ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
اس پر فرمایا ارشاد : ابتدا ہرامر کی تکلیف ہے پھر عادت ہوجاتی ہے ( میں نے عرض کیا کہ میں اپنے گھر میں باتیں بہت کرتا ہوں ۔ اس پر فرمایا وہ تو ملاعبت میں داخل ہے مگر اس کا بھی ایک اندازہ ہے بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ باہر والوں کی ساتھ فضول نہیں ۔ اور بعض گھر والوں کے ساتھ بھی فضول ہیں ۔ مثلا ایک تو یہ کہ اپنے گھر والوں سے محبت ولطف کی باتیں کرے جس سے محبت بڑھے یہ فضول نہیں ۔ ایک یہ باتیں ہیں کہ بی بی سے کہے کہ اپنے کپڑے دکھاو اپنا زیور دکھاؤ علٰی ہذا یہ فضول ہے ۔ غرض ہر شخص کا فضول جدا ہے اس میں بڑی بصیرت کی ضرورت ہے کہ جس سے تمیز کرسکے ہر شخص اس کے ساتھ فضول اور غیر فضول ہیں ۔ اسی درمیان مین ایک صاحب نے کہا کہ پہلے لوگ بہت کم کھاتے تھے ۔ اس پر فرمایا ۔ اب تو تقلیل کا درجہ یہی ہے کہ بھوک سے زیادہ نہ کھائے گو پیٹ بھر کر کھالے مگر اتنا نہ بھرے کہ نمک سلیمانی ڈھونڈتا پھرے ۔ اس زمانہ کی تقلیل یہ ہی ہے ۔ تجربہ ہوا ہے کہ لوگوں نے بہت کم کھانے سے آجکل مضرتیں اٹھائیں ۔ جب تک زندہ رہے بے لطف رہی زندگی ۔ اور جسمانی غذا کی تقلیل سے ان کی روحانی غذا بھی جاتی رہی ( بوجہ ضعف کے ذکر وشغل سے بھی جاتے رہے کام نہ ہوسکا پھر حضرت نے فرمایا ) بڑی بات سلوک میں جمعتہ خاطر ہے کہ پریشانی نہ ہو ۔ چنانچہ بعض کو اختیار اسباب سے جمیعت ہوتی ہے اور بعض کو ترک اسباب سے غرض ہر شخص کی حالت جدا ہے اس کے موافق ہونا چاہیے مسلم اور کافر میں فرق کیا ہے اور کفار سے نفرت کیوں کی جاتی ہے ؟ واقعہ : ایک صاحب نے سوال کیا کہ دعا کافر اور مسلم دونوں کی قبول ہوتی ہے ۔ پھر فرق کیا ہوا کافر اور مسلم میں ۔ ارشاد : یہ کیا ضرورت ہے کہ اہل ایمان کو ہربات میں خصوصیت ہو یہاں تک کہ پھر یہ بھی سوال ہوگا کہ خوبصورتی کافر اور مسلم دونوں میں ہوتی ہے تو پھر کیا فرق ہوا کافر اور مسلم میں اور بالخصوص دعا کے مقدمہ میں فرق کا اہتمام میں پڑنا ۔ کیونکہ خدا تعالٰی کی تو وہ شان ہے کہ اگر لوگ دعا نہ بھی کریں تو بلا دعا ان کی حاجت پوری کریں جس میں سب بندوں کی یہی شان ہے ۔ باقی