Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1431ھ

ہ رسالہ

7 - 17
***
دینی، سیاسی، اخلاقی اور قانونی فرض
محترم عبدالله خالد قاسمی

ماحول ومعاشرہ میں امن وامان بحال رکھنے، آپسی میل محبت اورمروت ومودت کی فضا پیدا کرنے کے لیے تاریخ انسانی میں ہمیشہ سے یہ اصول اور قانون رہا ہے کہ معاشرے کا ہر ہر فرد ایک دوسرے کے جذبات کااحترام کرے، عزت کی نظر سے دیکھے، الفت ودوستی کا ماحول پیدا کرے، اگر سماج اور سوسائٹی سے احترام انسانیت اور وقار آدمیت کو ٹھیس پہنچتی ہے ، جذبات سے کھلواڑ کیا جاتا ہے تو فتنہ وفساد کے شعلے ہوا پاتے ہیں او رانسانی آبادی غیر مطمئن اور پریشان رہتی ہے۔
پوری تاریخ انسانیت کا مطالعہ کرنے سے فتنہ وفساد اور جنگ وجدال کی جو بنیادی وجہ سامنے آئے گی وہ یہی ہے کہ انسانیت کے جذبات سے کھلواڑ کیا ہے ، ذہنی اذیتیں دی ہیں، بے جا الزام تراشیاں کی ہیں۔
دنیا میں اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زبردست ہنگامہ آرائیاں ہیں، مدارس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بنیاد پرستی سکھاتے ہیں،جو ماحول ومعاشرے کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، مدارس اسلامیہ میں عسکریت ( فوجی ٹریننگ) کی تعلیم دی جاتی ہے، جس سے دہشت گردی کو ہوا ملتی ہے ۔ اس لیے دنیا بھر کے دینی مدارس کو بند کیا جائے یا ان میں رائج تعلیم ونصاب کو تبدیل کیاجائے۔ حالاں کہ صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ اس انداز کی گفتگو اور اس طرح کے الزامات کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ سب صرف اور صرف اسلام دشمنی ہے، کیوں کہ ایک طرف تو اسلام کے خلاف یہ واویلا اور خود دوسری طرف بی بی سی کی خبر کے مطابق اسرائیل میں یہودی مدارس میں باقاعدہ عسکریت اور سپاہ گری کی تعلیم وتربیت کا مکمل انتظام ہے ، وہاں مکمل فوجی ٹرنینگ دی جاتی ہے۔ بی بی سی لندن کی خبر ملاحظہ فرمائیں:
”گزشتہ دنوں مغربی یروشلم کے اسرائیلی مذہبی اسکول پر ایک شخص نے فائرنگ کرکے آٹھ یہودی مذہبی طلبہ کو قتل کر دیا ،مغربی یروشلم میں ہزاروں کی تعداد میں اسرائیلی اس اسکول کے باہر جمع ہو گئے ، جہاں ایک مسلح شخص کے حملے میں آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔ بی بی سی کے نامہ نگار” کرسپن ٹو رولڈ“ کا کہنا ہے کہ لوگوں کی طرف سے غم کے اظہار سے اسرائیلی حکومت پر سخت رد عمل ظاہر کرنے کا دباؤ بڑھ گیا ہے ، تاہم اسرائیل نے کہا کہ وہ امن مذاکرات کو ختم نہیں کرے گا۔ مشرقی یروشلم میں یہ واقعہ غزہ پر اسرائیلی فوجی کارروائی کے بعد پیش آیا ہے، جس میں ایک سو بیس سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو گئے تھے۔
مذہبی اسکول میں ہلاک ہونے والے تمام اسرائیلی تیس سال سے کم عمر تھے ، بی بی سی کے مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر او رمدیر ”جرمی بوؤن“ کا کہنا ہے کہ یہ کوئی عام مدرسہ نہیں تھا، بلکہ یہ غرب اردن میں یہودیوں کی آباد کاری کے نظر یہ کا منبع ہے ۔ اس میں زیر تعلیم زیادہ تر طلباء مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ عسکری تربیت بھی حاصل کر رہے ہیں ، جرمی بوؤن کے مطابق اس اسکول کے باہر جمع ہونے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو پہلے ہی یہود اولمرٹ کی طرف سے فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کے مخالف ہیں “۔ ( بی بی سی اردو ڈاٹ کام ،7 مارچ2008ء)
