Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1431ھ

ہ رسالہ

5 - 17
***
مدرسہ بورڈ
محترم حکیم ظل الرحمن، دہلی
دینی مدارس کے نصاب ونظام میں ”چھیڑ چھاڑ“ کا موضوع خاصا پُرانا ہے ۔ پاکستان میں شاید ہی کسی حکومت نے اپنی اولین ذمے داریوں میں ”مدارس کی اصلاح کی ذمے داری“ شامل نہ کی ہو ۔ قارئین الفاروق ان ریشہ دوانیوں سے خوب واقف ہیں۔ ذیل کا مضمون خالصةً ہندوستان کے تناظر میں لکھا گیا ہے، لیکن اس مضمون کا سیاق وسباق پاکستانی مدارس سے خاصا مطابقت رکھتا ہے۔ نیز اس تحریر سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ دینی مدارس خواہ کسی بھی ملک میں ہوں، وہ اپنی ذمے داری کس قدر احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں…!! (مدیر)
آج کل دانشوران ملت کے توسط سے مرکزی حکومت کے دل میں ایک خصوصی درد اصلاح مدارس کا پیدا ہو گیا ہے ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ جن لوگوں کا کوئی بچہ ان مدارس میں نہیں پڑھتا ان کو ان مدارس کی اصلاح کی فکر ہے اورجن کے بچے یہاں پڑھتے ہیں وہ بہت حد تک مطمئن ہیں کہ ان کے بچوں کی تعلیم وتربیت صحیح ہو رہی ہے ۔ جائزہ لیا جائے تو ان دانشوران ملت کا بہت بڑا طبقہ دین سے دور ہے او ربعض تو دین بیزار بھی ہیں۔ اس مطالبے کے پس پشت دو نصب العین ہیں ۔ ابتداءً یہ منصوبہ ایڈوانی صاحب نے اپنے دور میں بنایا تھا، جس کو اب کانگریس حکومت روبہ عمل لانا چاہتی ہے۔
مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کا جو مطالبہ عام مسلمانوں کے نام پر کرایا جاتا ہے اس مطالبہ کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ان مدارس کے فارغ علماء ہیں۔ لہٰذا ان کو ان کی دینی روح سے جدا کر دیا جانا ہے۔
ان کے ہزاروں گریجویٹ بے روز گار ہیں، اگر ہر مدرسہ میں ایک ایک گریجویٹ بھی علوم عصریہ کے نام پر رکھ لیا جائے تو ان کی بے روز گاری دور ہو جائے گی۔
اس کے بعد اس حکومتی طبقہ کو یہ بھی امید ہے کہ ان مدارس کو حکومتی امداد کے توسط سے مدارس میں دخل اندازی کا موقع مل جائے گا۔
اگر ان کو دینی تعلیم ہی کی فکر ہوتی تو یہ مطالبہ کرسکتے تھے کہ عصری تعلیم کے مسلم اقلیتی تعلیمی اداروں میں دینیات اسلامی کو بطور اضافی اختیاری مضمون کے طور پر پڑھانے کی اجازت دے دی جائے اور نئی تعلیمی پالیسی میں دفعہ4/8 کے تحت اخلاقی اور روحانی تعلیم دینے کی اجازت ہے، ثبوت کے لیے عرض کروں کہ ایک زمانے میں مڈل اسکول کا امتحان الہ آباد بورڈ کے تحت ہوتا تھا، اس میں کم از کم دو اختیاری مضمون اور زیادہ سے زیادہ چار مضمون اختیاری لے سکتے تھے۔ مزید برآں نیک کام کرنے کو کوئی منع نہیں کرتا۔ میں جب فتح پور سینئرسیکنڈری اسکول دہلی میں پی ٹی اے کا سیکریٹری تھا اور جناب زین العابدین صاحب پرنسپل تھے، میں نے پی ٹی اے کا چندہ دس روپیہ ماہانہ فی طالب علم کر دیا۔ ٹائم ٹیبل میں دونوں شفٹوں میں ایک ایک پیریڈ اخلاقی اور روحانی تعلیم کے نام پر لگایا۔ اور دونوں شفٹوں میں ایک جز وقتی مدرس دینیات اسلامی کا مقرر کیا اور اس کا مشاہرہ پی ٹی اے سے ادا کیا۔ صبح کی شفٹ کی ظہر کی نماز اور شام کی شفٹ میں عصر کی نماز ادا کراکر چھٹی دی جاتی تھی۔ جہاں تک عصری علوم کا تعلق ہے ان ہی مدارس میں ایسے ادارے بھی ہیں، جو زمانے کی عربی ، فارسی اور دینیات کے لکچروں کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ ریسرچ کا کام کرتے ہیں اور آل انڈیا ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے عربی فارسی پروگرام کے افراد مہیا کرتے ہیں۔
ندوة العلماء لکھنؤ، جامعة الاصلاح سرائے میر، جامعة الفلاح بلریا گنج، مدرسہ عالیہ رامپور وغیرہ اسی ضمن کے ادارے ہیں۔
ان سب کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے نقش قدم پر بہت سے مدارس ہیں، جو درس نظامی کی بنیاد پر چلائے جار ہے ہیں، جہاں تک ان مدارس میں کسی اصلاح کا تعلق ہے بہت سے مدارس رفتہ رفتہ اپنے نصاب تعلیم میں ضروری ترجیحات لارہے ہیں۔ مختلف مدارس میں انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیم کا انتظام ہو چکا ہے ، خود دارالعلوم دیوبند میں اپنے فارغین کے لیے انگریزی تعلیم کا انتظام ہے۔
مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ، مدرسہ گلزار حسینی اجراڑہ، ضلع میرٹھ، مدرسہ ضیاء العلوم، سنبھل، ضلع مراد آباد میں اپنے طلباء کے لیے سینئر سیکنڈری اسکول کھولے جاچکے ہیں۔ اجراڑہ میں کمپیوٹر سیکشن کا بھی نظام قائم ہو چکا ہے۔
اصلاح مدارس کے نام پر سب سے پہلی تجویز ندوة العلما کے صدسالہ اجلاس میں محترم جناب خسرو صاحب وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے پیش کی تھی اور اس وقت ان کا جواب مولانا سعید احمد صاحب اکبر آبادی مرحوم نے دیا تھا کہ آپ ہم سے کیوں اصلاح مدرسہ کا مطالبہ کرتے ہو۔ آپ ایک مدرسہ اپنے نصاب کے مطابق عصری علوم اور دینی علوم کی شمولیت کے ساتھ قائم کرکے اس مدرسہ کی دینی افادیت ثابت کر دو۔ اگر ہم مطمئن ہو گئے کہ عصری علوم کی شمولیت ان مدارس کی روح کو متاثر نہیں کرتی ہے تو ہم خود بخود انداز تعلیم کو قبول کر لیں گے۔ لیکن ہم اپنے ان مدارس میں کسی طرح بھی حکومت کی دخل اندازی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ہم ان دانشور ان ملت سے ایک بات معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آٹھویں کلاس تک یہ لوگ تقریباً ساتھ آٹھ مضمون پڑھاتے ہیں۔
ہائی اسکول میں صرف چھ مضمون رہ جاتے ہیں ۔
سینئر سیکنڈری میں صرف چار مضمون رہ جاتے ہیں۔
بی۔ اے میں صرف تین مضمون اور ایم اے میں صرف ایک مضمون رہ جاتا ہے۔ اپنے اسکولوں میں تخفیف در تخفیف کا اصول اپنا یا جاتا ہے ، لیکن ہم سے کہاجاتا ہے کہ آپ اپنے تمام مضامین بھی پڑھائیں اور علوم عصری بھی پڑھائیں۔ کیا عملاً یہ ممکن ہے کہ کثرت مضامین کے ساتھ دینی علم کا قدیم معیار باقی رہ جائے؟ کبھی نہیں۔
