Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1431ھ

ہ رسالہ

3 - 17
***
کمزور ی کا اصل سبب کرنے کا اصل کام
مولانا محمد منظور نعمانی 

ہم اور آپ اگر صرف نام کے نہیں بلکہ واقعتا مسلمان ہیں تو اس قرآنی حقیقت پر تو یقینا ہمارا ایمان ہو گا کہ اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے او رکسی شخص یا کسی قوم پر جو اچھے برے حالات آتے ہیں وہ سب الله کے فیصلے اورالله کے حکم سے آتے ہیں … یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی قوم کو اچھے حال میں رکھنا اور عزت دیناچاہے اور پھر کوئی دوسرا اس کو بد حال اور بے عزت کر سکے ، یا وہ کسی کو نعمت و عزت دینا نہ چاہے اور کوئی دوسرا اس کو نعمت وعزت دے سکے، سورہٴ یونس میں ہے ۔
”اور اگر الله تم کو کسی دکھ اور مصیبت میں مبتلا کر دے تو کوئی اس کو ہٹا سکنے والا نہیں اوراگر وہ تمہاری بہتری کا ارادہ کرے تو کوئی اس کے فضل وکرم کو روک سکنے والا نہیں ۔“
اور سورہٴ فاطر میں ہے۔
”الله جس رحمت کا دروازہ لوگوں کے لیے کھولے تو پھر کوئی اس کو روکنے والا نہیں اور وہ جس نعمت کو روک لے تو پھر کوئی اس کو بھیجنے والا نہیں اور وہ بڑے زور اور حکمت والا ہے ۔“
الغرض اس دنیا میں افرادو اقوام پر جو اچھے برے حالات آتے ہیں وہ سب الله ہی کے فیصلہ اور اسی کے حکم سے آتے ہیں اور جو کچھ ہوتا ہے اسی کے ایک اشارہ”کن“ سے ہوتا ہے سورہٴ یسٰین کی آخری آیت ہے۔
”اس کا معاملہ تو بس یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو کرنا چاہتا ہے تو اس کو کہتا ہے کہ ہو جا، پس وہ ہو جاتی ہے، پس پاک ہے وہ ذات جس کے قبضہ میں ہر چیز کی بادشاہی اور فرماں روائی ہے اور تم (مرنے کے بعد ) اسی کی طرف لوٹوگے۔“
اس لیے قرآن مجید میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اور ان کے توسط سے ہم کو بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ
”کہو اے الله، ملک وبادشاہت کے حقیقی مالک! توجسے چاہے عزت دے او رجس کو چاہے ذلت دے، تیرے ہی قبضہ میں ہے ہر بھلائی ، تو بے شک ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔“ ( سورہ آل عمران)
جب ان قرآنی آیات پر ہمارا ایمان ہے او رہم واقعتا یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ الله ہی کے حکم سے ہوتا ہے اور کسی کو حکومت وسلطنت دینا اور کسی سے چھین لینا اور کسی کو عزت دے کر بلند کر دینا اور کسی کو ذلت کے گڑھے میں گرادینا، یہ سب الله تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس وقت جب مصائب ومشکلات میں ہم مسلمان گھرے ہوئے ہیں الله تعالیٰ نے کیوں ہم کو ان میں مبتلا کیا ہے او رصدیوں سے یہ ذلت و پستی ہم پر کیوں مسلط کر دی گئی ہے اور اقوام عالم میں کیوں ہمارا پلہ اتنا کمزور ہے ؟ الله تعالیٰ خوامخواہ تو کسی قوم پر ظلم نہیں کرتا، اس کی مقدس کتاب قرآن مجید نے ہمیں صاف صاف بتلایا ہے۔
”الله تعالیٰ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔“
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
”یہ اس سبب سے ہے کہ الله تعالیٰ نہیں ہے بدلنے والا کسی نعمت کاجو بخشی ہو اس نے کسی قوم کو جب تک نہ بدلے وہ پنے ذاتی اعمال۔“
