Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

13 - 20
***
مبصر کے قلم سے
تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)
ماہنامہ فقاہت
یہ ماہنامہ عبدالوحید اشرفی صاحب کی زیر ادارت لاہور سے شائع ہوتا ہے ، مولانا نعیم الدین صاحب اس کے نگران ہیں اداریہ کے علاوہ اس میں تقریباً سات مضامین شامل اشاعت ہیں ، ماہنامے میں بطور خاص ایسے تحقیقی مضامین کو جگہ دی جاتی ہے جن میں تقلیدی مدلّل مباحث ہوں اور ائمہ کرام کی تقلید سے خروج اور آزادی کے مفاسد اور نقصانات کا ذکر ہو … یہ امت کی رہ نمائی کے لیے ایک عمدہ رسالہ ہے ، دفتر ماہنامہ فقاہت، الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ماہنامہ المصطفےٰ
یہ ماہنامہ بھاولپور کے جامعہ دارالعلوم مدنیہ کا ترجمان ہے ، اور مولانا عبدالصمد صاحب کی زیر ادارت نکلتا ہے، اس میں اکابر واصاغر کے ایک درجن کے قریب مضامین شامل اشاعت ہیں ، ابھی حال ہی میں اس کا امام اہلسنت نمبر شائع ہوا جس میں امام اہلسنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب  کے تفصیلی حالات اور معاصر اہل علم کے رشحات قلم اور مضامین شائع ہوئے ، رسالہ کا پتہ ہے۔ جامعہ دارالعلوم مدنیہ، ماڈل ٹاؤن بی، بھاولپور، پاکستان۔
سہ ماہی صدائے اسلام
یہ ایک دینی اور سہ ماہی رسالہ ہے جس کو ادارہ دارالقرآن ٹرسٹ میلسی، وہاڑی شائع کرتا ہے ، حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی مدظلہ اس کے سرپرست ہیں، اس پورے رسالے میں ڈاڑھی اور جسم کے دوسرے حصوں کے بالوں کے شرعی احکام ذکر کیے گئے ہیں ،یہ ایک اصلاحی رسالہ ہے اور عموماً معاشرتی او رسماجی نوعیت کے علمی مضامین اس میں شائع کیے جاتے ہیں۔
ماہنامہ الشریعة
زیر نظر رسالہ، ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ مئی، جون2009ء کا خاص شمارہ ہے جس میں معمول کے مضامین کے علاوہ”عصرحاضر میں تدریس حدیث کے تقاضے “ کے عنوان سے ہونے والے سیمینار کے مقالات ومضامین بھی شامل اشاعت ہیں ، مولانا زاہد الراشدی صاحب، مولانا مفتی محمد زاہد صاحب، مفتی برکت الله صاحب اور مولانا عمار ناصر خان صاحب کے مضامین ومقالات شامل کیے گئے ہیں اداریہ میں مولانا زاہد الراشدی صاحب نے الشریعہ او راپنے موقف کی وضاحت کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اعتدال وتوازن کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
”ہمیں نہ اس تجدد سے اتفاق ہے جس میں امت کے اجماعی تعامل اور اہل علم کے علمی مسلمات کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو اور نہ ہی اس تشدد کے لیے ہمارے پاس کوئی جگہ ہے جو جزئیات وفروع پر جمود کی کیفیت پیدا کر دے کہ وقت کے ناگزیر تقاضوں اور ملی ضروریات سے ہی آنکھیں بند کر لی جائیں…“
مولانا کی یہ رائے بڑی معتدل اور وزنی ہے … ضرورت اس بات کی ہے کہ مولانا اپنے رسالے الشریعہ میں اس کو جاری اور باقی رکھیں اورکوئی مضمون یا تحریر” اہل علم کے علمی مسلمات“ سے ہٹ کر اس میں شائع نہ ہو، اہل علم کی طرف سے ماہنامہ الشریعہ پر جو اعتراض یا اس سے جو شکایت ہے وہ یہی ہے کہ اس میں مسلمات سے ہٹ کر کئی چیزیں شائع ہو جاتی ہیں ، حدود وتعزیرات سے متعلق کئی امور اس طرح اس میں شائع ہوتے رہے ہیں… کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ماہنامہ الشریعہ میں مولانا، آزاد مباحثہ اور مکالمہ کو جزئیات وفروعات کے دائرے کے اند ررکھیں، مسلمات کے دائرے سے باہر نہیں نکلنا چاہیے کہ وہاں سے خود مولانا کے الفاظ میں” گمراہی کی سلطنت شروع ہو جاتی ہے…“
