Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

6 - 20
***
اے مسلم خوابیدہ اُٹھ بیدار ہو!
محترم محمد وسیم بن عمر سرابوی
آج امت مسلمہ ایک ایسے دور سے گذر رہی ہے جس میں اس کو طرح طرح کی آزمائشوں کا سامنا ہے ، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔ امت مسلمہ کی کشتی کچھ ایسے طوفانوں میں گھرِی ہوئی ہے جن میں یہ فتنوں کی مخالفت اور تندوتیز ہواؤں کی وجہ سے شدید ہچکولوں سے دو چار ہے ، اس کے دشمن اپنے آپ کو بہی خواہ کے روپ میں پیش کر رہے ہیں او رامت مسلمہ کو جھانسہ دے رہے ہیں کہ ہم آپ کی کشتی کو پار لگاد یں گے ، حالاں کہ ان کی پوری کوشش ہے کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کی کشتی کو طوفانوں سے نکلنے نہ دیا جائے، تاکہ یہ بے رحم موجوں کا مقابلہ نہ کر پائے اور غرق ہو جائے ادھر مسلمان بے چارے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ شاید ہم ان کے پیچھے چل کر منزل پالیں گے، حالاں کہ منزل سے دن بدن دور ہوتے جارہے ہیں۔
آج ہر صاحبِ نظر اس منظر کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کرسکتا ہے کہ کفار عالم کی تمام تر توانائیاں اس بات پر صرف ہو رہی ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کو ابدی فلاح وکامیابی کے طریقے ( تعلیمات نبوی صلی الله علیہ وسلم) سے دور کر دیا جائے ، اس کے لیے وہ مسلمانوں کے خلاف ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں اور ماضی میں بھی ان کا یہی طرز عمل رہا ہے۔
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے پیارے آقا صلی الله علیہ وسلم کی ردائے ختم نبوت کو تار تار کرنے کے لیے مرزا قادیانی خناس کو استعمال کیا تھا ، جس نے اسلام کے لہلہاتے چمن کو اجاڑنے کی ناپاک کوششیں کیں۔
ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات نے تو ہمیں پیدائش سے موت تک کا مکمل ضابطہٴ حیات دیا ہے، اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کو کامیابی کی ضمانت قرار دیا ہے۔
اب کیا وہ کفار جن کی تمام تر زندگی آقائے نامدار صلی الله علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات کے مخالف ہے، جنہوں نے پیارے آقا صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانے کو عبث جانا، کیا وہ لوگ ایمان والوں کے خیر خواہ ہو سکتے ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں!
اس جہاں میں الله جل جلالہ نے لاکھوں انبیائے کرام علیہم السلام کو بھیجا ہے، بشمول آقا مدنی صلی الله علیہ وسلم، تمام نفوس قدسیہ کی تعلیمات کا ایک ہی مقصد تھا کہ الله جل جلالہ کی شانِ کبریائی کو بیان کرنا اور ہر ہر انسان کے قلب میں اس ذات کی عظمت کو بٹھانا، یہی معیار کامیابی ہے۔
کفار عالم واولیائے ابلیس خوب جانتے ہیں کہ جب تک مسلمان تعلیمات انبیاء علیہم السلام پر عمل پیرا رہیں گے تب تک ان پر غالب آنا کسی کے بس کی بات نہیں، لہٰذا ان کو جس قدر ہو سکے انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے نا آشنا رکھا جائے اور اُن کی زندگیوں کو بنیا دپرستی اور انتہا پسندی پر مبنی بتلا کر ان سے متنفر کر دیا جائے، چناں چہ اس کے لیے وہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑتے۔ یہی وجہ ہے کہ کفار عالم نے اپنی ظاہری ٹیپ ٹاپ سے اور اپنے پاس مادی اسباب کی کثرت سے او راپنے زعم میں ظاہری قوت وطاقت سے مسلمانوں کو زبردست دھوکے میں ڈال دیا۔
اور مسلمان بے چارہ اسی دھوکے میں پڑا کہ الله جل جلالہ کی لازوال وبے انتہا طاقت وقوت سے بے اعتناء ہو گیا اور اپنے آپ کو کمتر سمجھ کر یہ خیال کر لیا کہ انہی ظاہری ومادی اسباب واشیا میں ہی ترقی وفلاح کا راز پنہاں ہے، حالاں کہ تعلیمات الہیہ نے اس خیال کو یکسر جھٹلادیا ہے۔
مسلمانانِ عالم! ذرا غور تو کیجیے اسی کی نشاندہی کے لیے آپ کے پرورد گار نے فرمایا ہے﴿لا یغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد متاع قلیل ثم مأوٰھم جہنم وبئس المھاد﴾․ (آل عمران:197-196)