دراصل جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں ان کو ان مدارس کے قیام کے اسباب اور پس منظر کا علم نہیں ہے ۔ توجہ فرمائیں کہ یہ مدارس کس مقصد کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔
قرآن کریم۔ پارہ 4 سورہ آل عمران آیت104 میں ہدایت کی گئی ہے کہ ” تم میں سے کچھ لوگ ضرور ایسے ہونے چاہئیں جونیکی کی طرف بلائیں۔ بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔“
آیت100 ۔دنیا میں تم وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے خطبہ حجة الوداع میں فرمایا:
اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اب خدا کا یہ پیغام تمہیں اور تمہارے بعد کے لوگوں کو دنیا کے انسانوں تک پہنچانا ہے۔
یہ ہے وہ بنیاد جس کے لیے یہ مدارس قائم کیے گئے ہیں۔ ذرا غور فرمائیں کہ ہم سائنس کے لوگوں سے کبھی نہیں کہتے کہ آرٹس کے مضامین پڑھاؤ۔ کامرس کے لوگوں سے کبھی نہیں کہتے کہ سائنس پڑھاؤ۔ آرٹس کے لوگوں سے کبھی نہیں کہتے کہ سائنس یا کامرس بھی پڑھاؤ، وہاں ہر شے کے تخصص کی بات کرتے ہیں اور ہم سے آپ فرماتے ہیں کہ اپنے دینی علوم کے ساتھ عصری علوم بھی بڑھاؤ،تاکہ یہ لوگ اپنی روزی کما سکیں۔ کمال کی بات ہے کہ ان کو ہمارے دینی طلباء کی روزی کی فکر ہے جس کا وعدہ قرآن کریم میں باری تعالی نے ﴿وما من دابة الاعلی الله رزقھا﴾ کہہ کر فرما دیا ہے۔ جس چیز کی ضمانت باری تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی اس کی تو ہمیں فکر ہے اور جوڈیوٹی الله تعالیٰ نے ہمار ی لگائی ہے اس کی انجام دہی کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ذرا نظر ڈالیے کہ آپ کے لاکھوں گریجویٹ بے روز گار پھر رہے ہیں، ہمارا کوئی مولوی بے روز گار نہیں ملے گا۔ حسب حیثیت وہ کہیں مدرس ہوتا ہے، کہیں امام ہوتا ہے، کہیں موذن اور کچھ بھی نہیں تو اپنے تعویذوں کے ذریعہ خدمت خلق میں مصروف ہے، لاکھوں طلبہ سالانہ ان مدرسوں سے فراغ ہوتے ہیں، لیکن کوئی بے روز گار نہیں ہے ۔ دراصل ان حضرات کو فکر ہے کہ مولوی صاحب کے گھر میں ٹیلی ویژن کیوں نہیں ہے۔ فون کیوں نہیں ہے، عمدہ فرنیچر اور رہائشی کوٹھی کیوں نہیں ہے؟ یہ فکر اس لیے نہیں ہے کہ اُن کو حقیقتاً ان مولوی صاحب سے کوئی ہمدردی ہے، بلکہ ان کو فکریہ ہے کہ مولوی صاحب کے گھر میں شیطان کا داخلہ کیوں نہیں ہو رہا ہے۔
ہمارے مدارس کی جوبیناد اور نصب العین ہے او رجوتاریخ دارالعلوم دیوبند میں واضح طور پر درج ہے، وہ درج ذیل ہے:
اوّل مذہبیت: دارالعلوم اوریہ مدارس بنیادی طورپر دینی ادارے اور اسلامی قوت کے سرچشمے ہیں اور اوّل سے آخر تک اسلامی شریعت کے پابند ہیں۔
دوم آزادی وخود مختاری: دارالعلوم اور یہ مدارس کسی بھی طرح کی بیرونی غلامی سے آزاد ہیں۔ ان کا نظام تعلیم، ان کا نظام مالیات اور ان کا نظام انتظامی سرتا سر افراد پر ہے، دارالعلوم دیوبند دنیا کا پہلا تعلیمی ادارہ ہے جس کے لیے حکومت نے بارہا پیش کش کی، مگر اس نے لاکھوں روپیہ کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
