Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1431ھ

ہ رسالہ

2 - 17
***
علما اور طلبہ کے لئے لمحہ فکریہ
تحریر وترتیب: ابورفیدہ عارف محمود، متخصص فی الفقہ جامعہ فاروقیہ کراچی
جامعہ فاروقیہ کراچی میں14 رجب المرجب1431ھ بمطابق16 جون2010ء بروز بدھ ختم بخاری شریف کےموقع پر حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا علما وطلبہ سے فکر انگیز خطاب
بخاری شریف کے آخری سبق کے موقع پر خواجہ مولانا خلیل احمد صاحب دامت برکاتہم کی تشریف آوری ہمارے لیے انتہائی خوشی اور مسرت کا سبب بنی، آپ حضرت خواجہ خواجگان حضرت مولانا خان محمد صاحب رحمة الله علیہ کے خلف الرشید ہیں ، آپ کے جانشین ہیں، وہ کراچی آئے ہوئے تھے ، ہم نے ان سے درخواست کی کہ وہ آج کی اس مبارک محفل میں شرکت فرمائیں، انہوں نے ہم پر احسان کیا اور ہماری دعوت کو قبول کیا اور الحمدلله! کہ اس وقت وہ ہمارے اس مجمع میں تشریف فرما ہیں، میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ آخری سبق بھی وہی پڑھائیں ، لیکن انہوں نے اس سے معذرت کر لی اور اصرار بے فائدہ سمجھ کر ہم نے ان کی معذرت کو قبول کر لیا، بہرحال میں اپنی طرف سے، جامعہ کے اساتذہ وطلبہ اور انتظامیہ کی طرف سے حضرت خواجہ مولانا خلیل احمد صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
حضرت مولانا خان محمد صاحب رحمة الله علیہ ”دارالعلوم دیوبند“ کے فاضل تھے اورامام اہلسنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمة الله علیہ وہ بھی ”دارالعلوم دیوبند“ کے فاضل تھے اور الله تبارک وتعالیٰ نے ان کی کرامت کا فیض ایسا مبارک کیا کہ ایک طرف حضرت مولانا خان محمد صاحب کو الله تبارک وتعالی نے اسلام کی خدمت کرنے کے لیے اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جو توفیق مرحمت فرمائی وہ اپنی جگہ پر معروف ہے، معلوم ہے ۔ حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمة الله علیہ کو بھی اہلسنت والجماعت کے معتدل مسلک، جس کو ” مسلک علمائے دیوبند“ بھی کہا جاتا ہے ، اس کی خدمت کی بہترین اور اعلیٰ درجے میں توفیق عطا فرمائی۔ حضرت خواجہ خان محمد صاحب رحمة الله علیہ سے احقر کا تعلق قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے، حضرت کے خطوط بھی میرے پاس آتے رہے ہیں، کئی مرتبہ حضرت والا کی خدمت میں وہاں حاضری کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ حضرت مولانا ( خواجہ خان محمد صاحب رحمة الله علیہ) کا ایک خاص امتیاز تھا اخفائے حال کا، وہ جس مرتبے پر فائز تھے ، الله تبارک وتعالیٰ نے جو مقامِ بلند ان کو عطا فرمایا تھا اس کے اخفاء میں انہوں نے اتنی کوشش کی ، اتنی کوشش کی ، آپ یوں سمجھیے کہ گفتگو کرنا ہی ختم کر دیا، وہ نہ کہیں بات فرماتے تھے ، نہ کہیں تقریر کرتے تھے ، نہ کہیں مضمون کی اشاعت کرتے تھے اور وہ خاموش رہتے تھے ، بالکل خاموش ، ان کی بارگاہ میں حاضری دینے والوں کی جماعت ، وہ سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہوتی تھی اور وہ سب کے لیے دعائے خیر فرماتے تھے ، تو گویا ان کا ایک نمایاں مقام اور نمایاں، ”امتیاز“ اخفائے حال کا تھا۔
