Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1431ھ

ہ رسالہ

15 - 17
***
حدیث کے میدان میں نئے چیلنجز اورعلوم حدیث کی بازیافت
مولانا ساجد صدوی،شعبہ تخصص فی الحدیث، جامعہ فاروقیہ کراچی
نئے چیلنجز
اس وقت مغربی سوچ اور اس کے متعین کردہ تقاضوں کی بنیاد پر بنے ہوئے نظام کی نقالی میں اپنے نظامِ تعلیم وتربیت کی ساخت وپرداخت کرنے والے عرب وعجم کے تعلیمی ادارے یونیورسٹیاں اور کالجز اسلامی علوم وفنون کوبھی دوسرے فنون کی طرح تختہ مشق وستم بنائے ہوئے ہیں ، جہاں نونہالان ِقوم کومغرب سے درآمد کردہ اندازِفکرکی بنیاد پر ”اسلامیات“ کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس میں بزغم خویش ، تخصص اوراسپیشلایزیشن کے کورس کروائے جاتے ہیں ۔
چناں چہ وہ مغربی آ قاوٴں کے اسلوب واندازمیں حدیث وعلوم حدیث پر لمبے چوڑے مقالے اورتھیسز تیارکرتے ہیں ، شکل وصورت ، لباس وپوشاک ، وضع قطع ، چال ڈھال، نشست وبرخاست ،کردار واخلاق، سوچ، فکر ، اہداف ومقاصدہرچیز میں مغرب کی نقالی، ان کی سی زندگی اور لگے ہیں حدیث نبوی پر تحقیق کرنے ، علوم حدیث کی گتھیاں سلجھانے ، امام ابوحنیفہ متوفی 150ہجری ،عبد الرحمان بن عمرو اوزاعی متوفی 157ہجری ،سفیان بن سعیدثوری متوفی 161ہجری ،مالک بن انس متوفی 179ہجری، سفیان بن عیینہ متوفی 198ہجری ، یحییٰ بن سعید القطان متوفی 198ہجری، عبدالرحمان بن مہدی متوفی 198ہجری، یحی بن معین متوفی233ہجری، علی بن المدینی متوفی 234ہجری،ابوزرعہ رازی متوفی 281ہجری،محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256 ہجری،مسلم بن الحجاج قشیری متوفی 261 ہجری اور ابوجعفر طحاوی متوفی321 ہجری وغیرہم کی باتیں سمجھانے، ان کامزاج ومذاق بتانے ، ان کے اختلافات ، شخصیات میں مقارنہ کرنے ۔
نتائج پر بھی کچھ پابندی نہیں ، چندسال دائیں بائیں سے کچھ کتابیں اکھٹی کرلینے ،انہیں الٹنے پلٹنے سے دوسری وتیسری صدی کے مسلمہ ائمہ فن کے آپس میں فیصلے صادر کرنے کاسرٹیفیکیٹ مل جاتا ہے ، بلکہ ایسے بداندیشوں کی بھی کمی نہیں جو سلف کے اُن مانے ہوئے اور منجھے ہو ئے ائمہ فن کوبھی اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، جن کے دم قدم سے فن کاوجود ہے ، جن کاطرز واندازفن میں قاعدہ وکلیہ کی حیثیت رکھتا ہے # 
ببیں تفاوت رہ ازکجا است تابکجا
