Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1431ھ

ہ رسالہ

8 - 17
***
خود کشی حرام ہے
مفتی محمد جعفر ملی رحمانی

زندگی اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے اور اس نعمت کی قدر دانی یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی، زندگی عطا کرنے والے کے احکام کے مطابق گزار کر اپنے آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کی سعادت مندی ونیک بختی کا مستحق بنائے۔
انسانی زندگی میں حوادث وانقلابات کا آنا، اس کی زندگی کا لازمہ ہے، کیوں کہ انسانی حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے، بلکہ وہ انقلاب پذیر ہوا کرتے ہیں، اسی لیے وہ متضاد قسم کے احوال سے دوچار ہوا کرتا ہے، کبھی خوشی تو کبھی غم ، کبھی ہنسنا تو کبھی رونا، کبھی نفع تو کبھی نقصان، کبھی ترقی تو کبھی تنزلی، کبھی سفر تو کبھی حضر، کبھی سونا تو کبھی جاگنا، کبھی کامیابی تو کبھی ناکامی، غرض یہ کہ انسانی زندگی میں مثبت ومنفی (Negative&positive) حالات وواقعات کا تسلسل جاری رہتا ہے، جو اس کے خالق ومالک کی مشیت وچاہت اور اس کے قضا وقدر کا حصہ ہے ، کیوں کہ ہمارا عقیدہ ہے :﴿قل لن یصیبنا إلا ما کتب اللہ لنا، ہو مولٰنا وعلی اللہ فلیتوکل الموٴمنون﴾․
آپ کہہ دیجیے کہ ہم پر کچھ بھی پیش نہیں آسکتا ،مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے، وہ ہمارا مالک ہے ، اور اللہ ہی کا سہارا اہل ایمان کو رکھنا چاہیے ۔“ (سورة التوبة: 51)
اسی کو علامہ طحاوی نے اپنے ان الفاظ میں بیان کیا:”وکل شيٴ یجری بقدرتہ، ومشیتہ تنفذ، لا مشیة للعباد“۔ کہ پوری کائنات کے احوال وکوائف کی تبدیلیوں میں اسی کی قدرت ومشیت کارفرماہے ۔(عقیدة الطحاوی: 45)
انسان کبھی کبھی سخت حالات ومصائب میں گھر جاتا ہے اور ان حالات سے تنگ آکر بجائے اس کے کہ وہ ان حالات کے پیدا کرنے والے کی طرف نماز، دعا اور استغفارکے ذریعہ رجوع کرے، خود کشی کا فیصلہ کرلیتا ہے، اور یوں سمجھتا ہے کہ جب زندگی ہی ختم ہوجائے گی تو یہ مصائب وحالات بھی باقی نہیں رہیں گے، جب کہ اس کا یہ فیصلہ خدائی فرمان :﴿ولا تقتلوا أنفسکم إن اللہ کان بکم رحیماً ﴾․ (نہ خون کرو آپس میں بے شک اللہ تم پر مہربان ہے) ۔(سورہٴ نساء : 29) اور اس کی قضا وقدر سے بغاوت کے مترادف ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو ہمیشہ کی تکلیفوں میں جھونکنا ہے، جیسا کہ حضرت جندب کی روایت سے مفہوم ہوتا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص کو کوئی زخم تھا، اس نے اس کی تاب نہ لاکر خود کشی کرلی، تو اللہ رب العزت نے فرمایا : میرے بندے نے مجھ سے آگے نکلنے کی کوشش کی اور میرے اس کی روح نکال لینے تک صبر سے کام نہیں لیا، اس کے اس عمل کی وجہ سے میں نے اس پر جنت کو حرام کردیا۔“ (بخاری شریف: 1/182)
