Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1431ھ

ہ رسالہ

9 - 17
***
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

نصف النہار شرعی سے پہلے روزے کی نیت کرنا
سوال… رات کو طبیعت بہت خراب تھی اس لیے سحری کے وقت روزہ کی نیت نہیں کی، لیکن یہ ارادہ تھا کہ اگر طبیعت صبح تک ٹھیک ہو گئی تو زوال سے قبل نیت کر لوں گا، لیکن نیند کی وجہ سے زوال سے قبل روزہ کی نیت نہ کر سکا بلکہ ایک یا پونے ایک بجے آنکھ کھلی تو نیت کی ۔ کیا میرا یہ روزہ ہو گا یا زوال سے قبل نیت نہ کرنے کی وجہ سے شمار نہ ہو گا؟
جواب… روزے کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ غروبِ آفتاب کے بعد سے لے کر ضحوہٴ کبری سے ذراپہلے تک روزے کی نیت کر لی جائے اور ضحوہٴ کبریٰ سے مراد نصف النہار شرعی ہے، صبح صادق سے غروب آفتاب تک شرعی دن ہے اور اس کا نصف ضحوہٴ کبری اور نصف النہار شرعی ہے، پس روزہ کی نیت کا آخری وقت نصف النہار شرعی سے ذرا پہلے تک ہے ، اگر نصف النہار شرعی ہونے پر یا اس کے بعد نیت کی تو روزہ صحیح نہیں ہو گا۔
لہٰذا اگر آپ کا غالب گمان یہ ہے کہ آپ نے نصف النہار شرعی سے ذرا پہلے تک نیت کر لی تھی تو اس دن آپ کا روزہ شمار ہو گا ورنہ نہیں۔
سحری کھانے میں برکت ہے
سوال… ایک شخص روزے رکھتا ہے اور اس نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ سحری نہیں کرتا اور شام کو صرف پانی سے افطار کرتا ہے۔ کیا اس طریقہ سے روزہ رکھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب… مذکورہ طریقہ کے مطابق روزے رکھنا اگرچہ جائز ہے، لیکن مناسب ہے کہ سحری بھی کرے۔ احادیث مبارکہ میں سحری کے بارے میں بہت فضیلت آئی ہے یہاں تک کہ آپ ا نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا، ”ہمارے او راہل کتاب ( یہود ونصاریٰ) کے روزوں کے درمیان سحری کرنے اور نہ کرنے کا فرق ہے کہ وہ سحری نہیں کرتے اور ہم کرتے ہیں۔ “ اسی طرح آپ ا فرمایا: ” سحری کھایا کرو اس لیے کہ سحری کھانے میں برکت ہے ۔“
رمضان میں بوقت سحری اذان کے دوران کھانا پینا
سوال… ہمارے ہاں عموماً لوگ رمضان المبارک میں سحری کے وقت اذانوں کے ہوتے ہوئے بھی کھانا پینا جاری رکھتے ہیں او رکہتے ہیں کہ اذان کے ختم ہونے تک کھانا پینا جائز ہے۔ کیا ان کا یہ عمل درست ہے؟ یا اس سے روزے میں خلل واقع ہوتا ہے؟ اور اذان کے وقت کھانے والے کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟ مفصل ومدلل جواب دے کر عندالله ماجور ہوں۔
جواب… لوگوں کا اذان کے دوران کھانا پینا غلط اور مفسدِ صوم ہے لیکن قضاء واجب ہے، کفارہ نہیں۔
ہاں اگر یہ امر یقینی ہو کہ اذان انتہائے وقت سحر سے پہلے ہوئی ہے تو ایسی صورت میں روزہ تو درست ہو جائے گا لیکن اذان واجب الاعادہ ہو گی۔
لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا بلکہ اذان وقت کے اندر ہی دی جاتی ہے اس لیے اذان کے دوران کھانے ، پینے سے اجتناب بہرحال لازم ہے۔ احتیاط تو اس میں ہے کہ اذان سے چند منٹ پہلے ہی کھانا پینا بند کر دیا جائے۔
روزے کی حالت میں مسواک کا استعمال
