Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

20 - 20
***
امتحان کی تیاری کیسے کریں؟
محترم عبدالرحمن ملّی
بہتسے طلبہ امتحان کے صحیح طریق کا ر سے متعلق جستجو میں لگے رہتے ہیں کہ امتحان کیسے دیں؟ تا کہ ان بہت سی ، امتحانی پریشانیوں سے بچا جاسکے، جن سے طلبہ کا سامنا ہو تا ہے ۔ جیسے امتحانی ایام میں خوف کا طاری ہو نا ، بے چینی کا چھا جانا ، عدم اعتمادی کا شکار ہونا ، یہ ایسی چیزیں ہیں جو انسانی معلومات اور اس کے ذہن ودماغ کو متاثر کر دیتی ہیں ، جب کہ امتحانی دنوں میں معلومات کا فقدان (جن کی طالب علم کو شدید ترین ضرورت ہو تی ہے ) بہت بڑی محرومی ہے ۔ اور یہی محرومی طالب علم کی ناکامی اور رسوائی کا سبب بن جاتی ہے ۔ 
ایسے پریشان کن مراحل میں ایک طالب علم کو چاہیے (چاہے اس کی ذہنی سطح کتنی ہی بلند ہو ) کہ تجربہ کا ر ماہرین تعلیم کی قیمتی نصائح کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کو نصب العین بنائے، خاص کر جب کہ وہ نصیحتیں امتحان سے متعلق بھی ہوں ۔ تو یہلیجیے چند نصیحتیں پیش خدمت ہیں۔
امتحان کی رات
طالب علم کو چاہیے کہ وہ امتحانی رات میں ذہنی وبدنی راحت حاصل کرے۔ تا کہ آئندہ کل کے جوابات پُر سکون طریقے پر لکھ سکے، ماہرین تعلیم اور تجربہ کارمُرَبّی امتحانی دنوں میں طلبہ کو کچھ اس طرح تربیتی نصیحتیں کرتے ہیں، تا کہ طلبہ ان کا پورا لحاظ رکھیں اور امتحان کے ہر مضمون میں اعلیٰ نمبرات سے کامیاب ہوں۔
امتحانی رات میں مفید ومقوی غذا استعمال کرے اور ایسا کھانا کھانے سے پرہیز کرے، جو بدہضمی کا باعث بنے اور پھر وہ مشکلات پیدا کرے کہ طالب علم کی امتحانی رات پوری بے چینی اور بے قراری میں گذر جائے کہ جس سے امتحان بھی متاثر ہو جائے۔
جلد سونے کی کوشش کرے ، طویل مذاکرہ نہ کرے، اس لیے کہ امتحانی رات میں طویل مذاکرہ ذہن کو تھکا دیتا ہے۔
بے چینی سے پورے طور پر بچے ، اس لیے کہ بے چینی طالب علم کے اعضا پر اثر انداز ہو تی ہے، جس کی وجہ سے وہ شک میں مبتلا ہو جا تا ہے۔ اور خود اعتماد ی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور بسا اوقات یہی بے چینی اعصابی خوف کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ جس سے طالب علم کی قوتِ یادداشت متاثر ہوجا تی ہے ۔ ان تمام چیزوں کا علاج بس یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے خود اعتمادی کے ساتھ امتحان کی پوری تیاری کرے کہ یہی امتحان کی کنجی ہے۔
نیند آور گولیوں سے احتیاط کرے کہ ان کی تاثیر نقصان دہ ہوتی ہے۔
امتحان کے لائحہ عمل کی پوری پابندی کرے ( کہ امتحان کس جگہ ہو رہا ہے اور کب؟)
ادوات کتابت کی پوری تیاری رکھے جیسے قلم، فُل اسکیپ ، وغیرہ۔
نیند سے بر وقت بیدار ی کے لیے کوئی مناسب گھڑی استعمال کرے ۔
اس بات کی پوری کوشش ہو کہ طالب علم کم سے کم چھ گھنٹہ آرام کر سکے ۔
امتحا ن کا دن
نیند سے جلد بیدار ہو جایا کرے، تا کہ غسل اور تبدیلی لباس سے اطمینان سے فارغ ہو سکے۔
فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کی پوری فکر ہو ۔
ناشتہ اطمینان بخش کر، تاکہ امتحانی اوقات میں کسی بھی طرح کی کمزوری کا احساس نہ ہو۔
جس فن کا امتحان دینا ہے اس کے اشارات وحواشی کو اچھی طرح دیکھ لے۔
امتحان گاہ وقت سے پہلے جانے کی عادت ہو ، تا کہ راستہ کی کسی بھی وقتی پریشانی سے محفوظ رہ سکے ۔
جب گھر سے نکلیں تو دعا کا اہتمام کریں، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں وارد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آدمی گھر سے نکلے تو ”بسم اللہ، توکلت علی اللہ، لا حول ولا وقوة إلا باللہ“ پڑھے ، تو اللہ کی طرف سے ا سے کہا جاتا ہے ۔ کافی ہے تیرے لیے ۔ تو صحیح راستہ دکھایا گیا اور تیرے لیے اللہ کی طرف سے کفایت ہوئی اورتو شیطان سے بچایا گیا اور شیطان تجھ سے دور کیاگیا ۔ ( ترمذی)
امتحان گاہ جاتے وقت یہ دعا مانگے
اَللّٰہُمَّ إنِّی تَوَکَّلْتُ عَلَیْکَ، وَسَلَّمْتُ اَمْرِیْ إِلَیْکَ، لاَ مَنْجٰی وَلَا مَلْجَأ اِلَّا إِلَیْکَ․
امتحان گاہ میں داخل ہوتے وقت یہ دعا مانگے
رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیْرًا․
سوالیہ پرچہ وصول کرتے وقت یہ دعا مانگے
بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ، اَللّٰہُمَّ لَا سَہْلَ اِلَّا مَا جَعَلْتَہُ سَہْلًا، وَاَنْتَ تَجْعَلُ الْحَزْنَ اِذَا شِئْت سَہْلا ․
سوالات کو حل کرتے وقت یہ دعا مانگے
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْ لِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِیْ․
اگر کوئی مشکل سوال درپیش ہو تویہ دعا مانگے
(1) یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ ، بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ، (2) لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ إنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ، رَبِّ اِنِّی مَسَّنِیَ الضُرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ․
اگر جواب تحریر کرنے کے دوران نسیان غالب آجائے تویہ دعا
(1) اَللّٰہُمَّ یَا جَامِعَ النَّاسِ لِیَوْمٍ لاَ رَیْبَ فِیْہِ اِجْمَعْ عَلَیَّ ضَالَّتِیْ۔(2) اَللّٰہُمَّ افْتَحَْ عَلَیَّ فُتُوْحَ الْعَارِفِیْنَ بِحِکْمَتِکَ، وَانْشُرْ عَلَیَّ رَحْمَتکَ، وَذَکِّرْنِیْ مَا نَسِیْتُ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ․
جب پرچہ سے فارغ ہو جائے یہ دعا مانگے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلاَ اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ․
اپنی گھڑی اور ضروری امتحانی اشیا اپنے ساتھ رکھے، جیسے قلم وغیرہ۔
امتحانی سوالات کی کیفیت سے متعلق اپنے کسی بھی ساتھی سے نہ پوچھے ، ہو سکتا ہے وہ تمہارے ذہن کو منتشر کردے اور ایسی جگہ کی نشاندہی کرے جس کو تم نہیں جانتے، جس سے تم خود اعتمادی کھو بیٹھو ۔
درمیان امتحان
امتحان گاہ میں اپنی نشست پر بالکل پر سکون اور مطمئن بیٹھیں۔
جب جوابی پرچہ دیا جائے تو آغاز ”بسم اللہ “ سے کیجیے ، پھر مطلوبہ جوابات کو تحریر کیجیے، پہلے ترتیب اور فن کی تعیین کیجیے۔
سوالیہ پرچہ پر جو ہدایات لکھی ہوں ان کو اچھی طرح پڑھ لیں ، پھر پورے سوالات پڑھ کر اچھی طرح سمجھ لیں۔
آغاز آسان سوال سے کیجیے ،اور پھر مشکل سوال پر نظر مرکوز کیجیے ۔
تمام سوالات کے لیے وقت کی مناسب تقسیم کیجیے ،جب کہ تمام سوالات نمبرات کے اعتبار سے برابر ہوں ۔ اور اگر کچھ سوالات مختلف نمبرات کے ہوں تو پہلے زیادہ نمبرات والے سوال کو زیادہ وقت دیجیے ۔
جب کسی سوال کے کئی عناصر ہوں اور درمیان تحریر ان میں سے کوئی ایک یا اس سے زیادہ بھول رہے ہوں تو اتنی جگہ چھوڑ دیجیے تاکہ یا دآنے پر ان عناصر کو لکھا جا سکے۔
موضوع سے متعلق اپنے جوابات صاف تحریر میں لکھیں ، تاکہ جوابی پر چہ ہر طرح کی بے ترتیبی سے محفوظ رہے۔
کوشش کیجیے کہ آپ جوابات امتحانی وقت ہی میں پورے کریں ۔
جوابی کا پی جمع کرنے سے پہلے خود جوابات کی مراجعت اور ان پر نظر ثانی کرلیں، تاکہ آپ جلد بازی سے بچ جائیں۔
اپنے ارد گرد طلبہ سے مصروف نہ ہوں اور نہ ہی کسی کے اپنے سے زیادہ لکھنے پر کبیدہ خاطر ہوں۔
امتحانی سوالات 
بہت سے طلبہ صحیح جوابات نہیں لکھ پاتے، اس لیے کہ وہ سوالات ہی نہیں سمجھتے ، جس کی وجہ سے صحیح جوابات سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے طالب علم کو چاہیے کہ سب سے پہلے سوال سمجھے، اس لیے کہ کبھی کبھی ایک سوال مختلف پہلو وعناصر رکھتا ہے اور کبھی کبھی سوال مغلق اور پیچیدہ ہو تا ہے۔
جب سوال مختلف پہلو رکھتا ہو تو اس کے جواب کے وقت ہر پہلو کا مقصدمتعین کیجیے اور ہر ایک کا الگ الگ جواب دیجیے ۔ اور جب سوال پیچیدہ اور مشکل ہو تو اس کے معنی کی تعیین میں دقتِ نظری اور اعلی دماغی سے کام لیتے ہوئے اس کے صحیح معنی لکھتے وقت خوش خطی کا پورا خیال رکھیے۔ تاکہ ان عناصر کا لحاظ رکھا جا سکے۔
ان ہی چند ضروری اور لازمی عناصر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر طالب علم وہ درجہ پا سکتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہے یا جس کا وہ مستحق ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر طالب علم کو ان ہدایات واصولوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے اور دارین کی کامیابی وکامرانی سے ہم کنا ر فرمائے ۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز․

Flag Counter