ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
واقعہ : بڑی پیرانی صاحبہ کا فتح پور میں جس روز آپریشن ہوا ۔ ان کا بھتیجا بعد آپریشن کے ان کے بے ہوشی دیکھ کر روتا ہوا خیمہ پر آیا ۔ اور کہا کہ بے ہوش ہیں ۔ کراہ رہی ہیں ۔ اس میں منہ سے اللہ اللہ نکل رہا ہے ۔ اس پر حضرت نے فرمایا ذکر اللہ جب رچ جاتا ہے تو بے اختیار جاری ہوجاتا ہے ارشاد : ذکراللہ جب رچ جاتا ہے تو ہر وقت اسی کا دھیان رہتا ہے ذکر کہ چوکہ بسا ہوا ہے ان کے دل میں اسی لیے زبان سے بے ہوشی میں بھی اللہ اللہ نکلتا ہے ۔ اگر دوسرا شخص ہوتا (جس کے دل میں ذکر بسا ہوا نہ ہوتا ) تو کیا اس طرح کرتا ۔ ایک کتاب جس میں انبیاء کی توہین تھی واقعہ : ایک صاحب حضرت کی خدمت میں ایک جدید لکھی ہوئی سیرت نبویہ لائے ایک صاحب نے احباب حضرت والا میں سے عرض کیا کہ انہوں نے انبیاء کے بارہ میں اس کتاب کے اندر بڑی گستاخیاں کی ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے ایک موقعہ کتاب مذکور میں نکال کر دکھلایا تھا کہ موسی اور نوح ۔ صفت عفو عام سے خالی تھے ۔ اس کتاب کا ظاہر تو بہت اچھا تھا ۔ کاغذ نہایت عمدہ بیز سفید قیمتی ۔ تحریر نہایت پاکیزہ ۔ مگر اندر یہ خرافات بھری تھی ۔ ارشاد : بند کیجئے اس کے دیکھنے اور سننے سے قلب میں تاریکی پیدا ہوتی ہے ۔ جس کی جڑ ہی خراب ہے تو شاخوں کو لیکر کیا کرے ۔ اس میں انبیاء پر حملہ کیا ہے ۔ ظاہری خوبصورتی اور عمدگی لیکر کیا کرے ۔ جبکہ ایسے مضامین ہوں انبیاء علیہم السلام کو خدا تعالٰی ساری صفتیں کمال کی دیتے ہیں ۔ باقی جس صفت سے خدا تعالیٰ کام لینا چاہیتے ہیں وہ اسکو استعمال کرتے ہیں ۔ موتی ہیں ان میں سب صفتیں اور وہ ہر صفت میں کامل ہوتے ہیں ۔ اگر کسی کو آگے بھی چلنا آتا ہو اور پیچھے بھی مگر آقا کا حکم یہ ہے کہ آگے چلا کرے تو وہ آگے ہی چلے گا ۔ اس صورت میں یہ تو نہ کہا جائیگا کہ اس کو پیچھے چلنا نہیں آتا ۔ انبیاء کامل ہوتے ہیں ہرطرح سے ۔ باقی جن افعال کا حکم خدا تعالٰی ان کو کرتے ہیں وہی افعال کرتے ہیں ۔ ایک سخی ہے ایک مانکنے والا اس کے پاس آئے تو وہ کسی مصلحت سے یوں کہتا ہے کہ میں تجھے نہ دوں گا ۔ تو کیا وہ بخیل تھوڑا ہی ہوگیا ۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ جو انہوں نے لکھا ہے کہ موسی اور نوح عفو عام سے خالی تھے ۔ اس کا کیا مطلب ہے ۔