Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1431ھ

ہ رسالہ

7 - 17
***
ایک کم یاب او رنادر تحریر
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی 
شیخ الہند، حضرت مولانا محمود حسن کے مختصر اور نادر حالات شیخ الاسلام، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  کے قلم سے
فطرت انسانی نے جو جو عجائب وغرائب اس عالم شہادت میں ظاہر کیے ہیں ان میں سے یہ امر بھی ہے کہ انسان کو اپنے محبوب کے بڑے سے بڑے عیوب بھی نظر نہیں آتے، آنکھیں فقط اس کے محاسن اور کمالات کو دیکھتی ہیں اور نہ صرف معمولی نظر سے دیکھتی ہیں، بلکہ غیر معمولی طریقہ پر چھوٹی سی چھوٹی فضیلت محب اور دلدادہ کی نظر میں پہاڑ کی طرح دکھائی دیتی ہے، اس کے لیے مدائح او رمحامد کے طور پر او رمبالغہ سے بھرے ہوئے قصائد وخطب بھی بہت کم معلوم ہوتے ہیں ، دُھواں دھارتقاریر بھی ا س میدان میں رائی کے دانہ سے چھوٹی دکھائی دیتی ہیں ۔ برعکس اس کے دشمن اور مبغوض کے جملہ کمالات خواہ وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں،آنکھوں کے سامنے بھی نہیں پڑتے ، اس کے فقط عیوب دکھائی دیتے ہیں اور یہ بھی نہیں کہ فقط واقعی عیوب دکھائی دیں، بلکہ جس طرح سبز عینک سے تمام اشیا سبز ہی سبز نظر آتی ہیں، اسی طرح بغض وعداوت کی آنکھ حقیقی کمالات اورواقعی فضائل کو بھی معائب ہی کے رنگ میں دیکھتی ہے ، کسی واضح سے واضح کمال کا اقرار کرنا عدو اور حاسد کو پہاڑ اٹھالینے سے زیادہ ترگراں معلوم ہوتا ہے، اس کے محامد او رمدائح کے سننے او ردیکھنے سے نہایت ہی، زیادہ کلفت اور دل تنگی پیش آتی ہے۔ ولنعم مامثل:
عین الرضا عن کل عیب کلیلة
ولکن عین السخط تبدی المساویا
اگرچہ مذکورہ بالا قاعدہ فطری قانون شمار کیا جاتا ہے ، مگر حقیقت میں ( ایسے) اشخاص بھی ہر زمانہ میں ضرور پائے جاتے ہیں ، جو کہ افراط وتفریط کی ناگوار موجوں سے محفوظ رہ کر حقائق کو دریافت اور ظاہر کرتے رہتے ہیں ، محبت مفرطہ کے سوا حل سے تحقیق وصداقت نے ان کو دور کرکے وسط بحار میں پہنچا کر واقعی دُرَر اور اصلی چمک دار لآلی کے معدن تک پہنچا دیا ہے۔
معذرت اور اظہار واقعہ
وسیلتی فی الدار ین حضرت شیخ الہند قدس الله سرہ کے ترجمہ کے متعلق میرا کچھ لکھنا، خواہ وہ کتنی ہی صداقت پر مبنی کیوں نہ ہو، مجھ کو زیادہ تراندیشہ میں ڈالتا ہے کہ بہت سے اشخاص افراط محب پر محمول فرماتے ہوئے غیر واقعی خیال کریں گے ۔ میں جہاں تک غور کرتا ہوں ایسا گمان کرنے والے حضرات ایک بڑے درجہ تک معذور ہیں، ایک نالائق خادم اپنے ولی نعمت اور روحانی وجسمانی آقا ، دنیا اور آخرت کے وسیلہ کے متعلق جو کچھ بھی کہے یا لکھے افراطِ محب سے حسب قاعدہ مذکورة الصدر محفوظ نہیں رہ سکتا، اس لیے میں اس مقام میں کچھ بھی خامہ فرسائی کرنا مناسب نہیں دیکھتا تھا، مگر مولانا مجید حسین صاحب (1) کے اصرار اور اظہار واقعیت کے خیال نے مجبو رکرکے چند سچے کلمات لکھوائے ہیں ، جن سے ان حضرات کے دماغ پر بھی قدر ے روشنی پڑنے کا خیال ہے، جو کہ حسب قاعدہ مشہور ”انظر الی من قال ولاتنظر الی ما قال“ (2) فقط اسی طرف اپنی عنان توجہ منعطف کرتے ہیں ، کہ قائل میں کن اوصاف کا اجتماع ہے ، وہ کیسا شخص ہے ، اس کے ظاہری تزکیہ کی کیا حالت ہے ؟ کلام کی تہہ تک پہنچنا اور حقیقت کے بے بہاموتیوں کا تلاش کرنا ان کو نہیں آتا ہے۔
شیخ الہند میں جامعیت کمال کے قدرتی سامان
میں جو کچھ اس مقام میں عرض کررہاہوں، بلاکم وکاست ان واقعی اور صحیح معلومات کے بحار سے چند قطرے ہیں، جن کا علم مجھ کو حضرت رحمة الله علیہ کی خدمت میں مدتوں رہ کر حاصل ہوا ہے، میں اس میں ذرا بھی مبالغہ اور افراط محب کو دخل نہ دوں گا، اس سے مقصد اس ترجمہ کی واقعی شان کو ناظرین پر حسب استطاعت وقت ظاہر کرنا ہے اور بس۔
قدرت نے جس طرح حضرت مولانا رحمة الله علیہ میں ان ذاتی کمالات کا گلدستہ رکھ دیا تھا، جن کا تحقق کتاب الله کے صحیح ترجمہ کرنے کے لیے ضروری ہے ، اسی طرح اس نے بہت سے ایسے خارجی اسباب بھی مہیا کر دیے تھے، جن کا وجود ہر زمانہ میں بہت کم افراد کو میسر آتا ہے۔
استاد اور ہنمائے طریقت