لوگ اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لیے کیا کیا جتن کرتے ہیں اورکیا کیا طریقے اختیار کرتے ہیں ، لیکن وہاں ان طریقوں کو یکسر نظر انداز کرکے وہ ”اخفاء“ کا اہتمام کرتے تھے دوسرا ایک امتیاز جو میں نے محسوس کیا وہ یہ کہ وہ اپنے اوقات کے بہت سختی سے پابند تھے ، ان کے ہاں یہ نہیں ہوتا تھا کہ کسی کام کے لیے کوئی وقت مقرر کیا گیاہو اور پھر اس میں آدھے گھنٹے کی تاخیر ہو رہی ہو ، یا ایک گھنٹے کی تاخیر، وہ وقت کی پابندی بہت اہتمام سے فرماتے تھے ، اس کے علاوہ تیسری ایک بات میں نے یہ محسوس کی کہ وہ بہت حاضر دماغ انسان تھے ، ان کا دماغ بہت متیقظ تھا اور وہ غفلت کا شکار کبھی نہیں ہوتے تھے، یہاں چوں کہ مجھے کوئی تفصیلی گفتگو ان کے حوالے سے نہیں کرنی ہے ، اس لیے اپنے چند تاثرات کامیں نے آپ کے سامنے ذکر کیا، اخفائے حال کا بہت زیادہ اہتمام تھا، وقت کی پابندی بہت اہتمام سے فرمایا کرتے تھے ، اس کے علاوہ حالات حاضرہ سے بے خبر نہیں رہتے تھے، حالات کا گویا ان علم کو ہوتا تھا۔
مولانا سرفراز خان رحمة الله علیہ وہ امام اہلسنت کے مقام پر فائز ہوئے ،الله نے ان کو جیسی اسلام کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی ، وہ آپ حضرات کے علم میں ہے مولانا سرفراز خان صفدر رحمة الله علیہ علمائے دیوبند کے ساتھ اپنی وابستگی کا جس قوت کے ساتھ اظہار فرماتے تھے اس کا ان کے ایک ارشاد سے اندازہ ہوتا ہے ، فرماتے ہیں کہ اگر کسی مسئلے میں تحقیق کروں اور تحقیق بلیغ کے بعد کسی ایک نکتہ نظر اور کسی ایک رائے پر میں پہنچ جاؤں، تحقیق بھی خوب کی اور تحقیق خوب کرنے کے بعد پھر ایک رائے بھی میری بن گئی اور اس رائے کے بعد پھر میں نے یہ دیکھا کہ علمائے دیوبند کی رائے سے میری رائے میں ذرا سا اختلاف اورذرا سا تفاوت ہے تو میں اپنی رائے کے کاغذ کو پھاڑ کر پھینک دوں گا اور علمائے دیوبند نے جو رائے دی ہے اس کو اختیار کروں گا، کتنی قوت کے ساتھ انہوں نے یہ بات کہی، آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ان کی تحقیق کا عالم یہ تھا کہ وہ کوئی بات بغیر حوالہ کے نہیں کرتے تھے اور حوالے کے لیے بعض اوقات ساری ساری رات گزر جاتی تھی حوالہ تلاش کرنے میں اور جب تک وہ حوالہ نہیں مل جاتا تھا ان کو تسلی اور اطمینان نہیں ہوتا تھا۔
اور ایسا محقق جب ایک رائے قائم کرتا ہے ، اس رائے کے اوپر اس کو اعتماد بھی ہوتا ہے ، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر میری رائے علمائے دیوبند کی رائے سے مختلف ہو گی تو میں اپنی رائے پھاڑ کر پھینک دوں گا اور علمائے دیوبند نے جو فیصلہ کیا ہے اسی کو اختیار کروں گا۔
حضرت مولانا سرفراز خان رحمة الله علیہ کا قرآن کریم کے ساتھ جو شغف تھا اس کا بھی آپ کو علم ہو گا ، اپنی مسجد کے اندر بھی درس دیتے تھے ، اسی طرح ”دارالحدیث“ میں آکر حدیث کا سبق شروع کرنے سے پہلے قرآن کریم کا درس دیتے تھے اور سالانہ بھی ان کے ہاں درس کا اہتمام ہوتا تھا، بڑی الله نے ان سے خدمت لی ہے۔ تو یہ دونوں حضرات سن45 میں دارالعلوم دیوبند سے فراغ ہو کر آئے او رہم دارالعلوم میں داخل ہوئے ، ان حضرات کی واپسی ہو رہی تھی اور ہم دارالعلوم میں گویا پہنچ رہے تھے۔ ان دونوں حضرات نے دارالعلوم میں ایک ایک سال گزارا اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة الله علیہ سے استفادہ کیا، ہم نے پانچ سال دیوبند کے اندر گزارے اور الله تبارک وتعالی نے ہمیں یہ موقع عطا فرمایا کہ حضرت سے ہم نے بخاری شریف مکمل اور ترمذی شریف کی جلد اول پڑھی ، یہ سعادت الله تبارک وتعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی آج یہ بخاری شریف کی آخری حدیث کا بیان ہے ، امام بخاری نے یہ باب قائم کیا ہے ”ونضع الموازین القسط لیوم القیامة“ سورہ انبیاء کی آیت ہے ﴿ونضع الموازین القسط لیوم القیامة فلا تظلم نفس شیئاً وان کان مثقال حبة خردل اتینا بھا وکفیٰ بنا حاسبین﴾․
تنبیہ اس بات پر کی جاری ہے کہ کہ قیامت میں اعمال کا وزن ہو گا اور الله تبارک وتعالی وہاں بندوں کے اعمال کا حساب لیں گے اور ظاہر ہے کہ الله کے حساب لینے میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ، غلطی کا کوئی احتمال نہیں ، تو آدمی اگر اپنے ذہن میں یہ بات مستحضر رکھے اور اس کے ذہن میں یہ بات موجود ہو کہ مجھے قیامت میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے او رحساب لینے والے الله تبارک وتعالیٰ ہوں گے ، تو ظاہر ہے کہ پھر وہ نیکیوں کا اہتمام زیادہ کرے گا، اس حساب میں یہی تو ہو گا کہ اگر نیکیاں غالب آجائیں گی تو کامیاب قرار دیا جائے گا، نیکیاں اگر مغلوب ہو جائیں گی تو ناکامی ہو گی ، تو جب آدمی کے ذہن میں یہ بات ہو گی کہ الله حساب لیں گے اور اس حساب کے اندر غلطی کا کوئی امکان نہیں ، تو وہ اس بات کا اہتمام کرے گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائے اور اپنے نامہٴ اعمال میں نیکیوں کو جمع کرے۔
قرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ جب کوئی حکم بیان کرتا ہے ، تو اس حکم کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو انجام دینے کی شکل بھی بیان کرتا ہے ، یہاں پر یہ بتلایا گیا ہے کہ وزن ہو گا ، یقینی بات ہے کہ وزن ہو گا، وزن میں کامیاب ہونے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے؟ وزن کے اندر کامیابی کی کیا صورت ہونی چاہیے ؟ تو اس کے لیے بتایا کہ یہ خیال رکھو اور دل میں یہ بات جمالو کہ الله حساب لیں گے ، جب آپ یہ خیال کر لیں گے کہ الله حساب لیں گے تو آپ اپنے اعمال کو صحیح کرنے کی اور درست رکھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں گے۔
یہاں یہ ”وکفی بنا حاسبین“ کا جملہ اس بات پر گویا متوجہ کر رہا ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیاہ نیکیوں کا اہتمام ہونا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ ہم آج فارغ التحصیل ہو رہے ہیں، آپ کی دستار بندی ہو رہی ہے ، یہ دستار بندی کوئی ایسی ہی رسم نہیں ہے ، اس دستار بندی کے ذریعے سے آپ کے اساتذہ اپنا اعتماد ظاہر کرتے ہیں کہ اب یہ ہمارے نزدیک معتبر لوگ ہیں ، آپ کے اساتذہ دستار بندی کے ذریعے آپ کو اپنا معتمد بتلاتے ہیں کہ یہ ہمارے معتمد ہیں، ہم نے ان کوتعلیم دی ہے ،ہم نے ان کی تربیت کی ہے ، اس تعلیم وتربیت کے ذریعے سے الحمدلله! اب یہ اس قابل ہو گئے ہیں کہ ہم اپنے اعتماد کا ان پر اظہار کریں ،یہ خالی رسم نہیں ہے ، یہ اعتماد ظاہر کرنے کے لیے ہے ، اب یہ آپ کی ذمے داری ہے کہآپ پر جواعتماد کیاگیا ہے، آپ اس میں سچے ثابت ہوں ، آپ پر جو اعتماد کیا گیا ہے، آپ اس اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائیں، آپ اس اعتماد کو مجروح نہ کریں، اپنی زندگی ایسی بنائیں کہ آپ واقعی صحیح معتمد اور صحیح قابلِ اعتمادبن سکیں۔
