Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

4 - 20
***
نبی کریم اکی زندگی، ہر طبقے کے لیے
مولانا ابو حمزہ
نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ مسلما ن ہی نہیں، ساری انسانیت کے ہر طبقہ کے لیے بہترین نمونہ ہے، اسی لیے قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ار شاد فرمایا:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَة﴾․( اے لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے)۔
”لکم“ اور ”اسوة“ دونوں میں عموم ہے، یعنی تم سب کے لیے، چاہیے تمہارا تعلق انسانیت کے کسی بھی طبقہ سے کیوں نہ ہو،چاہے امیر ہو یا غریب، معلم ہو یا متعلم، نوجوان ہو یابوڑھا، بچہ ہو یاادھیڑ عمر،شوہر ہو یاباپ، فاتح ہو یا مفتوح، غالب ہو یامغلوب، بادشاہ ہو یا رعایا،امام ہو یامقتدی، واعظ ہو یایتیم۔ بہرحال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہرایک کے لیے ایسا نمونہ ہے کہ جس پر چل کر اللہ کی خوش نودی حاصل ہو سکتی اورانسان دارین کی کامیابیوں سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔ 
جب تک امت نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کواپنا آئیڈیل بنائے رکھا، امت کامیابی وکامرانی کی عزت ووجاہت کی منزل کو طے کرتی گئی اور جہاں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اعراض کیا پستی اور تنزلی کی طرف آنے لگی۔ اگر کوئی کہے کہ مسلما ن تعلیم اور ٹیکنا لوجی نہ حاصل کرنے کی وجہ سے یا مال ودولت کی کمی کی وجہ سے قیادت وسیادت سے ہاتھ کھو بیٹھا ہے تو یہ اس کی حماقت اور بے وقوفی ہے، اس لیے کہ جن مسلم ممالک نے تعلیم وٹیکنالوجی حاصل کی وہ بھی آج تک ترقی کو نہیں پہنچ سکے، کیا آپ نے تر کی اور ایران، ملیشیا، ترکستان، پاکستان، لیبیا،شام کونہیں دیکھا، کیا انہوں نے ٹیکنالوجی حاصل کرکے دنیا میں اپنا مقام بنایا؟ کیا روشن خیالی اورمغربیت کے نعرے نے ترکی کو کسی بھی میدان میں عزت سے ہم کنار کیا؟اللہ تعالیٰ، امت کی کمال اتاترک جیسے لوگوں سے حفاظت فرمائے اور کسی بھی اسلامی ملک کوگمراہ رہبروں سے دوچار نہ کر ے، جو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کھلے عام بغاوت کا اعلان کرے، امام مالک بن انس رحمة الله علیہ نے صاف ارشاد فرمادیا:”لایصلح آخر ہذہ الامة الا بما صلح بہ اولہ“ یعنی اس امت کے آخری دور کے افراد کی فلاح وصلاح اسی چیز سے ہو سکتی ہے، جس سے پہلے لوگو ں کی ہوئی اور آپ جانتے ہیں کہ صحابہ اور ہمارے اسلاف کو کامیابی سنت نبوی پرچل کر ہی ملی کیا ان صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاس کوئی ٹیکنالوجی تھی؟ نہیں نہیں! و ہ بیچارے اس زمانے کے صحیح ہتھیاروں سے بھی عاری تھے، مگر سنت پر چل کر ا ن کی دو سو کی جماعت بھی ہزار کو، دس ہزارکی جماعت اس زمانہ کی سُپر پاور قیصر وکسریٰ کی مسلح فوجوں کو شکست وہزیمت سے دوچار کر دیتی تھی۔ 
ذراہمارے صحابہ اور اسلاف کی تاریخ کی ورق گردانی کرکے دیکھ لو معلوم ہوجائے گا کہ ان کی کامیابی کاراز سنت نبوی کے علاوہ اوراسوہٴ نبوی علی صاحبہا الف الف تحیة وسلام کے علاوہ کوئی چیز نہیں؟ لہٰذا ہم یہاں پر صرف ہر طبقہ کے افراد کے لیے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مراحل کی نشاندہی کرنا چاہیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کون سا حصہ کس طبقہ انسانی کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