فطرتاً آپ کو نہایت ذکی، ذہین، نہایت باوقار طبیعت، نہایت قوی حافظہ، نہایت صحیح دماغ، نہایت قوی اور وسیع دل عطا کیا گیا تھا۔ اخلاق فاضلہ اور تقویٰ واخلاص وللہیت وپرہیزگاری وغیرہ آپ میں گویا کوٹ کوٹ کر بھر دیے گئے تھے۔
پھر اس پر طرّہ یہ ہوا کہ حضرت شمس الاسلام، وارث حقیقی حضرت خیر الانام، علیہ الصلاة والسلام، حکیم الامت، امام الائمة،حضرت قطب الوقت، العارف بالله، مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی (3) اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی (4) قدس الله تعالیٰ اسرار ہما کی صحبت اور مدت دارزتک فیض خدمت اور ان دونوں حضرات کی خاص توجہ وتربیت نصیب ہوئی، علم ظاہر اورباطن میں ان دونوں بزرگوں سے مولانا رحمة الله علیہ فیضاب ( ہی نہیں ہوئے)، بلکہ اکتساب اخلاق فاضلہ وملکات کاملہ بھی نہایت اعلیٰ پیمانہ پر حاصل ہوا۔ صحبت جو اعلیٰ ترین شرط وکمالات باطنی میں سے ہے ، حضرت مولانا رحمة الله علیہ کو علی اتم وجہہ واکملہ نصیب ہوئی، مرشد عالم، قطب الاقطاب، حضرت حاجی امداد الله صاحب (5) قدس سرہ کی ارادت او رخلافت طریقت سے حظِ وافرملا۔
خوش قسمتی سے والد ماجد مرحوم ومغفور ایسے ملے جو کہ علم وادب، عربی ،فارسی اور اردو کے نہ صرف اساتذہ میں سے تھے، بلکہ ان تینوں زبانوں کے امام تھے(6) طبیعت، علوم ادبیہ اور بلاغت وبیان وبدیع وغیرہ میں نہایت رساتھی۔ ان کی تصانیف: شروح حماسہ، ومتنبی، سبعہ معلقہ، بانت سعاد ، تذکرة البلاغة وقصائد عربیہ وغیرہ ان کے علوشان کے شاہد ہیں۔ علاوہ اساتذہ مذکورین کے مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی(7) اور ملا محمود صاحب (8)مولانا مہتاب علی صاحب (9) وغیرہ قدس الله اسرار ہم، ایسے ایسے ساتذہ ملے، جو کہ اپنے زمانہ میں بے نظیر شمار کیے جاتے تھے۔
ساتھی بھی اعلیٰ درجہ کے فاضل ملے
ہم سبق ایسے ایسے چیدہ اشخاص قدرت نے بہم پہنچائے، جوکہ نہایت ذکی اور سلیم الطبع، قوی الحافظہ، جامع الکمالات تھے ، مولانا فخر الحسن صاحب گنگوہی (10)، مولانا احمد حسن صاحب امروہی (11)، حافظ عبدالعدل صاحب پھلتی (12)، مولانا عبدالحق صاحب پوری (13) وغیرہ رحمہم الله تعالیٰ مولانا مرحوم کے شرکائے درس اور جلساء تھے۔
دیوبند میں خدمت تدریس اور اس میں مہارت وکمال
پھر اس کے بعد مدرسہ دیوبند میں کتابوں سے فارغ ہونے کے بعد ہی ملازم ہوئے ، اساتذہ کی موجودگی ہی میں تمام کتب درسیہ ابتدائیہ وانتہائیہ متعدد مرتبہ پڑھا ڈالیں۔ مدرسہ دیوبند ہمیشہ سے ہر قسم اور ہر طرف کے طلبہ کا مرکز رہا ہے ، اس وجہ سے مستفیدین کا ہر زمانہ میں ہجوم رہا ، ایام شباب اور زمانہ قوت میں اس قدر مشغولی ہوئی کہ دن رات میں کوئی دقت درس وتدریس سے جب فارغ نہ رہا، تو تہجد کے وقت کو بھی سالہا سال تدریس علوم میں مشغول کیا، ادھر مدرسہ میں کتب خانہ اس قدر وسیع پیمانہ پر موجود تھا کہ کبھی کسی شرح یا حاشیہ یا کتاب کے دیکھنے اور استفادہ کرنے میں کوئی وقت نہیں پڑی ، ہر فن اور ہر علم کی کتابیں اس قدر پڑھائیں کہ سب مع ابحاث شروح وحواشی تقریباً محفوظ ہو گئیں۔ اسی وجہ سے تھوڑے ہی عرصہ میں مولانا رحمة الله علیہ کو کسی کتاب یا حاشیہ وشرح کے دیکھنے کی حاجت باقی نہ رہی تھی ، بلاتکلف بغیر مطالعہ کیے ہوئے تمام معقوالات ومنقولات اصول وفروع وغیرہ کو پڑھاتے تھے اور نئی نئی تحقیقات، خصوصاً علم حدیث وتفسیر آیات میں ظاہر فرمایا کرتے تھے ، جن کو سن کر حاضرین مجلس اور اساتذہ فن دنگ ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہر طرف سے علماء اور طلباء ٹوٹ پڑے تھے ، تقریباً دو ہزار سے زیادہ علما اطراف عالم میں آپ سے بلاواسطہ مستفید ہو کر عالم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں اور لوگوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
حاشیہ مختصر معانی کا ذکر
دوران تدریس مولانا کو مختصر معانی کے تحشیہ کی بھی نوبت آئی، جس کی وجہ سے حواشی دسوقی اور بنانی ، مطوّل (14)وغیرہ کی ابحاث پر تفصیلاً نظر کرنی پڑی (15)۔ یوں تو مطوّل ، مسلّم الثبوت، توضیح وتلویح، بیضاوی وغیرہ مولانا کے زیر تدریس اکثر رہا کرتی تھیں۔ جن کی وجہ سے علوم عربیہ اور فنون تفسیر وبلاغت پر خاص طور سے توجہ کی نوبت آتی رہتی تھی ، مگر تحشیہ کی وجہ سے اور بھی قوت دو بالا ہو گئی۔
ذوق شعر وادب