پس ہمیں یقین کرنا چاہیے کہ ہم جن حالات وآفات میں مبتلا ہیں اور جو ذلت وپستی ہم پر مسلط ہے اور نہ صرف ہم مسلمانانِ برصغیربلکہ زمین کے کسی خطہ میں جہاں کہیں بھی مسلمان قومیں دیگر اقوام کے زیر اقتدار ہیں یا مسلمانوں کی حکومتیں دوسری حکومتوں کے مقابلے میں عاجز و کمزور ہیں تو یہ صورت حال الله تعالیٰ کی طرف سے بے وجہ اور بلا قصور نہیں ہے اور علی ہذا یہ صرف ظاہری ومادی اسباب کی کمی بیشی او رتاریخ کی ایک خاص رفتار کا نتیجہ بھی نہیں ہے، بلکہ اس میں سب سے بڑا دخل الله تعالیٰ کے قانون، جزائے اعمال، کا ہے اور مادی اسباب کی کمی بیشی او رتاریخ کی جس رفتار کو ہم اس کا اصلی سبب سمجھ رہے ہیں ، دراصل وہ خود الله کے اسی قانون کا نتیجہ ہے۔
قرآن مجید میں جا بجا الله تعالیٰ نے اپنا یہ قانون بیان فرمایا ہے کہ کتاب وپیغمبر پر ایمان لانے والی اور الله کے دین او راس کی شریعت کو قبول کر لینے والی کوئی قوم جب عبدیت اور فرماں برداری کا راستہ چھوڑ کے نافرمانی کی زندگی اختیار کر لیتی ہے ، تو الله تعالیٰ اپنی دی ہوئی نعمتیں اس سے سلب کر لیتا ہے او راپنی اس رحمت و نصرت سے اس کو محروم کر دیتا ہے ،جو دراصل اس کی زندگی کی روح ہوتی ہے، پھر وہ پستی ہی میں گرتی جاتی ہے او رجب تک وہ اپنے رویہ کو نہ بدلے او رعبدیت وفرماں برداری کا راستہ اختیار نہ کرے، الله تعالیٰ اس کی حالت کو نہیں بدلتا، قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات کا تعلق اسی ”قانون مجازات“ سے ہے۔
”ہم نے ان کو یہ احکام دیے تھے او رانہوں نے ان احکام کو قبول کر لیا تھا، لیکن اس کے بعد اپنی ذاتی خواہش اور ہوائے نفسانی سے انہوں نے فلاں ایک حکم کی تو تعمیل کی ، مگر اس کے سوا دوسرے تمام احکام کے خلاف عمل کیا۔“ بہرحال ان لوگوں کی یہ حالت بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا:
پس جو لوگ تم میں سے ایسا کریں ان کی سزا سوا اس کے اور کیا ہے کہ ذلت وخواری ہو اس دنیاوی زندگی میں اور قیامت کے دن دھکیل دیے جائیں گے نہایت سخت عذاب میں اور الله غافل نہیں ہے تمہارے کرتوت وکردار سے ۔“ ( سورہ بقرہ)
نیز ایمانی عہد کو توڑنے والے اور الله کے احکام کی خلاف ورزی کو پیشہ بنانے والے بنی اسرائیل کے متعلق فرمایا گیا ہے:
”ہم نے ان کی عہد شکنی کی سزا میں ان پر لعنت مسلط کی اور اپنی نظر رحمت سے ان کو دور کر دیا۔“
اور سورہٴ رعد میں قانون عام کے طور پر فرمایا گیا ہے ”اور جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ الله کا عہد مضبوط کرنے کے بعد پھر اسے توڑتے ہیں اور الله نے جن تعلقات کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان کو توڑ ڈالتے ہیں اور دنیا میں خرابی پھیلاتے ہیں، ان کے لیے لعنت وپھٹکار ہے اور ان کے واسطے بُرا ٹھکانا ہے۔“
مندرجہ بالا دونوں آیتوں میں جس ”نقض میثاق“ یعنی عہد توڑنے کا ذکر ہے، وہ یہی ہے کہ الله کی کتاب او راس کے رسول پر ایمان لانے او ران کے حکموں پر چلنے کے پختہ اقرارکے بعد پھر ڈھٹائی اور بے باکی سے ان کی خلاف ورزی اور نافرمانی کی جائے، جیسا کہ آج کل مسلمان قوم کی بہت بڑی تعداد کا حال ہے کہ الله اور رسول پر ایمان کے بلند بانگ دعوے اور اقرار کے باوجود زندگی کے ہر شعبہ میں یا اکثر وبیشتر شعبوں میں نافرمانی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ پس ازروئے قرآن یہ زندگی لعنت والی زندگی ہے اور اس دنیامیں اس کی سزا، الله کی مدد سے محرومی اور ذلت ورسوائی اور بے چینی کی زندگی ہے ۔سورہٴ طہ کی آیت ہے۔