تو آیئے! میرے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو مرحلہ وار معلوم کرکے آج ہی اس پر عمل پیراں ہونے کا پختہ عظم کریں۔ اللہ رب العزت ہم مسلمانوں کو تمام گمراہ لوگوں کی پیروی سے نکال کر نبی آخرالزماں علیہ الف الف تحیة وسلام کی اتباع کرنے کی حتی الامکان توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین․
میرے نبی کی زندگی کا نقشہ
اے مسلمان! تو اگر صاحب ثروت اور مالدار ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کر، جس میں آپ نے بعثت سے پہلے حجاز اور شام کے درمیان تجارت کی اور اسی طرح ان ایام کا بھی مطالعہ کر، جس میں آپ بحرین کے خزانہ کے مالک بن گئے ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت میں نہ کسی کودھوکہ دیا، نہ کسی سے جھوٹ بولا اور حرام کمائی کے قریب بھی گئے اور نہ کبھی وعدہ شکنی کی اور نہ کبھی شریک کے ساتھ خیانت کی، گویا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہر مسلمان تاجر اور مالدار کے لیے قابلِ تقلید ہے۔
اور اگر اے مسلمان! تو تہی دست و تہی دامن ہے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان ایام کا مطالعہ کر،جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعب ابی طالب میں محصور کردیے گیے تھے اور ان ایام کا بھی مطالعہ کر۔ جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آکر گذارا۔ ایسے سخت حالات آئے کہ کبھی فاقہ کی نوبت تک آجاتی، مگر پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے سامنے ہاتھ دراز نہ فر ماتے تھے، بل کہ صبر و تحمل سے کا م لیتے تھے، لہٰذا غریبو ں کے لیے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قابل تقلید ہے ۔
او راگر اے مسلما ن! تو بادشاہ ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان ایام کا مطالعہ کر، جن میں آپ پورے جزیر ة العرب پر قابض ہوگئے، مگر آپ نے کبھی بھی کسی پر ظلم نہیں کیا، نہ کسی سے مال ظلماًلیا اورنہ کسی کو ظلماً قتل کیا، بل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شما ر اپنے جانی دشمنوں کو معاف کردیا، صرف معاف ہی نہیں کیا، ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ بھی کیا ۔
اور اے مسلما ن! اگر تو کسی ملک میں رعایا کی حیثیت سے آبا د ہے تو مطالعہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اُن ایام کا جن کو آپ نے مکہ میں گذارا، نہ کبھی چوری ڈکیتی کی، نہ کسی کو ستایا، بل کہ ظالموں کے ظلم پر صبر کرتے رہے اوریتیمو ں ،مسکینو ں اور ضعیفوں کی نصرت کر تے رہے۔ اسی لیے تو حضر ت خدیجة الکبر ی ٰرضی اللہ تعالی عنہا نے کہا تھا: وَ اللّٰہ لایُخْذِیْکَ اللّٰہ اَبَدًا… اللہ آ پ کو کبھی بھی رسوا نہ کرے گا۔ کیو ں کہ آپ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں، یتیموں و غریبو ں کی مدد کرتے ہیں۔ بل کہ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کوبعثت سے پہلے بھی لوگ الصادق الامین کہتے تھے، معلوم ہوا رعایا کے لیے بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم قابل تقلید ہیں ۔
اے مسلمان اگر تو فاتح ہے تو مطالعہ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان ایام کا جب آپ نے مکہ کوفتح کیا اور جانی دشمنوں کے بارے میں بھی اعلان کردیا: لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ اے اہل مکہ! آج تم پہ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔ معلوم ہوا فاتح کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ ہیں، نہ کہ امر یکہ اور روس، نہ برطانیہ۔
اور اے مسلمان! اگر تو شکست خوردہ ہے (اللہ تیرے لیے کبھی بھی شکست مقد ر نہ کرے)، تب بھی مطالعہ کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان ایام کا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُحد میں ابتداء ً شکست سے دوچار ہوئے، مگر کوئی آہ واویلا نہ کیا ۔