تو ہم یہ عرض کرنا چاہ رہے تھے کہ قرآن مجید میں اس طریقے سے موجودہ آیت کے اندر جو ”وکفیٰ بنا حاسبین“ ارشاد فرماکر اس طرف متوجہ کیا ہے اس کفیٰ بناحاسبین کو ذہن میں رکھو اور اس کو ذہن میں رکھ کر عمل کرو، جب آپ اس کو ذہن میں رکھ کر عمل کریں گے تو یقینا اچھے کام کریں گے، یقینا الله کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ الله تبارک وتعالیٰ آپ کو اس اعتماد میں سچا ثابت کرے اور اس اعتماد کے مطابق الله تبارک وتعالیٰ صحیح وبہتر ثابت کرے۔
آپ کو معلوم ہے کہ آج کل فتنے کا زمانہ ہے اور فتنے بھی ایسے ہیں کہ ”من تشرف لھا تستشرفہ“ اگر کوئی آدمی گردن اُٹھا کر فتنے کی طرف دیکھتا ہے تو وہ فتنہ اس کو اچک لیتا ہے اور وہ فتنہ اس کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ، ”من تشرف لھا تستشرفہ“ اگر آپ نگاہ اس کی طرف ڈالیں گے تو وہ آپ کو کیچ کر لے گا، وہ آپ کو اپنی گرفت میں لے لے گا، یہاں آپ مدرسے کے اندر موجود ہیں اور اسی طرح ہمارے بہت سے احباب اور بہت سے طلبہ مدارس کے اندر موجود ہیں ، جہاں الله تبارک وتعالیٰ نے ان کی حفاظت کا سامان عطا فرمایاہے، باہر جاؤ تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کتنے فتنے ہیں او رکس قدر ہیں او رکتنے عام ہیں اور کس طرح انہوں نے لوگوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ، بری حالت ہے!
بہر حال امام بخاری رحمہ الله نے کتاب العلم میں ایک ترجمہ قائم کیا ہے ”باب قولہ تعالیٰ انما یخشی الله من عبادہ العلماء“ انما کلمہ حصرہے، انما یخشی الله من عبادہ العلماء خشیت صرف علما کو حاصل ہوتی ہے ۔
خشیت اس خوف کو کہتے ہیں جو عظمت کے ماتحت ہوتی ہے، آدمی اپنے استاد سے ڈرتا ہے او راستاد کی عظمت بھی اس کے دل میں ہوتی ہے ، آدمی اپنے باپ سے ڈرتا ہے او رباپ کی عظمت بھی اس کے دل میں ہوتی ہے، تو خشیت کے لیے لازم ہے کہ وہ عظمت کے ساتھ ہو ، وہ خوف جو عظمت کے ساتھ ہو اور یاد رکھو! کہ جب عظمت کے ساتھ خوف آئے گا تو محبت بھی آئے گی کہ آپ اپنے باپ سے ڈرتے ہیں اس کی عظمت کے پیش نظر آپ کو باپ سے محبت بھی ہوتی ہے ، آپ استاد سے ڈرتے ہیں اس کی عظمت کے پیش نظر اور آپ کے دل میں استاد کی محبت بھی ہوتی ہے ۔