ان مدارس کی مالیاتی بنیاد تو کل علی الله پر ہے، عوامی چندے اور عطیات ہی سے یہ چلائے جاتے ہیں۔
سرکار کی شرکت اور امرا کی شرکت بھی زیادہ مضر معلوم ہوتی ہے۔ ان اصولوں کے افراد کی تصویر بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔
حیدرآباد ریاست میں ایک علمی ادارہ دائرة المعارف تھا۔ جس کی بہت علمی خدمات ہیں، اس کے کاموں کو ”نظام“ خود دیکھا کرتے تھے۔ ایک بار جناب مولانا محمد احمد صاحب اور دارالعلوم کے دو فضلا اس ادارے سے وابستہ ہو گئے، نظام ان کے کام سے بہت خوش ہوئے او رفرمایا:
” ہمارے دفاتر اور اداروں کی ایک ضرورت انگریزی بھی ہے اور اگر دارالعلوم دیوبند اپنے نصاب میں انگریزی کی تعلیم بھی شامل کر لے تو ہم اس کی سند کو بی اے کے مماثل تسلیم کر لیں گے اور یہ تو قانونی شکل ہو گی لیکن جب تک قاسمی حضرات ملیں گے، کسی بی اے کو تقرر نہیں دیں گے۔“
مولانا محمد احمد صاحب نے یہ تجویز اس وقت کے مہتمم جناب مولانا یعقوب صاحب کو ارسال کی، مولانا یعقوب صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا جب مولانا محمد احمد صاحب رمضان کی تعطیل میں دیوبند گھر آئے تو انہوں نے اپنی تجویز کا اعادہ کیا۔ تو مولانا یعقوب صاحب نے جو جواب دیا وہ درج ذیل ہے:( اس کے راوی مجھ سے مولانا محمد منظور نعمانی صاحب مرحوم ہیں، اس لیے نقل کی گستاخی کر رہا ہوں)
”محمد احمد! میں تمہیں بے وقوف تو سمجھتا تھا، مگر اتنا نہیں سمجھتا تھا۔ ہم تو پیدا ہی وہ لوگ کرتے ہیں جن کا کوئی گاہک دنیا میں نہ ہو، اگر اس کا گاہک دنیا میں ہو گیا تو وہ ہمارے کام سے گیا۔“
یہ ہے قرآن کریم کی آیت105 اور 110 کے حکم کی تعمیل ۔ رہا اس گروہ کی روزی روٹی کا سوال تو جب خدا کی ملازمت اختیا رکرو گے تو روز روٹی بھی وہ اپنے آپ دے گا۔ اب کچھ اور مثالیں بھی ملاحظہ فرمائیں۔
اسی دائرة المعارف حیدرآباد سے شیخ الادب دارالعلوم دیوبند جناب مولانا اعزاز علی صاحب کو500 روپیہ ماہانہ مشاہرہ کی آفر ملی۔ جو جواب انہوں نے دیا، وہ ہم سب کے لیے جو زندگی میں دنیاوی خواہشات ہی کو زندگی کا اصل مقصد سمجھتے ہیں، مقام عبرت ہے۔
” مدرسہ سے پندرہ روپیہ ماہانہ ملتے ہیں۔ میرا کام آٹھ نو روپیہ میں چل جاتا ہے۔ پریشان رہتاہوں کہ ان کو کہاں خرچ کروں؟ پانچ سو روپیہ ملنے لگیں گے تو میں تباہ ہو جاؤں گا، میری معذرت قبول فرمائیں۔“
ان حالات میں یہ مدارس کیسی کیسی روحانی ہستیاں پیدا کرتے ہیں ،غور فرمائیں۔
مولانا یعقوب صاحب کے زمانہٴ صدارت میں ایک لڑکا پیالہ میں ترکاری لیتاہوا بکتا ہوا ان کے پاس شکایت لے کر آیا کہ کس قد ر گھٹیا قسم کا کھانا طلبہ کو ملتا ہے ؟ مولانا یعقوب صاحب نے حیرت سے فرمایا کہ کیا یہ لڑکا دارالعلوم کا طالب علم ہے۔ یہ دارالعلوم کا طالب علم نہیں ہو سکتا ، لوگوں نے جواب دیا حضرت یہ تو دارالعلوم کا طالب علم ہے اور فلاں کمرے میں مقیم ہے۔ مولانا نے فرمایا تحقیق کرو، یہ دارالعلوم کا طالب علم نہیں ہے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ وہ دارالعلوم کاطالب علم نہیں تھا۔ ا س کا ہم نام طالب علم تھا، جو مدرسہ چھوڑ کر چلا گیا او راب اس کی جگہ یہ رہ رہا تھا۔ لوگوں نے پوچھا حضرت! آپ نے کس طرح جانا کہ یہ دارالعلوم کا طالب علم نہیں ہے؟ فرمایا:
”ایک زمانہ میں میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک کنواں ہے، جو دودھ سے بھرا ہے، رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اس سے دودھ تقسیم فرمارہے ہیں اور لوگ اس میں سے بھر بھر کر لے جارہے ہیں، کوئی مشکیزہ بھر رہا ہے، کوئی گھڑا اور کوئی لوٹا، جو لوگ اس دودھ کو لے کر گئے ان سب کی شکلیں میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ میں نے اس خواب کی تعبیر یہ نکالی ہے کہ کنواں دارالعلوم ہے، دودھ درس حدیث ہے ، تقسیم کنندہ اس دارالعلوم کے اساتذہ نائبین رسول ہیں اور دودھ لے کر جانے والے دارالعلوم کے طلبہ ہیں۔ ان تمام افراد میں یہ لڑکا نہیں تھا، جس کی بنا پر میں نے یہ کہا تھا کہ یہ لڑکا دارالعلوم کا طالب علم نہیں ہے ۔“
مزید سنیے:
موجودہ سہ درہ کی تعمیر کے سلسلے میں بعد نماز عشاء اساتذہ اور منتظمین میں مشورہ ہو رہا تھا، کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ طے ہوا کہ صبح بعد فجر پھر غور ہو گا۔ مولانا رفیع الدین صاحب فرماتے ہیں کہ رات کو خواب میں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نشان لگا دیے ہیں انجگہوں پرستون اٹھالیے جائیں۔ صبح فجر کے وقت جاکر دیکھا تو نشان لگے ہوئے تھے۔ مولانا نے بہ آواز بلند فرمایا اب کسی مشورہ کی ضرورت نہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فیصلہ فرما دیا ہے ۔“ اب بتائیے کہ کیا آپ کے نئے علوم عصریہ کے دینی ادارے یہ افراد پیدا کر سکیں گے؟!
اب دو مختلف النوع نصاب کے اداروں کا فرق بھی ملاحظہ فرمالیں، حالاں کہ دونوں ادارے دینی ہیں۔ مگر ایک میں کسی حد تک دنیاوی ضروریات بھی ملحوظ ہیں ۔ اگرچہ وہ بھی ضروریات زندگی ہیں ، یعنی ندوة العلماء لکھنؤ۔
مولانا اعزاز علی صاحب شیخ الادب دارالعلوم دیوبند ایک بارندوہ تشریف لے گئے۔ وہاں ہر چیز کو دیکھا، لوگوں نے معلوم کیا کہ دارالعلوم اور ندوہ میں آپ نے کیا فرق محسوس کیا آپ نے فرمایا:
”آپ جب ندوہ کے طالب علم سے اعزاز علی کا مکان معلوم کر دیں گے تو وہ آپ کو صحیح طور پر بتادے گا کہ اس سڑک پر بجلی کے دوکھمبوں کے بعد الٹے ہاتھ پر جو گلی ہے، اس میں سیدھے ہاتھ پر چوتھا مکان اعزاز علی کا ہے اور آپ بالکل آسانی سے اعزاز علی کے مکان پر پہنچ جائیں گے۔
لیکن جب یہی سوال آپ دارالعلوم کے طالب علم سے کریں گے تو وہ آپ کو کچھ نہیں بتائے گا، بلکہ آپ کو ساتھ لے کر میرے گھر تک پہنچا دے گا۔“
ندوة العلماء کے علمی معیار سے کس کو انکار ہو سکتا ہے لیکن کیا ندوہ ایک بھی حسین احمد پیدا کر سکا، ایک بھی شبیر احمد عثمانی پیدا کر سکا، ایک بھی مفتی عزیز الرحمن پیدا کر سکا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ وجہ صاف ہے، وہاں اس چیز کا فقدان ہے جسے قرآن کریم نے ذکر اور احسان سے تعبیر کیا ہے۔
