Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1431ھ

ہ رسالہ

11 - 17
***
امریکا او را س کے حواری،بے گناہ انسانوں کے قاتل
سینیٹرڈاکٹر خالد محمود سومرو، لاڑکانہ
گزشتہ دنوں امریکا نے پاکستان، ایران، سعودی عرب، سوڈان، شام ، افغانستان، عراق، لبنان، لیبیا، یمن، صومالیہ، نائیجریا، الجیریا، اور کیوبا کے باشندوں کی امریکی ایئرپورٹوں پربرہنہ کرکے، ان کی جامہ تلاشی لینے اور ان کے ایکسریز نکالنے کے بعد ان کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ نے امریکا کی جانب سے عائد کر دہ ان ذلت آمیز احکامات کی سخت مذمت کی ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی حکومت سے کہا جائے کہ یہ احکامات ناقابل قبول اور انتہائی توہین آمیز ہیں ، اس لیے امریکا اپنے ان احکامات کو واپس لے اور اگر امریکا اپنے ان احکامات کو واپس نہ لے تو حکومت پاکستان بھی امریکیوں کے لیے اس قسم کے اقدامات کا اعلان کرے کہ آج کہ بعد جو بھی امریکی پاکستان آئے گا اس کی بھی اسی طرح جامہ تلاشی لی جائے گی اور احتجاج کے طور پر کوئی بھی پاکستانی وزیر یا افسر اس وقت تک امریکا نہ جائے جب تک امریکا اپنے یہ احکامات واپس نہ لے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے شروع کردہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ، جو کہ حقیقت میں مسلمانوں کے خلاف اور اسلام کے خلاف جنگ ہے ، میں پاکستان نے اربوں کھربوں کا اپنا نقصان بھی کیا ، ہزاروں جوان بھی شہید کرائے ، امریکا کوخوش کرنے کے لیے اور راضی رکھنے کے لیے اپنے شہروں کو بھی برباد کرایا، اپنے ہم وطنوں کو بھی تہ تیغ کیا، امریکا کو اڈے بھی دیے، ہر قسم کی سہولیات بھی فراہم کیں، اس کے باوجود بھی امریکا کی جانب سے پاکستانیوں کی تذلیل اور توہین کے احکامات صادر ہو رہے ہیں او رامریکا کی جانب سے ڈومور ( یعنی ابھی آپ نے تھوڑے لوگ مارے ہیں، مزید بیگناہوں کو مارئیے) کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان سوچے کہ امریکا کی غلامی سے پاکستان کو کیا حاصل ہوا؟
قرآن مقدس میں الله رب العزت فرماتے ہیں کہ یہ یہودی اور عیسائی اس وقت تک تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ تم اپنا دین اسلام چھوڑ کر ان کے دین کو قبول نہیں کروگے ۔ ابھی حال ہی میں پاکستان کی بے گناہ بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں امریکا کے ایما ن دار، عدل وانصاف کے علم بردار اور ہیومن رائیٹس کے چیمپئن جج صاحبان کا فیصلہ بھی آپ حضرات کی نظروں سے گزرا ہو گا، ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ بندوق اٹھا کر امریکا کے ساتھ جنگ شروع کر دیں، بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ آپ امریکا کے ناجائز احکامات کو نہ مانیں، چند ڈالروں کے عوض قومی غیرت کو نیلام نہ کریں ، اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔
الله رب العزت نے مملکت خداداد پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ، بہت سارے ممالک میں آپ کو اتنے وسائل نظر نہیں آئیں گے جتنے الله رب العزت نے ہمیں دیے ہیں ، تیل، گیس کے ذخائر ،کوئلے کے ذخائر، معدنیات کے ذخائر، سونے اور چاندی کے ذخائر، دریا، سمندر، بہترین نہری نظام ، آباد زمینیں، سرسبز اور شاداب چراگاہیں، ہر قسم کی فصلیں، اناج، پھل فروٹ، جھیلیں، آبشاریں، خوب صورت پہاڑ، عظیم الشان وادیاں وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے حکمران اگر ایمان دار ی کے ساتھ اپنے وسائل کو بروئے کار لائیں، کشکول اٹھانے کی بجائے سادگی اور کفایت شعاری کو اپنائیں ، بھیک مانگنا چھوڑ دیں، کاسہٴ گدا ئی کو سمندر میں پھینک دیں ، عیاشیاں چھوڑ دیں، اپنے ہم وطنوں کو رعایتیں دیں ، ملکی صنعت کاروں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ رکھیں ، تو تھوڑے ہی عرصے میں ملک کی کایا کو پلٹا جاسکتا ہے اور ہم خیرات لینے کے بجائے خیراتیں دینے والے بن سکتے ہیں ۔ لیکن اس کے لیے ہمت، جرات ، استقامت اور توکل علی الله کی اشد ضرورت ہے #
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
امریکا نے ہمارے اوپر جو پابندیاں لگائی ہیں اور اپنے ایئرپورٹوں پر پاکستانیوں سمیت جن چودہ ممالک کے باشندوں کی سخت ترین چیکنگ کے جو احکامات جاری کیے ہیں ، میرے خیال میں اس کے دو سبب ہو سکتے ہیں ، ایک یہ کہ ان ممالک میں جنگی جنون زیادہ ہے اور دوسرا یہ کہ شاید ان ممالک میں جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ مذکورہ بالا دونوں اسباب کے بارے میں کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھوں، تاکہ آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ جنگی جنون مسلمانوں میں زیادہ ہے یا کفار میں اور جرائم کی شرح کن ممالک میں زیادہ ہے ، مسلمان ممالک میں یا کفار کے ملکوں میں ، میں سمجھتا ہوں کہ پوری دنیا میں کوئی بھی ملک جنگی جنون کے حوالے سے امریکا کا مقابلہ نہیں کر سکتا، ویسے تو دوسرے کفار کے ممالک بھی اس حوالے سے کچھ کم نہیں۔
امریکا آج سے نہیں، بلکہ 1951-52ء سے ایسی مذموم حرکتیں کر رہا ہے، جس سے اس کا بھیانک چہرہ کھل کر سامنے آرہا ہے، شروع سے امریکا کے عزائم استعماری اور توسیع پسندانہ رہے ہیں ،1950 سے1953ء تک کورین وار میں امریکا نے تین لاکھ 26 ہزار863 فوجی بھجوائے، جن میں سے 36 ہزار544 مارے گئے، اس جنگ پر امریکا نے 320 ارب ڈالر خرچ کیے اور اس جنگ میں 15 لاکھ انسان قتل کیے گئے۔
ویت نام وار میں1964ء سے1973ء تک امریکا نے پانچ لاکھ 49 ہزار فوجی بھجوائے ، ان میں سے 48ہزار 209 فوجی مارے گئے ، اس جنگ پر امریکا نے686 ارب ڈالر خرچ کیے او راس جنگ میں 13 لاکھ انسانوں کو قتل کیا گیا۔1990-91ء میں فرسٹ گلف وار میں امریکا نے چھ لاکھ96ہزار550 فوجی بھجوائے، جن میں سے 382 مارے گئے ، اس جنگ پر امریکا نے 96 ارب ڈالر خرچ کیے ،2003ء میں دوسری گلف وار میں امریکا نے پہلے مرتبہ ایک لاکھ 15 ہزار فوجی بھجوائے اور دوسری مرتبہ 2009ء میں اڑھائی لاکھ فوجی بھجوائے ، جن میں سے 4367 فوجی مارے گئے ، اس جنگ پر امریکا نے 648 ارب ڈالر خرچ کیے اور گلف وار میں مجموعی طور پر تقریباً ایک لاکھ انسانوں کو قتل کیا گیا۔