”او رجولوگ روگردانی کریں اور بے رخی برتیں میری نصیحت سے ، ان کے واسطے زندگی ہے تنگی اور بے چینی کی۔“ ( سورہ طہ)
بہرحال ہم مسلمان اس وقت جن مصائب ومشکلات میں گرفتار ہیں اور بے عزتی اور بے چینی کی جو زندگی ہم پر مسلط ہے ، یہ الله تعالیٰ کے اسی قانون ”جزائے اعمال“ کا ظہور ہے، جس کا ذکر مندرجہ بالاآیات میں کیا گیا ہے، یعنی یہ سب ہماری ہی شامت اعمال او رخدا فراموشی کا نتیجہ ہے۔ ”ازماست کہ برماست“
ہرچہ بر تو آید از ظلمات وغم
آں ز بیبا کی وگستاخی است ہم
اور دراصل یہ الله تعالیٰ کی طرف سے ہم کو تنبیہ ہے، تاکہ ہم اپنی غلط روی پر متنبہ ہوں اور الله تعالیٰ کی بندگی وفرماں برداری کا راستہ اختیار کریں۔ قرآن مجید ہی میں فرمایا گیا ہے:
”اور ہم آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے ضرور ان کو چھکائیں گے اس سے کم درجہ کا عذاب ( اس دنیا ہی میں ) شائد کہ وہ باز آجائیں۔“ ( سورہ سجدہ)
پس اگر ہم اپنی خدا فراموشی او رنافرمانی سے باز آجائیں اور توبہ وانابت کے بعد ایمان واطاعت والی اصلی اسلامی زندگی اختیار کر لیں تو نہ صرف یہ کہ ہم مرنے کے بعد آنے والے آخرت کے عذاب سے بچ جائیں گے ، بلکہ پھر اس دنیا میں بھی الله تعالیٰ کا معاملہ ہمارے ساتھ بدل جائے گا اوراس کا فضل وکرم اور اس کی غیبی مدد ہم کومصیبتوں اور ذلتوں کے اس چکر سے بھی نکال دے گی جس میں ہم اس وقت گھرے ہوئے ہیں ۔ پھر الله تعالیٰ ہماری مصیبتوں کو راحتوں سے ، ہماری ذلت وپستی کو عزت وسرفرای سے اور ہمارے ضعف کو قوت سے اور ناتوانی کو توانائی سے بدل دے گا، یہ الله تعالیٰ کا وعدہ ہے اور قانون ”جزائے اعمال“ کا یہ دوسرا رخ ہے اور قرآن مجید میں اس کو بھی پوری تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے ۔ سورہٴ ہود کے بالکل شروع میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے اعلان کرایا گیا ہے:
”میں تمہیں انجام بد سے خبر دار کرنے والا ہوں او ربشارت سنانے والا ہوں او ر تمہیں میرا پیغام یہ ہے کہ اپنے گناہوں کی معافی چاہو اپنے رب سے ،پھر رجوع ہو جاؤ اسی کی طرف ( یعنی آئندہ کے لیے اس کی کامل اطاعت وفرماں برداری والی زندگی اختیار کر لو)، وہ تم کو خوش عیشی دے گا، ایک مقررہ وقت تک، یعنی تمہاری دنیوی زندگی کو بہتر بنا دے گا۔“ (سورہ ہود)
اور اسی سورہٴ ہود کی آیت ہے کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اگر تم استغفارو توبہ کرکے الله کی طرف رجوع ہو جا ؤ تو الله تعالیٰ تمہاری طاقت وقوت میں بھی بہت کچھ اضافہ کر دے گا۔“ ﴿ویزدکم قوة الی قوتکم﴾․ (ہود:5)
