Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1431ھ

ہ رسالہ

11 - 17
***
چھوٹی سی تبدیلی
محترم رحیم الله یوسف زئی

افغانستان میں کسی پالیسی پر عمل نہیں ہو رہا۔ پرانی حکمت عملیاں رد کرکے کامیابی کے حصول کے لیے نئی راہیں تلاش کی جارہی ہے۔ لیکن امریکا اور اس کے اتحادی طالبان کے خلاف کامیابی کے لیے شدید مشکلات کا شکار ہیں اور وہ جتنے زیادہ فوجی اور رسد بڑھاتے جارہے ہیں ان کی نو سالہ افغان فوجی مہم میں مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔
افغانستان کو سلطنتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔ جدید دور میں برطانیہ اور سوویت یونین کو حریت پسند افغانوں کے ہاتھوں شکت کا سامنا کرنا پڑا۔ موجود دور کی سب سے بڑی فوجی او رمعاشی طاقت یونائٹیڈ اسٹیٹس آف امریکا مستقبل قریب میں افغانستان میں جنگ نہیں ہار رہا ۔ لیکن وسائل سے محروم طالبان کے خلاف دنیا کے 40 سے زائد امیر ممالک کے وسائل اور فوجیوں کی مدد کے بعد بھی فیصلہ کن نتیجے پر نہ پہنچنا امریکا کی شکست ہی مانی جائے گی ۔ بیان کردہ مقاصد کے حصول اور ہلکے ہتھیاروں سے لڑنے والے طالبان کو زیر کرنے سے قبل امریکی اور نیٹوا فواج کا افغانستان سے انخلا جنگجوؤں کی فتح ہی کہلائے گی۔
جب معاملات جاری رکھنا مشکل ہو جائے او رشکست سامنے نظر آرہی ہو تو اس کا امکان بہت زیادہ ہے کہ بہتان طرازی کا آغاز ہو جائے ۔ اب امریکی سول اور ملٹری قیادت میں ایسا ہی ہو رہا ہے ا ورایک دوسرے پرنا اہلیت اور افغان جنگ میں جیت کے حصول میں کی جانے والی جدوجہد کے حوالے سے غیر سنجیدگی کے الزامات لگائے جارہے ہیں ۔ الزامات کے کھیل میں افغانستان میں نٹیواور امریکی فوج کے کمانڈر جنرل مک کرسٹل کی نوکری گئی اور نیٹو فورسز کے مسلسل بڑھتے ہوئے جانی ومالی نقصان کی وجہ سے یقینی طور پر مزید تبدیلیاں اور برطرفیاں سامنے آئیں گی۔ اکتوبر2001ء کو افغانستان پر ہونے والے امریکی قبضے کے بعد سے جون2010ء امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج کے لیے بد ترین مہینہ ثابت ہوا جس میں 96 فوجی مارے گئے اوران میں سب سے زیادہ تعداد امریکیوں کی ہے ۔ جون ہی کے مہینے میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی تباہی اور فوجی گاڑیوں پر حملوں کے بھی بہت سے واقعات سامنے آئے۔ افغان جنگ کے ماہانہ اخراجات کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ یہ سات ارب ڈالر ہیں اور بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
جنگ جیتنے کی حکمت عملی پیش کرکے امیدوں کو بڑھانے کے بعد شکست کے خوف کا شکار ہونے والے جرنیل کی ایک واضح مثال مک کرسٹل سے ملتی ہے ۔ 
جو ایک ضدی اورانا پرست کمانڈر تھا اور وہ جنگ کی کوششوں پر دوبارہ اپنا کنٹرول حاصل کرنے کے اپنے فیصلوں کو سویلین قیادت کی رائے سے زیاہ بہتر سمجھتا تھا۔ رولنگ اسٹون میگزین میں شائع ہونے والے تبصرے میں مک کرسٹل نے وہائٹ ہاؤس کے ایک اجلاس کا ذکر کیا جس میں اوباما اعلیٰ فوجی قیادت سے خوفزدہ نظر آئے، جس سے ایک اشارہ یہبھی نکلتا تھاکہ وہ کمزور اور غیر محفوظ صدر ہیں ۔ مک کرسٹل کے موقف کے حوالے سے اوباما کے قومی سلامتی کے مشیر ایک مسخر ے ہیں، ان کے نمائندہٴ خصوصی برائے پاکستان وافغانستان رچرڈ ہالبروک کو اپنی نوکری جانے کا خوف ہے او رکابل میں تعینات امریکی سفیر ریٹائرڈ کارل ایکن بری کو افغان جنگ کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے تاریخ کی کتابوں میں دائیں جانب کا ہونا چاہتے ہیں ۔ پہلے ایک واقعے میں نائب صدر جوزف بائیڈن کی انسداد دہشت گردی کی رائے اور افغان فوجی کارروائیوں میں تیزی لانے کے حوالے سے مخالفت کی۔مک کرسٹل کے کھلم کھلایہ کہنے کے بعد ایسا کرنے سے افغانستان بدنظمی کا شکار ہو جائے گا، شدید مذمت کی گئی۔ کوئی ذرا مک کرسٹل سے یہ پوچھے کہ جب انہوں نے چارج چھوڑا اس وقت افغانستان کے حالات زیادہ خراب تھے یا اس وقت جب جون2009ء میں انہوں نے امریکی فوجی کمانڈر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
ایسی رائے بھی سامنے آئی ہے کہ طالبان کے جنگ میں شدت لانے کے مشن میں ناکامی کے احساس کے بعد مک کرسٹل کو نوکری کے برخاست کیے جانے کا انتظار تھا۔ وہ ایک زبردست ساکھ کے ساتھ آئے تھے جو کہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ انہوں نے فوجی کارروائیوں میں تیزی لانے کے لیے فوجیوں کی تعداد مزید بڑھائی۔ انہوں نے طالبان تحریک کا زور توڑنے کا وعدہ کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے صوبہ ہلمند کی وادی مرجہ اور پھر قندھار میں فوجی آپریشن کیے۔ ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا کیوں کہ ان کارروائیوں سے کوئی ایسا اشارہ نہیں ملا کہ طالبان تحریک کمزور ہوئی ہو ۔ مرجہ سے نہ تو طالبان کا انخلاء ہوا اور نہ ہی مک کرسٹل کے وعدے کے مطابق حکومت قائم ہو سکی ۔ قندہار آپریشن ملتوی ہوا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر طالبان کے آبائی علاقے سے ان کو ختم نہ کیا جاسکا تو افغانستان میں نیٹو کی فوجی مہم کی قسمت پر مہر لگ جائے گی۔
مک کرسٹل کی طالبان جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے بجائے افغان شہریوں کے تحفظ کی حکمت عملی کو عوام کے دل ودماغ جیتنے کے لیے پانسہ پلٹ خیال کیا گیا۔ اس جانب کوئی خیال ہی نہیں کیا گیا کہ افغان عوام کی رائے اورپریشانی کیا ہے کہ غیر ملکی افواج جن دیہات اورقصبوں کی حفاظت کرنا چاہتی ہیں ان کے کیا مسائل ہیں۔ ان کی رہائش گا ہیں غیر ملکی افواج اور طالبان کے لیے میدان جنگ بن گئی ہیں او ران علاقوں میں موت اور تباہی آئی جہاں پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ نیٹو اور افغان فورسز کی فوجی کارروائیوں میں عوامی حمایت کا حاصل نہ ہونا ہے۔ یہاں تک کہ حکومت حامی سیاست دان اور شمالی اتحاد کے بعض سرداروں کے علاوہ دیگر قبائلی سردار بھی افغان مسئلے کے پُرامن حل کے لیے طالبان سے مذاکرات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کا بھرپور اظہار حال ہی میں کابل میں ہونے والے امن جرگے کی تجاویز میں بھی کیا گیا کہ اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے طالبان رہنماؤں کے نام نکالے جائیں تاکہ مذاکرات کی راہ ہموار ہوسکے۔
