Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

14 - 20
***
دنیا اور آخرت میں گناہوں کی سخت سزا ئیں
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
انسان اس دنیا میں آزمائش اور امتحان کی غرض سے پیدا کیا گیا، یہ دنیا عارضی ٹھکانہ ہے، اصلی ٹھکانہ آخرت ہی
اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل فرمائی اس میں مادی وروحانی اشیا کی حقیقتوں کو بیان کیا ، ان کے احکام کو بیان کیااور ساتھ ہی ساتھ انجام کو بھی بیان کردیا اور یہ اللہ کے علاوہ کسی کے بس میں نہیں کہ مادی و روحانی حقائق قطعیہ کو بیان کرے اور اس کے نتیجہ میں دنیا و آخرت میں پیش آنے والے اچھے یا برے انجام کو بھی بیان کرے، اس لیے کہ ان امور کے لیے علمِ محیط، بصارت وبصیرتِ کاملہ، حکمتِ بالغہ، قدرتِ تامہ جیسے عظیم اوصاف کا ہونا ضروری ہے اور یہ اوصاف صرف اور صرف ایک ذات یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ میں بیک وقت یا اس جیسے بے شمار اوصاف اپنی کاملیت کے ساتھ پائے جاتے ہیں، تو آئیے! ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں گناہ کے انجام کو جاننے کی کوشش کریں۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آج کل لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ دنیا دار العمل اور آخرت دارالجزاء ہے ، لہٰذا اچھائی برائی کی جزا وہیں ہوگی، دنیا میں اس سے کچھ نہیں ہوتا، حالاں کہ یہ سوچ بالکل بے بنیاد اور حقیقتِ واقعہ سے عاری ہے ، کیوں کہ یہ مشاہدہ ہے اور تاریخ اس پر شاہد عدل ہے کہ برائی کا انجام بہرحال دنیا میں بھی برا ہوا ۔(مستفاد:جزاء الاعمال مع ترمیم و اضافہ)
توآےئے! سب سے پہلے گناہ کی تعریف اور اس کے اقسام اور گناہ کرنے کے اسباب کو معلوم کریں اور اَخیر میں دنیا اورآخرت میں گناہ کے اثرات اورنقصانات کو واضح کریں گے۔انشاء اللہ
قرآن کریم اوراحادیث مبارکہ میں گناہ کے لیے متعدد الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، مثلاً : السیئة، الخطیئة، الذنب، الإثم، المعصیة،الفسق،الحوب، الغشاء وغیرہ۔ ”الخطیئة“ یہ خطا سے ہے، اس کے معنی ہے ”صحیح کام نہ کرنا“۔ اس میں ”عمد“ کو دخل ہوتا ہے، البتہ غیر عمد کے لیے بھی اسی کا استعمال ہوتاہے۔ 
امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ جو کام بالذات مقصود ہو اس میں کوتاہی کو ”سیئة“ کہتے ہیں اور جو بالذات مقصود نہ ہو بلکہ عرض اور واسطے کے قبیل سے ہو، اس میں کوتاہی کو ”خطیئة“ کہتے ہیں۔
الذنب کہتے ہیں دُم کو، گناہ کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا، لہٰذا گناہ کو بھی ذنب کہا جاتاہے۔
”اثم“ کے معنی ہے کارِ ثواب کے کرنے میں سستی سے کام لینا اور انسان گناہ کرتاہے تو کار ِثواب سے غافل ہو جاتاہے، اس لیے گناہ کو”اثم“ کہتے ہیں۔
”معصیة“ کے معنی، نافرمانی اور مخالفت کرنا۔ گناہ میں بھی بندہ اپنے رب کی مخالفت کرتاہے، اس لیے اسے معصیت کہا جاتا ہے۔
گناہ کی عام تعریف
اللہ اور رسول نے جن کا موں کے کرنے کاحکم دیا ہے، انہیں نہ کرنا اور جن کے کرنے سے روکا ہے انہیں کرنا یہ ہے گناہ۔
اس تعریف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر وہ قول، فعل یا عمل جس کے کرنے کا اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہو اسے نہ کرنا اور جس کے کرنے سے روکا ہو اسے کرنا یہ تعریف عام ہے، کبیرہ وصغیرہ دونوں کو شامل ہے، اب ہم گناہ کی تقسیم اور گناہِ کبیرہ وصغیرہ کی تعریف کرتے ہیں۔