بہرحال قرآن مجید میں جس طرح الله تعالیٰ کا یہ دستور وقانون بیان فرمایاگیا ہے کہ الله تعالیٰ نافرمانی اور خدا فراموشی کی ( سزا میں قوموں کو اپنی مدد سے محروم کرکے مصیبتوں اور ذلتوں میں مبتلا کر دیتا ہے ، اسی طرح یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ جب کوئی قوم توبہ واستغفار کرکے الله کی طرف رجوع وانابت کی راہ اختیار کر لیتی ہے او را س کے احکام کی اطاعت وپیروی کو اپنی زندگی کا اصول بنا لیتی ہے تو الله تعالیٰ اس کو مصائب ومشکلات سے نجات دے دیتا ہے او راس کی ذلت کو عزت سے اور پستی کو بلندی سے بدل دیتا ہے ۔
آگے ہم قرآن مجید ہی سے الله تعالیٰ کے اس قانون ( یعنی جزائے اعمال) کے اسی دوسرے رخ کی مزید تفصیل وتوضیح کرنا چاہتے ہیں۔
قانون مجازات کا دوسرا رخ
قرآن مجید کا یہ خاص مضمون ہے او را س بارے میں اس قدر آیات ہیں کہ اس مختصر مقالہ میں ان سب کی گنجائش بھی نہیں ہے، تاہم جو آیتیں ذیل میں نقل کی جارہی ہیں، ہمارے مدعا کے لیے وہ بھی کافی ہیں ۔
”اور حق ہم پر ایمان والوں کی مدد کرنا ہے۔“ ( سورہ روم)
”یقینا الله تعالیٰ مدافعت کرے گا اپنے ایمان والے بندوں کی طرف سے ( یعنی دشمنوں کے مقابلہ میں ان کی حمایت کرے گا)، الله تعالیٰ خیانت کرنے والوں اور نہ ماننے والوں کو نہیں چاہتا۔“ ( سورہ حج)
اور اپنی کمزوریوں اور اسباب ووسائل کی کمی کے خیال سے ) ہمت نہ ہارو اور ( اب تک جو گزر چکا اس کا) غم نہ کرو ، تم ہی اونچے ہو گے اگر تم ہوایمان والے ۔“ ( سورہ آل عمران)
ان آیات میں ایمان والوں کی نصرت ومدد کا اور ان کو باعزت زندگی او ربرتری کا مقام عطا فرمانے کا جو وعدہ فرمایا گیا ہے وہ بالکل واضح اور صاف صریح ہے، لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ قرآن پاک میں ایسے موقعوں پر جہاں جہاں ”مومنین“ یا ”الذین آمنوا“ کے الفاظ آتے ہیں ( جن کا ترجمہ ”ایمان والوں “ سے کیا گیا ہے ) ان سے مراد وہ جماعت اور قوم ہوتی ہے جو الله تعالیٰ کی لاشریک الوہیت اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی رسالت پر حقیقی ایمان رکھتی ہو اور ان کی زندگی اس ایمان کے مطابق ہو ۔ لیکن اگر کسی قوم کا حال یہ ہو کہ وہ اپنے کو مسلمان تو کہتی ہو، مگر اس کی زندگی ایمان اور اسلامی زندگی نہ ہو ( جیسا کہ موجودہ مسلمان قوم کی عام حالت ہے ) تو وہ ان آیتوں کی مصداق نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے حسب حال تو وہ وعیدیں اور قہر کی وہ آیتیں ہیں ، جو اس سے پہلے عنوان کے تحت نقل کی جاچکی ہیں، جن میں دین سے بے اعتنائی برتنے والے اور خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والے مدعیان ایمان کو دنیا وآخرت میں ذلت وخواری کی سزا دینے کا اعلان فرمایاگیا ہے ۔
اس حقیقت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ مسلمان قوم خواہ کسی حال میں ہو اور اس کی دینی حالت خواہ کیسی ہی ہو ، بہرحال غیر مسلموں کے مقابلہ میں وہ الله کی مدد کی مستحق ہے ، حالاں کہ قرآن مجید سے تو صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ الله ورسول پر ایمان کا دعوی کرنے والی کوئی قوم جب اپنی بدا عمالیوں سے ایمانی عہد کو توڑتی ہے او رالله کے حکموں کے خلاف چلتی ہے تو کشمکش حیات میں وہ الله کی مدد سے محروم ہو جاتی ہے اوردنیا میں ذلت ورسوائی اس پر مسلط کر دی جاتی ہے، قرآن پاک میں ایمان والی قوم کے لیے غیبی مدد اور عزت وشوکت اور غلبہ وسلطنت کے جووعدے فرمائے گئے ہیں ان کا تعلق اسی قوم سے ہے او راسی جماعت سے ہے جو ایمانی زندگی او رایمانی اوصاف کی حامل ہو اور دوسری آیات میں ان ایمانی اوصاف کوبھی متفرق طور سے بیان فرما دیا گیا ہے، جن سے انسانی زندگی ، ایمانی او راسلامی زندگی بنتی ہے، بلکہ ان اوصاف ہی پر مدد اور نجات اور فلاح وترقی اور عزت وبالاتری کی وعدے فرمائے گئے ہیں ، جیسا کہ آئندہ درج ہونے والی آیتوں سے ظاہر ہے۔