ترجمہ: تجھے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے ( وسعت وفراوانی کے ساتھ)، یہ تو بہت ہی تھوڑا سا فائدہ ہے، اس کے بعد ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے، وہ بہت بری جگہ ہے۔
پیارے آقا صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم بھی یہی ہے، فرمایا! دنیا ایمان والوں کے لیے بمنزلہ قید خانہ ہے اورکفار کے لیے بمنزلہ جنت ہے۔
مسلمانان عالم! تعلیمات الہیہ ونبویہ کو لازم پکڑیں اور ان سے بے رخی نہ کریں، کفار عالم کی ہر سازش اور فریب کار ی کو سمجھیں او ران سے دور رہیں، ایسا نہ ہو کہ ان کی سازشوں کے جال میں پھنس کر ہمیشہ ہمیشہ کے خسارے میں چلے جائیں ، تب پھر سوائے پشیمانی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
بڑی المناک داستان ہے کہ جہاں کفارِ عالم دین اسلام کی صورت کومسخ کرنے اور اہل اسلام کو مذہب سے بالکل بیگانہ کرنے کے درپے ہیں، وہیں آج کل ان کے میڈیا کے ذریعے ایسے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں کہ مسلمانوں کو پتہ بھی نہ چلے کہ خود ان کے او ران کے ایمان کے خلاف کوئی سازش ہو گئی۔
چناں چہ کہیں تو ایسے لوگوں کو منظر عام پر بطور داعیانِ اسلام پیش کیا جارہا ہے جن کے چہرے اور لباس تک پیارے آقا صلی الله علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے خلاف ہیں، آخر وہ کون سے اسلام کی دعوت دے رہے ہیں؟؟؟
اور کہیں ایسی فلمیں منظر عام پر لائی جارہی ہیں جن میں اولوالعزم انبیائے کرام علیہم السلام کی حیات طیبہ کی صورت کو مسخ کرنے کی ایسے بھونڈے انداز میں کوشش کی گئی ہے کہ ایک غیر ت مند مسلمان اس کو کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ مثلاً حضرت آدم وابراہیم ویوسف اور حضرت موسی وہارون علیہم السلام اور آقائے نامدار صلی الله علیہ وسلم او رصحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی مبارک زندگیوں کو داغدار کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی ہے ۔ اور سیرت انبیاء وسیرت سید المرسلین صلی الله علیہ وسلم اور سیر صحابہ رضی الله عنہم کے مطالعہ سے بے پروا مسلمان ان فلموں کو بہت ذوق وشوق سے خرید رہے ہیں او ردیکھ رہے ہیں او راپنے ایمان کا خون کر رہے ہیں اور اس بارے میں سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ان کے بنانے والے آخر کون لوگ ہیں اور ان کے کیا مقاصد ہیں ؟ کیا وہ اسلام دوست لوگ ہیں جنہوں نے ان فلموں میں سے ایک میں بد کردار مرد اور عورت کے معاشقہ کو اس طور پر پیش کیا کہ عاشق مرد نعوذ بالله حضرت ہارون علیہ السلا م ہیں۔
اور اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے قرآن کریم میں مذکور قصہ احسن القصص کو بھی بہت بے ہودہ رنگ دیا گیا ہے، یعنی یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ عشق ومعاشقہ تو انسان کا حق ہے اور یہ تو نبیوں نے بھی کیا ہے، اس کو ناجائز اور غلط بتانے والے گویا تنگ نظر او رانتہا پسند ہیں او رانہیں لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پاکیزہ حیات کو ایک کریہہ الصورت جنگلی انسان کے کردار میں مدغم کرکے پیش کیا ،تاکہ انبیائے کرام علیہم السلام کے مبارک چہرے بھی قابل نفرت بن جائیں۔
کیا ان کے دل میں کوئی اسلام کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہے ؟ جنہوں نے The Massage نامی فلم میں میرے اور آپ کے آقا ومولیٰ، سرکار دو جہاں، صلی الله علیہ وسلم سراپائے حسن وجمال کی بے مثال سیرت وصورت کو داغدار کرنے کی ناپاک حرکت کی اور اسی طرح انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد دنیا کی مقدس ترین ہستیوں ( آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ) کی مبارک جماعت کی سیرت طیبہ کو اعداء الله نے اپنے من چاہے انداز میں پیش کیا، جس میں سنن نبی صلی الله علیہ وسلم کی واضح مخالفت کو دکھا یا گیا اور ان کی مثالی زندگیوں کی خوب خوب کردار کشی کی گئی ، تاکہ سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم اور سیر صحابہ سے نا آشنا لوگ غلط تأثر قبول کریں،غرضیکہ اصحاب شریعت کے حقیقی کردار اور شعائرِ اسلام کو داغدار کرنے کا بے حجابانہ مظاہرہ کیا گیا ہے ۔ ( فالی الله المشتکی)