اگر مک کرسٹل ہدایت پر عمل نہیں کررہے تھے تو اوباما کے ساتھ ان کے چلنے او رافغانستان میں امریکی فورسز کے کمانڈر کی حیثیت سے کام کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں رہ جاتا۔ افغانستان میں اوباما کی ہدایت کردہ فوجی اور شہر ی مہمات میں کامیابی ہی امریکی سیاست میں ان کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہے اور اس تاثر سے بھی بچا جاسکے کہ دنیا کی واحد سپر پاور کو ٹوٹی پھوٹی طالبان ملیشیا نے شکست دے دی ۔
نقصانات پر قابو پانے کے لیے مشہور جنرل ڈیوڈپٹریاس کو مک کرسٹل کی جگہ تعینات کیا گیا۔ اس بنا پر اوباما یہ دعویٰ کر سکے کہ صرف ایک جنرل تبدیل کیا گیا ہے کیوں کہ پٹریاس افغانستان کی جنگ کی نئی حکمت عملی کو حتمی شکل دے رہے تھے۔ امریکی سینٹرل کمان کی حیثیت سے ان کو سارے اختیارات حاصل تھے اور وہ جنرل مک کرسٹل کے افسر بھی تھے۔ حقیقت میں پٹریاس پر بھی افغانستان میں حکمت عملی کی ناکامی کا الزام دیا جانا چاہیے۔اگرچہ انکو افغانستان میں نٹیو یا امریکی فورسز کی کسی بھی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا ۔ اب تو یہ ایک جنگجوؤں کے حوالے سے بہت زیادہ علم رکھنے والے انسان کا ٹیسٹ ہے ۔ جیسے مک کرسٹل کو بہت زیادہ امیدوں کے ساتھ افغانستان بھیجا گیا تھا اور سنیٹر لنڈ سے گراہم کا کہنا تھا کہ یہ افغانستان میں جاری جنگ کی صورت حال بدلنے کی آخری امید ہے۔
یہ امر حیران کن ہے کہ جنگی حکمت عملی کے حوالے سے کوئی بھی لب کشائی کے لیے تیار نہیں یا کسی کے علم میں نہیں یا وہ بتاناہی نہیں چاہتے کہ طالبان دنیا بھر کی عظیم فوجوں کو ناکام کرنے کے لیے کون کون سے حربے استعمال کررہے ہیں۔
گمنام طالبان کمانڈرز کی جانب سے تیار کی جانے والی حکمت عملی نے بیشتر امریکی او رنیٹو جرنیلوں کو حیران وپریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ طالبان جنگجوؤں کی کسی بھی موقع پر کوئی تعریف نہیں کی جاتی جن کے پاس کلاشنکوف رائفل ہے یا پھر RPG-7 راکٹ لیکن وہ ایسی فوج سے لڑ رہے ہیں جوکہ بکتر بند گاڑیوں میں سوار ہوتی ہیں اور اسے جیٹ طیاروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور ڈرون کا تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے ۔ طالبان جنگجوؤں میں سے ہر تیسرا فوری دھماکا خیز ڈیوائس (Improvise explosive device) بنانے کا ماہر ہے ، جو کہ اتحادی افواج کے خلاف سب سے مہلک ہتھیارہے اور سب سے زیادہ ہلاکتیں بھی اسی سے ہوئی ہیں ۔ ان دھماکا خیز ڈیوائس پر بمشکل150 روپے لاگت آتی ہیلیکن اس کی مدد سے لاکھوں ڈالر مالیت کی گاڑیوں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ فوجیوں کو ہلاک اور معذور بھی کیا جاسکتا ہے ۔ طالبان اورجہادی لٹریچر میں افغانستان میں لڑنے والے کمانڈروں اور جنگجوؤں کے بعض معرکوں کا پتہ چلتا ہے لیکن دنیا یہ جاننے سے ابھی تک قاصر ہے کہ دنیا کی بہترین تنخواہ لینے والی، جدید ہتھیاروں سے لیس او ربھرپور تربیت یافتہ فوجیں کس طرح ان جنگجوؤں کے ہاتھوں ذلیل ہو رہی ہیں جو کہ ہتھیاروں سے زیادہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں۔ (بشکریہ روز نامہ جنگ)

Flag Counter