”پس نماز قائم کرو اور ادا کرتے رہو زکوٰة او رمضبوطی کے ساتھ وابستہ ہو جاؤ الله سے، وہ تمہارا کارساز ہے، پس بڑا اچھاکار ساز اور بڑھا اچھامد دگار ہے۔“ ( سورہ حج)
”اور الله نے فرما دیا میں تمہارے ساتھ ہوں ( یعنی میرا فضل اورمیری مدد تمہارے ساتھ ہے ) اگر تم قائم کرتے رہے نماز اور ادا کرتے رہے زکوٰة اور ایمان لائے میرے رسولوں پر او ران کی تعظیم وتوقیر کرتے رہے او راپنا مال ودولت الله کے کاموں اور دین کی ضرورتوں میں خرچ کرتے رہے۔ “( سورہ المائدہ)
”اور یقینا الله تعالیٰ مدد گار ہو گا ان بندوں کا جو اس کے دین کی مدد کریں گے، بیشک الله تعالیٰ قوت اور غلبہ والا ہے ۔“ ( سورہ حج)
ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ کی مدد کی مستحق وہی قوم ہو سکتی ہے جس میں اقامت صلوة، ادائے زکوٰة، الله تعالیٰ سے وابستگی، اس کے رسولوں کی توقیر اور دین کی ضرورتوں میں مال ودولت خرچ کرنے او ردوسرے طریقوں سے بھی دین کی مدد کرنے کے اوصاف موجود ہوں۔
اور سورہ یونس میں ہے:
”جو لوگ ایمان لائیں اور تقوی اختیار کریں ان کے لیے (اچھی انعام والی زندگی) کی بشارت ہے، دنیا میں اور آخرت میں، الله کی باتیں یقینا پوری ہونے والی او راٹل ہیں ( دنیا اور آخرت میں انعام والی زندگی ملنا) یہ بڑی کامیابی ہے۔“ (سورہ یونس)
اور سورہ ابراہیم میں فرمایا گیا ہے:
”او رمنکروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے یا پھر تم ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔ تو ان رسولوں پر ان کے پروردگار نے وحی کی کہ ہم ان ظالموں ہی کو ہلاک کر ڈالیں گے اور ان کے بعد تمہیں اس سر زمین میں جگہ دیں گے ، یہ وعدہ ہے ان سب لوگوں کے لیے جو ہماری پیشی سے ڈریں اور ہماری وعید وتنبیہ سے خوف کریں۔“( سورہ ابراہیم)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ جس قوم میں تقویٰ او رنیکوکاری ہو تو الله تعالیٰ اس کے ساتھ ہے او رمشکلوں او رمصیبتوں سے اس کو نجات دلانے کا کفیل اور ضامن ہے ، نیز معلوم ہوا کہ اگر کوئی جماعت الله تعالیٰ کے محاسبہ اوراس کی وعیدوں اور تنبیہوں سے ڈرنے والی ہو او رکوئی ظالم قوم یا گروہ اس خدا ترس جماعت کو اپنے ملک سے نکالنا چاہے تو ایسے ظالم وجابرخود ہی ہلاک وبرباد کر ڈالے جائیں گے اور الله تعالیٰ اس صاحب تقوی اورخدا ترس جماعت کو ہی اس ملک کا وارث بنا دے گا۔
اور سورہ بقرہ میں فرمایا گیا ہے:
”اے ایمان والو! صبر وثبات او رنماز سے قوت پکڑو، یقینا الله ان کے ساتھ ہے جوصبر کرنے والے ہیں، یعنی جمنے والے اور برداشت کرنے والے ہیں ۔“ (سورہ بقرہ)
اور آل عمران کے خاتمہ میں ارشاد ہے:
”اے ایمان والو! مضبوطی سے ( حق پر اور حق کی راہ میں) جمے رہو اور جماتے رہو اور گھات میں لگے رہو اور الله سے ڈرتے رہو او راس کے احکام کی خلاف ورزی سے بچتے رہو، تاکہ تم فلاح پاؤ ۔“ (سورہ آل عمران)
ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ کی خاص مدد اور اس کے ذریعہ فلاح وکامیابی حاصل ہونے کے لیے صبر واستقامت اور راہ حق میں تکالیف کا برداشت کرنا اور حق پر جمے رہنا بھی ضرور ی ہے۔ یہاں تک جو آیات مذکور ہوئیں ان میں وہ اکثر واصاف آگئے ہیں جن سے درحقیقت ایمانی زندگی بنتی ہے، پس جو قوم اور جو جماعت اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرلے وہ الله تعالیٰ کی خاص غیبی مدد کی مستحق ہو جاتی ہے او رپھر تعداد کی قلت اور وسائل واسباب کی کمی اور کمزوری کے باوجود الله کی خاص مدد سے کشمکش حیات میں وہی غالب رہتی ہے او ربڑی سے بڑی طاقتیں اس کے مقابلہ میں شکست کھاتی ہیں، بلکہ پاش پاش ہو جاتی ہیں ، یہ قوم اور یہ جماعت الله کی جماعت ہوتی ہے او رالله تعالیٰ کی بے پناہ غیبی قوتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں ، جب تک کہ وہ اپنے ان اوصاف پر قائم رہے۔ ارشاد ہے:
”اور جو ساتھ پکڑ لیں الله کا اور اس کے رسول کا او رایمان والوں کا تو بس الله کی یہی جماعت غالب آنے والی ہے۔“ ( سورہ صافات)
ایسی جماعت اور ایسی پارٹی کے لیے الله تعالیٰ کا صریح اور قطعاً غیر مشتبہ اعلان ہے۔
”یقینا ہمارا ہی لشکر غالب رہنے والا ہے ۔“ ( سورہ صافات)
بہرحال الله تعالیٰ کے یہ وعدے صرف مسلمان کہلانے والی کسی قوم سے نہیں ہیں ،بلکہ ایمانی زندگی رکھنے والی قوم او رایمانی اوصاف کی حامل جماعت سے ہیں اور قیامت تک کے لیے ہیں اور دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس دور میں بھی کوئی قوم اور جماعت ایمانی اوصاف کی حامل ہوئی تو دنیا کے معرکوں میں الله تعالیٰ نے ہمیشہ اس کی مدد فرمائی ہے اور وہ اپنی تعداد کی کمی اور بے سروسامانی کے باوجود اپنے دشمنوں کی بڑی بڑی مسلح فوجوں پر غالب آئی ہے اور جس حکومت یا طاقت نے بھی اس کو مٹانا چاہا ہے وہ خود مٹ گئی ہے ۔ قرآنمجید کی شہادت ہے :
”او رکتنی ہی کم تعداد والی جماعتیں غالب آئی ہیں بڑی تعداد رکھنے والی جماعتوں پر، الله کے حکم سے۔“
یہ تو قرآن مجید نے اگلے زمانوں کے مومنین صادقین کے متعلق بتلایا ہے او رخود امت محمدیہ جب ایمانی اوصاف کی پوری طرح حامل تھی تو اس کے ساتھ الله تعالیٰ کے یہ وعدے جس طرح پورے ہوئے اسلامی تاریخ سے معمولی واقفیت رکھنے و الا ہر شخص بھی اس کو اچھی طرح جانتا ہے۔
بہرحال اگر قرآن مجید پر ہمارا ایمان ہے اور اسلامی تاریخ سے ہم بالکل بے خبر نہیں ہیں تو اس حقیقت میں ہم کو کوئی شک نہ ہونا چاہیے کہ کسی قوم اور جماعت میں اگر ایمان والی زندگی اور ایمانی اوصاف موجود ہوں تو اپنی تعداد کی کمی او راسباب ووسائل میں کمزوری کے باوجود اس دنیا کی مشکلوں اور مصیبتوں سے بھی نجات پاسکتی ہے اور باعزت زندگی اور اقتدار کا مقام بھی اس کو حاصل ہو سکتا ہے، بلکہ حاصل ہونا ضروری اور یقینی ہے ، یہ الله کا اٹل وعدہ اور اس کا نہ بدلنے والا قانون ہے۔﴿ولن تجد لسنة الله تبدیلاً﴾․