ایک خوف ہوتا ہے سانپ سے ، وہاں عظمت کا کوئی سوال نہیں ، سانپ سے آدمی اس لیے ڈرتا ہے کہ وہ کاٹ لے گا ، وہ کاٹ لے گا میں مر جاؤں گا، اس طرح آدمی کسی ظالم سے ڈرتا ہے اس لیے کہ وہ ظلم کرے گا ، مجھے نقصان پہنچائے گا ، تو وہ خوف جو ہے اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ عظمت ہو ، ظالم کا خوف ہوتا ہے عظمت نہیں ہوتی اور درندے کا خوف ہوتا ہے عظمت نہیں ہوتی اور باپ کا خوف ہوتا ہے عظمت ہوتی ہے اور اسی طریقہ سے استاد کا خوف ہوتا ہے تو عظمت ہوتی ہے ، تو گیا خوف میں اور خشیت میں فرق ہوا کہ خشیت کے لیے عظمت لازم ہے، خوف کے لیے یہ لازم نہیں ۔ باپ کا خوف ہے عظمت کے ساتھ ہے ، درندے کا خوف عظمت کے ساتھ نہیں ، سانپ کا خوف عظمت کے ساتھ نہیں ، تو خشیت میں عظمت لازم اور خوف کے اندر عظمت لازم نہیں ، پھر ہم نے آپ کو یہ بتایا کہ جہاں پر خشیت ہو گی وہ عظمت کے ماتحت ہو گی ، وہاں عظمت بھی ہو گی اور جب محبت بھی ہو گی تو گویا اس کا معنی یہ ہو گیا کہ آپ علماء کے بارے میں کہیں گے کہ ان کے دل میں الله کی عظمت بھی ہوتی ہے ، الله کی محبت بھی ہوتی ہے ” انما یخشی الله من عبادہ العلماء“ فرمایا کہ علما میں الله کی خشیت ہوتی ہے ، آپ کو بتایا جارہا ہے کہ خشیت جو ہوتی ہے وہ عظمت پر مرتب ہوتی ہے، جہاں عظمت ہوتی ہے وہاں محبت بھی ہوتی ہے ، تو لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ علماء کے دل میں الله کی عظمت بھی ہوتی ہے او رالله کی محبت بھی ہوتی ہے ، سمجھ میں آئی بات ! اور اسی طریقے سے ان علماء کے دل میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی عظمت بھی ہوتی ہے اورمحبت بھی ، الله کی عظمت بھی ان کے دلوں میں ہوتی ہے ، الله کی محبت بھی ان کے دلوں میں ہوتی ہے اور الله کے رسول کی عظمت بھی ان کے دلوں میں ہوتی ہے او رالله کے رسول کی محبت بھی ان کے دلوں میں ہوتی ہے او رآگے جاؤ ! الله اور رسول کے احکام پر عمل کرنے والے جو علما ہیں ، الله اور رسول کے احکام پر عمل کرنے والے جو اولیا ہیں، ان کی محبت بھی ان کے دلوں میں ہوتی ہے، ان کی عظمت بھی ان کے دلوں میں ہوتی ہے ، تو حاصل یہ ہواکہ ان کا تعلق اور رشتہ الله کے ساتھ ، الله کے رسول کے ساتھ ، الله والوں کے ساتھ بہت مستحکم اوربہت مضبوط ہوتا ہے۔
اور یہ بات یاد رکھو! کہ یہ خشیت جب دل میں آتی ہے ، اس کے لیے میں نے عرض کیا ہے کہ اس میں محبت بھی ہوتی ہے تو یہ تمام مکارم اخلاق کی بنیاد بنتی ہے، جب آپ کے دل میں یہ خشیت آئے گی جس میں الله کی عظمت اور الله کی محبت موجود ہے ، الله کے رسول کی عظمت اور ان کی محبت موجود ہے ، الله والوں کی عظمت اور ان کی محبت موجود ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جتنے مکارم اخلاق ہیں وہ آپ کے اندر آئیں گے اور یہ مکارم اخلاق کا آپ کے اندر آنا، یہ آپ کے دنیا اور آخرت کے اندر خوش نصیب ہونے کی بنیاد بن جائے گا ، آپ دنیا کے اندر بھی خوش نصیب ہوں گے اور آخرت کے اندر بھی خوش نصیب ہوں گے۔
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ علم کی بڑی فضیلت ہے ، سرورکائنات کو حکم دیا گیا ہے، ”قل رب زدنی علماً“ آپ کو کہا گیا آپ دعا کرو الله علم میں اضافہ کرے ۔ قرآن میں کہا:”وعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل الله علیک عظیماً“ آپ نے فرمایا: ”أوتیت علم الأولین والآخرین“ اس میں کوئی شک نہیں کہ علم کی بڑی فضیلت ہے ، الله نے آپ کو علم دیا ہے ، لہٰذا آپ اس فضیلت پر الله کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے ، لیکن ایک بات فراموش نہ کریں، وہ یہ کہ علم بذات خود مقصود نہیں، علم کی فضیلت پر میں نے قرآن کی دو آیتیں آپ کے سامنے پیش کی ہیں نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے خود أوتیت علم ”الأولین والآخرین“ ارشاد فرمایا ہے ، لیکن اس کے باوجود یہ بات آپ ذہن میں رکھیں کہ خالی علم بذات خود مقصود نہیں ، علم اس لیے گویا قابل تعریف قرار دیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی کے اندر اخلاص پیدا ہوتا ہے، علم اس لیے قابل تعریف قرار دیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے محاسن اخلاق اور اعمال کی توفیق ملتی ہے، علم اس لیے قابل تعریف قرار دیا جاتا ہے کہ اخلاق کی طرف اس کی وجہ سے رجوع ہونے کی نوبت آتی ہے، علم ہو گا تو آپ اچھے اعمال کریں گے ، علم ہو گا تو آپ اپنے اخلاق اچھے بنائیں گے، جب آپ کے پاس علم ہو گا تو آپ اچھے اعمال کریں گے، اچھے اخلاق اختیار کریں گے، تو ظاہر ہے کہ پھر علم کا فائدہ آپ کو حاصل ہو گا۔
اگر علم ہے اور عمل نہیں ہے، تو وہ بالکل قابل اعتبار نہیں اور اگر علم ہے او راخلاق نہیں تو علم کبھی قابل اعتبارنہیں ہو گا، وہ علم جو بلا عمل کے ہوتا ہے ، وہ علم جو بلا اخلاق کے ہوتا ہے وہ وبال بنتا ہے ، وہ علم جو اخلاق او راعمال کے بغیر ہوتا ہے وہ وبال بنتا ہے، علم اس لیے قابل تعریف ہے کہ وہ اچھے اعمال کی طرف متوجہ کرتا ہے، اچھے اخلاق کی طرف متوجہ کرتا ہے ، محاسن اخلاق اور محاسن اعمال کا وہ ذریعہ بنتا ہے، تو اس لیے کبھی یہ خیال نہ کرنا کہ ہم عالم ہو گئے، فاضل ہو گئے، ہمارے پاس بخاری اور ترمذی کا علم آگیا، یہ علم آپ کے لیے وبال بن جائے گا ،اگر آپ کے اخلاق صحیح نہ ہوئے، یہ علم آپ کے لیے وبال بن جائے گا اگر آپ کے اعمال صحیح نہ ہوئے، آپ کے اخلاق صحیح ہوں گے، تو یقینا یہ قابل صد مبارک باد بھی ہو گا اور پھر علم کے فیوض او ربرکات سے آپ دنیا اور آخرت میں مالا مال ہوں گے۔
ایک مرتبہ ”امام غزالی رحمہ الله نے لکھا ہے “ کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک جگہ تشریف فرما تھے، تو ابلیس ایک گدھے کے اوپر دو بورے لادے ہوئے لے جارہا تھا، حضرت عیسی علیہ السلام کو اندازہ ہو گیا کہ یہ ابلیس ہے ، پھر انہوں نے اس سے پوچھا کہ یہ دو بورے جو لے کر کے جارہے ہو ، یہ کیا ہے ؟ ابلیس نے کہا کہ آپ اپنا کام کریں، میں اپنا کام کرتا ہوں، آپ مجھ سے نہ پوچھیں کہ میں کیا لے کر جارہا ہوں ، تو حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں ! تمہیں بتانا پڑے گا کہ تم کیا لے جارہے ہو؟ تو اس نے بتایا کہ یہ جو دو بورے ہیں ، ایک بورے کے اندر تکبر ہے اور ایک کے اندر حسد ہے اور یہ بورا جو تکبر کا ہے یہ بھی میں علماء کے اندر تقسیم کرتا ہوں اور یہ بورا جو حسد کا ہے، یہ بھی میں علما کے درمیان تقسیم کرتا ہوں۔
مطلب کیا تھا؟ مطلب یہ تھا کہ وہ ان علماء کو تکبر کی بیماری میں اور حسد کی بیماری میں مبتلا کرتا تھا، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ علما کے اندر تکبر ہوتا ہے ، ظاہر ہے کہ علم انہوں نے حاصل کیا، علم حاصل کرنے کے بعد بہت سی معلومات جو ان کو مل گئیں، تو بہت بڑی مخلوق کے مقابلے میں علم وفضل کے اعتبار سے ان کا مقام اونچا ہو گیا، یہ تکبر تو آیا نا!