سوال… روزے کی حالت میں مسواک استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب… روزے کی حالت میں مسواک ہر وقت استعمال کیا جاسکتا ہے، اس کی وجہ سے روزے میں کسی قسم کا نقصان لازم نہیں آتا۔
روزے کی حالت میں کان، ناک اور آنکھ میں دوا ڈالنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ روزے کی حالت میں کان، آنکھ او رناک میں دوا ڈالنا کیسا ہے؟
جواب… کان اور ناک میں مائع دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، البتہ خشک دوا ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا إلایہ کہ دماغ یا معدہ تک پہنچنے کا یقین ہو جائے اور آنکھ میں کسی بھی قسم کی دوا ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
روزے کی حالت میں انہیلر کا استعمال
سوال… کیا اِن ہیلر جو ایک آلہ ہے جس کے دبانے سے ایک گیس نکلتی ہے، وہ منھ میں داخل کی جاتی ہے جس سے سانس کی تکلیف دور ہوتی ہے، اور دوران روزہ مریض اس کو استعمال نہ کرے تو سخت تکلیف ہو جاتی ہے، بسا اوقات سانس بند ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ اب بعد میں قضاء بھی نہیں رکھ سکتا تو ایسی صورت میں دورانِ روزہ ”ان ہیلر“ استعمال کرے تو کیا اس کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جائے گا؟
جواب… روزے کی حالت میں ان ہیلر کے استعمال کرنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے ، کیوں کہ اس میں عام طور پر دوا کے ذرات ہوتے ہیں، اگر ابھی اس آلے کے استعمال کے بغیر روزہ نہیں رکھ سکتا تو ابھی روزہ نہ رکھے، بعد میں جب بھی صحیح ہو جائے قضاء اس کے ذمہ لازم ہے او راگر اس کو ایسا موقع نہیں ملا تو پھر فدیہ ادا کرے، لیکن اگر فدیہ ادا کرنے کے بعد صحیح ہو گیا تو وہ فدیہ نفلی صدقہ شمار ہو جائے گا اور اس پر قضاء لازم ہو گی۔
حالتِ روزہ میں برش اور منجن کا استعمال
سوال…ایک مسئلہ معلوم کرنا تھا کہ روزے کی حالت میں برش اور منجن استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب…روزے کی حالت میں اگر برش ٹوتھ پیسٹ کے ساتھ استعمال کیا جائے تو روزہ مکروہ ہوگا اور اگر کوئی چیز حلق سے نیچے چلی گئی تو روزہ ٹوٹ جائے گا، لیکن بغیر ٹوتھ پیسٹ کے صرف برش استعمال کیاجائے تو اس میں کوئی کراہت نہیں۔
اسی طرح منجن ذائقہ دار ہے اور اس کے استعمال میں بھی چوں کہ اس کے اجزاء کے حلق سے نیچے چلے جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس لیے اس کا استعمال روزے کی حالت میں مکروہ ہے۔
روزے کی حالت میں انجکشن
سوال…اگر رمضان المبارک میں کوئی آدمی بیمار ہو جائے اور اس کو انجکشن لگانے کی ضرورت پڑجائے، بعض مریضوں کو انجکشن لگانے سے ری ایکشن کا خطرہ ہو تو اس صورت میں انجکشن لگانا جائز ہے یا نہیں۔ ری ایکشن کی صورت میں گلوکوز اور طاقت کے انجکشن کی ضرورت بھی ہوتی ہے، اس کا لگانا کیسا ہے؟
جواب… انجکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا چاہے گلوکوز کا ہو یا طاقت کا اس لیے کہ روزہ ٹوٹنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی چیز جسم میں موجود قدرتی راستوں کے ذریعے معدے یا دماغ تک پہنچے اور انجکشن کے ذریعے دوا رگوں یا مسامات کے ذریعے جسم کے اندر پہنچتی ہے، اصلی راستوں سے نہیں، لہٰذا اس سے روزے پر اثر نہیں پڑتا۔