اے مسلمان! اگر تومعلم اور استاد ہے تب بھی حضور کی زندگی کے ان ایام کا مطالعہ کر، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بیت ارقم ابن ارقم میں اور مدینہ آنے کے بعد مسجد نبوی اور صفہ میں صحابہ کو دین سکھا تے تھے، کتنا عمدہ اُسلوب تھا نبی کی تعلیم دینے کا کہ ایک بات کو تین مرتبہ دہرا تے تھے، تاکہ ہر ایک کی سمجھ میں آجائے، سوال کرنے والے کے سوال کامقتضی حال کے مطابق جواب دیتے تھے۔نہ خفا ہوتے تھے اور نہ ناراض ہوتے تھے ۔
اور اے مسلمان! اگر تو طالب علم ہے تو مطالعہ کر ان ایام کا جب کے وحی لے کر جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آتے تو آپ پوری توجہ اور رغبت کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہو تے، نہ کبھی ان کی گستاخی کرتے اور نہ ان کے سامنے بے ادبی سے کام لیتے، بل کہ تواضع اور انکساری کے ساتھ کام لیتے تھے ۔
اوراے مسلمان! اگر تو واعظ ہے تو مطالعہ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان ایام کا جب مدینہ میں صحابہ کو کبھی درخت کے پاس کھڑے ہو کر، کبھی مسجد کے منبر پر بیٹھ کر فصیح وبلیغ الفاظ میں وعظ دیتے، نہ بہت طویل وعظ دیتے اور نہ بہت قصیر، بل کہ میانہ روی اختیار کرتے اور احوال کو دیکھ کر وعظ دیتے، یہاں تک کہ مجلس ایسی متأثر ہوتی کہ رونے لگتی۔
اور اگر اے مسلمان! تو یتیم ہے تو مطالعہ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین بچپن میں رحلت فرماچکے تھے ۔پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ سلم نے کتنا عمدہ بچپن بسر کیا۔
اور اگر تو صغیر السن ہے، تو مطالعہ کر ان ایام زندگی کا جن کو آپ نے حلیمہ سعدیہ کے گھر پر گزارا کہ اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ چراگا ہ جاتے تھے اور کبھی آوارہ اور اوباش لڑکوں کے ساتھ وقت نہیں گزار تے تھے ۔
( اگر تو نوجوان ہے، تو مطالعہ کر آپ کے ان ایام شباب کا جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کی بکریاں چراکر گذارا، نہ کبھی کسی گانے کی محفل میں گئے اور نہ کبھی کسی بری حرکت کا ارتکاب کیا، بل کہ شریف اور صادق وامین کے لقب سے مشہور ہوئے، مسلمان نوجوان ان فلم اسٹاروں اور کھلاڑیوں کے نقش قدم پر آخر کیوں چلتا ہے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑ ھ کر بھی کوئی قابل تقلید آئیڈیل ہو سکتا ہے ؟
اور اگر تو جج یا حاکم ہے تو مطالعہ کر حضور کی زندگی کے واقعہٴ حجر اسود اور واقعہٴ مفتاح کعبةاللہ وغیرہ کا ۔
اور اگر تو شوہر ہے، تو مطالعہ کر خدیجہ اور عائشہ اور دیگر اُمہات المومنین کے ساتھ گزرے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات کا اور لمحات کا ۔
اور اگر تو دادا۔ یا۔ نانا ہے، تو حسن و حسین کے نانا کے ان لمحات کا مطالعہ کر، جو حسن وحسین کے ساتھ گزارے ۔
خلاصہٴ کلام یہ کہ تو جس کسی بھی حالت میں یا درجہ پر ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تجھے اس حالت اور مرتبہ کو گزارنے کا صحیح سلیقہ اور منہا ج بتلائے گی، ر بیع الاول کی مہینے کی مناسبت سے آپ ضرور یہ عہد کریں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو ضرور ایک بار پڑ ھیں گے اور پھر اس کے مطابق زندگی بسر کریں گے، ان شاء اللہ ۔دنیا اور آخرت کی کامیابی وکامرانی آپ کے قدم چومے گی اور اطمینان و سکون جیسی عظیم نعمت آپ کو ان خطوط پر چل کر آسانی کے ساتھ مل جائے گی، جس کے لیے آج دنیا کو شاں ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین

Flag Counter