ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
شیوہ ہے مگر میں ہاں مجھے جنوں ہے رقیبوں کی ادعاء کی تصدیق سے دست بردار ہوں - غیرت از چشم برم روئے تو دیدن ندہم گوش را نیز حدیث تو شنیدن ندہم راحت سفر اس کے بعد پھر اس گاڑی میں حضور انور کی معیت میں یہ کمترین غلامان و دیگر خدام کانچی گوڑہ کے سیشن ائے - جہاں حضور کو اترنا تھا - اثنا راہ میں نہایت شفست اور محبت کا سلسلہ رہا - اثنا گفتگو میں کسی کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ بھائی کرایہ تو سیکنڈ کلاس کا بھیجا گیا تھا اور میں اس میں سفر کرسکتا تھا مگر ہم لوگوں کو راحت تو تھرڈ کلاس ہی میں ملتی ہے کیونکہ اس میں جو لوگ ہوتے ہیں وہ ہمارا پاس ولحاظ کرتے ہیں اور جو سیکنڈ کلاس میں لوگ ہوتے ہیں وہ ہمارا پاس ولحاظ کرتے ہیں اور جو سیکنڈ کلاس میں لوگ ہوتے ہیں وہ ہم سے ہی اس کے متمنی ہوتے ہیں کہ ہم ان کا پاس و لحاظ کریں اور وہ بھی خوش قسمتی سے اگر مسلمان ہوئے ورنہ بعض اوقات نہایت اجنبی اور غیر جنس سے سابقہ پڑجاتا ہے اور بڑی تکلیف ہوتی ہے پھر اب کے سفر میں تو نہایت راحت رہی ہمارے اس درجہ میں ابتداے سفر سے کوئی نہیں آیا آرام سے سوتے ہوئے آئے اگر کوئی آیا بھی تو چارے نے معلوم نہیں کس خیال سے اندر آنے کا قصد نہیں فرمایا - یہ خدا تعالیٰ کی شفقت اور رحمت تھی کہ آرام سے پہنچایا- اسلامی ریاست کے برکات پھر فرمانے لگے کہ اس ریاست کے حدود میں جب داخل ہوا تو اسلامی ریاست ہونے کی وجہ سے دل میں نورانیت پیدا ہوئی اور انبساط پیدا ہوگیا اور دل سے دعا نکلی کہ خدا اس ریاست کو سلامت و برقرار رکھے - یہاں کے لوگوں کے نہایت سنجیدہ اخلاق ہیں - بہت ہی حلیم اور مہذب ہیں رعایا کی خوبیاں در اصل بادشاہ کے اخلاق سے پیدا ہوتی ہیں - ہندوستان میں تو بڑے ہی مغرور اور متکبر لوگ ہوتے ہیں - خصوصا ریل میں بڑی تکلیف دیتے ہیں - برخلاف اس کے دکن کے لوگ متواضع اور دوسرے کی راحت کو مقدم رکھتے ہیں چنانچہ اس سفر میں مجھے اس کا تجربہ ہوچکا ہے - جب کانچی گوڑہ پہنچے تو پلیٹ فارم پر مشتاقان دیدار کا ہجوم تھا اور بہت سے معززین اور امرائ پیشوائی کے لئے حاضر تھے - آپ گاڑی سے اترے - حضرت حکیم صاحب اور حضرت مفتی صاحب ( یعنی جناب مولانا