گناہ کی دو قسمیں ہیں 
گناہ کبیرہ: ہر وہ کام یا نافرمانی جس کے بارے میں شریعت کی جانب سے قباحت یا لعنت اور وعید شدید وارد ہوئی ہو وہ کبیرہ ہے۔ مثلاً: (1)اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا۔(2) جادو کا عمل کرنا کرانا ۔ (3) ناحق قتل کرنا۔ (4) سود کھانا کھلانا یا اس پر گواہ بننا۔ (5)یتیم کا مال کھانا۔ (6) والدین کی نافرمانی کرنا۔ (7) زکوٰة نہ دینا ۔ (8) عمداً رمضان کا روزہ نہ رکھنا ۔ (9)قدرت کے باوجود حج نہ کرنا ۔ (10) زنا کرنا یا اغلام بازی کرنا ۔ (11) رشتہ داروں کے ساتھ براسلوک کرنا ۔ (12) تکبر کرنا ۔ (13) شراب پینا ۔ (14) جوا کھیلنا ۔ (15)چوری کرنا ۔ (16) جھوٹی قسم کھانا ۔ (17) رشوت کھانا۔ (18) جھوٹ بولنا ۔ (19) ناحق کسی کوستانا۔ (20) مردوں کا عورت کی مشابہت اور عورتوں کا مردوں کی مشابہت اختیار کرنا ۔ (21) پیشاب کے قطرے سے اجتناب نہ کرنا ۔ (22) فرض وواجب نماز کو ترک کرنا ۔ (23)چغل خوری کرنا ۔ (24) تقدیر کا انکار کرنا ۔ (25)بد فالی لینا ۔ (26)ذی روح کی تصاویر لینا ۔ (27)نوحہ کرنا ،سرکشی کرنا ۔ (28)کمزوروں کوناحق مارنا، مثلاًبیوی‘ بچے اور جانوروں کو ۔ (29)پڑوسی کو ستانا ۔ (30) ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانا۔ (31)مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا ۔ (32)سونے چاندی کے برتن میں کھانا اور پینا ۔ (33)مرد کا سونا یاریشم زیب تن کرنا۔ (34) لڑائی جھگڑا کرنا ۔ (35) دھوکہ بازی کرنا ۔ (36) صحابہ کو برا کہنا ۔ (37) خیانت کرنا ۔ (38) ناحق کسی پر لعن طعن کرنا ۔ (39) بے وفائی اور وعدہ خلافی کرنا ۔ (40) ناپ تول میں کمی زیادتی کرنا ۔ (42) عورتوں کا بال کٹوانا۔ (43)مصیبت پر واویلا مچانا ۔ (44) مختصراور تنگ لباس زیب تن کرنا ۔ (45)اجنبیہ عورت کے ساتھ خلوت کرنا ۔ (46) اجنبیہ عورت کے ساتھ مصافحہ کرنا ۔ (47) عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا ۔ (48) میوزک اور گانے سننا ۔ (49) اپنے مال کو فضول ضائع کرنا ۔ (50) حائضہ بیوی کے ساتھ مباشرت کرنا ۔ (51) عورت کا بن سنور کر، خوشبو لگاکر، بے پردہ اجنبی مردوں کے سامنے نکلنا ۔ (52) مزدور کو اس کی مزدوری نہ دینا ۔ (53)بلا ضرورت لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا ۔ (54)بدعت کا ارتکاب کرنا ۔ (55) اجنبی عورت کو عمداً دیکھنا ۔ (56) نماز کو اس کے وقت سے موٴخر کرکے پڑھنا ۔ (57)جلدی جلدی نماز پڑھنا ۔ (58) کسی کو برے نام سے پکارنا ۔ (59) اولیاء سے عداوت کرنا ۔ (60) کھلے عام گناہ کرنا ۔ (61) اپنے گناہ کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا ۔ (62) مسجد میں باتیں کرنا وغیرہ وغیرہ ۔
اگر ہم اپنے معاشرے پر ایک نظر ڈالیں اور گناہ کبیرہ کی فہرست پر ایک نظر دوڑائیں، تو معلوم ہوگا ہماری اکثریت ان گناہوں میں ملوث ہے؛ بعض تو ان میں سے بہت سے گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھتے اور بعض کبیرہ کو صغیرہ گناہ تصور کرتے ہیں ،یہ ہمارے سوچنے کا مقام ہے، اللہ ہم کو صحیح سمجھ عطا فرماے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !
گناہِ صغیرہ 
صغیرہ ہر اس گناہ کو کہا جاتاہے جس کو کرنے سے شریعت نے روکا ہو، البتہ اس پر کوئی شدید وعید نہ بیان کی ہو، مثلاً بغیرعذر کے بائیں ہاتھ سے کھانا، بڑوں کی بے ادبی کرنا ، بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے، کیوں کہ خالق و مالک کی نافرمانی بہرحال بہت بری شے ہے، یہ نہ دیکھا جائے کہ کبیرہ ہے یا صغیرہ، بلکہ یہ دیکھو کہ نافرمانی کس کی کررہے ہو۔
گناہ میں مبتلا ہونے کے اسباب 
انسان اس دنیا میں آزمائش اور امتحان کی غرض سے پیدا کیا گیا، یہ دنیا عارضی ٹھکانہ ہے، اصلی ٹھکانہ آخرت ہے، اس لیے اللہ نے خیر اور شر کو پیدا کیا، انسان کو چاہیے کہ وہ خیر کو اختیار کرے اور شر سے اجتناب برتے ۔
انسان کے گناہ میں مبتلا ہونے کے چند اسباب ہیں
سب سے پہلا سبب مقصدِ تخلیق اور انجام سے غفلت ہے، اللہ نے انسان کو محض اپنی عبادت کی غرض سے پیدا کیا، لہٰذااصل مقصد عبادت ہے اور دیگر تمام چیزیں ضرورت کے قبیل سے ہیں، مثلاً کھانا‘ پینا‘ سونا وغیرہ۔ اور کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے ابتلا اور آزمائش کے لیے بنائی ہیں، جیسے مال، اولاد، عورت وغیرہ اور انسان کو قوتِ شہوانیہ اور عقلیہ دونوں دیں تاکہ معلوم ہو کہ وہ شہوانیت سے اجتناب کرتا ہے یا نہیں۔ وحی کی روشنی میں زندگی گزارتا ہے یانہیں۔ لہٰذا ہمیں خواہشات پر قابو پاکر زندگی گزارنی چاہیے اور یہ بات بھی یاد رہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہ ہوگا، اس لیے بھی وہ گناہ کرنے سے باز نہیں رہتا ،حالاں کہ زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب یقینی ہے اور اس پر جزا وسزا بھی قطعی ہے اور برائی کا انجام برا ہے اور بھلائی کا انجام بھلا ہے، جب انسان انجام سے غافل ہوتا ہے تو گناہ پر آمادہ ہوجاتا ہے، اللہ انجامِ بد سے دارین میں ہماری حفاظت فرمائے۔
گناہ کرنے کا دوسرا سبب ضعف ِایمانی ہے، جب اللہ کے قادر ہونے پر، قیامت کے دن پر، حساب پر، میزان پر، جنت اور جہنم کے برحق ہونے پر، عذابِ قبر کے حق ہونے پر، ایمان میں ضعف اور کمزوری آتی ہے، تو انسان گناہ پر آمادہ ہوجاتا ہے، اس کے لیے عقائد کی کتابوں کا پڑھنا اور عقائد کو مضبوط کرنا ضروری ہے ۔
دنیاکی محبت،جب آدمی کسی چیز کا گرویدہ ہوجاتاہے تو اندھا دُھن اسی کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ عربی میں ضرب المثل مشہور ہے: ”حبک الشیء یعمی و یصم“․ کسی چیز کی محبت تجھے اندھا اور بہرا کردیتی ہے ،جب کسی پر دنیا غالب ہوجاتی ہے تو وہ بغیر کسی انجام کی پروا کیے اس کے پیچھے لگا رہتا ہے، اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔آمین!
خواہشات کی پیروی، انسان کو اللہ نے دو چیز یں بغرض آزمائش عطا کی ہیں، ایک عقل اور دوسری نفس۔ پھر ان دونوں کے تعاون کے دو خارجی اسباب پیدا کیے وحی اور شیطان، وحی عقل کی رہنمائی کرتی ہے اور شیطان شہوانیت کو ہوا دیتا ہے؛ اب اگر انسان شہوانیت اور شیطان کے جال میں پھنس جاتا ہے تو گناہ پر گناہ کیے جاتا ہے، اللہ نفس اور شیطان سے ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین !
بعض لوگ گناہ پر گناہ کرتے ہیں اور پھر جب نصیحت اور موعظت کی جائے تو کہتے ہیں، کیا کریں، مقدر میں جیسا لکھا ہے ویسا ہوتا ہے؛ یہ صحیح نہیں، اس لیے کہ اسباب اختیاری ہیں، جب انسان برے اسباب اختیار کرتا ہے تو برائی پر آمادہ ہوتا ہے، اگر بندہ برائی سے بچنے کی کوشش کرے تو اللہ ضرور اسے بچا لیتے ہیں، ہم کوشش نہیں کرتے اور پھر تقدیر کا رونا روتے ہیں، یہ عقیدہٴ تقدیر کو اچھی طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتاہے، اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین !
اللہ کی مغفرت کی امید بھی گناہ پر آمادہ کرتی ہے مثلاً گناہ کرتے وقت انسان سوچتا ہے، ارے! اللہ تو غفور الرحیم ہے‘ ضرور معاف کردے گا، مگریہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ عزیزذو انتقام بھی ہے، اور شدید العقاب بھی، یعنی سخت پکڑ کرنے والا اور سخت سزا دینے والا ہے، لہٰذا مغفرت کی بیجا امید پر گناہ پر گناہ کرنا غلط ہے، کیوں کہ اگر گناہ پر گناہ کرتا رہا اور اسی حالت میں موت آگئی تو ایمان کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے، اللہ ایمان کے ساتھ موت عطا فرمائے ۔آمین
غصہ سے بے قابو ہوجانا بھی گناہ اور ظلم پر آمادہ کرتا ہے ، غصہ میں کبھی کسی کو قتل کردیتا ہے، کبھی کسی کے ہاتھ پاوٴں موڑ دیتا ہے وغیرہ، لہٰذا غصہ آئے تو اس صورت میں صبر سے کام لے ۔
خواہشات کی پیروی بھی گناہ کے رئیسی اسباب میں سے ہے، شہوانیت کی وجہ سے کبھی بوس وکنار اور کبھی زنا اور ناچ گانے پر اتر آنا، لہٰذا ایسی حالت میں استغفار اور تعوذ کا ورد شروع کردینا چاہیے، تاکہ شہوانی قوت پست ہوجائے یا ٹھنڈی ہوجائے۔
علم دین سے ناواقفیت بھی گنا ہ کا سبب ہے، کیوں کہ حلال وحرام کی تمیز نہیں، گناہ اور نیکی کا علم نہیں، حرام کو حلال سمجھ کر اور گناہ کو نیکی سمجھ کر کرتاہے، لہٰذا دین کی بنیادی معلومات حاصل کرنی چاہیے ۔
کبھی آدمی سے بہت زیادہ گناہ ہوجاتے ہیں تو وہ اللہ کی رحمت سے ناامید ہوجاتاہے اور پھر گناہ پر جری ہوجاتاہے، حالاں کہ موٴمن کو اللہ کی رحمت سے نا امید ہونے کی ضرورت نہیں، کتنا بڑا گناہ ہو، خواہ کتنی ہی مرتبہ کیوں نہ ہو، یاد آنے پر فوراً استغفار اور توبہ کرے۔
مولاناپیر ذوالفقار نقش بندی فرماتے ہیں:آدمی چار وجوہات کی بنا پر گناہ کرتاہے:
وہ یہ سمجھتا ہے کہ گناہ کرتے وقت اسے کوئی نہیں دیکھتا، حالاں کہ قرآن میں ارشاد خداوندی ہے: ﴿ان ربک لبالمرصاد﴾تیرا پر وردگار تیری گھات میں ہے۔ یعنی ایک لمحہ ایک سیکنڈکے لیے بھی تجھ سے غافل نہیں ۔ (سورہٴ فجر:14)
