ملفوظات حکیم الامت جلد 15 - یونیکوڈ |
اختیار و کوشش کو دخل نہیں ـ تو جن امور میں دخل ہے ان میں کوشش کے ساتھ دعا کرنے سے برکت ہوتی ہے تنہا دعا سے کچھ نہیں ہوتا ـ جیسے کوئی اولاد کے واسطے دعا کرے اور نکاح نہ کرے تو ہرگز قبول نہ ہو گی اور جو امور غٰیر اختیاری ہیں جیسے کہ بارش تو دعا قبول ہو جاتی ہے ـ جو ان کی مصلحت کے خلاف نہ ہو یہ تو ہمارا بھی محاورہ ہے جیسے کہ بچوں سے خوش ہو کر کہہ دیتے ہیں جو تم مانگو گے وہی دیں گے تو کیا وہ سانپ یا سنکھیا مانگے تو کیا دیدیں گے مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو چیز بچہ کے مناسب ہوگی - وہ دیدیں گے ہاں یہ تفصیل امور دنیاوہ میں ہے کہ آخرت کے متعلق جو سوال کرے گا وہی عنایت ہو گا کیونکہ وہ مقصود بالذات ہے ـ ایک مظلوم بچے سے عدل وانصاف ملفوظ 143 ـ ایک کم سن نے بعد عصر 22 رجب کو حضرت والا کی خدمت میں ایک پرچہ پیش کیا جس میں اپنی مظلومیت کا اظہار کیا تھا ـ حضرت والا نے اس کے حالات سن کر ان دو شخصوں کو بلایا جو اس پر ظلم کرتے تھے ان میں ایک نابینا حافظ تھے جو اس بچہ کو اپنے وطن سے ملازم رکھ کر اپنی خدمت کیلئے لائے تھے اور ایک مولوی صاحب کہ جو کچھ مدت سے اپنی اصلاح باطنی کیلئے خانقاہ میں مقیم ہیں کہ یہ دونوں مجھ پر ظلم کرتے ہیں ـ حافظ جی کھانے کو نہیں دیتے فقط دو روٹی دیتے ہیں اور مجھے سخت مار بھی دیتے ہیں اور وہ مولوی صاحب بھی حافظ جی کو سکھلاتے ہیں اور خود بھی مارتے ہیں اور کئی شخص بطور گواہ کے بلائے جو اپنی آنکھوں سے ان کے جو روستم دیکھ چکے تھے ان سے دونوں صاحبوں کے سامنے شہادت لی ـ اب حافظ جی سے دریافت کیا کہ حفظ صاحب آپ اس بچہ پر کچھ زیاتیاں کرتے ہیں ـ حافظ جی نے کہا کہ اس میں چوری کا مرض ہے ـ حضرت نے فرمایا میں یہ نہیں پوچھتا کہ اس کے اندر کیا مرض ہے ـ میں تو یہ دریافت کرتا ہوں کہ تمہارے اندر بھی یہ مرض ہے یا نہیں کہ تم اس پر ظلم کرتے ہو ـ نصف خوراک کھانا دیتے ہو ـ جب حافظ جی نے صاف جواب نہ دیا تو لڑکے سے کہا کہ تو بتلا سچ سچ کیا بات ہے ـ کسی سے نہ ڈرنا ـ اس بچہ نے کہا کہ مجھے روٹی کم دیتے ہیں اور مارتے ہیں اور مولوی صاحب بھی مارتے ہیں اب حافظ جی سے پوچھا کہ حافظ جی بتلاؤ کہ یہ ٹھیک کہتا ہے یا نہیں حافظ جی نے کہا ٹھیک کہتا فرمایا پھر کیوں مارتے ہو اسے روٹی پیٹ بھر کے کیوں نہیں دیتے ـ کیا تم نے یہ شرط ٹھہرا لی تھی کہ