ان لوگوں کے ہاتھوں ایڈٹ شدہ حدیث وعلومِ حدیث کی کتابیں ہزاروں کی تعداد میں موجودہیں، ہزاروں شخصیات کاتحقیق کے نام پر جائزہ لیا جاچکا ہے ، یہ عجیب وغریب ہالے تیار کرنے والے مقالے دھڑا دھڑ چھاپے جارہے ہیں اور خوب داد تحقیق پارہے ہیں۔ اِن نئی تحقیقات اور تدقیقات نے علمی دنیا کے رخ کو یکسر بدل کرکے رکھ دیا، سوچ فکر کے زاویے ہی بدل دیے ، سب کو ایک مخصوص دائرہ میں سوچنے اور اسی انداز سے کاموں کو آگے بڑھانے اور نتائج پیش کرنے کاپابندبنایا جاتاہے ، پھربھی آزاد ماحول میں سوچنے اور کام کرنے کی باتیں کر کرکے تھکتے نہیں، بیسیوں مقالوں میں کوئی مابہ الفرق چیز نظرنہیں آتی ، بڑے بڑے مسحورکن عنوانات ، القاب و آداب اورتبویب وتفصیل پرمشتمل لمبے چوڑے خاکے وخطے، رسمی طریقہ کاراورعرفی کارگزاری کے علاوہ کسی کام کے نہیں ہوتے ، چوری وخیانت کے عجیب وغریب قصے ، کہانیاں اس پر مستزاد ہیں، جوپوری ”الف لیلہ ولیلہ “کی داستاں ہے۔
ان نئے تحقیق سازوں نے جو مسائل پیداکیے ہیں اورجگہ جگہ داد تحقیق دے چکے ہیں ،اس کو پڑھنا ، غلط فہمیوں کوسمجھنا اور ان کا تدارک کرنا، ان کے شرسے امت کوبچانا ،نئے چیلنجز ہیں، جو صبح وشام سلف صالحین کے دم قدم کے ساتھ چلنے والوں کے در پر دستک دے رہے ہیں، اِس پر جب کوئی اپنی برادری کاآدمی دوسروں کو اِن چالوں سے واقف کرانے کے بجائے اُن کے دام میں آجائے ،اُنہی کی چال چلنے لگے ،دیدہ ودانستہ یا نادیدہ ونادانستہ اُن کی باتوں کاترجمہ کرکے نئے قالب میں پیش کرنے لگے ، شخصیات کا پس منظرجانے بغیر اُن کی کتابوں کورواج دینے لگ جائے ، تو چیلنجز سے نمٹ لینا اورزیادہ سخت ہوجاتا ہے۔
عرب وعجم سبھی اِس لپیٹ میں ہیں ،نئے نظام تعلیم کی اکائیاں ، اس کے خدوخال وہی ہیں جن سے صرف وقتی مشاہدہ وتجربہ کی بنیاد پر قائم فنون کو تقویت ملتی ہے ، مگر اسلامی علوم وفنون یہاں ثقافتی وتاریخی یادگا روں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے ، یہ نیا نظامِ تعلیم مسلمانوں کے اندر معرفت الہی والے علم ِکے سوتو ں کو خشک توکردیتاہے، انہیں تروتازگی نہیں بخشتا ،یہاں ڈگریاں حاصل کرنے اوربڑی تنخواہیں پانے سے اوپرکوئی ہدف نہیں ۔ 
مستشرقین، جن کے پروردئہ تحقیق لوگوں نے نیانظامِ تعلیم مرتب ومتعارف کرایاہوا ہے ،حدیث وعلوم حدیث کو طرح طرح سے تختہ مشق وستم بنائے ہوئے ہیں ، لاکھوں ،کروڑوں لوگوں کی گمراہی کاسبب بنے ہوئے ہیں ، ان کی ریشہ دوانیا ں آج بھی جاری وساری ہیں اور دنیا کی مختلف زبانوں میں اُن کا تیارکردہ نام نہاد ”اسلامی لٹریچر “ پڑھاپڑھایاجاتاہے،کتنے ہی مشہورعرب موٴلفین کی کتابیں مستشرقین کے افکار ومزعومات سے بھری پڑی ہیں،حالانکہ وہ اپنے حلقوں میں علماء اور مصلحین ِ امت گردانے جاتے ہیں،مفتی عبدہ ، رشیدرضااور ایسے دوسرے کئی نام ہیں ۔
