ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
اور صاحبو اگر یہ نہ کہا جاوے تو کیا خدا سے بدلا لینا ہے اگر وہ ہمارا کام نہیں کرتے تو ہم ان کا کام کیوں کریں - غور کرو اگر ایک مردار بازاری عورت سے تعلق ہو جاتا ہے تو قلب پر کیا کیا صدمے گزرتے ہیں - کس کس انداز سے وہ امتحان اور آزمائش کرتی ہے - کتنا موقع بہ موقع ستاتی ہے لیکن آتش محبت مشتعل ہوتی چلی جاتی ہے - یہ نہیں ہوتا کہ اس کے امتحانات یا غمزوں سے گھبرا کر اس چھوڑ دیں تو کیا ذات باری جل مجدہ کی محبت اور عظمت مسلمان کے دل میں اتنی بھی نہ ہو جتنی ایک بازاری عورت کی حیف ہے ہم پر اور ہمارے اسلام پر ؎ عشق مولیٰ کے کم از لیلے بود گوی گشتن بہر او او لےٰ بود ( خدا کا عشق لیلیٰ کے عشق سے کب کم ہوسکتا ہے اس کے لئے تو گیند کی طرح لڑھکتے رہنا ہی بہتر ہے ) طالب کیسا ہونا چاہیے حکایت : عارف کا واقعہ لکھا ہے کہ ان کو ایک روز یہ آواز آئی کہ کتنی ہی عبادت کرو کچھ قبول نہیں اس کو ان کے ایک مرید نے بھی سنا - دوسرا دن ہوا تو وہ بزرگ پھر عبادت کے لئے اٹھے پھر وہی آواز آئی جب کئی مرتبہ ایسا ہوا تو مرید نے کہا کہ آپ بھی عجیب آدمی ہیں ادھر کوئی پوچھتا بھی نہیں اور آپ ہیں کہ خواہ مخواہ گرے جاتے ہیں - جب قبول ہی نہیں تو محنت سے کیا فائدہ ان بزرگ نے جواب میں فرمایا ؎ توانی ازاں دل بہ پرداختن کہ دانی کہ بے اوتواں ساختن ( تم اس سے اس وقت دل کو خالی کرسکتے ہو کہ جان لو کہ بے اس کی بھی بن سکتی ہے ) کہا بھائی چھوٹ تو دوں لیکن یہ تو بتلا دو کہ چھوڑ کر کس در پر جا پڑوں اس جواب پر رحمت باری کو جوش ہوا اور آواز آئی ؎ قبول ست گرچہ ہنر نیستت کہ جز ماہ پناہ دگر نیستت ( قبول ہے تو تمہارے پاس عمدہ چیز نہیں ہے کیونکہ ہمارے سوا تمارے لئے کوئی پناہ بھی نہیں ہے ) کہ اگرچہ تمہاری عبادت تو کسی ڈھنگ کی نہیں لیکن خیر جب ہمارے سوا تمہارا کوئی نہیں ہے تو تم کو بھی ہی ہم لے لیں گے - صاحبو طالبین کی یہ حالت ہونی چاہیے کہ ؎