ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
جیسے ہم کسی درزی سے اچکن سلوائیں اور نمونہ کے لئے اپنی اچکن اس کو دیں تو اس اچکن کے دینے کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ جدید اچکن کی کاٹ تراش سلائی وغیرہ سب اس پہلے کے مطابق ہو اور اگر ایسا نہ ہو بلکہ تراش وغیرہ میں فرق ہو جائے تو درزی کو مستحق عتاب سمجھا جاتا ہے ۔ اس عتاب کے جواب میں اگر وہ یہ کہنے لگے کہ زیادہ تر تو موافق نمونہ کے ہے اور للاکثر (1) حکم الکل تو ہرگز یہ جواب مسموع نہیں ہوتا تو جو برتاؤ آپ نے اس درزی سے کیا اسی کے لئے آپ خدا تعالی کے سامنے تیار ہو جایئے ۔ اور سوچ لیجئے کہ جب آپ خدا تعالی کے سامنے کھڑے ہوں گے اور نمونہ نبوی پر پورے نہ اتریں گے تو کس سخت عذاب کے سزاوار ہوں گے ۔ اسی کو خدا تعالی نے فرمایا ہے ۔ لقد (2) کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ کہ بالکل اس نمونہ جیسے بن جاؤ نماز ایسی ہو جیسی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی روزہ وہی ہو ۔ نکاح شادی کا طرز وہی ہو علی ہذا ہر چیز میں وہی طرز ہو جو کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طرز تھا ۔ یہ تو نمونہ ہے لیکن یہ خدا تعالی کی رحمت ہے کہ اس نے اس نمونہ میں وسعت کر دی ۔ قرآن شریف میں مقصود اصلی خدا تعالی کی رضا جوئی کی تعلیم ہے حکایتیں وغیرہ مقصود نہیں ہیں قرآن شریف میں اصل مقصود خدا تعالی کی رضا جوئی کے طریقوں کا بیان کرنا ہے ۔ اور اگر حکایتیں قرآن میں ہیں تو وہ بھی تابع ہو کر ذکر کی گئی ہیں کہ فلاں قوم نے یہ کیا تھا تو ان کو یہ سزا ملی اور فلاں قوم نے یہ کیا تھا ان کو یہ اجر ملا یعنی ہم اگر ایسا کریں تو ہم کو بھی ایسی ہی سزا یا اجر ملے گا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جہاں جمل (3) خبریہ ہیں ان سے مقصود بھی انشائیہ (4) ہی ہیں ۔ چنانچہ اس مقام پر بھی یہی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا نقل فرمائی جس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اعتناء فی الدین نہایت ضروری ہے ۔ جس کی تفصیل آیت میں ہے ۔ ترجمہ آیت کا یہ ہے کہ اے ہمارے رب ہماری اولاد میں سے ایک رسول پیدا کر کہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) زیادہ کے لئے کل کا ہی حکم ہوتا ہے ۔ (2) بے شک تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے (3) جملے (4) یعنی صرف خبر دینا ہی مقصود نہیں بلکہ ہم کو حکم ہے کہ ایسا کرو ۔