اب ہم سوچیں اور فیصلہ کریں کہ اس وقت مسلمانوں کے لیے جو مشکلیں او رمصیبتیں درپیش اور مدت دراز سے جو ذلت وپستی ان پر چھائی ہوئی ہے اور دوسری زبردست قوموں اور بڑی طاقتوں کے مقابلوں میں جوکمزوری اور بیچارگی تمام دنیا کے مسلمان محسوس کر رہے ہیں ، اس کے علاج کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح صرف سیاسی تدبیروں اور مادی کوششوں سے اس صورت حال کو بدلنے کی جدوجہد کی جائے۔ ہم کو اس سے انکار نہیں کہ یہ بھی ایک طریقہ ہے او رواقعہ ہے کہ آج ساری دنیا اسی طریقہ پر چل رہی ہے او رمختلف ملکوں کے مسلمان بھی صدیوں سے اسی راہ پر گام زن ہیں۔
لیکن غالباً آپ کو بھی اس میں شبہ نہ ہو گا کہ صرف سیاسی تدبیروں او رمادی کوششوں کے اس راستہ سے پوری کامیابی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ آپ کی تدبیریں اور آپ کی کوششیں نہ صرف یہ کہ صحیح رخ پر ہوں بلکہ مخالف تدبیروں اور کوششوں سے زیادہ مؤثر اور طاقت ور ہوں ، جنہوں نے اس قسم کے مسائل پر غور کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ الله تعالیٰ کا عام تکوینی قانون بڑا بے لاگ او رانتہائی غیر جانب دار ہے۔ اور خاص اسبابی او رمادی معرکوں میں کامیابی اور بالاتری صرف اسی فریق کو حاصل ہو سکتی ہے جس کی طاقت اور جس کا وزن زیادہ ہو او رجس کی تدبیر اعلیٰ ہو۔
پس اگر آپ اسی راستہ پر چل کر صرف سیاسی تدبیروں اور اسباب کی کوششوں کے ذریعہ دنیا کے اس میدان میں کامیابی اور بالاتری حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا امکان جب ہی ہے کہ آپ کی تدبیر اور آپ کی طاقت دنیا کی ان دوسری طاقتوں سے بالاتر ہو، جن سے آپ کا سابقہ ہے اور ظاہر ہے کہ موجودہ حالات میں اس کی امید دور تک نہیں کی جاسکتی۔ علاوہ ازیں اگر ہماری موجودہ مصیبتیں اور ذلتیں اور ہمارا یہ ضعف وزوال، ہماری بداعمالی اور نافرمانی کی سزا ہے، جیسا کہ قرآن مجید کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے، جو اس سے پہلے عنوان کے تحت ذکر کی جاچکی ہیں تو ظاہر ہے کہ ہماری تدبیریں اور کوششیں اگر بالفرض انتہائی درجہ کی بھی ہوں گی تب بھی ناکام ہی رہیں گی، تاوقتیکہ توبہ وانابت اور اصلاح سیرت کے ذریعہ ہم الله کے قہر وغضب سے نجات حاصل نہ کر لیں اور الله کی رحمت ونصرت کے مستحق نہ ہو جائیں ۔
الغرض اس دنیا میں بھی تباہیوں اور بربادیوں سے بچنے اور ذلتوں سے نجات پانے اور عزت وبالاتری کا مقام حاصل کرنے کے لیے ہم مسلمانوں کے سامنے ایک راستہ تو صرف سیاسی تدابیر اور مادی کوششوں کا ہے، جس میں بظاہر دور تک کامیابی کا کوئی خاص امکان نظر نہیں آرہا ہے اور آفتاب امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی ہے او رمختلف ممالک کے مسلمان مدتوں سے اس راستہ پر تگ ودو کرنے کے باوجود اقوام عالم میں کوئی نمایاں او رممتاز مقام آج تک حاصل نہیں کر سکے ہیں، بلکہ اگر آپ مسلمانوں کے ضعف وزوال کی تاریخ پر نظر ڈالیں گے تو معلوم ہو گا کہ جب سے انہوں نے اپنا اصلی راستہ چھوڑ کر دنیا کی خدا ناشناس قوموں کی تقلید میں یہ خالص مادہ پرستانہ طریقہ اختیار کیا ہے اس وقت سے انہوں نے کھویا ہی کھویا ہے ، پایا کچھ بھی نہیں ۔ اگرچہ اپنی نظر سے وہ سمجھتے ہوں کہ انہوں نے کچھ پایا بھی ہے۔