160 صفحات کے اس شمارہ میں سلیقہ مندی کا خاص خیال رکھا گیا ہے ، خط وکتابت کے لیے: ماہنامہ الشریعہ، پوسٹ بکس نمبر331 ، گوجرانوالہ، صوبہ پنجاب۔
حقوق اور ان کی خرید وفروخت
تالیف: عمر عابدین قاسمی
صفحات:224 سائز: 23x36=16
مؤلف کتاب کا تعارف کراتے ہوئے ، مفتی دارالعلوم دیوبند، مولانا مفتی محمد ظفیرالدین مدظلہ لکھتے ہیں:
”مؤلف عزیر مولانا محمد عمر عابدین سلّمہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں، انہوں نے عصری درس گاہوں سے بھی ڈگری حاصل کی ہے اور اس وقت جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں شعبہٴ حدیث، کے طالب علم ہیں،بہار بلکہ ہندوستان کا ایک معروف علمی خانوادہ جالہ ضلع دربھنگہ میں واقع ہے ، یہ خاندان پشتہاپشت سے علم ومعرفت میں ممتاز رہا ہے ، عزیزی سلّمہ کے پرداد حضرت مولانا عبدالاحد صاحب  دارالعلوم کے ممتاز فضلا میں تھے، وہ اپنی جماعت میں اول آتے تھے اور حضرت مولانا اعزاز علی صاحب  جیسے صاحب نظر عالم کے درسی ساتھی تھے ، انہوں نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن  سے بخاری شریف پڑھی اور دارالعلوم سے فارغ ہونے کے بعد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی  اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی سے بھی استفادہ کیا ، انہوں نے نے طب کو اپنا ذریعہ معاش بنایا اور علوم اسلامی کی تدریس کو اپنا مشغلہ، تقریر وخطابت او رمناظرہ میں بھی اپنے عہد کے ممتاز لوگوں میں تھے ، ان کے دو صاحبزادے تھے ، ایک حضرت مولانا حکیم زین العابدین صاحب  ، جو کئی کتابوں کے مصنف تھے ، نیز گورنمنٹ طبیب بھی تھے ، اپنے علاقہ ہی میں دینی خدمت کرتے رہے ، اس لیے زیادہ مشہور نہیں ہوئے ، دوسرے صاحبزادے حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی تھے، جو طویل عرصہ تک بہارواڑیسہ کے قاضی شریعت رہے ، اخیر عمر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر بھی منتخب ہوئے، ان کو علم وفضل کے اعتبار سے سے ملک اور بیرون ملک میں بڑی شہرت حاصل ہوئی جو محتاج بیان نہیں، حضرت مولانا حکیم زین العابدین صاحب کے صاحبزادے حضرت مولانا خالد سیف الله رحمانی ہیں ، جو دارالعلوم دیوبند کے فضلاء میں ہیں، ان کی متعدد تالیفات علماء اور عوام کے درمیان نہایت مقبول ہیں اور ان کا شہرہ ملک وبیرون ملک میں ہے، مؤلف عزیز ان ہی کے فرزند ہیں ، انہوں نے نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد معہد میں فقہ وافتاء میں تخصص کیا ہے اسی شعبہ کے سندی مقالہ کے طورپر عزیزی سلّمہ نے یہ کتاب لکھی ہے ، گویایہ زمانہٴ طالب علمی کی کوشش ہے ، جو ان کے روشن مستقبل کا پتہ دیتی ہے او راُمیددلاتی ہے کہ یہ علم وتحقیق کے میدان میں اپنے خاندانی ورثہ کے امین ہوں گے۔“
کتاب کا تعارف ٹائٹل پر ان الفاظ میں ہے: ”جن حقوق سے مالی منفعت متعلق ہے، جیسے حق تالیف، حق ایجاد، لائسنس وغیرہ ان کے قابل خرید وفروخت ہونے او رنہ ہونے کے بار ے میں اُصولی گفتگو اور مروجہ صورتوں کے احکام، فقہاء کی تصریحات کی روشنی میں ، مستند کتابوں کے حوالہ سے، عام فہم زبان اور آسان اُسلوب میں۔“

Flag Counter