جب عربوں کاحال یہ ہے تو”المنجد“ جیسی ڈکشنریوں سے عربی سیکھ کر قرآن وحدیث پر خامہ فرسائی کرنے والے عجمیوں بالخصوص ہندوستانیوں کا کیاحال ہوگا ، اندازہ نہیں کیاجاسکتا ، یہی وجہ ہے کہ پرویز ، مودودی ، اصلاحی ،غامدی، عمارراشدی جیسے لوگ مسلمہ اصحاب علم و تحقیق قرارپاگئے۔ عصری تعلیم گاہوں کا بیشتر نصابی مواد اور کتابیں براہ راست مستشرقین کی کتابوں سے ، یا ایسے ثانوی مراجع سے تیارکی گئی ہیں، جن کے بنیادی مصادرومراجع مستشرقین کا تیار کردہ لٹریچرہیں ، چناں چہ ان کا لب ولہجہ، طرز واسلوب ، اثر وتاثیر اور سوچنے اور سوجھنے کاانداز سب مستشرقین کی تحریروں کا رہین منت ہے۔ 
ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پرخاش رکھنے والے، نام نہاد بانی علیگڑھ کالج بے سروراہ احمد خان کے وارث پرویزلاہوری نے ظلم کی انتہا کردی ، قرآن کانام لے کر صاحب قرآن اور اس کی طرف سے بیان ہونے والی وحی نبوت کا انکار کرڈالا ، آج بھی اس کے چیلے موجود ہیں،جوخاک شدہ باقی ماندہ” خاکساریوں “کے ساتھ مل کر اُس کے خیالاتِ بدکوپھیلارہے ہیں، رہے سر اور چراغ سے فکر ی غذا پاکر دوسرے نام ولیبل سے کام کرنے والے ،سو اُن کاتوکوئی حسا ب وکتاب نہیں ۔
غیرمقلدین جنہوں نے أئمہ سلف اوراُن کے متبعین سے کینہ کی بنیاد پر اپنے لیے ازراہ دروغ گوئی ”اہل حدیث“ کاعنوان اختیارکیا، انہوں نے الگ سے مسائل کھڑے کیے ہوئے ہیں، وحدت کوپارہ پارہ کرکے افتراق وانتشار کی راہیں ہموار کرتے رہے ہیں ۔
ان کی نئی نئی شکلیں بھی نکلتی رہی ہیں ،غرباء ،مسعود عثمانی ، جماعت المسلمین امتِ واحدہ کو افتراق کا طعنہ دے کرخود مفترق ہورہے ہیں، یہ سب”حدیث“ کانام لے کرفتنوں کے جال پھیلائے ہوئے ہیں ۔نام نہاد مفکرین جاوید غامدی ، عمارخان راشدی سبھی تحقیقوجائزہ کے نام پر اپنا اپنا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔
البانی ،ربیع المدخلی ، مشہورحسن آل سلمان ، عائض قرنی ،زبیر علی زئی ، ذاکر نائک بھی حدیث وعلوم حدیث کا سہارا لے کرہزاروں لوگوں کے لیے بے راہ ہونے کا باعث بن چکے ہیں، شاگردوں ، چیلوں کے ساتھ مل کر بڑی بڑی جلدیں تیار کررکھی ہیں ، جس کا جھانسہ دے کرلوگوں کوباآسانی شکار کیا جاسکتاہے ۔ اب حدیث وعلوم حدیث کی معرفت ، حدیث کی اتھارٹی توبس یہی مذکورہ چند افراد ہیں،جن کویہ مسترد کردیں ، چاہے کوئی بھی ہو اُس کا کوئی نام نہیں لے سکتا، جو شخص ان کی گرفت کردے اُس کاناطقہ بندکردیاجاتاہے ، حجازمقدس میں رہنا ، بلکہ وہاں کا سفر اختیار کرنا بھی مشکل ہوجاتاہے ۔