مولانا رحمة الله علیہ کو عنفوان شاب میں اردو اور فارسی شعر وشاعری کا اچھا خاصا چسکا پڑ گیا تھا، چوں کہ طبیعت موزوں تھی ، اس لیے بہت جلد اس میں غیر معمولی ترقی کر گئے تھے ۔ شعر وشاعری میں میراور غالب سے بہت زیادہ مناسبت تھی ، اساتذہٴ اردو کے اس قدر اشعار اس بڑھاپے اور کمزوری کے زمانہ میں بھی یاد تھے اگر وہ سب لکھے جاتے تو بہت بڑا دیوان تیار ہو جاتا۔ (16)
علی ہذا القیاس فارسی اور عربی شعراء کے قصائد اور ان کے دواوین کے اوراق کے اوراق محفوظ تھے، بارہا جب اشعار مولانا رحمة الله علیہ نے سنا نے شروع کیے تو حاضرین کو کثرت محفوظات سے تعجب شدید ہوا، متعدد بار فرمایا کہ : اب حافظہ کمزور ہو گیا، پہلے کے سب محفوظات باقی نہیں رہے۔ 
مرزا غالب کے شاگرد، ہر پال تفتہ کے ساتھ ایک ادبی نشست اور تفتہ کا شیخ الہند  کے شعری ادبی ذوق او ران موضوعات پر وسعت نظر کااعتراف
عنفوان شباب میں مرزا غالب کے سکندر آبادی مشہور (17) ہندوشاگرد کسی تقریب میں دیوبند آئے تھے، کہ مولانا رحمة الله علیہ ان کو سن کر مع چند ہمراہیوں کے ان کے پا س پہنچے، دن بھر شعر وشاعری کا چرچا رہا ، (تفتہ) مولانا رحمة الله علیہ کی محفوظات اور شاعرانہ مناسبت کو دیکھ کر دنگ ہو گئے اور کہنے لگے کہ میں نے اپنی تمام عمر میں اساتذہ کے کلام کا اس قدر جمع کرنے والا حافظ نہیں دیکھا ، اردو محاورات پر بسا اوقات جب مولانا سے اثنائے ترجمہ کوئی تذکرہ آیا ، فوراً میر یا مومن خاں، ذوق، غالب وغیرہ کے اشعار کے اشعار سنا دیتے تھے ، یہ واقعات بہت سی دفعہ پیش آئے۔
حافظ نہ ہونے کے باوجود آیات شریفہ کا غیر معمولی استحضار
مولانا رحمة الله علیہ کو قرآن شریف سے خاص شغف تھا، باوجود حافظ نہ ہونے کے اس قدر آیتیں یاد تھیں کہ گویا حافظ ہو گئے تھے ۔ بخاری شریف میں ادنیٰ ادنیٰ مناسبت سے لغات کو لا کر امام بخاری تفسیر کیا کرتے ہیں ، اچھے سے اچھے حافظ وہاں چکرا جاتے ہیں او رنہیں بتا سکتے کہ یہ الفاظ کن کن آیتوں میں وارد ہیں ، ماسبق اور مابعد کو پڑھ دینا نہایت مشکل ہوتا ہے ، مگر مولانا رحمة الله علیہ بلاتامل بخاری شریف پڑھاتے ہوئے او رخصوصاً کتاب التفسیر کے وقت آیات کو اول سے پڑھ دیتے تھے اور تفسیر بیان فرماتے تھے (18) یہی مشغلہ سالہا سال رہا ہے۔
قرآن کی تلاوت اور خدمت حدیث کا ذوق
رمضان شریف میں علاوہ دن کو بڑی مقدار تلاوت کرنے کے تراویح اور نوافل میں ہمیشہ دس دس، بارہ بارہ پارے یا کم وبیش سنا کرتے تھے ، حفاظ سنانے والے تھک جاتے تھے، مگر خود اخیر وقت تک نہ تھکتے تھے ، نہ کبھی کوئی کمزوری ظاہر ہوتی تھی ، نہ معلوم کون سی روحانی قوت اور باطنی مناسبت قرآن شریف سے تھی جو کہ اس طرح ان کو محو کر دیتی تھی کہ ذرا بھی تکان محسوس نہ ہوتا تھا۔
مالٹا کی اسارت کے زمانے میں غالباً روزانہ ایک قرآن ناظرہ ختم کرتے، یا قریب باختم تو ضرور پہنچا دیتے تھے ۔حدیث شریف، جو کہ حقیقتاً قرآن شریف کی تفسیر ہے، آخری وقت تک مولانا کا مشغلہ رہا ہے، اسی طرح تدریسی علوم میں تقریباً چالیس برس سے زیادہ مدت مولانا رحمہ الله کی گذری ہے۔
باطنی اشغال پر استقامت، سیر سلوک او رحضرت گنگوہی سے اجازت
باطنی اشغال، جب سے کہ حضرت حاجی امداد الله صاحب قدس الله سرہ سے 1295ھ میں بیعت ہوئے ، آخری وقت تک ترک نہ فرمائے ، بلکہ اس میں روز افزوں ترقی کرتے رہے اور بہت جلد سلوک کی منزلیں زیر تربیت مولانا گنگوہی رحمة الله علیہ تمام کرکے خلافت حاصل کی(19)، مولانا گنگوہی رحمة الله علیہ نے تفصیلی کیفیت حضرت حاجی صاحب قدس سرہ العزیز کے پاس مولانا کے سلوک اور ترقی کے مقامات کی لکھی، جس پر حضرت حاجی صاحب مرحوم نے مکہ معظمہ سے خلافت نامہ تحریر فرمایا۔ یہ روحانی تربیت اور باطنی کمال وہ چیز ہے، جس سے حقیقی تفسیر کے لیے ہر قسم کی آسانی میسر ہو سکتی ہے۔
حواشی حوالہ جات
(1)… مولانا مجید حسن، بجنور کے رہنے والے تھے ، ابتدائی حالات معلوم نہیں ۔ ہفت روزہ الخلیل بجنور میں کتابت سے عملی زندگی شروع کی۔1912ء میں مدینہ اخبار جاری کیا، مدینہ، جو ہفت روزہ تھا، بعد میں سہ روزہ ہو گیا تھا، اہمیت اور توجہ کے ساتھ پڑھے جاتے تھے ، مولوی مجید حسن نے مدینہ اخبار اور اپنے طباعتی سلسلہ کو ترقی دینے کے لیے ایک پریس مدینہ پریس کے نام سے قائم کیا، جو حسن طباعت میں بہت ممتاز او رمشہور ہوا۔ مولوی مجید حسن معقول آدمی اور پیسے کی فراوانی کے باوجود بہت سادہ زندگی گزارتے تھے ، مولانا مجید حسن کی تقریباً اسی سال کی عمر میں 27 رجب1382ھ،11 نومبر1966ء کو بجنور میں وفات ہوئی ۔ (معلومات جناب منیر اختر صاحب)