ان آٹھ یہودی مذہبی طلبہ کی ہلاکت پر ایسا لگتا ہے جیسے دنیا میں کوئی بھونچال آگیا ہو! ورنہ دنیا میں روزانہ سینکڑوں نہیں، ہزاروں معصوم وبے گناہ قتل ہو رہے ہیں اور ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے، ان میں سے دینی ، مذہبی ، سیاسی او رمختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ جوان، بوڑھے ، مردوں عورتوں کے ساتھ ساتھ معصوم اور شیر خوار بچے بھی ہوتے ہیں، مگر ان بے قصوروں کے قتل عام پر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی، صرف یہی نہیں، بلکہ آئے دن بم دھماکے ،52 بی کی بمباری، راکٹ لانچر اور فاسفورس بم تک گرائے جاتے ہیں اور آن واحد میں ہنستے بستے گھر، بستیاں اور شہروں کے شہر کھنڈرات میں تبدیل کر دیے جاتے ہیں، مگر اس پر نہ کوئی ہنگامی صورت حال ہوتی ہے نہ ایمرجنسی لگتی ہے ، نہ سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلایا جاتا ہے او رنہ ہی اقوام متحدہ کو اس کی مذمت کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، بلکہ وہ ایک معمول کی کارروائی کہلاتی ہے، لیکن دوسرے طرف اگر ایک یہودی اسکول کے آٹھ عسکریت پسند طالب علم ہوتے ہیں تو سیکورٹی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا جاتا ہے او راقوام متحدہ اس پر مذمت کرتی ہے او رہنگامی اجلاس بلا لیتی ہے۔
یہودی مذہبی اسکول میں رونما ہونے والی اس واردات کے بعد یہودیوں نے اس کا انتقام لینے کے لیے کیا منصوبہ بنایا؟ اور یہودی مذہبی راہ نماؤں کے اس پر کیا جذبات ہیں ؟ ملاحظہ ہوں:
”مقبوضہ بیت المقدس ( اے پی پی) دنیا بھر میں مسلم دینی مدارس کو دہشت گردی کی آماج گاہ قراردینے کا پروپیگنڈہ کرنے والے صہیونی ملک اسرائیل کے چینل ون ٹی وی نے انکشاف کیا ہے کہ یہودیت کی تعلیم حاصل کرنے والے 3 نوجوانوں نے اپنی در سگاہ پر حملے کا مسلمانوں سے بدلہ لینے کا منصوبہ بنا لیا ہے ۔ ٹی وی چینل کے مطابق تینوں یہودی نوجوان مسجد اقصی سے متعلق کسی نامور مسلمان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ،یہودی مذہبی در سگاہ پر حملے کے بعد تین یہودی طلبہ نے اپنے منصوبے کے حوالے سے دوربیوں ( یہودی مذہبی عالم) سے ملاقات کی ، ایک ربی نے حملے کا منصوبہ بنانے والے یہودی طلبہ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا،جب کہ تل ابیب کے نواحی علاقے میں رہائش پذیر ایک ربی نے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ اس منصوبے کا ہدف مسجد اقصیٰ سے منسلک ایک عالم دین کو جسمانی ضرر پہنچانا ہے ۔ اس ضمن میں اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، جب کہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ یہودی درس گاہ پر حملے کے رد عمل میں کسی بھی واقعے کے لیے تیار ہیں۔“ (روز نامہ امت کراچی12 مارچ2008ء)
مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی ودہشت گردی کا ڈھنڈوارا پیٹنے اور بھونڈاراگ الاپنے والے شورہ پشت یہودیوں نے اپنے چند طلبہ کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے کس انتہا پسندی، دہشت گردی کا منصوبہ بنایا ہے؟ اور اس سلسلہ میں وہ کہا ں تک آگے جانے والے ہیں؟ ان کے مذہبی پیشوا مسلمانوں، ان کی مقدس عبادت گاہوں او رمذہبی راہ نماؤں کو کیا مزہ چکھانا چاہتے ہیں ملاحظہ ہو:
” بیت المقدس(ثناء نیوز) اسرائیل کے انتہا پسند مذہبی راہ نماؤں نے حال ہی میں مذہبی اسکول پر حملہ کا بدلہ لینے کے لیے مسجد اقصیٰ پر حملہ کرنے کا فتوی دیا ہے ۔ مڈل ایسٹ اسٹیڈی سینٹر کی رپورٹ کے مطابق تین اعلیٰ سطحی مذہبی پیشواؤں نے مشترکہ طور پر جاری ایک فتوی میں کہا ہے کہ یہودی شریعت کی رو سے یہودی شہریوں کے قتل کے بدلے مذہب کے مقدس مقامات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے ، شریعت کی رو سے مسجد اقصیٰ کو یہودی شہریوں کے بدلے مسمار کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ فلسطینی مسلمان بھی یہودی آباد کاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ مشورے میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کی شریعت نہ صرف مذہبی مقامات پر حملوں کی اجازت دیتی ہے، بلکہ ایک عام یہودی کے بدلے دوسرے مذہب کے اعلیٰ سطحی راہ نما کو قتل کیا جاسکتا ہے۔“ (روزنامہ جنگ کراچی14 مارچ2008ء)
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہودی اپنے دین ومذہب، مذہبی درس گاہوں، اپنے مذہبی طلبہ او راپنے مذہبی لوگوں کے بارے میں کس قدر حساس ہیں؟ جو یہودی آئے دن مسلمانوں کی مقدس شخصیات ، ان کے معصوم شہریوں جوانوں، بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو تہہ تیغ کرتے ہیں اور مسلمان آبادیوں پر بمباری کرکے ان کے شہروں کو کھنڈرات بنا رہے ہیں ، اگر ان کے چند طلبہ کسی رد عمل میں مارے جاتے ہیں تو وہ اس قدر بپھر جاتے ہیں کہ انہوں نے ایک آواز ہو کر فتوی صادر کر دیا ، کہ ان آٹھ عسکریت پسند مذہبی طلبہ کے بدلہ او رانتقام میں مسلمان مذہبی راہ نماؤں، ان کی مقدس عبادت گاہوں، حتی کہ مسجد اقصیٰ کو بھی نشانہ بنانا جائز ہے۔
اس موقع پر دنیا بھر کے انصاف پسند افراد، جماعتوں، مسلمانوں کے دینی مذہبی راہ نماؤں، اخبارات ومیڈیا کے ذمہ داروں او رارباب قلم سے عرض ہے کہ اگر مسلمانوں ، اسلامی مدارس، دینی مذہبی اداروں کے خلاف یہودیوں، ان کے ایجنٹوں، ان کے وفاداروں او ران کے نمک خواروں اور ان کے زر خرید غلاموں کی زبان وقلم ہر طرح سے استعمال میں آسکتی ہے تو حق وانصاف کے علم برداروں کی زبان وقلم اور یہودی مدارس کے خلاف حرکت میں کیوں نہیں آسکتی؟ صرف اس لیے کہ یہودی مدارس کو یورپ وامریکا اور سپر طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے او رمسلمان دینی مدارس اس سے محروم ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو آپ بھی اس حقیقت کو اجاگر کریں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو حق کا ساتھ دینے کے لیے بروئے کار لائیں۔ یہ آپ کا دینی، سیاسی، اخلاقی اور قانونی فرض بنتا ہے۔ اگر آپ نے اس سلسلہ میں خاموشی اختیار کی تو نہ صرف یہ کہ آپ اپنا وزن ان ظالموں کے پلڑے میں ڈالنے والے ہوں گے، بلکہ تاریخ میں آپ کا نام بھی ان ظالموں کی فہرست میں لکھا جائے گا۔

Flag Counter