اپنے وقت کے نامور عالم اور بے نظیر محقق، ناقد،امام محمدزاہد بن الحسن الکوثری ، ان کے علوم کے ناشر محدث وقت، علامہ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ اوران کے علوم کے وارث وجانشین محقق العصر علامہ شیخ محمدعوامہ حفظہ اللہ تعالی اور ان کے منتسبین نہایت حوصلہ شکنی کے ماحول میں جینے پر مجبورہیں ، انہیں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے بہت مشکلات سامنے ہوتی ہیں ۔ کسی بھی بڑے سے بڑے امام پربیباکی سے جرح کردیتے ہیں ، مگرزمانہ حال کے نام نہاد تعلیمی ادارے کے فاضل ،کسی موٴلف پرجرح کرنے یا صرف اختلاف رائے رکھنے کی بھی کسی کے لیے گنجائش نہیں سمجھتے، چاہے کوئی اہل علم کے مسلمہ طبقہ علیا سے تعلق رکھنے والاشخص ہی کیوں نہ ہو۔ 
سہولیات کے تقاضے روز بروز بڑھ رہے ہیں،طرح طرح کی فہرستیں تیارکی جارہی ہیں، یہ سلسلہ اور بڑھ کر الیکٹرانک آلات کی طرف چل نکلا،مسابقت وگرم بازاری کی فضاء قائم ہوگئی ہے ،اسلامی علوم واقدار، جس طرز وانداز میں اورجن طریقوں کی بدولت پہنچے ہیں ، اب یہ باور کرایاجاتا ہے کہ آئندہ ایساممکن نہ ہوگا ، اگلی نسلوں تک دین منتقل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان قدیم ذرائع پر نہ صرف یہ کہ اکتفا کیاجائے بلکہ اُن سے پرہیزبھی کیاجائے ، کیوں کہ یہ ایک دوسری دنیا کی چیزیں ہیں۔
لوگوں کو خواہ مخواہ فطری ، صحیح طریقہ کے مطابق کتابوں کامطالعہ کرنے کے بجائے نئے طوروانداز پرلایاجارہاہے ، انہیں تنہائی میں کتاب کے ساتھ سرگوشی کرنے اُس کے خفیہ رازوں سے واقف ہونے کے بجائے اسکرین پرلایاجارہاہے ، اُن ذرائع کواختیار کرنے کی ترغیبات دی جارہی ہیں جو کبھی بیماروں اور ناتواں لوگوں کے لیے خاص سمجھے جاتے تھے ، کتابوں اور کتب خانوں کو ختم کرنے کے لیے سہولت کے نام پر(سیڈیز ، ویب سائٹس وغیرہا)پروگرامز بنائے جارہے ہیں ، جس کی عادت ہوجانے کے بعد نئی نسل خود بخود کتاب اورکتب خانے پالنے کی روایت چھوڑ بیٹھیگی ، بلکہ اِس کوبے فائدہ اورردی سمجھ کردشمن بن جائے گی ۔
یوں جوچیزیں اور آلات وقتی مشاہدہ اورنئے تجربہ کی بنیادپرقائم فنون میں کام لانے کے لیے وضع کیے گئے ہیں، اُسی کوتقویت دیتے ہیں اوراُنہی کی نشوونما کاباعث بنتے ہیں ، اب اُن کو اسلامی علوم ومعارف کے لیے بھی استعمال کرکے ، بلکہ بنیاد اور صحیح ذریعہ تصورکراکر اُ س کی روح کو اُٹھایا جارہاہے ، جو ایک طرف کتاب کے مدمقابل ہیں ، تودوسری طرف معلم اورماحول کی ضرورت واہمیت کو، اور اس کی کامیاب اسلامی ، تاریخی ، تجرباتی حیثیت اوروجودکو بھی چیلنج کررہے ہیں۔ 