قے کرنے سے روزے کا ٹوٹنا
سوال…کیا قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب… اگر قے منھ بھر کر آئی اور ایک چنے کی مقدار یا اس سے زائد عمداً واپس لوٹالی تو روزہ ٹوٹ گیا، قضا لازمہے، کفارہ نہیں۔ اور اگر جان بوجھ کر منھ بھرقے کی تو اس صورت میں بہرحال روزہ فاسد ہوجائے گا اگرچہ واپس نہ لوٹائے، البتہ منھ بھر کر قے نہ ہو توروزہ ٹوٹتا نہیں۔
بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا
سوال…گزارش یہ ہے کہ عرصہ چھے سال سے میری بیوی شوگر کی مریضہ ہے۔ اب چوں کہ بیماری پرانی ہونے کے ساتھ ساتھ کمزوری بھی بہت زیادہ ہوگئی ہے، علاج وغیرہ بھی خاصی حد تک کیاہے، گزشتہ سال رمضان المبارک میں صحت کچھ اچھی تھی تو بیوی نے روزے رکھنے شروع کردئیے مگر ابھی چودہ روزے ہی رکھے تھے کہ شدید بیمار ہوگئی جس کی وجہ سے اس کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کے پانی پینے کی نالی کا منھ بند ہوگیا۔ شام کو جب وہ پانی پیتی تو پانی اپنی صحیح جگہ جانے کے بجائے پورے پیٹ میں پھیل جاتا ۔بڑی مشکل سے ڈاکٹروں نے پیٹ سے پانی نکالا، سولہ روزے قضا ہوگئے۔اب ایسی حالت میں شریعت کیا حکم دیتی ہے اور آئندہ روزوں کی قضا بھی بظاہر مشکل ہے، کیوں کہ کمزوری اس کی پہلے سے زیادہ ہے آیا قضا روزے رکھنے لازم ہیں یا فدیہ وغیرہ دے دیں؟
جواب… صورت مسئولہ میں روزہ رکھنے سے اگر بیماری میں اضافے کا خطرہ ہے تو شرعاً ان کو اجازت ہے کہ وہ صحت مند ہونے تک روزہ نہ رکھیں، جب ٹھیک ہو جائیں تو ان چُھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کریں، البتہ اگر صحت مند ہونے کی کوئی امید نہ ہو اور آخر دم تک روزہ رکھنے کی طاقت لوٹنے سے بالکل مایوسی ہو، چھوٹے اورٹھنڈے ایام میں بھی روزہ رکھنے کی طاقت نہیں تو ایسی صورت میں قضا شدہ اور آنے والے فرض روزوں کا فدیہ دینا ہوگا اور ایک روزے کے عوض میں ایک صدقة الفطر کی رقم کے برابر کسی مسکین کو دینا ہوگی۔
مروجہ قضائے عمری
سوال…بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی سے عمر بھر کی نمازیں قضا ہوگئی ہوں تو رمضان المبارک کے آخری جمعے میں نماز جمعہ کے بعد چار رکعت یا بارہ رکعت قضاکی نیت سے پڑھے تو قضا نمازوں سے اس کا ذمہ بری ہو جاتا ہے اسے ”قضائے عمری“ کہا جاتا ہے۔
تو کیا ایسی قضائے عمری درست ہے اور اس کا کوئی ثبوت قرآن وحدیث سے ہے یا نہیں؟
جواب… واضح رہے کہ مذکورہ بالا قضائے عمری کا ثبوت قرآن وحدیث اور کتبِ معتبرہ میں نہیں، قضاء نمازوں کے بارے میں شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ قضاء نماز پہلی فرصت میں ادا کرلی جائے، چاہے نماز کا وقت ہو یا نہیں(سوائے اوقاتِ مکروہ کے) ۔اسی طرح نوافل کے بجائے قضاء پڑھ لیا کرے اور اگر کسی کا اس حالت میں انتقال ہو جائے کہ قضاء نمازیں اس کے ذمے باقی ہوں تو ہر نماز کے بدلے میں صدقہٴ فطر کی رقم کے برابر فدیہ ادا کیا جائے۔
البتہ سوال میں جو طریقہ مذکور ہے وہ غلط اور بدعت ہے اور لوگوں کو نماز کے ترک کرنے پر جری بنانا ہے۔ اسی طرح شریعت مطہرہ پربہتان اور اس میں دخل اندازی کے مترادف ہے،لہٰذا ایسی مہمل باتوں پر عمل اور یقین نہ کیاجائے۔