(2)…” یہ دیکھو کہ کس نے کہا ہے یہ مت دیکھو کیا کہا ہے “۔ مگر معروف مقولہ، جو حضرت علی کرم الله وجہ سے منسوب ہے ، یہ ہے : انظر الی ما قال ولا تنظر الی من قال ( یہ دیکھو کیا کہا گیا ہے ، یہ مت دیکھو کس نے کہا ہے )۔
(3)… حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، ولادت: شوال1248ھ (مارچ1833ء) وفات:4 جمادی الاولیٰ1297ھ ( 15 اپریل1880ء)۔
(4)… حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی، ولادت:6 ذوالقعدہ1244ھ، 11 مئی1829ء، وفات: جماد ی الثانیہ1323ھ (11 اگست 1905) برصغیر ہند میں ائمہ سلف، اکابرامت، حضرت مجدد الف ثانی او رحضرت شاہ ولی الله کے روایتی علوم اور خدمت دین ، تعلیم وتلقین، سنت وشریعت کے وارث ، لاکھوں علماء او رکروڑوں افراد کے مقتدا، میر کارواں اور قافلہ سالار تھے، ان کے دم سے دین کی خوشبو مہک رہی ہے، رحمہم الله تعالیٰ۔
(5)… حضرت حاجی امداد الله تھانوی مہاجر مکی، ولادت: صفر1233ھ (جنوری1818ء) وفات: جمادی الثانیہ1417ھ، اکتوبر1899ء۔ دس بارہ عارفانہ کتابوں کے مصنف ، بے شمار علماء کے مرجع ومقتدا اور سلوک ومعرفت میں اس عہد کے امام اور سرگروہ مشائخ کاملین تھے۔ حضرت موصوف کے احوال وکمالات وکرامات پر کئی کتابیں لکھیں گئی ہیں۔رحمہ الله تعالیٰ۔
(6)… شیخ الہند ( مولانا محمود حسن) کے والد ماجد ، مولانا ذوالفقار علی، خلف شیخ فتح علی دیوبندی، تقریباً1237ھ میں ولادت ہوئی ۔ مولانا مملوک العلی اور دوسرے علما سے تعلیم حاصل کی، بریلی کالج میں عربی کے استاد مقرر ہوئے بعد میں سلسلہ تدریس سے تعلیم کے انتظامی شعبہ میں منتقل ہو کر انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے ۔ آخر میں ضلع سہارنپور کے مدارس کے انسپکٹر تھے۔ دیوبند میں قیام رہا ، تمام عمر وہیں گزاری۔ مدرسہ ( دارالعلوم دیوبند) کا جن بزرگوں نے منصوبہ بنایا اور اس کو اخلاص وللہیت سے پروان چڑھایا، ان میں ایک ممتاز نام مولانا ذوالفقار علی صاحب کا بھی ہے، مولانا تمام زندگی مدرسہ کے اہم رکن ، سرگرم معاون اور اس کی مجلس منتظمہ کے بنیادی ممبر رہے۔
مولانا کا برصغیر کے عربی کے ممتاز فاضلوں میں شمار ہے۔ مولانا نے عربی ادب کی ممتاز ترین درسیات اور معروف قصائد کی شروحات لکھیں، بعض کو قبول عام حاصل ہوا۔ مولانا کی اہم تالیفات میں تسہیل البیان فی شرح الدیوان، تسہیل الدراسہ شرح حماسہ، التعلیقات علی السبع المعلقات ، عطر الوردہ شرح قصیدہ بردہ، الارشاد الی بانت سعاد سر فہرست ہیں ۔ تذکرة البلاغہ اور تسہیل الحساب بھی مولانا کی تصانیف میں مشہور ہیں۔ تقریباً پچاسی (85) سال کی عمر میں 1322ھ1904ء میں دیوبند میں وفات ہوئی ۔ ( حیات شیخ الہند از مولانا سید اصغر حسین دیوبندی، ص:15-
( لاہور:1977ء) تذکرہ محمد احسن نانوتوی، محمد ایوب قادری، ص:
(حاشیہ) کراچی:1961ء)
(7)… حضرت مولانا محمد یعقوب، خلف مولانا مملوک العلی نانوتوی  (ولادت 13 صفر 1249ھ جولائی 1833ء ) والد ماجد سے تعلیم حاصل کی ، تمام علوم میں کامل ہوئے ، شاہ عبدالغنی اور مولانا احمد علی محدث سے حدیث پڑھی۔ تعلیم کے بعد اجمیر کے سرکاری مدرسہ میں مدرس ہوئے ، 1857 تک تمام وقت تعلیمی خدمت میں گزرا۔
1857ء کے بعد دارالعلوم دیوبند کو ترقی دینے، آگے بڑھانے میں اپنے معاصرین او رفقاء کے ہم قدم رہے ، مولانا مدرسہ عربیہ اسلامیہ (دارالعلوم) دیوبند کے پہلے صدر مدرس اور علوم میں فخر ا ماثل تھے۔ سلوک ومعرفت میں حضرت حاجی امداد الله سے مجاز تھے ، تالیفات، تراجم، مکتوبات (بیاض یعقوبی کے مندرجات ومکتوبات کے علاوہ) او رمختلف موضوعات پر مضامین علمی یادگار ہیں۔ سینکڑوں طلباء نے مولانا سے استفادہ کیا، جس میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کا نام بہت ممتاز ہے ۔ رحمہم الله۔ یکم ربیع الاول1303ھ (20 دسمبر1884ء) کو طاعون میں مبتلا ہو کر وفات ہوئی ، نانوتہ میں دفن کیے گئے ۔ ( بیاض یعقوبی، مرتبہ امیر احمد عشرتی نانوتوی ص:5، نیز ص:153۔ طبع اول: تھانہ بھون1929ء)