ایک آدمی ہے آپ کہتے ہیں کہ وہ ناظرہ قرآن مجید پڑھا ہوا ہے ، اب اس کے سامنے آپ کہیں گے کہ میں تو بہت بڑا عالم ہوں ، بے چارہ تو جاہل ہے ، اس کو تو کچھ بھی نہیں آتا، اسی طریقے سے آپ قیاس کر لیں کہ ایک آدمی ہے کہ گویا حفظ کے درجے کی تعلیم دے سکتا ہے اور وہ کتابیں نہیں پڑھا سکتا ہے ، آپ دونوں کام کرسکتے ہیں، تو آپ کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ یہ میرے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا، میں بڑا ہوں ، علی ھذاا لقیاس ، علما کے اندر تکبر کی بیماری ہوتی ہے ، اسی طریقے سے حسد کی بیماری ہوتی ہے اور آپ محسوس نہ کریں ، واقعہ یہ ہے کہ یہ بیماری تو راسخ اور بہت پختہ ہوتی ہے اور اسی طریقے سے حسد کی بیماری بہت راسخ اور بہت پختہ ہوتی ہے اور ان بیماریوں کی وجہ سے لوگ محسوس بھی کرتے ہیں ، ایک آدمی کے اندر حسد کی بیماری ہے او رایک آدمی کے اندر تکبر کی بیماری ہے اور ان بیماریوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر ریا کاری بھی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ بھی ہوتا ہے پھر آدمی اس بات کا خواہش مند ہوتا ہے کہ لوگ میری خوشامد کریں ، چاپلوس بن کر میرے سامنے پیش ہوں۔ یہ تمام کی تمام باتیں علما کے اندر آتی ہیں، تو میں عرض کر رہا ہوں کہ پوری قوت کے ساتھ آتی ہیں ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بیماریوں سے بچنے کا طریقہ کیا ہے ؟ طریقہ ایک ہی ہے اور وہ کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ وہ علما جن کے باطن خشیت کی دولت سے سرفراز کیے گئے ہیں ، جن کے اندر خشیت کی نعمت موجود ہے، ان کی ہم نشینی اختیار کی جائے، ان کے ساتھ رہ کے تعلق پیدا کیا جائے۔
آپ کو معلوم ہے کہ ایک آدمی اگر سارنگی کے پاس رہتا ہے تو وہ بھی گنگنانے لگتا ہے ، اگر ایک آدمی کسی تاجر کے پاس رہتا ہے تو وہ بھی اپنے اندر تجارت کا شوق محسوس کرنے لگتا ہے، جس قسم کی صحبت ہو گی ویسے ہی اثرات مرتب ہوں گے، یہ کلیہ ہے، اہل الله کی صحبت ہو گی تو ولایت کے اثرات ہوں گے، فساق وفجار کی صحبت ہو گی تو فسق وفجور کے اثرات آپ کے اندر آئیں گے اور ہمارے اندر آئیں گے۔
تو اس لیے ”انما یخشی الله من عبادہ العلماء“ علماء کی شان بیان کی گئی ہے کہ ان میں خشیت ہوتی ہے، ان میں محبت ہوتی ہے اور وہ الله اور رسول کی محبت وعظمت سے سرشار ہوتے ہیں، جب ان کی یہ شان ہے تو ان کے ساتھ رہو، ان کے ساتھ رابطہ قائم کرو، ان کی پیروی کرو، ان کی خدمت کرو، ان کے پاس رہو، تو پھر آپ تکبر سے بھی محفوظ ہو جائیں گے، پھر آپ حسد سے بھی محفوظ ہو جائیں گے اور یہ جتنی اخلاقی بیماریاں ہیں ان تمام اخلاقی بیماریوں سے آپ کو نجات مل جائے گی۔