گناہ کرتے وقت یہ سمجھتاہے کہ میرے پاس کوئی نہیں، حالاں کہ قرآن میں ارشادباری ہے: ﴿وھومعکم أینما کنتم﴾تم جہاں کہیں رہو اللہ تمہارے ساتھ ہے ۔
کبھی انسان گناہ اس لیے کرتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ میری ان حرکتوں کا کسی کو علم نہیں، قرآن نے کہا:﴿یعلم خائنة الأعین وماتخفی الصدور﴾ وہ تمہاری نظر کی خیانت کو بھی جانتاہے اورتم دل میں جو کچھ چھپاتے ہو اسے بھی جانتاہے ۔ (سورہٴ موٴمن:19)
گناہ کرتے وقت انسان یہ سمجھتا ہے کہ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے؛ قرآن نے کہا: ﴿إن اخذہ ألیم شدید﴾اللہ کی گرفت انتہائی درد ناک ہے۔ (سورہٴ ہود:102)
یہ چند اسباب بیان کیے گئے، جو انسان کو معاصی پر آمادہ کرتے ہیں، اب آئیے! گناہ کے نقصانات پر ایک نظر ڈالیں :
حکیم الامت مجدد ِملت حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اس وقت جو حالات ہمارے ہیں، مثلاً طاعت میں سستی اور معاصی میں انہماک وجرأت ،اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اعمال حسنہ اور سیئہ یعنی نیکی اور گناہ کی جزا وسزا صرف آخرت میں ہوگی، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ دنیا میں بھی (اور برزخ میں بھی ) اور آخرت میں بھی (تینوں ٹھکانوں میں ) اس کی سزا و جزا بھگتنی ہوتی ہے، تو آیئے! قرآن و حدیث اورملفوظاتِ محققین کے ذریعہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ گناہ کی سزا دنیا میں ہوتی ہے۔
دنیا میں گناہ کی سزا پر قرآن سے دلائل
قرآن کریم نے نویں پارے میں کہا: ﴿فلما عتوا عمَّا نہوا عنہ قلنا لہم کونوا قردةً خاسئین﴾۔ پھر جب انہوں نے سرکشی اختیار کی اس چیز سے جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے ان سے کہا ذلیل بندر بن جاوٴ۔ (سورہٴ اعراف:166)
اس سے صاف معلوم ہوا کہ بنو اسرائیل کی اس جماعت کو گناہ کرنے کی وجہ سے دنیا میں سزا مل گئی ۔
ایک مقام پر فرمان الٰہی: ﴿فعصوا رسول ربھم فأخذھم﴾․انہوں نے اپنے پروردگا ر کے رسول کی نافرمانی کی تو اللہ نے ان کی گرفت کی۔ (سورہٴ حاقہ:10)
﴿فکذبوھما فکانوا من المھلکین﴾۔انہوں نے موسیٰ اور ہارون کو جھٹلایا تو وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہوگئے ۔ (سورہٴ موٴمنون: 48)
یہ اور اس جیسی بے شمار آیات ِقرآنیہ اس پر دلیل ہیں کہ گناہ کی سزا دنیا میں بھی ہوئی، صرف یہی نہیں بلکہ شیطان اور امم ِسابقہ جو گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے مختلف طریقوں سے ہلاک کی گئیں، کیوں کہ اس گناہ کی وجہ سے ابلیس لعین کو راندہٴ درگاہ کیا گیا، گناہ کی وجہ سے ملعون ہوا، باطن تباہ وبرباد ہوگیا ، بجائے رحمت کے لعنت کا مستحق ہوا، قرب کے بدلے بُعد حصہ میں آیا ، تسبیح اور تقدیس کی جگہ کفر ، شرک جھوٹ اور فحش انعام میں ملا، یہ گناہ ہی تھے جنہوں نے قوم نوح علیہ السلام کو طوفان میں غرق کردیا ، اسی گناہ کی وجہ سے قوم عاد تند وتیز ہوا سے ہلاک کردی گئی ۔ یہی وہ گناہ ہے کہ قومِ ثمود کو چیخ کی آواز سے ہلاک کردیا گیا، وہ کونسی چیز تھی جس کی وجہ سے قوم لوط کی بستیوں کو آسماں تک لے جاکر الٹ دیا گیا، قومِ شعیب، قومِ فرعون و قارون وغیرہ اقوام کی بربادی اور ہلاکت کا سبب محض گناہ کے اور کیاتھا ؟