ان سہولیات کی جائز شرعی حدود کی تعیین کے علاوہ بھی کئی بنیادی اورنہایت اہم مسائل ایسے ہیں ، جس کا ہمارے علوم وفنون کے ذوق ومزاج اور ہماری تعلیم وتربیت کے اسلوب وانداز ، اہداف ومقاصد ،ضروریات ونتائج اور دیگر تعلیمی نفسیات سے تعلق ہے ، جس کے پیش نظر ہم نے یہ فیصلہ کرناہے کہ ان سہولیات کوفائدہ کی خاطر کہاں تک اور کس طرح استعمال کرناہے ؟ نقصان سے بچنے کے لیے کہاں ،کس قدر اجتناب واحتیاط کو ملحو ظ رکھنا ہے؟
ماہنامہ ”الشریعہ“ ، ”ساحل“ اور ”جریدہ“ کے کار پردازوں کا لب ولہجہ یوں گویاہے کہ پوری امت ، جماعتیں،افراد،تمام طبقات ،علماء ، مشائخ اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے اپنے ایمان وعقیدہ ، فکروعمل ،فہم قرآن،حدیث، فقہ اورعلوم وفنون،کردار واخلاق، سیاست وسیادت ،اسلوب واندازکی درستگی کے لیے اُن کے فراہم کردہ منہج کو اختیار کریں ، ان کے مشوروں پر عمل کرکے نئے تجربات کرلیں، کسی بھی چیز کے بارے میں صحیح تصور اُنہی سے لیاجائے ،وہ بتائیں گے کون کیاہے کیانہیں؟ کیاکرناہے کیانہیں ؟ صحیح کیاہے اور غلط کیا ؟صرف فلسفیانہ قسم کی حجت بازیوں ہی کے ذریعہ کسی کی تعبیری ، فکری اور عملی غلطی کوواضح کرنے سے اس کا دائرہ اثر ختم ہو جائے گا، اس کی اصلاح ہوجائے گی ، تبدیلی آجائے گی،لوگ اس کو چھوڑدیں گے ۔
خود اِن لوگوں کے فہم ِشریعت کوکیااتھارٹی حاصل ہے ؟سیرت نبی، سیرت صحابہ ، سیرت سلف صالحین کے ساتھ کس قدرعملی اور علمی تعلق ہے ؟ اجتہادی قسم کے مباحث میں ہاتھ ڈالنا اور پھر اجتہاد کی راہ ہموار کرنے والوں پر ردکرنا ؟ نہایت علمی ودقیق اوراجتماعیت و حساسیت و الے سوالات ومباحث کوعوام وخواص، دوست ودشمن کے سامنے تجزیہ وتبصرہ کے لیے پیش کرنا ، صرف اپنی علمیت یاحقیقت پسندی کارعب قائم کرنے اور عام لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات اور اضطرا ب وبے چینی کالامتناہی سلسلہ شروع ہونے کا ذریعہ ہی ہوسکتاہے ، کیوں کہ ان کے اٹھائے ہوئے سوالات ، توہمات کے جوابات، توضیحات سوچتے سوچتے لوگ بہت دوردورتک نکل جاتے ہیں ، حال یا ماضی قریب توکیا بعید از بعید تر میں بھی رونماہونے والا کوئی واقعہ ، کوئی فیصلہ ، کوئی اجتہاد ، وضاحت ،تشریح اس کی زد سے باہر نہیں ، یہ صورت حال بھی نہایت سنجیدگی کے ساتھ اکابر کے منتسبین سے غورو خوض کی متقاضی ہے ۔
حدیث وعلوم حدیث کے مجموعے سامنے لانے اور ان کونام نہاد محققین کے دست برد سے بچانے کی ضرورت ہے ، بیشتر مطبوعہ کتابیں فنِ تحقیق وتعلیق کے اسلو ب واندازپرنہیں ، تصحیح ومقابلہ نسخ کاجوعظیم کام شیخ الکل مولانا احمدعلی سہانپوری اورہمارے دوسرے بزرگوں کے ذریعہ نہایت کسمپرسی کے عالم میں شروع ہوا تھا اور خالص علمی وروحانی بنیادوں پرقائم تھا، بوجوہ جاری نہ رہ سکا، ورنہ مطبوعات کی دنیا میں بھی صرف اور صرف دیوبندی نسخے ہی رائج ہوتے ، اور انہی کو اعتبار حاصل ہوتا ، تاجرانہ اندازکے کام چل رہے ہیں ،جس میں علم کی بھی خدمت ہوجاتی ہے ، دار الکتب العلمیہ اور دوسرے غیرمعیاری اداروں کی کتابیں مالی فوائد کی وجہ سے عام ہیں ، علمی کتابیں اور تحقیقی اداروں کی مطبوعات شاذونادرہی دستیاب ہوتی ہیں۔ 