اب ذرا بتایئے گا! کیا وہ لوگ اسلام کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں یا اسلام کی صورت کومسخ کرنا چاہتے ہیں؟ حالاں کہ ان فلمسازوں کا اسلام سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں! ہمارااعتراض ان مذکورہ بالا چند جزئیات پر ہی نہیں، بلکہ ان اسلام دشمنوں کے اس قسم کے تمام ترقبیح افعال پر ہے ، آخر ان کو اسلام جیسے پُرامن اور پاکیزہ مذہب کے خلاف ہرزہ سرائی کی ناپاک جسارت کا حق کس نے دیا ہے؟
پھر گلہ تو اس بات کا ہے کہ ہمارے اپنے احساس کمتری میں پڑے ہوئے مسلمانوں کو دیکھیں جنہوں نے بجائے اس کے کہ کوئی احتجاج کرتے یا اس بارے میں علمائے کرام سے رجوع کرتے، اس پُر فریب فلم کو اردو ترجمہ بنام ”پیغام عظیم“ ایک نجی ٹی وی نے بزعم خود افادہٴ عام ( یعنی فسادِایمان) کے لیے پاکستان میں بھی نشر کر دیا۔
شاید یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ابھی ماضی قریب میں ایسے ہی کفارِ عالم سے حد درجہ متاثر اور انجام سے بے خبر، اُن کی اندھی تقلید کرنے والے نام نہاد مسلمانوں نے بھی ایسی ہی ایک اردو فلم بنام” خدا کے لیے“ بنانے کا اوربے حجابانہ نشر کرنے کا ارتکاب کیا ہے جس میں شعائرِاسلام کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی گئی ہیں۔ اب کچھ لوگوں کی وساطت سے معلوم ہوا کہ ایسی ہی ایک فلم منظر عام پر عنقریب لائی جارہی ہے جس کو خاص طور پر امریکا میں فلمایا گیا ہے اور یہہندوؤں اور نام نہاد مسلمانوں کے اشتراک سے بنائی جارہی ہے۔ اس کے بنانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ فلم، فلم” خدا کے لیے“ کے سلسلہ کی ہی کڑی ہے ۔مطلب یہ کہ معاذ الله شعائرِ اسلام کا مذاق اڑانے میں کچھ کسر باقی تھی جو پوری کی جارہی ہے، اول الذکر کی اگرچہ جزوی طور پر اہل دل نے مذمت بھی کی، تاہم بے دینی کے طوفان میں گھرے ہوئے امت مسلمہ کے ایک بہت بڑے طبقے کی طرف سے اس فلم کو بیحد پذیرائی دی گئی، ہائے افسوس صدا فسوس!
ایسے میں ان مسلمانوں سے سوال ہے کہ اپنے خالق ومالک سے اس قدر دشمنی مول لے کر آخر کس کامیابی کی امید لگا بیٹھے؟؟ کیا اس دن سے خوف نہیں آتا جس دن اس کے سامنے بے یارومدد گار کھڑے ہونا ہو گا؟ آخر کب تک آنکھیں بند کیے الله جل جلالہ کے دشمنوں کے پیچھے چلتے رہیں گے؟ طوفانوں میں گھری ہوئی امت اسلامیہ کوآنکھیں کھولنا ہوں گی او راپنے وپرائے کی پہچان کرنا ہو گی، وہ جو اس کی کشتی کو ڈبو دینے کے درپے ہیں، ان کے فریب سے نکلنا ہو گا۔
ایسے میں ان ماہر تیراکوں ( علمائے امت اسلامیہ) کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے امت کے بیڑے کو طوفان بے دینی سے نکالنے میں مدد دینا ہو گی او راس کی توجہ اس ذاتِ عالی کی طرف مبذول کرانا ہو گی جو بپھری ہوئی موجوں کو لگام دینا اور طوفانوں کے رخ موڑ دینا جانتی ہے۔
کیوں کہ علمائے اسلام ہی تعلیمات انبیاء علیہم السلام کے حقیقی وارث ہیں، لہٰذا انہی کی ذمہ داری ہے کہ وراثت کا دفاع کریں، ورنہ اگر وراثت انبیاء پر قزاقی ہو گئی تو قصور وار ورثاء ہوں گے۔ کفار عالم کی ہر سازش کو بے نقاب کرنا اور اس سے امت مسلمہ کو باخبر کرنا او رتعلیمات قرآنیہ ونبویہ سے اس کو رروشناس کرانا بھی انہیں ورثاء کی ذمہ داری ہے او رساتھ ساتھ ورثة الانبیاء کو اس بات سے بھی آگاہ رہنا چاہیے کہ ان قزاقوں کی فریب ساز آنکھوں میں ان کے قلعے ( مدارس اسلامیہ) بھی خار بنے ہوئے ہیں، کیوں کہ امت اسلامیہ سے اس کے حقیقی خیر خواہوں کی خیر خواہی بھی ان فریبیوں کو ناگوار ہے۔ ان قلعوں کی حفاظت کے سلسلے میں بھی اس ذاتِ بزرگ وبرتر، جس کے نام پر ان کا جود ہے کی نصرت وحمایت کو حاصل کرنا ہو گا۔
آئیے! جس قدر کوتاہی ہم سے ہوئی اس پر اپنے مولا سے معافی مانگیں او رامت کے افراد کو بے دینی کے طوفان سے نکالنے کی کوشش کریں، تاکہ کل قیامت میں اپنے مورثین کے سامنے سرخ روہو سکیں، الله تعالیٰ شانہ، پوری امت اسلامیہ کی اعانت ونصرت فرمائے۔ آمین
اب جس کے دل میں آئے وہ پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا

Flag Counter