ملفوظات حکیم الامت جلد 21 - یونیکوڈ |
صفحہ نمبر 62 کی عبارت خوشا روز گارے کہ دارد کسے کہ بازار حرصش نباشد بسے بقدر ضرورت یسارے بود کند کارے از مرد کارے بود مرید کو شیخ کے خانگی معاملات میں نہ پڑنا چاہئے ارشاد ۔ مشائخ کی وصیت ہے کہ مرید کو شیخ کے خانگی معاملات میں گھسنا چاہئے کیونکہ جو شخص کسی کے خانگی معاملات سے واقف اور ان میں دخیل ہوتا ہے اس کے قلب سے دوسرے کی عظمت کم ہو جاتی ہے اور مشائخ کو یہی مناسب ہے کہ مریدوں کو اپنے خانگی معاملات پر مطلع یا ان میں دخیل نہ کرے کہ اس سے تمام طبائع کو بجائے نفع کے ضرر ہوتا ہے ۔معالجہ نفس میں تسہیل کا طریقہ بتلانا شیخ کے ذمہ نہیں ارشاد ۔ طریق تسہیل کا بتلانا مصلح کے ذمہ نہیں اگر بتلا دے تو محض تبرع ہے سو طالب کو اپنےمصلح سے اس کے مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں اور طالبین کثرت سے اس مسئلہ میں غلطی کرتے ہیں کہ معالجہ اختیاری میں مشقت سے گھبراتے ہیں اور شیخ سے ایسی تدبیر کی درخواست کرتے ہیں جس میں مشقت نہ ہو ۔ مثلا شیخ نے کہا کہ باوجود تقاضا کے اپنی نظر کو روکو مگر اس پر اصرار کرتے ہیں کہ ایسی تدبیر بتلائی جائے کہ نفس میں تقاضا ہی نہ ہو حالانکہ تقاضائے شدید نہ ہونا یہ خود موقوف ہے عمل مدید پر تو عمل کو اس پر موقوف رکھنا دور کو جائز رکھنا ہے ۔ تعلیم اقتصار بر ضروریات واقعیہ ارشاد ۔ سالک بلکہ ہر مکلف کو چاہئے کہ اپنی نظر کو ہر چیز میں صرف حاجت روائی کے درجہ تک مقتصر رکھے اور ترئین اور لذت کے در پے نہ ہو کیونکہ لذت کی کوئی حد نہیں سو جو اس کے در پے ہو گا اس کو کبھی تشویش سے نجات نہ ہو گی اور جو شخص حاجت پر کفایت کرے گا جس وقت حاجت پوری ہو جائے گی اس کو سکون ہو جائے گا چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب تم میں کوئی شخص کسی حسین عورت کو دیکھے گا اور وہ اس کو اچھی طرح معلوم ہو تو اس کو چاہئے کہ اپنی بی بی کے پاس چلا آوے یعنی اس سے ہمبستری کرے ۔ اس لئے کہ شرم گاہ دونوں کی جگہ ایک ہی سی ہے اور بیوی کے پاس بھی ویسی ہی چیز ہے جیسی اس اجنبی عورت کے پاس ہے ۔ نیز اس حدیث میں معالجہ نفس کو سہل کرنے کا طریقہ بتلایا گیا ہے جو دلیل ہے رسول مقبولؐ کے کمال شفقت کی ۔ ورنہ اصل علاج تو کف نفس و غض بصر تھا ۔