ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
مشترک ہو جاتا تو وہ بھی بتلا دیتا تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ علوم کا احاطہ غیر ممکن ہے ۔ اطاعت کو ذریعہ مقاصد دنیا بنانا جائز نہیں فرمایا آج کل ایک سوال آیا ہوا ہے وہ یہ کہ بواسیر کے علاج کیلئے کسی نے بطور عمل کے یہ بتایا ہے کہ فلاں فلاں سورتیں وتر میں پڑھی جائیں ۔ تو یہ جائز ہے یا نہیں ۔ وجہ شبہ کی یہ ہے کہ بیماری کا دفع کرنا دنیاوی مقصد ہے اور نماز میں سورتوں کا پڑھنا طاعت ہے اور طاعت کو ذریعہ مقاصد دنیا کا بنانا جائز نہیں اور رقیہ کے جواز پر اس کو قیاس نہ کیا جائے کیونکہ رقیہ اور چیز ہے وہاں طاعت کو ذریعہ نہیں بنایا جاتا ۔ وہ ایک درجہ میں علاج ہے ۔ مجھ کو بواسیر کے اس علاج کے جواز میں کچھ تردد تھا ۔ شاہ اسحاق صاحبؒ کی ایک حکایت مشہور ہے کہ ان کے پاؤں میں درد تھا ۔ کسی نے کہا کہ میں اس پر قرآن پڑھ کر دم کر دوں ۔ شاہ صاحب نے فرمایا ۔ شرم آتی ہے کہ قرآن کو پاؤں پر پھونکا جائے ۔ شاہ صاحبؒ کی طرح مجھ کو بھی کچھ نقباض تھا اور ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جائز ہے حدیث یہ ہے من قرا الواقعۃ لم تصبہ فاقۃ " جو شخص سورہ واقعہ پڑھے اس کو فاقہ نہ ہو گا ۔ اور دفع فاقہ حاجت دنیاوی ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ اطاعت کو دنیا کا ذریعہ بنانا جائز ہے ۔ اس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک تو یہ کہ طاعت کو بالواسطہ ذریعہ بنائے ۔ دوسری یہ کہ بلاواسطہ ذریعہ بنائے ۔ اس کو مثال سے سمجھئے ۔ مثلا کسی کمال کو ذریعہ دنیا بنانا تو رشوت ہے ۔ مثلا تھانہ دار اپنے منصب تھانیداری کی وجہ سے روپیہ لے تو رشوت ہے ۔ اگر کسی کو تھانہ دار سے بوجہ اس کے منصب تھانہ داری کے محبت پیدا ہو گئی ہو پھر محبت سے روپیہ ملے ۔ تو اس کو لینا جائز ہے ۔ گو محبت تھانہ داری سے پیدا ہوئی ۔ اسی طرح حضورؐ کو جو ہدایا ملتے تھے ۔ تو نبوت کی وجہ سے نہ تھا ۔ ورنہ نبوت کو مکسبہ بنانا لازم آئے گا بلکہ نبوت سے محبت پیدا ہو گئی تھی اور محبت سے ہدایا آتے تھے ۔ قیامت میں نبوت نہ ہو گی ۔ کیونکہ یہ تو دنیا کیلئے ایک عہدہ ہے ( یعنی تبلیغ کرنا ) اور لوگوں کو حضورؐ سے محبت ہو گی ۔ اب سمجھئے کہ طاعت کو بلاواسطہ ذریعہ بنانا تو جائز نہیں اور بالواسطہ جائز ہے ۔ مثلا