دوسرا طریقہ ہمارے سامنے انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین کا ہے ،جو قرآن مجید کی آیات بینات او رانبیاء علیہم السلام کے اسوہٴ حسنہ سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے، کہ ہم صرف سیاسی تدبیروں اور مادی کوششوں ہی کو فیصلہ کن چیز نہ سمجھیں، بلکہ یقین کریں کہ الله تعالیٰ کی مدد اور اس کی مشیت ہی اصل فیصلہ کن چیز ہے او رایمانی زندگی والی قوم او رایمانی اوصاف رکھنے والی جماعت کی نصرت ومدد کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ لہٰذا قوم میں اس ایمانی زندگی کو پیدا کرنے اور پھیلانے کی پوری جدوجہد کریں اور الله تعالیٰ کے حکم اور انبیاء علیہم السلام کی ہدایت وتعلیم کے مطابق اسی کو اصل مقصد اور نسب العین بنائیں اور پھر اسی نصب العین کے ماتحت اور اس کے تقاضوں کے مطابق مشکلات ومصائب سے نجات اور قوت وطاقت حاصل کرنے کے لیے اپنی امکان بھر سیاسی تدبیریں او رکوششیں بھی کریں اور ان تدبیروں او رکوششوں میں بھی کوئی دقیقہ اپنی طرف سے اٹھا نہ رکھیں اور الله تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد رکھیں کہ ان کوششوں کو وہ اپنی خاص مدد سے کام یابی تک پہنچائے گا۔ یہ دوسرا طریقہ ہے اور اس میں کام یابی اور فتحیابی کا دار ومدار صرف تدبیروں اور کوششوں پر نہیں ہوتا بلکہ الله تعالیٰ کی مدد پر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس راستہ پر چلنے والوں کی تدبیریں اگر کچھ کمزور بھی ہوں اور دشمنوں کے مقابلہ میں ان کی تعداد کم اور ان کے وسائل ناقص بھی ہوں، تب بھی الله تعالیٰ کی خاص نصرت ومدد سے و ہ کام یاب اور فتحیاب ہو جاتے ہیں۔
پس دورحاضر کے مسلمانوں کے سامنے یہ دونوں راستے کھلے ہوئے ہیں۔ پہلا راستہ خدا ناشنا سوں اور مادہ پرستوں کا ہے اور دوسرا انبیاء علیہم السلام کا اور ان کے پیروؤں کا ہے۔ پہلے پر چل کر کامیابی جب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب کہ ہماری تدبیریں اور ہماری کوششیں اور ہمارے وسائل، دوسری قوموں کے مقابلہ میں ہر حیثیت سے زیادہ ہوں، جس کا بظاہر دور تک امکان نہیں اور دوسرے راستے پر چلنے کی صورت میں تدبیروں اور کوششوں میں بہ نسبت دوسروں کے اگر کچھ کمی بھی رہے تب بھی الله تعالیٰ کی خاص مددسے کامیابی کا حصول ان شاء الله یقینی ہے، بشرطے کہ قوم ایمانی زندگی اور ایمانی اوصاف کی حامل ہو۔
اور سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ پہلے راستے پر چل کر اگر بالفرض کچھ کامیابی بھی ہوئی تو وہ قوم کو صرف اس دنیا ہی کی کچھ مصیبتوں او رمشکلوں سے چند روز کے لیے نجات دلا دے گی ، مگر آخرت کا معاملہ اپنی جگہ رہے گا، بلکہ اس راستے پر چل کر شاید ہم اور زیادہ الله کے غضب او راس کی گرفت کے مستحق ہو جائیں گے، کیوں کہ ہم نے مغضوبین وضالین کا راستہ اختیار کیا۔
لیکن دوسرے راستے پر چل کر دنیا میں ”کامیابی“ حاصل ہونے سے بھی پہلے ہم الله کی رضا کے مستحق اور آخرت کی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی میں جنت کی لازوال نعمتوں کے حق دار ہو جائیں گے، جن میں سے کسی ایک نعمت کی قیمت بھی یہ پوری دنیا نہیں ہو سکتی۔ کاش ہم دنیا اور آخرت اور الله کی رضا او راس کے غضب او رجنت ودوزخ کی حقیقت کو جان لیتے۔

Flag Counter