اس کے بعد افغانستان میں 2001ء میں امریکا نے 71 ہزار فوجی بھجوائے اور 171 ارب ڈالر خرچ کیے اور اس کے بعد مزید 30 ہزار فوجی بھجوائے اور 30 ارب ڈالر کا خرچ، افغانستان میں 1979ء سے لے کر اب تک یعنی روس کی جانب سے مسلط کردہ جنگ سے لے کر اب امریکا کی جانب سے لڑی جانے والی جنگ تک مجموعی طور پر دس لاکھ سے زائد انسانوں کو لقمہ اجل بنایا گیا ہے۔ جب کہ لاکھوں لوگ اب تک اپنے گھروں سے محروم ہیں اور دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ویسے بھی اگر آپ کفار کی تاریخ کھولیں گے تو آپ ان کی درندگی دیکھ کر لرز جائیں گے، یہ لوگ جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہلواتے ہیں، اگر آپ ان کے کرتوت دیکھیں گے تو یہ آپ کو وحشی درندے نظر آئیں گے۔ یہ اسلام کے دشمن ، انسانی ذات کے دشمن، امن وامان کے دشمن اور الله اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے باغی ، انسانی حقوق کے علم بردار نہیں بلکہ یہ مظلوم انسانوں کے قاتل ہیں۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ فرانس میں جب جمہوریت کے نام پر انقلاب برپا کیا گیا تو اس موقعے پر 62 لاکھ لوگوں کو قتل کیا گیا تھا،1914ء کی خطرناک جنگ عظیم میں جب یورپین ممالک کا جرمنی کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا تو اس جنگمیں روس کے 17 لاکھ، فرانس کے 13 لاکھ70 ہزار، اٹلی کے4 لاکھ 20 ہزار ، آسٹریلیا کے 8 لاکھ، برطانیا کے 7 لاکھ 20 ہزار ، بلغاریا کے ایک لاکھ ، رومانیا کے ایک لاکھ اور امریکا کے50 ہزار انسان قتل ہوئے تھے ، مجموعی طور پر اس جنگ عظیم میں 73 لاکھ اور 38 ہزار لوگ قتل ہوئے تھے۔
دوسری جنگ عظیم کے موقعے پر بھی کفار نے اربوں کھربوں ڈالر اور پونڈ جنگ پر خرچ کیے تھے ، دوسری جنگ عظیم میں روس کے 7 لاکھ50 ہزار، امریکا کے 3 لاکھ، برطانیا کے 5 لاکھ 50 ہزار، اٹلی کے3 لاکھ،چین کے22 لاکھ اور جاپان کے15 لاکھ انسان مارے گئے تھے، ان تمام انسانوں کی مجموعی تعداد ایک کروڑ6 لاکھ بنتی ہے، جب کہ لاکھوں لوگ ان جنگوں کی وجہ سے معذور اور پاہج بن گئے تھے۔
پاکستان کو ایٹمی طاقت کی حیثیت سے برداشت نہ کرنے والے امریکا نے جنگ عظیم دوم کے موقعے پر ہیروشیما او رناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کے 2 لاکھ 75 ہزاربے گناہ انسانوں کو لقمہ اجل بنایاتھا، امریکا نے ان شہروں پر 12 ہزار ٹن وزنی بم برسا کر شہری آبادیوں کو بھسم کیا تھا۔
یہ حقائق ہیں، اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا جنگی جنون میں کافر ممالک کا اور خاص طور پر امریکا کا دنیا کا دوسرا کوئی ملک مقابلہ کرسکتا ہے؟ امریکیوں کی خواہش ہے کہ ساری دنیا ان کی نوکری کرے وہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے سب کو لتاڑے ، کوئی اس کی حکم عدولی نہ کرے ، پوری دنیا کے انسان اس کی چوکھٹ پر جھکتے رہیں۔
جنگی جنون کے علاوہ دیگر جرائم کے حوالے سے بھی کافر ممالک سب سے آگے ہیں ، مجموعی جرائم کے حوالے سے ٹاپ کرنے والے ٹاپ ٹین کنٹریز میں آئس لینڈ، سویڈن، نیوزی لینڈ، گرینیڈا، ناروے، برطانیہ، ڈنمارک، فن لینڈ، اسکاٹ لینڈ، سوئزر لینڈ، کینڈا، آسٹریا، آسٹریلیا، امریکا، بلجیم، فرانس اور سوئڈن سر فہرست ہیں، جن ممالک میں قتل زیادہ ہور ہے ہیں ، ان میں انڈیا، روس، کولمبیا، ساؤتھ افریقہ، امریکا، میکسیکو، وینزویلا،فلپائن، تھائی لینڈ اور یوکرائن ٹاپ پر ہیں۔