نابالغ کے پیچھے نمازِ تراویح
سوال…اگرکوئی بچہ بلوغت کے قریب ہو مثلاً 12/13برس کا ہوتو رمضان المبارک کے مہینے میں اس کا تراویح میں قرآن مجید سنانا کیساہے او ریہ خوف ہو کہ قرآن نہ سنانے کی صورت میں قرآن بھول جائے گا اور یہ بھی فرمائیں کہ اس کے پیچھے تراویح پڑھنا بہتر ہے یا اکیلے یا ”الم تر کیف“ کے ساتھ، کون سا طریقہ افضل ہے؟
جواب…12،13برس کے بچے کی اقتدا میں تراویح کی نماز درست نہیں۔
قرآن کریم کی پختگی کے لیے متبادل انتظام کرلیاجائے یعنی کسی استاذ کو قرآن کریم سنائے، یا کسی ساتھی کے ساتھ دور کرے۔
”الم تر کیف“ کی سورتوں سے اگر تراویح پڑھانے والا موجود ہو تو تراویح جماعت سے پڑھنی چاہیے ورنہ اکیلا پڑھ لے، بچے کے پیچھے تراویح نہیں ہوتی۔
صدقہٴ فطر کا مستحق کون ہے؟
سوال…فطرانہ کن لوگوں کو دیا جائے، امام مسجد جس کے گھر کا گزارہ اچھا چل رہا ہو وہ بھی فطرانہ کا حق دار ہے یانہیں؟
جواب… صدقہٴ فطرکی رقم کسی غریب اور مستحق کو دینا چاہیے، شریعت کی اصطلاح میں غریب اس کو کہتے ہیں جس کی ملکیت میں سونا، چاندی، مال تجارت، نقدی اور گھر میں موجود روز مرہ کے استعمال کی چیزوں سے زائد سامان اتنا نہ ہو جو 87.479گرام سونے یا 612.35گرام چاندی کے برابر ہو۔
تین جوڑے کپڑے سے زائد لباس، ریڈیو اور ٹیلی ویژن جیسی خرافات، ضروریات اصلیہ میں داخل نہیں، اس لیے ان کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے۔
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں امام صاحب کی مالی حالت کو دیکھا جائے پھر اس کے مطابق حکم لگایا جائے۔
حافظِ قرآن کے لیے چندہ جمع کرنا
سوال… ایک مسجد کا امام حافظ ہے اور وہ رمضان میں قرآن سناتا ہے، آخری رمضان میں مسجد میں اعلان کیا جاتا ہے کہ امام صاحب کے لیے چندہ دیا جائے ایسا اعلان کرکے پیسہ جمع کیا جاتا ہے، اب امام صاحب کے لیے یہ پیسہ لینا جائز ہے یا نہیں، دلیل سے واضح فرمائیں؟
جواب…وجوہِ ذیل کی بناء پر حافظ امام کے لیے یہ عطیات خواہ ازقسم نقد ہوں یا بصورت لباس جائز نہیں:
…بالعموم چندہ وصول کرنے میں ایسے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں کہ انسان کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہو جاتا ہے اس لیے یہ وصول کردہ رقم حرام ہے۔
…چندہ دینے والوں میں بینک اور بیمہ کے ملازمین اور دوسرے ناجائز ذرائع آمدنی رکھنے والے بھی ہوتے ہیں اس لیے بہتر نہیں۔
…یہ رسم عام ہونے کی وجہ سے ایک قسم کا معاوضہ ہے۔
… اگر امام واقعتا اس کو معاوضہ نہ سمجھے تب بھی اشرافِ نفس کی وجہ سے حرام ہے۔
…اگر بالفرض اشراف ِنفس نہ ہو تب بھی اس سے غلط رسم کی تائید ہوتی ہے، البتہ مسجد میں مسلمانوں کے عمومی امورِ خیر کے لیے چندہ کرنا جائز ہے۔ ( کذا فی احسن الفتاوی ج3ص516) 
زکوٰة کن چیزوں پر فرض ہے؟
سوال…کن کن چیزوں پرزکوٰة فرض ہوتی ہے؟
جواب…سونا جب ساڑھے سات تولہ (87.48گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
چاندی جب ساڑھے باون تولہ (612.35 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
نقد روپیہ اور مال تجارت، بشرطیکہ مال تجارت کی قیمت چاندی کے نصاب(ساڑھے باون تولہ چاندی) کے برابر ہو۔
