیہ قدر یہ کیوں ہوتے ۔ حق بیشک اس قدر واضح ہے کہ مخفی نہیں رہ سکتا ۔ مگر کوئی ڈھونڈے ہی نہیں تو اس کا کیا علاج پھر ڈھونڈنا بھی وہ ہے جو طریقہ سے ہو واء تو االبیوت من ابوابھا ۔ ہر کام کا بھی اس کا دروازہ ہے ۔ اب آتے ہیں پچھواڑے سے گھر کے اس لئے نفع نہیں ہوتا اور اس طریقہ کی اصل صحبت ہے علماء ظاہری اور صوفیہ میں بھی طریقہ ہی کا تو فرق ہے علماء کے مناظرہ میں ادھر یا ادھر سکوت تو ہوجاتا ہے مگر شفا نہیں ہوتی ۔ صوفیہ کے یہاں شفا ہوجاتی ہے وہ حقیقت بتلاتے ہیں قران شریف میں مناظرہ کا بھی طرز ہے کفار کا جو رد کیا ہے وہ ظاہر میں مسکت رد نہین معلوم ہوتا ۔ متعارف استدلال کا جو طرز ہے وہ زیادہ اہتمام سے نہیں مگر مؤثر طریقہ سے کام لیا گیا ہے ۔ چنانچہ ایک طریق یہ ہے کہ ایک بات قرآن شریف میں پچاس جگہ ہوگی چنانچہ ارشاد ہے حق تعالٰی کا صرفنا فی ھذاالقرآن یعنی اس کو مکرر کرتے ہیں حق کے اندر خاصیت ہے کہ جب بار بار کاب میں پڑتا ہے تو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ۔ چنانچہ لیذ کروا کابھی حاصل ہے ۔ بس قرآن شریف میں یہی طرز لیا ہے اور متعارف طرز نہیں مناظرہ کا پس جو طرز وہ سکھائے وہی مقبول ہے اور کہیں کہیں یہ بھی ہے کہ مخالفین کا قول نقل کرکے یہ بھی فرمادیا ہے کہ آپ ان سے یہ کہہ دیجئے کہ عنقریب معلوم کروگے یہ بھی ایک قسم کا جواب ہے ۔ کہیں یوں ہے کہ کیوں ان کے پیچھے پڑے چھوڑیئے بھی ایک جواب ہے ہم رات دن دیکھتے ہیں کہ سارے طریقے نافع ہوتے ہیں ۔ چنانچہ کہیں خشونت بھی نافع ہوتی ہے وہاں ان کا استعمال کرنا چاہئے ۔