معلو م ہوا گناہ کی سزا انسان کو دنیا میں بھی بھگتنا پڑتی ہے اور آخرت میں بھی ہوگی، بلکہ قبر میں بھی مبتلائے عذاب ہونا ہوگا ؛ (اللہم احفظنا)۔
دنیا میں گناہ کی سزا پر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم 
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں ،ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے :پانچ چیزوں سے میں پناہ مانگتا ہوں، تم بھی اس سے پناہ مانگو۔
جب کسی قوم میں بے حیائی عام ہوئی ہے تو طاعون اور طرح طرح کی بیماریاں ان میں پھیل جاتی ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔
جب ناپ تول میں کمی ہوتی ہے تو وہ قوم قحط اور تنگی کے ساتھ ظالم حکمرانوں کے تسلط میں مبتلا ہوگی ۔
جو قوم زکوٰة کی ادائیگی نہیں کرے گی اس پر بارش کم کردی جائے گی ۔
جو لوگ عہد شکنی کریں گے تو اللہ غیر قوم کو ان پر مسلط کردیں گے۔
جو قوم شراب پینے اور موسیقی ومیوزک سننے میں مبتلا ہوگی تو ان پر زلزلے آئیں گے۔ (ابن ماجہ وابن ا بی الدنیا )
یہ اور اس طرح کی بے شمار احادیث دنیا میں گناہ کی سزا اور نقصانات پر دال ہیں۔
خلاصہ یہ نکلا کہ عام طور پر جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ اور برائی کی سزا دنیا میں نہیں ہوتی، آخرت میں ہوتی ہے، غلط ہے، صحیح یہ ہے کہ دنیا میں بھی اس کی سزا ہوتی ہے ،آج ہمارے معاشرے میں بے حیائی عام ہے تو کیا طرح طرح کی نئی نئی بیماریاں عام نہیں ہورہی ہیں؟ آج ہمارے معاشرے میں ناپ تول میں کمی ہورہی ہے تو کیا ظالم حکمراں ہم پر مسلط نہیں؟ آج ہمارے معاشرے میں زکوٰة دینے کا اہتمام نہیں تو کیا بارش کی قلت نہیں ہے ؟آج ہم لوگ وعدے پر وعدے کی مخالفت کرتے ہیں تو کیا اغیا ر کو ہم پر مسلط نہیں کردیا گیا؟ 
تعجب ہے پوری روئے زمین پر کہ کہیں بھی قرآن اور حدیث سے ماخوذ دستور پر مکمل عمل نہیں ہورہاہے اور ہمارے تمام حکمران غیروں کے دست نگر ہیں، شراب اور میوزک عام ہونے کی وجہ سے آئے دن زلزلے پر زلزلے آتے رہتے ہیں، آخری چند سالوں میں وقفے وقفے سے دنیا کے مختلف خطوں میں بھیانک زلزلے آتے رہے ہیں اور ہلاکت خیز تباہی مچاتے رہے ہیں، یہ سب کیا ہے؟ احادیث کی وعیدوں کی جیتی جاگتی صداقت کی مثالیں ہیں۔ فاعتبروا یا أولی الألباب۔ 
مگر افسوس کہ ہمارا معاشرہ پھر بھی اس بات کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیارنہیں، بلکہ وہ عذابِ الٰہی کو عذاب ہی نہیں تصور کرتا اور الٹا اس کے سائنسی اسباب تلاش کرکے، ان اسباب کے ذریعہ عذابِ الٰہی کو روکنے کی کوشش کرتاہے، یہ کتنی بڑی حماقت ہے، کیا عذابِ الٰہی کو بھی کوئی روک سکتا ہے؟ زلزلے کے اسباب کو معلوم کرنے کے بعد بھی وہ کسی زلزلے کو پچاس سال میں روک سکے، نہ روک سکیں گے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ روحانی اسباب کو تلاش کرکے ان پر توجہ دی جائے اور وہ اسباب ہیں اللہ کی نافرمانیاں اور گناہ۔ اللہ ہمیں حق بات سمجھنے کی توفیق دے اور دنیاوبر زخ اور آخرت میں اپنی ہر طرح کی گرفت اور عذاب سے محفوظ رکھے۔ آمین !