گزشتہ دنوں دسویں وبارہویں جماعت کے کئی طلبہ وطالبات نے محض امتحان میں ناکامی کے اندیشہ سے خود کشی کرلی، جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ تعلیمی سال کے آغاز سے ہی پابندی کے ساتھ اسکول وکالج جاتے، اسباق سمجھتے، ہوم ورک (Homework)کرتے اور سالہائے گذشتہ کے سوالی پرچوں کو حل کرتے تو یہ نوبت ہی نہیں آتی، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور محض ناکامی کے اندیشہ سے خودکشی کرلی،جب کہ انہیں اس طرح کا اقدام نہیں کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے، کہ انسان کے تمام اندیشے غلط ثابت ہوجاتے ہیں، جیسا کہ فقہ کا قاعدہ ہے:﴿ أکثر ما یخاف لایکون﴾کہ اکثر وبیشتر انسان جس چیز کا اندیشہ کرتا ہے، وہ وقوع پذیر نہیں ہوتی ۔ (قواعد الفقہ: 62، قاعدہ نمبر: 47)
میں سمجھتا ہوں کہ طلباء کے خود کشی کے واقعات میں جہاں محکمہٴ تعلیم ذمہ دار ہے، کہ اس نے اپنے نصاب میں اخلاقیات اور قضا وقدر سے متعلق مضامین کو داخل نہیں کیا، یا طلباء کی حاضری اورتعلیم سے ان کی دلچسپی پر توجہ نہیں دی، وہیں والدین بھی اس ذمہ داری میں برابر کے شریک ہیں، کہ انہوں نے اس جانب ذرا بھی خیال نہیں کیا، کہ ان کے بچے برابر اسکول وکالج جارہے ہیں یا نہیں، جو اسباق ومضامین ان کو پڑھائے جارہے ہیں وہ انہیں سمجھ بھی پارہے ہیں یا نہیں اور ہوم ورک (Homework) وغیرہ میں ان کی حالت کیا ہے؟
محکمہٴ تعلیم کو ہمارا یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ جہاں اپنے نصاب میں جدید علوم وفنون کو داخل کررہے ہیں، وہیں وہ اخلاقیات اور قضا وقدر سے متعلق مضامین کو بھی داخلِ نصاب کریں، کیوں کہ اس طرح کے مضامین کو پڑھنے سے انسان میں حوادث وواقعاتِ غیر مرضیہ کے اثرات کے دفاع کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور وہ بڑی حد تک ان اثرات کا متحمل ہوجا تا ہے۔
اسی طرح طلباء وطالبات کے والدین وسرپرستوں کو بھی یہ مشورہ ہے کہ وہ ان کی تعلیمی وتربیتی بھر پور نگرانی رکھیں اور عقائد اسلام اور اس کی تعلیمات سے ان کو روشناس کرائیں اور ان کے قلب ودماغ میں اس بات کو اچھی طرح سے بٹھا دیں، کہ خود کشی شرعاً حرام ہے اور حقیقةً وہی انسان کامیاب ہے جو حوادث وواقعات میں صبر سے کام لے کر، اپنی منزلِ مقصود کی طرف اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔
جن طلباء وطالبات نے دسویں یا بارہویں جماعت کے امتحانات دیے، اور اب بہت جلد ان کے نتائج بھی سامنے آنے والے ہیں، ان کے لیے یہ نصیحت ہے کہ نتائج کے اچھے آنے پر وہ خدا کا شکر بجا لائیں اور اپنی تعلیمی صلاحیتوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ معیار پر پہنچانے کے لیے نئے عزم وحوصلے کے ساتھ آگے کا تعلیمی سفر جاری رکھیں، کیوں کہ وہی ہماری قوم کا مستقبل ہیں اور جو طلباء وطالبات ناکام ہوں، وہ مایوس نہ ہوں ، بلکہ اپنے طرزِ زندگی پر نظر ثانی کرلیں اور کن وجوہات کی بنا پر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، ان کا جائزہ لیں اور ان کے تدارک وتلافی کے لیے از سرِ نو پوری طرح سے اپنی محنت صرف کریں، امید ہے کہ وہ بھی ضرور کامیابی سے ہم کنار ہوں گے، کیوں کہ انسان جب اپنے نقصان وخسارے کی وجوہات معلوم کرلیتا ہے تودوبارہ یہ وجوہات صادر نہ ہوں، اس کی پوری کوشش کرتا ہے، تو یقیناً کامیابی اس کے قدم چومتی ہے اور یہی خدائی ضابطہ بھی ہے، ﴿إن اللہ لایضیع أجر المحسنین﴾ ۔ بے شک اللہ تعالی نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے ۔

Flag Counter