(8)… مولانا ملا محمود، مولانا ممتاز علی دیوبندی کے فرزند او ردیوبند کے خاندان سادات کے فرد ہیں ، مولانا محمد قاسم سے تعلیم حاصل کی ، مولانا شاہ عبدالغنی مجددی سے حدیث پڑھی ، مؤخرالذکر کے خاص تربیت یافتہ اور انجاح الحاجہ کی تصنیف میں استاذ جلیل ( شاہ عبدالغنی مجددی) کے معاون وشریک تھے ۔ اس کے علاوہ بھی متعدد کتابوں کے حاشیہ نگار تھے۔ مدرسہ اسلامیہ عربیہ (دارالعلوم) دیوبند میں سب سے پہلے مدرس مقرر کیے گئے ، بعد میں مدرس سوم ہو گئے تھے۔ یہ معلومات مختلف ذرائع سے اخذ کی گئی ہیں اوراس میں کئی پہلی بار شائع ہو رہی ہیں۔
(9)… مولانا مہتاب علی خلف شیخ فتح علی دیوبندی  ( مولانا ذوالفقار علی کے بڑے بھائی ) ممتاز عالم اور دیوبند میں سرکاری مدرس تھے ، مدرسہ اسلامیہ عربیہ دیوبند کے قیام کے فیصلہ کے بعد اس مقصد کے لیے سب سے پہلا کام اہل قصبہ کا تعاون اور نظم کی فراہمی تھی۔15 محرم الحرام1283ھ ( 30 مئی 1866) کو حضرت حاجی عابد حسین نے سب سے پہلا چندہ کیا، حاجی صاحب کے بعد چندہ کی سب سے پہلی رقم مولانا مہتاب علی کی تھی ، مدرسہ کے افتتاح کے بعد 19 محرم 1283ھ کو مدرسہ کے تعاون کے لیے، جو سب سے پہلی اپیل اور اشتہار چھپا، اس میں حضرت عابد حسین اور مولانا محمد قاسم  کے بعد تیسرا نام مولانا مہتاب علی کا ہے ، جس سے معلوم ہو رہا ہے کہ مولانا مدرسہ کے سب سے پہلے محرکین اور سر گرم معاونین میں سر فہرست تھے۔ اس وقت سے وفات تک مدرسہ کے معاون او ررفیق رہے، مولانا قاری محمد طیب صاحب نے لکھا ہے کہ مولانا مہتاب علی  1304ھ1887ء تک مجلس منتظمہ ( شوریٰ) کے رکن تھے۔ ( ص:102 دارالعلوم کی صد سالہ زندگی۔ دیوبند (1385) لیکن سید محبوب رضوی کی اطلاع یہ ہے کہ مولانا مہتاب علی کی 1293ھ میں وفات ہوئی ؟ ( تاریخ دیوبند، حاشیہ ، ص:331۔ دیوبند:1972ء)
(10) مولانا فخر الحسن  خلف شاہ عبدالرحمن ،گنگوہ میں مقیم ممتاز انصاری خاندان (اولاد سیدنا ابو ایوب انصاری ) کے فرد ہیں ، جس سے حضرت مولانا گنگوہی وغیرہ کوبھی نسبت ہے ۔ قیاساً 1846ء ( 1262ھ) میں ولادت ہوئی ہو گی۔ (ص:176۔ فخر العلماء) ابتدائی اور متوسط درسی کتابیں حضرت مولانا گنگوہی سے پڑھیں (ص:168) بعد میں دیوبند سے درسیات مکمل کیں، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی سے خاص استفادہ کیا اور حضرت مولانا کے اہم شاگردوں میں ہیں ۔ مولانا محمد یعقوب نانوتوی نے تین اہم ترین شاگردوں کا ذکر کیا ہے ، جس میں پہلا نام شیخ الہند مولانا محمود حسن  کا ، دوسرا مولانا فخر الحسن کا ہے ۔ درستگئی مزاج میں مولانا کے قدم بہ قدم ،بلکہ کچھ بڑھ کر ہیں ، عمدہ استعداد ہے ۔ انہوں نے بھی دیوبند میں تحصیل کی ہے او راول جناب مولوی رشید احمد صاحب  سے تحصیل کی تھی ۔ حالات طیب مولانا محمد قاسم ص:32-33۔ مولانا فخر الحسن کو جو سند دی گئی تھی اس کی نقل 1290ء کی روداد میں درج ہے (ص:28) مدرسہ اسلامیہ نگینہ سے تدریس کی ابتدا ہوئی، اس کے بعد مختلف مقامات پر قیام رہا۔ حضرت نانوتوی کے اہم ترین سفروں اور مناظروں میں رفیق اور خادم رہے ، حضرت کے ملفوظات وسوانح مرتب کیے اور حضرت کی کئی کتابیں، تقریریں اور افادات خاص اہتمام سے چھپوائے، ان خدمات کی وجہ سے مولانا کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مولانا کی اہم ترین دینی خدمت علمی یاد گار اور صدقہ جاریہ سنن ابوداؤد اور سنن ابن ماجہ کا حاشیہ ہے، جو بارہا چھپا ہے اور چھپتا رہتا ہے، خصوصاً ابوداؤد کا حاشیہ بہت ممتاز او رمتداول ہے۔ محقق جلیل مولانا عبدالرشید نعمانی  نے ان دونوں کا تعارف کرانے کے بعد لکھا ہے:” والتعلیقات کلاھما یدلان علی مشارکتہ الجیدة فی علم الحدیث وفنونہ“․
یہ دونوں حاشیے علم حدیث اور اس کے مباحث میں ( مولانا فخر الحسن کی) مہارت اور اعلیٰ نظر کا ثبوت ہیں۔ ” ما تمس الیہ ا لحاجة لمن یطالع سنن ابن ماجہ، ص:2
( قطر1404ھ)
