Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

1 - 20
***
جمادی الاولیٰ 1431ھ, Volume 26, No. 5
غلط جگہ پر
مولانا عبید اللہ خالد
زندگی میں لوگ خوشی، آرام اور آسائش کی سب سے زیادہ خواہش کرتے ہیں۔ لیکن یہ کہنے دیجیے کہ زندگی میں قانونِ فطرت کے تحت یہ ہی شے سب سے کم یاب، بلکہ نایاب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں انسان کو اللہ تعالیٰ نے مشقت کے ساتھ پیدا فرمایا ہے (لقد خلقنا الانسان فی کبد) لہٰذا اس زندگی میں غم، پریشانی، ابتلا، مصیبت، محنت و مشقت تو رہے گی ہی۔ مفسرین نے یہ تفسیر کی ہے کہ انسانی فطرت میں محنت و مشقت ڈال دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی اگرچہ خواہش تو رکھتا ہے آرام و سکون کی، مگر اس کے لیے محنت و مشقت لازمی امر ہے۔
اس بات کو یوں سمجھیے، ایک فرد کے لیے ایک شے خوشی اور آرام کا ذریعہ (بہ ظاہر) ہوسکتی ہے، لیکن دوسرے فرد کے لیے وہی شے ابتلا اور بے چینی کا سبب ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک شخص بے اولاد ہے وہ اولاد والوں کو دیکھتاہے تو اسے خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بھی اولاد ہو۔ اس کے لے وہ بعض اوقات جائز ناجائز جتن بھی کرتا ہے۔ لیکن ایک شخص جس کی اولاد ہے، وہ اولاد کی نافرمانی سے پریشان ہے اور بے اولاد لوگوں کو دیکھ کر یہ سوچتا ہے کہ کاش اس کی اولاد نہ ہوتی تو اولاد کی موجودگی اور اس کی نافرمانی سے جو جھمیلے اسے جھیلنے پڑ رہے ہیں، وہ نہ ہوتے۔ ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی جن میں ایک آدمی ایک نعمت کے نہ ہونے پر پریشان ہے تو دوسرا اس نعمت کے ہونے پر پشیمان۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی نعمت کی موجودگی یا غیر موجودگی اطمینان اور انعام کی علامت نہیں، امتحان اور ابتلا کا ذریعہ ہے۔ لیکن انسان کی محدود نظر اسے انعام سمجھتی ہے۔ یہیں سے بگاڑ کا آغاز ہوتا ہے۔ مادی مقابلہ و مسابقت کی جو دوڑ آج دنیا بھر کے معاشروں میں نظر آتی ہے، وہ اسی زاویہ نگاہ کا نتیجہ ہے۔ اس کی وجہ سے تقریباً تمام اخلاقی و روحانی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔
ایسا تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا۔ انسان جب کبھی اللہ سے دور ہوا ہے، اور اس نے آخرت کے بجائے دنیا کو اپنا مقصد بنایا ہے، اسے ہمیشہ غم و الم، فکر و پریشانی کے شدید تر احساس نے آگھیرا ہے۔ یقینا، تکالیف سے تو اللہ والے بھی محفوظ نہیں ہیں، لیکن تکلیف کا احساس، پریشانی اور بے سکونی دراصل اضافی چیزیں ہیں۔ چنانچہ ضروری نہیں کہ ایک شخص تکلیف میں ہو اور اسے تکلیف کا احساس بھی ہو۔ ایک شخص مجروح ہو اور اسے اپنے زخموں پر بے تابی بھی ہو۔ ایک شخص بہ ظاہر فاقے کرتا ہو، لیکن ضروری نہیں کہ وہ غربت کے کرب میں بھی مبتلا ہو۔ 
سکون ہو یا بے سکونی، انعام ہو یا ابتلا، آرام ہو یا آلام․․․ یہ سب اضافی احساسات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ دنیا کی ہر آسائش رکھنے کے باوجود خوش اور مطمئن نہیں ہوتے۔ اور بعض لوگوں کے پاس انتہائی بنیادی ضروریات تک نہیں ہوتیں، تب بھی ان کے پاس خوشی، راحت اور اطمینان کا وافر ذخیرہ ہوتا ہے۔
انسان ساری زندگی سب سے زیادہ محنت جس چیز کے لیے کرتا ہے، وہ یہی راحت و سکون ہے، لیکن افسوس راحت و سکون جس جگہ دست یاب ہے وہاں تلاش نہیں کرتا۔ راحت و سکون تو خدا کے پاس ہے اور خدا تک رسائی کا ذریعہ صرف صرف اللہ کا ذکر ہے (الا بذکراللہ تطمئن القلوب)۔ لیکن انسان اس اطمینان کو دنیا کے ہر کونے اور ہر شے میں تلاش کرتا اور بھٹکتا پھرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اتنی ترقی کرنے کے باوجود سکون نہیں پاسکا۔ اور جن جن لوگوں نے اسے درست جگہ تلاش کیا، یعنی اللہ کے ذکر میں، وہ اطمینان اور سکون کی زندگی گزاررہے ہیں۔ اس لیے عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ظاہری حالت کو نہ دیکھا جائے بلکہ حقیقی سکون تلاش کیا جائے، اس میں راحت و سکون اور․․․ اپنے مقصد میں کامیابی ملے گی۔

Flag Counter