ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
مصرعہ ثالث میں بتلا دیا کہ اپنا حال دل پوشیدہ نہ کرے ۔ مرشد سے اپنے عیوب بھی نہ چھپاوے یہاں تک تعلیم ہے کہ اگر عیب بھی ہو تو مرشد سے صاف کہہ دے کہ میرے اندر یہ مرض ہے ۔ بعض لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ لڑکوں کی محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اپنے اس مرض کو بلی کے گوہ کی طرح چھپاتے ہیں ۔ اس سے کچھ نتیجہ نہیں ہوتا اور چھپانے کا حکم اس موقع پر ہے کہ جہاں اظہار میں کوئی مصلحت نہ ہو ۔ اور طبیب کو دکھلانے کی ممانعت نہیں ہے ۔ اظہار کی ممانعت ایسے موقع پر ہے جیسے کہ ایک شخص کی نسبت سنا ہے کہ جب حج کو گیا تو رمی جمار (1) کے وقت ایک لمبا جوتا لے کر ان تین پتھروں میں سے ایک پتھر کو خوب پیٹ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ کمبخت فلاں دن تو نے مجھ سے یہ گناہ کرایا تھا اور فلاں رات کو تو نے مجھے زنا میں مبتلا کیا تھا تو ایسے موقع پر بلا کسی ضرورت اور مصلحت کے اظہار کرنا یہ تو حماقت ہے ۔ مگر طبیب سے ہرگز نہ چھپاؤ ۔ اور اگر یہ خیال ہے کہ ہم ان کی نظروں میں ذلیل ہو جائیں گے تو ایسے شخص کو پیر نہ بناؤ ۔ اولیاء اللہ کسی کو ذلیل و حقیر نہیں سمجھتے جو سچے لوگ ہوتے ہیں وہ کسی کو ذلیل نہیں سمجھتے کیوں کہ جانتے ہیں کہ تایار (2) کرا خواہد و میلش بکہ باشد وہ کتے کو بھی ذلیل نہیں سمجھتے وہ کسی کی نسبت یہ خیال نہیں کرتے کہ یہ مقبول نہ ہو گا ۔ ان کا مذہب یہ ہے کہ غافل (3) مرد کہ مرکب مردان زہد را در سنگلاخ بادیہ پے ہا بریدہ اند نومیدہم (4) مباش کہ رنداں بادہ نوش ناگہ بیک خردش بمنزل رسیدہ اند ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) پتھروں کو کنکریاں مارنا شیطان کو مارنا ہے ۔ (2) تاکہ محبوب کس کو چاہتا ہے اور اس کی رغبت کس کی طرف ہوتی ہے ۔ (3) غفلت کے ساتھ نہ چلو کہ زہد کے مردوں کی سواریوں کی جنگل کے پتھریلے مقامات میں کوچیں کاٹ دی گئی ہیں یعنی اسباب زہد میں خلل پڑ جاتا ہے ۔ (4) لیکن کام میں لگے رہو ناامید بھی نہ ہو کیونکہ محبت الہی کی شراب پیتے رہنے والے اچانک ایک نعرہ سے بھی منزل پر پہنچ گئے ہیں ۔