ایک مثال اور غور فرمائیں! سر سید نے نیک نیتی سے مدرسة العلوم قائم کیاتھا، عصری علوم کے ساتھ دینیات اسلامی کا مضمون لازمی رکھا تھا۔ لیکن کیا اس دور میں عصری علوم کے ماہرین دینی مزاج لے کر نکلے ۔ مجبوراً جامعہ ملیہ اسلامیہ قائم ہوا، جس میں آزادی سے قبل تک ایک حد تک اسلامی مزاج او راسلامی تہذیب تھی۔ آزادی کے بعد انتظام کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں آئی انہوں نے جب ادارے سے لفظ اسلامی حذف کرنے کی تجویز رکھی تو حسن اتفاق سے گاندھی جی کی شخصیت بانیان ادارہ میں سے تھی، انہوں نے فرمایا کہ اگر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے لفظ اسلامیہ نکال دیا گیا تو اس ادارے سے وہ اپنا تعلق توڑ دیں گے اور آج وہی حال ہو گیا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نام ہے۔
جا۔ میاں۔ مل۔لیا۔ اسلام۔یاں۔
اب تو یہاں اسلامیات کا حال یہ ہے کہ درسی کتاب میں لکھا ہے کہ لیلة القدر کی عبادت ایک ہزار راتوں کی عبادت کے برابر ہوتی ہے، جب کہ قرآن کریم نے اسے ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر بتایا ہے ۔ کسی کو احساس تک نہیں ہے۔ کیوں کہ اب یہاں طلباء اور اساتذہ کی نیت ہی عصری علوم کے ماہرین بنانے کی ہوتی ہے ۔ عربی کا مقولہ ہے الناس علی دین ملوکہم۔ اس پورے ساٹھ سالہ دور میں کوئی بھی وائس چانسلر علاوہ ڈاکٹر ذاکرحسین صاحب کے دینی مزاج کا نہیں آیا ہے تو کہاں سے دینی مزاج پیدا ہوتا؟
جو حضرات ان مدارس کی اصلاح کی باتیں کرتے ہیں آخر وہ حکومت سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ اقلیتی مسلم اداروں میں دینیات کی تعلیم ان کے اپنے والدین کے اخراجات کی بنیاد پر بطور مزید اختیاری مضمون پڑھانے کی اجازت دے دی جائے؟ اور یہ اجازت نئی تعلیمی پالیسی کے تحت ضابطہ4/8 کے تحت اخلاقی اور روحانی تعلیم کی اجازت کے نام پر ملتی ہے، بلکہ موجود ہے اور یہ اجازت جو نیئر ہائی اسکول سے بی اے تک دے دی جائے تو مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔
میرے محترم! مدرسوں میں جو طبقہ پڑھنے آتا ہے اس میں تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی ۔ یہ وہ طبقہ ہے جن کے گھروں میں وافر کھانا نہیں ہوتا، پہننے کو مناسب کپڑے نہیں ہوتے اور پیروں میں جوتے نہیں ہوتے۔ یہ غریب مدارس کے اساتذہ عوامی چندوں کی بھیک، زکوٰة، خیرات اور صدقات کی آمدنی کرکے ان بچوں کو مفت کھانا، مفت کپڑے، مفت کتابیں او ردیگر ضروری اخراجات کی کفالت کرتے ہیں ۔اگر یہ مدارس ان بچوں کو نہ اپناتے تو یا تو یہ بچے مزدوری کا شکار ہوتے یا مجرمانہ گروہ کے رکن بن جاتے۔ یہ مدارس ہی ہیں جو انہیں انسان بناتے ہیں، اپنے انسان بنانے کے جو کارخانے حکومت کے تھے، یعنی اسکول وہاں تو اب حال یہ ہے کہ #
اب کسی پیڑ پر لگتے نہیں اخلاق کے پھل