مولانا کی ان کے علاوہ بھی تصانیف تھیں، مگر ان کا مفصل احوال دست یاب نہیں ، کیوں کہ کانپور کے فسادات میں مولانا کا کتب خانہ جلا کر خاکستر کر دیا گیا تھا، اس لیے مولانا کی متعدد کتابیں بے نام ونشان ہو گئیں۔ مولانا فخر الحسن ( تقریباً1303ھ،1885ء میں) ترک وطن کرکے کانپور چلے گئے تھے۔ تاحیات وہیں رہے، ایک رئیس کے طبیب خاص تھے، یہی ذریعہ معاش تھا، اس ملازمت پر غالباً آخری ذوالقعدہ یا شروع ذوالحجہ1315ھ ( 1898ء) میں کانپور میں وفات ہوئی ۔ مزید معلومات کے لیے فخر العلماء ( سوانح مولانا فخر الحسن  ) تالیف اشتیاق اظہر (کراچی:1991ء) یہ کتاب اگرچہ ذمہ دارانہ اور بہت مستند نہیں ہے، مگر مولانا کے حالات پر اس کے علاوہ کوئی اور کتاب دست یاب نہیں ، متفرق معلومات بکھری ہوئی ہیں ۔ نیز ملاحظہ ہو ، رپورٹ مجلس مؤتمر الانصار، مراد آباد۔
مولانا کی یہ خصوصیت اور امتیار بھی ناقابل فراموش ہے کہ مجلس ندوة العلماء ( جس نے بعد میں دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو بھی قائم کیا) کے محرک اول مولانا سید ظہور الاسلام فتح پوری (فتح پورہ ہنسوہ) نے جن علماء کو اپنی رفاقت کے لیے منتخب کیا اور جو ندوة العلماء کی تحریک وتاسیس میں پیش پیش اور سر فہرست رہے ، ان میں ایک ابتدائی او ربہت نمایاں نام مولانا فخر الحسن گنگوہی کا بھی ہے۔ مزید معلومات کے لیے : الف : ندوة العلماء بانی اور محرک ، تالیف ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد۔ (فتح پورہ ہنسوہ:1996ء) ب: مولانا سید ظہور الاسلام فتح پوری ( حیات وخدمات ) تالیف مولانا عبدالوحید صدیقی فتح پوری ( فتح پور)۔
(11)… مولانا سید احمد حسن بن سیداکبر امروہوی، شاہ بان امروہوی کی اولاد میں تھے ، ابتدائی تعلیم وطن کے متعدد علماء سے حاصل کی ، طب پڑھی اور اس کے بعد حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی سے تعلیم واستفادہ کے لیے میرٹھ حاضر ہوئے، آخر میں مدرسہ دیوبند میں بھی پڑھا، 1290ھ میں دستار فضیلت حاصل ہوئی ، شاہ عبدالغنی مجددی اور قاری عبدالرحمن پانی پتی  سے بھی سند حدیث حاصل کی۔ مراد آباد، خورجہ، امروہہ وغیرہ میں اعلیٰ مدرس رہے، متعدد تالیفات مجموعہ فتاوی ، مجموعہ مکتوبات، مختلف مناظروں کی روئیدادیں اور علمی افادات یاد گار ہیں ۔ طاعون میں مبتلا ہو کر 29 ربیع الاول1320ھ، 18 مارچ1912ء کووفات ہوئی ۔ مکتوبات سید العلماء ( مولانا احمد حسن امروہی) مرتبہ مولانا نسیم احمد امروہی ( امروہہ بلاسنہ)
(12)… مولانا عبدالعدل خلف مولوی منشی عنایت علی ، پُھلت ضلع مظفر نگر کے باشندے تھے۔ اپنے وطن میں اور مدرسہ عربیہ ( دارالعلوم) دیوبند میں تعلیم حاصل کی ،1290ھ میں دارالعلوم میں ہدایہ، ملا جلال وغیرہ پڑھتے تھے (رؤئیداد1290ھ ص:36-34) حضرت مولانا محمد قاسم کے معتمد خدام او رشاگردوں میں سے تھے ۔ حضرت مولانا کی وفات کے بعد حضرت کے مکتوبات اور علمی افادات کا ایک مجموعہ فیوض قاسمیہ کے نام سے مرتب کیا، یہ مجموعہ 1302ھ میں مرتب ہوا اور اس کا پہلا حصہ مطبع ہاشمی میرٹھ سے پہلی مرتبہ1304ھ میں چھپا، بعد میں اور مطابع نے بھی چھاپا (پیش نظر نسخہ مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی تاجر کتب گنگوہ کا شائع کیا ہوا ہے ) مولانا عبدالعدل نے پہلی طباعت میں اس کے دوسرے حصہ کا بھی اشتہار دیا تھا، جس میں حضرت نانوتوی کی اکیس تحریروں اور خطوط کے شامل ہونے کی اطلاع تھی، مگر (غالباً)) دوسرا حصہ شائع نہیں ہوا ، ملاحظہ ہو ( تذکرہ مولانا محمد احسن نانوتوی ، ایوب قادری ص:236) افسوس ہے کہ مولانا عبدالعدل کے تفصیلی حالات اور سنِ وفات وغیرہ معلوم نہیں۔
(13)… مولانا سید عبدالحق خلف نبی بخش بن امام بخش، قصبہ پور قاضی، ضلع مظفر نگر کے رہنے والے تھے ، تقریباً1258ھ1842ء میں ولادت ہوئی ۔ دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی دنوں 1282ھ (1866ء) میں تعلیم کے لیے دیوبند آئے، شرح جامی سے اعلیٰ کتابوں تک تمام درسیات یہیں پڑھیں، ذوالقعدہ1290ھ9 جنوری 1874ء کو مدرسہ کے سالانہ جلسہ میں سند فضیلت سے نوازے گئے ، جن لوگوں کو سند عطا کی گئی اور ان کے سالانہ امتحانات کے سوالات کے منتخب جوابات جلسے میں سنائے گئے اور ان کی قابلیت کی تعریف کی گئی، ان میں سب سے پہلا نام مولانا عبدالحق کا ہے، مولانا عبدالحق کے اپنی جماعت کی سب کتابوں میں سب سے اعلیٰ نمبرات تھے (روئیداد مدرسہ عربیہ دیوبند:1290ھ) تعلیم کے بعد ریاست رتلام میں ملازم ہوئے اورغالباً پوری زندگی اسی میں بسر فرمائی ۔ مولانا کی ایک مختصر تحریر جو مولانا نے اپنی دختر سعدی خاتون کی شادی کے موقع پر محرم1330ھ بطور نصیحت تحریر فرمائی تھی ، بہترین جہیز کے نام سے بار بار چھپی ہے اور بہشتی زیور میں بھی شامل ہے ۔8 صفر1342ھ20 ستمبر1923ء کو رتلام میں وفات ہوئی۔روئیداد دارالعلوم دیوبند1342ھ نیز تاریخ دارالعلوم، سید محبوب رضوی ص:1