اس کے بعد ایک بات میں عرض کردوں، وہ یہ کرنی ہے کہ آپ نے اپنے اساتذہ سے پڑھا، آپ کے اساتدہ نے اپنے اساتذہ سے پڑھا اور یہ سلسلہ شاہ ولی الله رحمہ الله تک گیا اور شاہ ولی الله کے بعد پھر امام بخاری تک گیا، پھر امام بخاری نے حضور صلی الله علیہ وسلم تک پہنچایا، تو سند کے سلسلے کے جتنے رجال ہیں وہ سب اہل الله ہیں، آپ کی یہ سند سلسلة الذھب ہے، اس میں جتنے رجال ہیں اول سے لے کر حضور پاک پاک صلی الله علیہ وسلم تک ، یہ تمام رجال الله ہیں اور یہ تمام کے تمام اولیاء الله ہیں، الله تبارک وتعالیٰ نے علم کے ساتھ ان کو عمل او راخلاص کی دولت سے بھی نوازا ہے، لہٰذا اب یہ آپ کا سلسلہ اتنا مبارک ہے کہ آپ اولیا کے سلسلے میں داخل ہو گئے۔
یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ سارا سلسلہ تو اولیاء الله کا ہے ، سارا سلسلہ رجال کار کا ہے ، انہی کے ذریعے سے آپ نے تعلیم مکمل کی ہے اور آپ رجال الله میں داخل ہونے کا ارادہ نہ کریں!! آپ کا بھی یہ ارادہ ہونا چاہیے، ہمیشہ یاد رکھیے کہ تعلق تو آپ کا ضروری ہے، آپ فتوے لکھتے رہیں، آپ تالیفات کرتے رہیں، آپ درس وتدریس کا سلسلہ کرتے رہیں اور ہمارا وصول إلی الله ہو جائے گا، یہ کتابوں سے نہیں مل سکتا، یہ درس وتدریس سے نہیں ہوتا، یہ وصول إلی الله، تو الله والوں کے ساتھ نتھی ہونے پر موقوف ہے۔
میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ درس وتدریس بے کار ہے ، میں تو درس وتدریس کو آپ کے لیے لازمِ زندگی قرار دینے کا قائل ہوں، آپ کبھی در س وتدریس کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مشغلہ اختیار نہ کریں، میری طرف سے اس کی قطعاً اجازت نہیں، لیکن مطلب میرے کہنے کا یہ ہے کہ اس پہ اکتفا نہ کیا جائے، اس پہ قناعت نہ کی جائے، اپنے آپ کو الله والوں سے متعلق کیا جائے، الله والوں سے اپنا تعلق جوڑا جائے ، ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر ”کالمیت فی ید الغسال“ کی ترکیب اختیار کی جائے۔ اور آپ کو الله تبارک وتعالیٰ درس وتدریس کے ساتھ علم کی برکات سے اور علم کے فیوض سے زیادہ سے زیادہ مستفید کرے۔
او ربھائی آخری بات یہ ہے کہ کبھی کسی کو حقیر نہ سمجھنا ، یہ نہ سمجھنا کہ اس کی ہمارے سامنے کیا حیثیت ہے؟ ہم تو فلاں ہیں، فلاں ہیں، یہ فلاں فلاں سب خاک میں مل جائے گا، اگر آپ کے اندر تواضع نہ ہو، اگر آپ کے اندر مسکنت نہ ہو۔ تو آپ تواضع اختیار کریں، کبھی کسی کو حقیر نہ سمجھیں، کبھی کسی کو ذلیل نہ سمجھیں، اپنے آپ کو الله کا محتاج بنا کر، الله تبارک وتعالیٰ سے اپنے لیے بھی، اپنے اساتدہ کے لیے بھی ، اپنے ادارے کے لیے بھی ، اپنے اساتذہ کے لیے بھی اور پوری امت کے لیے بھی دعا فرمائیں۔

Flag Counter