زندگی تھک گئی اس بیج کو بوتے بوتے
بہار میں ایک مدرسہ ہے، جہاں70 بچے غیر مسلم پڑھتے ہیں۔ جب وہاں آرایس ایس کے لوگوں نے جاکر ان کے والدین سے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو ان دوسرکاری اسکولوں میں بھیجیں، جو اس گاؤں میں موجود ہیں توان کا جواب تھا ”ہم تو اپنے بچوں کو اسی مدرسہ میں بھیجیں گے ۔ مولوی صاحب بڑے پیار سے پڑھاتے ہیں ۔ اخلاق سکھاتے ہیں او رکوئی بھید بھاؤ نہیں کرتے“ یہ لوگ اپنا سا منھ لے کر چلے آئے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے مدارس کے دورازے ہر مذہب کے لیے کھلے ہیں ۔ خود میرے ساتھ دارالعلوم میرٹھ میں درجہ منشی سے ایک صاحب رام چندر فارسی پڑھتے تھے۔
مدارس کے نصاب اور طریقہٴ تعلیم میں اگر کسی تبدیلی کی ضرورت ہو تو اس کے لیے کسی سرکاری بورڈ کی ضرورت نہیں ہے ۔ علماء حسب ضرورت اپنے اداروں میں مائل بہ اصلاح ہیں، سرکاری بورڈوں کے تحت مدارس کا حال دیکھنا ہو تو یوپی میں عربی فارسی بورڈ اور بہار میں شمس الہدیٰ بورڈ کے مدرسوں کا حال دیکھو! اکثریت ان مدارس کی دینی روح سے محروم ہے اوراساتذہ اپنے فرائض کے احساس سے غافل ہیں او راکثر خوف خدا وندی سے بھی محروم ہیں، ہر وقت ان کے سامنے اپنے مطالبات ہوتے ہیں ،اپنی ذمہ داریاں نہیں۔
اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت، خواہ وہ مرکزی ہو یا صوبائی، چند بڑے شہروں میں اپنے معیار کے مطابق مدرسے بطور نمونہ قائم کرکے اوراس کی خوبیوں اور معیار تعلیم کی بنیاد پر دوسرے اداروں کو رضاکارانہ قبول کرنے کی ترغیب دے، لیکن کسی مدرسے کے انتظام وانصرام میں دخل اندازی نہ کرے۔ بہتر چیز ہو گی تو لوگ خود بخوقبول کر لیں گے۔
دوسری شکل یہ ہے کہ مدارس کے درجہ فوقانیہ کی سند کو جونیئر ہائی اسکول کے برابر تسلیم کر لیا جائے او راس کی بنیاد پر ان طلبہ کو ہائی اسکول میں داخلہ کا مجاز قرار دیا جائے، تاکہ جو بچے مدارس کے فوقانیہدرجے کے بعد دنیاوی عصری تعلیم کی طرف جانا چاہیں وہ وہاں چلے جائیں، وہاں بھی اسلامیات کو ایک مزید امیتازی مضمون کا درجہ دلایاجائے، آخر یونیورسٹیوں میں بھی تو اسلامیات کا شعبہ ہوتا ہے۔
ایک تیسری شکل اور ہے، فارغین مدارس کے لیے خود حکومت ایسے دو سالہ یا تین سالہ نصاب کے ادارے قائم کرے جہاں انگریزی ، سائنس، کمپیوٹر اور دیگر ٹیکنیکل تعلیم کا انتظام ہو اور ایسے اداروں میں تعلیم زیادہ قیمتی نہ ہو۔ مدارس سے فراغت کے بعد جو طلبہ ان اداروں میں داخلہ لینا چاہیں ، وہ داخلہ لے سکیں ۔ یہ صورت حال جامعہ ہمدرد، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کالجوں میں موجود ہے، C.C.I.M نے بعض مدارس کی اسناد کو سینئر سیکنڈری کے برابر تسلیم کیا ہے اور وہ B.U.N.S کے پری طب درجہ میں داخلے کے مجاز ہیں۔
مجھے امید ہے کہ حکومت کے ذمہ داران ان مندرجہ بالا تینوں صورتوں پر غور فرمائیں گے او رمدارس کی خود مختاری کو محفوظ رہنے دیں گے۔

Flag Counter