ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
نماز میں احضار قلب مقصود ہے فرمایا لا صلوۃ الا بحضور القب میں حضور سے مراد احضار قلب ہے مجازا کیونکہ حضور قلب تو اختیاری نہیں پس عبد اس کا مکلف نہیں احضار کا مکلف ہے خواہ حضور ہو یا نہ ہو ـ پھر فرمایا کہ اس پر ایک طالب علم نے ایک خط میں شبہ کیا تھا کہ حضور تو احضار کا مطاو 1 ؎ ع ہے اور اس کو لازم ہے تو احضار کے بعد ضرور ہونا چاہئے ـ احالانکہ بعض اوقات حضور نہیں ہوتا ـ اس کا جواب میں نے اس طالب علم کو یہ لکھا تھا کہ بیشک احضار کے لئے حضور لازم ہے مگر مطلق حضور نہ کہ خاص وہ حضور جس کے تم طالب ہو ـ پس میں جو کہتا ہوں کہ احضار کے بعد کبھی حضور ہوتا ہے کبھی نہیں اس سے مراد وہ حضور ہے جو تمہارا مطلوب ہے اور احضار کے بعد مطلق حضور ضرور ہو گا جس سے کہ اس کی مطاوعت احضار کے لئے صحیح ہو پھر اس احضار مامور بہ کی کامل صورت یہ ہے کہ مذکور کی طرف متوجہ رہے اگر نہ ہو سکے تو ذکر ہی کی طرف متوجہ رہے یا مثلا یہ سوچے کہ کعبہ کی طرف منہ کئے کھڑا ہوں اور کعبہ سامنے ہے ـ اور ایک اور صورت بھی ہے جو احضار کامل نہیں مگر اس کا عام لوگوں پر ظاہر کرنا مناسب نہیں مگر یہ تو مجلس خاص ہے اس لئے ظاہر کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ کسی مسئلہ فقیہہ کی طرف متوجہ ہونا بھی منافی حضور نہیں ہے گو یہ ناقص احضار ہے اسلئے ایسا نہ کرے ـ اور اگر یہ حالت پیش آوے تو قلق بھی نہ کرے کہ ہائے نماز میں احضار نہ ہوا اور مجھ کو یہ منافی نہ ہونا حضرت عمر کے فرمان سے سمجھ میں آیا اور جس دن یہ سمجھ میں آیا تھا طبیعت میں نہایت مسرت ہوئی تھی ـ حضرت عمر فرماتے ہیں انی اجھز الجیش و انا فی الصلوۃ ـ اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں کسی دینی مشغلہ کا خیال کرنا منافی حضور نہیں ہے ( اس پر احقر نے یہ عرض کیا کہ میرے دل میں حالت نماز میں یہ خیال آتا ہے کہ یا اللہ رحم فرما ) اس پر فرمایا کوئی حرج نہیں ـ یہ احضار کا منافی نہیں ہے غرض یہ کہ توجہ الی المذکور یا توجہ الی الاذکار الدینیہ کوئی بھی ان میں سے نفس احضار کے منافی نہیں ہاں کامل احضار وہ ہے جس میں توجہ الی المذکور ہو 1 ؎ یعنی حضور ثلاثی مجرد مطاوع ہوتا ہے ثلاثی مزید یعنی احضار کا پس حضور بھی اختیاری ہونا چاہئے ـ عبد الخالق عفی عنہ