(اشاعت خاص ماہنامہ الرشید ساہی وال:1980ء) مولانا عبدالحق کو متعدد اکابر علماء (روئیداد مدرسہ دیوبند ، مولانا محمد یعقوب نانوتوی اور مولانا تھانوی  وغیرہ) نے صاحب پوری بھی لکھا ہے، جو پور قاضی کا مخفف ہے ، الگ سے کوئی اور نسبت نہیں ۔ مولانا عبدالرؤف صاحب عالی جو مولانا عبدالحق کے نواسے او رمولانا عبداللطیف صاحب پور قاضوی ( ناظم مدرسہ مظاہرہ علوم سہارنپور کے صاحبزادے ہیں) کا قول ہے کہ ہمارے طالب علمی کے زمانہ تک پور قاضی کے طلبہ کو صاحب پوری کہا جاتا تھا۔ یہاں یہ صراحت مفید ہو گی کہ بہترین جہیز کے نام سے اور بھی دو تین رسالے چھپے ہوئے ملتے ہیں ، ہمارے نواح میں مولانا عاشق الہٰی میرٹھی کا رسالہ خاصا معروف ہے ، وہ علیحدہ ہیں۔
(14)… بنانی اور دسوقی، دونوں شیخ سعد الدین تفتازانی کی شہرہٴ آفاق تصنیف مختصر المعانی کے حاشیہ ( بلکہ مفصل شرحیں) ہیں: الف : دسوقی۔ محمد بن احمد بن عرفہ دسوقی وفات1230ھ (1815ء)
( الاعلام ج:6 ص:17) ب : بنانی شیخ مصطفی بن محمد بن عبدالخالق بنانی ( وفات بعد 1237ھ 1821ء کی تالیف ہے۔ ( الاعلام خیرالدین زر کلی ج:7 ص:242) مصنف نے اس کو تجرید کے نام سے موسوم کیا تھا… مگر مصنف کی نسبت سے بنانی کے نام سے مشہور ہے ، دو بڑی جلدوں میں چھپی ہے ، دو حصوں پر مشتمل چار جلدوں میں ہے ۔ دونوں کتابیں ایک ہی وقت لکھی گئیں، دسوقی شوال1210ھ ( اپریل 1796ء) میں مکمل ہوئی او رتجرید جمادی الثانیہ 1211ھ میں پایہٴ اختتام کو پہنچی۔
(15)… حاشیہ مختصر المعانی، شیخ الہند کی مشہور تالیف ہے ، عام طور پر تمام مدارس میں مختصر کا یہی نسخہ زیراستعمال ہے اور پڑھایا جاتا ہے، جس پر شیخ الہند کا حاشیہ ہے ، یہ حاشیہ مولوی عبدالاحد (مالک مطبع مجتبائی ، دہلی) نے شیخ الہند سے لکھوایا تھا۔ مولوی عبدالاحد نے صراحت کی ہے کہ شیخ الہند نے پہلے مختصر المعانی کا تین مصری طباعتوں اور قلمی نسخوں سے مقابلہ کرکے تصحیح کی ، پھر اس پر جامع اوراہم حاشیہ لکھا، جو مختصر المعانی کے اکثرحواشی اور شروحات کا بہترین خلاصہ ہے اور مولوی عبدالاحد صاحب کے بقول ، مختصر المعانی کی تمام شروح اور حواشی سے مستغنی کرنے والا ہے۔
( صفحہ آخر، مختصر المعانی مجتبائی دہلی۔ طبع اول ودوم) اس حاشیہ کی یہ افادیت اور قدو رمنزلت صرف اس ایک ناشر کا خیال نہیں، بلکہ اہل نظر علماء بھی برسوں کے مطالعہ ،تلاش وجستجو او رمختصر معانی کے درجات کی تعلیم وتحقیق کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچے تھے کہ شیخ الہند کا یہ حاشیہ مختصر کی تمام شروحات کا مغز اور ایسا انتخاب ہے کہ اس سے بہتر دشوار ہے۔ مثلاً مولانا مناظر حسین گیلانی نے لکھا ہے:
” بعد کو جب دسوقی کے ساتھ ملا ملا کر ان حواشی کے مطالعہ کا موقع ملا تب مولانا کی غیر معمولی انتخابی قوت کا اندازہ ہوا ،گویا اس ضخیم ولحیم وشحیم شرح کی روح نکال کر مولانا نے رکھ دی تھی۔ ہزار ہاہزار صفحات کے پڑھنے سے بھی جو نتائج حاصل نہیں ہو سکتے، وہ ان چند سطروں میں مل جائے تھے اور اس وقت معلوم ہوا کہ کمال صرف یہ نہیں ہے کہ اپنی طرف سے کوئی نئی بات پیش کی جاتے ، بلکہ دوسروں کے کلام سے چھلکوں کو اتار کر صرف مغز برآمد کر لینا اور جہاں ضرورت ہو ٹھیک اسی جگہ پر موقع کے ساتھ اس کو درج کرکے مشکلات کو حل کرتے چلے جانا بجائے خو دایک ایسا کمال ہے کہ اپنی طرف سے کچھ لکھ لکھا دینا تجربہ بتاتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ آسان ہے ۔“ (احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن:37-37) اسی سلسلہ گفتگو میں یہ بھی تحریر ہے کہ:
”کوئی شبہ نہیں کہ مختصر المعانی پرمولانا مرحوم کا یہ حاشیہ ہے ، جس نے طلباء ہی کو نہیں، بلکہ مدرسین کو بھی اس کتاب کی تمام شرحوں سے مستغنی کر دیا ہے ۔“ (احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن ص:37 )