مال تجارت سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو خریدتے وقت آگے بیچ کر نفع کمانے کا ارادہ ہو اور اب تک بیچنے کی نیت بھی برقرار ہو، لہٰذا مکان، پلاٹ یا دیگر سامان جو بیچنے کے لیے خریدے ہوں اور اب بھی یہی ارادہ ہو تو ان پر زکوٰة فرض ہوگی۔ ہاں اگر یہ سامان ذاتی استعمال کے لیے ہو یا تجارت کے لیے خریدا ہو لیکن بیچنے کا ارادہ نہ ہو یا مکان اس نیت سے خریدا ہو کہ کرایہ پر دے کر نفع حاصل کریں گے تو ان صورتوں میں زکوٰة فرض نہ ہوگی۔
مذکورہ بالا اشیا کے مجموعے پر یعنی کسی کے پاس کچھ سونا ہے، کچھ چاندی ہے، تھوڑے سے نقد پیسے ہیں اور کچھ مال تجارت ہے اور ان سب کی مجموعی مالیت چاندی کے نصاب(ساڑھے باون تولہ) کے برابر ہے تو اس پر زکوٰة فرض ہے۔
واضح رہے کہ سونا، چاندی اور مالِ تجارت کا چالیسواں حصہ (یعنی ڈھائی فیصد) زکوٰة میں دینا ضروری ہے۔
چرنے والے مویشیوں پر بھی زکوٰة فرض ہوتی ہے۔ اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری ہر ایک کا الگ مستقل نصاب ہے۔ مقامی علما ئے کرام سے پوچھ کر اس پر عمل کیا جائے۔
زمین سے جو پیداوار حاصل ہوتی ہے اس پر بھی زکوٰة فرض ہوتی ہے جسے اصطلاح شریعت میں ”عشر“ کہا جاتا ہے۔ اگر زمین بارش کے پانی سے سیراب کی گئی ہے تو دسواں حصہ اور اگر کنویں کے پانی سے یا نہری پانی خرید کر سیراب کی گئی ہے تو بیسواں حصہ عشر میں دینا فرض ہے۔
فیکٹریوں، ملوں اور کارخانوں کے شیئرز پر بھی زکوٰة فرض ہے بشرطیکہ ان کی قیمت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ) کے برابر ہو۔ مشینری، فرنیچر اور استعمال کی چیزوں پر زکوٰة فرض نہیں۔
بیٹی کے لیے رکھے ہوئے زیورات پر زکوٰة
سوال…بیٹی کو جہیز میں دینے کے لیے والدین کے پاس جو سونا اور چاندی موجود ہے اس پر زکوٰة فرض ہے یا نہیں؟ اگر فرض ہے تو والدین پر یا لڑکی پر؟
جواب…اگر والدین نے بیٹی کو زیورات کا مالک بنا دیا ہے اور بیٹی بالغہ ہے تو اس پر زکوٰة فرض ہے اور اگر نابالغہ ہے تو اس پر زکوٰة فرض نہیں، بیٹی کو اگرمالک نہیں بنایا گیا ہے تو زیورات والدین کی ملکیت شمار ہوں گے اور والدین پر زکوٰة فرض ہوگی۔
قیمتِ فروخت کے مطابق زکوٰة ادا کرنا
سوال…سونا، چاندی اور تجارت کی چیزوں کی قیمت خرید کا اعتبار کرکے زکوٰة ادا کردی جائے یاقیمت فروخت کا اعتبار کرکے؟
جواب… قیمت فروخت(یعنی زکوٰة فرض ہونے کے دن بازار کی قیمت )کے اعتبار سے زکوٰة ادا کردی جائے۔
گاڑی کی کمائی پر زکوٰة
سوال…ایک شخص نے تقریباً 20 لاکھ روپے کی ایک گاڑی کمائی کے لیے خریدی تو ان محبوس 20لاکھ روپے(جن سے گاڑی خریدی ہے) پرزکوٰة ہے یا نہیں؟
یہی گاڑی جو کمائی کے لیے خریدی گئی اگر اچھے داموں میں بکتی ہے تو یہ شخص اس کو بیچتا بھی ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے اس نے یہ گاڑی کمائی کے لیے خریدی ہے اور دوسرے لحاظ سے اگر اس کو بیچنے میں فائدہ ہو تو پھر بیچتا بھی ہے تو آیا اس میں زکوٰة ہے یا نہیں؟
اسی گاڑی سیجو کمائی کی جاتی ہے وہ گھر کے تمام اخراجات سے زیادہ ہے یعنی اس گاڑی کی کمائی کو یہ آدمی جمع کرتا ہے تو اس صورت میں گاڑی کے 20 لاکھ میں زکوٰة ہے یا نہیں؟