جن ممالک میں منشیات کا کاروبار زوروں پر ہے ان میں جرمنی ، برطانیہ، کینیڈا، ساؤتھ افریقہ، سوئزر لینڈ، بلجیم، سوئیڈن، اٹلی، پولینڈ اور جاپان سر فہرست ہیں ، مذکورہ بالاحقائق جو آپ کے سامنے پیش کیے گئے ہیں، یہ بین الاقوامی ڈیٹا سے لیے گئے ہیں ، جن کو ترتیب دینے والے مسلمان نہیں، بلکہ کافر ہیں ، ان حقائق سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں کافروں کے ملک بدامنی، قتل وغارت گری، افراتفرای کے حوالے سے سب سے آگے ہیں۔
لیکن ان ممالک کا میڈیا اپنے ممالک کے گناہوں کو چھپاتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر ان ممالک کی جو تصویر پیش کی جاتی ہے اس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا ان ممالک میں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی اور ان ممالک میں شاید سارے فرشتے رہتے ہیں، عوام الناس کو یہ حقیقت معلوم ہونی چاہیے کہ کفار ایک دوسرے کے دوست ہیں او رمسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں ، ان سے خیر کی توقع رکھنا فضول ہے۔
اگر ہمیں یہ ممالک کوئی امداد دیتے ہیں تو اس امداد کے پیچھے بھی ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں، ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ الله کی ذات پر بھروسہ کریں ، کافروں کی چوکھٹ پر جھکنے کے بجائے الله رب العزت کے دروازے پر جھکیں، الله سے مدد مانگیں ، ہمارے میڈیا کو چاہیے کہ وہ کفار کے گیت گانے او ران کے راگ الاپنے کے بجائے الله اور الله کے رسول کے پیغام کو عام کرے ۔ ہمارے دانش وروں کو چاہیے کہ وہ مغرب کی تقلید کے بجائے قوم کو غیرت کا سبق پڑھائیں، ہماری عدلیہ کو چاہیے کہ وہ قرآن وسنت کے مطابق فیصلے صادر کرے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے، ہماری پارلیمنٹ کو چاہے کہ وہ ایسی قانون سازی کرے، جس کے نتیجے میں امت میں وحدت پیدا ہو اور قانون کی حکمرانی ہو ، ہمارے افسران کو چاہیے کہ وہ رشوت اور ناجائز سفارش کے بجائے ایمان دارانہ انداز میں کام کریں ، ہمارے منتخب نمائندوں کو چاہے کہ وہ میرٹ کا قتل عام رکوائیں، حق داروں کو ان کا حق دلوائیں اور غریب مسکین، بے بس اور بے کس لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کروائیں ، ہماری فوج کو چاہیے کہ وہ اپنے ماٹو پر عمل کرنے کی کوشش کرے، ساری دنیا کو پتہ ہے کہ پاک فوج کا ماٹو ہے ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل الله۔
اگر ہماری قوم بے ایمانی کو چھوڑ کر ایمان داری کا راستہ اختیار کرے ، شیطان کی اطاعت کوچھوڑ کر تقویٰ اور پرہیز گاری اور خوف خدا کو اپنائے اور بزدلی اور بے غیرتی کی چادر کو پھینک کر جہاد فی سبیل الله کے فلسفہ پر عمل کرلے تو ہم آج بھی دنیا میں باعزت مقام حاصل کرسکتے ہیں، ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہماری ذلت او رغلامانہ ذہنیت سمجھ سے بالاتر ہے ۔ ہماری قوم کوچاہیے کہ وہ مخلص او رمنافق میں، دوست اور دشمن میں ، اپنے اور پرائے میں ، الله کے بندوں اور شیطان کے بندوں میں فرق کرے اور وقت آنے پر ایمان دار قیادت کو آگے لائے ۔ الله رب العزت ہمارے حال پر رحم فرمائے او رہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ الله پاک ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے اور ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ فرمائے ۔ آمین۔

Flag Counter