( دیوبند بلاسنہ)
شیخ الہند کا حاشیہ مختصر المعانی پہلی مرتبہ مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا، ربیع الثانی 1325ھ جون 1907ء میں اس کی طباعت مکمل ہوئی ، دوسرا ایڈیشن 1333ھ میں چھپا، اس وقت سے 1947ء تک یہ حاشیہ مطبع مجتبائی سے برابر چھپتا رہا ، بعد میں ہندوپاکستان کے متعدد تاجران کتب نے شائع کیا۔
(16) حضرت شاہ عبدالعزیز کے عہد سے حاضر تک اکثر بڑے علماء بلکہ مشائخ کرام سے متعلق معلوم ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ شعراء او رمنتخب اشعار کی بیاضیں ( کاپیاں) رکھتے تھے ، جس میں حکیم الامت تھانوی ، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا اورمولانا محمدیوسف کاندھلوی رحمہم الله جیسے اصحاب بھی شامل ہیں۔
(17) منشی ہر گوپال تفتہ، غالب کے مایہٴ ناز شاگرد او رممتاز شاعر تھے ۔ ہر گوپال تفتہ سکندر آباد ضلع بلند شہر کے باشندے ، کائستھ خاندان کے رکن اور موتی لال کے بیٹے تھے۔1214ھ1799-98ء میں پیدا ہوئے، تعلیم کے بعد خاندانی معمول کے مطابق قانون گو رہے ، غالب کے شاگرد ہوئے تو غالب نے یہ تخلص بدل کر تفتہ کر دیا تھا، غالب ان کو مرزا تفتہ کہتے تھے ۔ تفتہ سخن شناسی میں بے نظیر تھے ، عموماً فارسی میں کہتے تھے ، تفتہ کا فارسی کلام اپنے ہم عصروں سے ممتاز اور طالب وکلیم کے پایہ کا ہے ، فارسی کلام کے چار دیوان یادگار ہیں ، جس میں ( اندازاً) بارہ تیرہ ہزار شعر ہیں ۔ تفتہ نے گلستان سعدی کی تضمین لکھی تھی اور بوستاں کے جواب میں سنبلتاں تحریر کی ، تفتہ پندرہ رمضان1296ھ ،2ستمبر1879ء کو سکندرآباد میں دنیاسے رخصت ہوئے۔ مولوی مختار احمد تھانوی نے تاریخ وفات کہی : سال نقلش بادل زار از خرد من شنیدم بے سروپاشد سخن 12961206-1ھ۔ مزید معلومات کے لیے تفتہ او رغالب، مؤلف محمد ضیاء الدین انصاری۔ (دہلی:1948ء) نیز تلامذہٴ غالب، مالک رام، ص:66-
(نکودر: طبع اول)
(18) بخاری کے تراجم ابواب کے ضمن میں قرآن شریف کی جو آیتوں سے پہلے اور بعد کی سب آیتیں حضرت شیخ الہند کو از بر یاد رہتی تھیں ، جیسا کہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے لکھا ہے کہ ان آیتوں کا ضمناً ذکر نہیں تھا، بلکہ ان کے ذریعہ سے قرآن فہمی کی نئی راہیں بھی کھلتی تھیں۔ مولانا گیلانی کا مفصل اقتباس ملاحظہ ہو۔
” اپنے تراجم میں امام بخاری کا یہ قاعدہ ہے کہ قرآنی آیتوں کو حسب ضرورت شریک کرتے چلے گئے ہیں، اس بہانے سے ان قرآنی آیتوں کے نئے پہلوؤں کے جاننے ہی کا موقع نہیں ملتا تھا ، بلکہ قرآن فہمی کی نئی راہیں بھی کھلتی تھیں اور میں کیا بتاؤں کہ ترمذی شریف کے درس کے بعد بخاری شریف کا درس جب شروع ہوا تو دل کے لیے بھی اور دماغ کے لیے بھی کیسی لذیذ خورا کیں، ملنے لگیں ، ایسی خوراکیں ،جو منطق کی کسی کتاب میں ملیں ، نہ فلسفے میں ، نہ ادب میں اور نہ کسی اور فن میں ملی تھیں ۔ احاطہٴ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن ص:
( دیوبند بلاسنہ)“
(19)… ایک وضاحت نہایت ضروری ہے کہ شیخ الہند اگرچہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے شاگرد رشید، جان نثار ، مخلص خادم، سفر وحضر کے رفیق ، حضرت کے معتمد اور علمی جانشین تھے مگر حضرت مولانا نانوتوی سے مولانا کو اجازت بیعت حاصل نہیں، حضرت مولانا کا معمول تھا کہ مولانا کے جو شاگرد سیر سلوک مکمل کر لیتے تھے ، یا جو مریدین یا مسترشدین اجازت کے اہل ہو جاتے تھے ان کو حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں بھیج دیتے تھے ، اگر ضرورت سمجھتے تو حضرت حاجی صاحب ان کو اجازت دے دیتے تھے ۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی  نے خود کسی کو خلافت عطا نہیں کی، حضرت حاجی امداد الله، مولانا محمد یعقوب نانوتوی او رحاجی رفیع الدین  مہتمم اول دیوبند نے وضاحت فرمائی ہے کہ حضرت مولانا نانوتوی  نے کسی کو مجاز نہیں کیا۔حالات طیب مولانا محمد قاسم:از مولانا محمد یعقوب نانوتوی ص:
( طبع اول : بہاولپور1297ھ) اس لیے شیخ الہند بھی حضرت حاجی صاحب کے مجاز ہیں او رحضرت مولانا گنگوہی سے بھی اجازت بیعت حاصل ہے۔

Flag Counter