جواب…تینوں صورتوں میں گاڑی کی اصل قیمت (جو 20 لاکھ ہے) پر زکوٰة نہیں ،اس لیے کہ گاڑیحصول نفع کا آلہ اور ذریعہ ہے۔ البتہ گاڑی کی کمائی جب نصاب ِزکوٰة کو پہنچ جائے تو اس پر زکوٰة فرض ہوگی۔
رشتہ داروں کو زکوٰة دینا
سوال…رشتہ داروں میں سے کس کو زکوٰة دینا درست ہے کس کو نہیں؟
جواب…والدین کا اپنی اولاد کو اور اولاد کا اپنے والدین کو زکوٰة دینا درست نہیں۔ اسی طرح میاں بیوی بھی ایک دوسرے کو زکوٰة نہیں دے سکتے۔ ان کے سوا باقی رشتہ دار مثلاً بھائی، بہن، چچا، ماموں، خالہ وغیرہ کو زکوٰة دینا درست ہے بلکہ اس میں دگنا ثواب ہے، ایک ثواب زکوٰة دینے کا اوردوسرا صلہ رحمی کا۔
ہسپتال میں زکوٰة کا پیسہ لگانا
سوال… کیا کسی خیراتی ہسپتال میں زکوٰة کی رقم اس طرح استعمال کرنا جائز ہے کہ اس رقم سے دوائیں خرید کر مریضوں کو مفت دی جائیں ، ہسپتال کے عملہ اور ڈاکٹروں کو اس سے تنخواہ دی جائے اور ہسپتال کی دیگر ضروریات پوری کی جائیں ؟
نیز ایسے ہسپتال کو زکوٰة دینا جائز ہے یا نہیں جو کہ مذکورہ بالا طریقہ سے اس میں استعمال ہوتی ہو؟
جواب… مذکورہ صورتوں میں صرف پہلی صورت میں زکوٰة ادا ہو جاتی ہے یعنی زکوٰة کی رقم سے دوائیں خرید کر مستحق مریضوں کے درمیان مفت تقسیم کی جائیں ، مالِ زکوٰة سے ہسپتال کی تعمیر اور اس کے لیے آلات خریدنا، ڈاکٹروں کو فیس اور ہسپتال کے عملہ وغیرہ کو تنخواہیں دینا جائز نہیں۔
البتہ اگر زکوٰة کی رقم پہلے مستحق مریضوں کو دی جائے ، پھر مریض ہسپتال والوں کے واجبات اس سے ادا کریں، تو ہسپتال کے منتظمین جہاں چاہیں اس کو استعمال کر سکتے ہیں۔
بی سی پر زکوٰة دینے کا طریقہ
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بی سی پر زکوٰة کاطریقہ کار کیا ہو گا؟
جواب… بی سی کی حقیقت قرض کی سی ہے کہ مثلا ًدس آدمی باہمی رضامندی سے ماہانہ ایک، ایک ہزار روپے جمع کرتے ہیں اور یہ طے کرتے ہیں کہ ہر مہینہ ایک آدمی کو جمع شدہ رقم دی جائے گی اور آدمی کی تعیین قرعہ کے ذریعہ سے پہلے ہی کر لیتے ہیں کہ اس مہینہ فلاں آدمی مستحق ہے اور آئندہ دوسرا، اسی طرح دس کے دس مکمل ہو جاتے ہیں۔
اس سے یہ واضح ہوا کہ ہر آدمی بی سی ملنے سے پہلے قرض دینے والا ہوتا ہے اور بی سی ملنے کے بعد قرض لینے والا ہوتا ہے ، مثلاً ایک آدمی کی باری پانچویں مہینہ میں آئی تو اب وہ آدمی پانچ مہینہ تک دوسروں کو قرض دے رہا تھا اور اب پانچویں مہینہ میں بی سی ملنے کے بعد وہ پانچ ہزار کا مقروض ہوجائے گا بقیہ دسویں مہینہ تک۔
اب بی سی پر زکوٰة کا طریقہ کا ریہ ہو گا کہ جس دن اس شخص کی زکوٰة کا سال پورا ہوتا ہے ، مثلاً یکم رمضان، اس دن اگر وہ بی سی وصول کر چکا ہے تو جتنے مہینوں کی رقم ادا کرنی باقی ہے ، اتنی رقم کی بقدر یہ شخص مقروض ہے، اس قرض کو اپنے دوسرے قابل زکوٰة مال سے نکال کر بقیہ کی زکوٰة ادا کرے۔ اگر اس دن تک اس نے بی سی وصول نہیں کی تو جتنے پیسے وہ بی سی میں جمع کر رہا ہے گویا وہ اس نے دوسروں کو قرض دیئے ہیں اور قرض کی زکوٰة وصولی کے بعد دینی ہوتی ہے، لہٰذا اس پر فی الحال اس رقم کی زکوٰة ادا کرنا فرض نہیں۔ بی سی وصول کرنے کے بعد اس میں سے جتنی رقم آئندہ بی سی میں بھرنی ہے اس کو نکال کر باقی گذشتہ سالوں کی بھی زکوٰة ادا کرے گا۔

Flag Counter