گناہ کے دنیوی نقصانات اور سزائیں 
گناہوں کی کثرت سے علم کا نور سلب ہوجاتا ہے۔
امام مالک نے امام شافعی سے کہا کہ میں تمہارے قلب میں نور محسوس کررہاہوں، کہیں گناہ کرکے تم اسے ضائع نہ کردینا۔ ارشاد خداوندی ہے: ﴿واتقوا اللہ لعکم تفلحون﴾۔(سورہٴ آل عمران:200) جب تقوی آئے گا (یعنی گناہوں سے بچنا) تب علم کا نور حاصل ہوگا۔
رزق کم ہوجاتا ہے یا بڑی ذہنی وبدنی کلفت کے بعد رزق حاصل ہوتا ہے ، حدیث میں ہے : ”وإن الرجل لیحرم الرزق بالذنب یصیبہ“۔ (ابن ماجہ)آدمی گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتاہے۔
قرآن میں ارشاد ہے: ﴿وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد﴾اور اگر تم کفر کروگے یا ناشکری کروگے تو میراعذاب بڑا سخت ہے۔ (سورہٴ ابراہیم:7) اگر گناہ کے بعد رزق میں تنگی نہ آئے تو یہ اللہ کی طرف سے ڈھیل ہے ،ا س سے دھوکہ نہ کھانا چاہیے۔
تصرف الٰہی سے محرومی: گناہ کے سبب اللہ کی مدد کے دروازے بندہوجاتے ہیں، ارشادِایزدی ہے : ﴿یایہاالذین آمنوا إن تنصروا اللہ ینصرکم﴾․ اے ایمان والو! اگرتم اللہ کی مددیعنی اطاعت کروگے تواللہ تمہاری مددکرے گا۔ (سورہٴ محمد:7)
معلوم ہوا کہ اطاعت کی صورت میں نصرت آتی ہے اور گناہ کرنے کی صورت میں مددنہیں آتی۔
ذلت سے دوچارہونا: گناہ کرنے سے انسان کی وقعت یاختم ہوجاتی ہے یاگھٹ جاتی ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے : ﴿ضربت علیہم الذلة﴾․ (گناہ کے سبب) ان پرذلت تھونپ دی گئی۔ (سورہٴ آل عمران:112)
معلوم ہواکہ گناہ سے ذلت وخواری کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔
دنیامیں امن وامان کاختم ہوجانا: گناہ کی نحوست سے ملک کاامن وامان غارت ہوکررہ جاتاہے۔ اللہ کاارشاد ہے: ﴿ظہرالفساد فی البر و البحر بما کسبت أیدی الناس﴾خشکی اورتری میں فسادبرپاہوگیا، لوگوں کے(برے)کرتوتوں کے سبب، یعنی گناہ کی وجہ سے۔ (سورہٴ روم:41)
کیاآج ہم نہیں دیکھ رہے ہیں کہ کوئی خطہٴ ارض امن سے معمورنہیں، قتل وغارت گری، چوری ڈکیتی ایک عام سی بات ہوگئی، روزانہ ہزاروں لوگ بے قصورمارے جارہے ہیں، بظاہریہ قصورہے، لیکن حقیقت میں یہ اللہ کی نافرمانی کی اجتماعی سزاہے، جسے ہم سمجھ نہیں پارہے ہیں۔ (جاری ہے)

Flag Counter