علوم حدیث کے ایسے ماہرین کی تلاش ہے جو فن ِجرح وتعدیل سے استفادہ کرکے نئے تقاضوں کے پیش نظر اِن پروردہ وشکار کردئہ باطل لوگوں کی خبرلیں ، امت کو ان کے شر، فتنہ سے محفوظ کرنے کا سامان کریں۔ یہ چیلنجز ہیں، جن کاسامناکرناعلوم نبوت کے حاملین کافریضہ ہے، یہ سب کام کرنے کے ہیں، آج شروعات کرکے ذمہ داری نباہیں ، چاہے کل نئے فتنوں کے سر اٹھانے کا مزید انتظار کرکے چاروناچارکرنا پڑے۔
نئے ‘چیلنجزاور درپیش مسائل کاتقاضاہے کہ مدارس وجامعات کے ذی استعداد اور مناسب طبیعت ومزاج رکھنے والے فضلاء کو اُن تربیت گاہوں کی طرف متوجہ کیاجائے، جہاں اُن کی چھپی ہوئی صلاحیتیں کھل کرسامنے آئیں اورعملی میدانوں میں کود پڑنے کے لیے تیارہوجائیں۔ 
جوشخص فنی مہارت کے لیے ضروری، بنیادی صلاحیت کامالک نہ ہو، اردوتراجم یا مختصرات پڑھ کر، مصطلحات کی رٹی رٹائی تعریفات اور قاعدے یادکرکے عملی میدان میں کودنا چاہتاہے، وہ قدیم چیلنجز سے نمٹ لینے کا اہل نہیں ، جبکہ اس کے لیے موادبھی دستیاب ہوتا ہے، ( اگرقوت ِفہم اور صلابت فکر کی نعمت حاصل ہو ) ایساشخص نئے چیلنجز کاجواب نہیں دے سکتا ، کیوں کہ اس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ، مضبوط سہارا نہیں۔
عموما ایسے کمزور لوگ ذمہ داریو ں کابوجھ اٹھانے کے بجائے اور گراں باربنادیتے ہیں اور یوں چیلنجز کاسامناکرنے کے بجائے خود ایک اور چیلنج بن کرسامنے آجاتے ہیں، نام نہاد مفکرین اوربزعم خویش محققین میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں ،جو نئے چیلنجز کاجواب دینے کے لیے مسحورکن لیبل ، عنوانات اختیارکرکے ماضی سے رشتہ توڑنے کومستقبل کی طرف پیش رفت باورکرانا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اسی بے بنیادی پر اپنی ترقی کی بنیاد رکھنے کوعظیم انقلاب خیال کرتے ہیں۔
ٹھوس علمی فضا بنانے کے لیے کتب خانوں کووسعت دینا ضروری ہے، یہ بالکل بدیہی بات ہے ،کیوں کہ کتب خانے ان علوم وفنون کاخاموش خزانہ ہیں ، جن کی تعلیم وتربیت ،حفاظت واشاعت کے لیے یہ ادارے بنائے گئے ہیں،اساتذہ ،طلبہ اورخدام کے ذریعہ، درس وتدریس کا متحرک ماحول قائم کیاگیا ہے ۔
کتب خانوں کے اوقاتِ کاربڑھانے کے لیے رجالِ کارمیں اضافہ بھی ناگزیر ہوجاتاہے ،کتابوں کی خدمت پر مامور افراد ”فنِ کتب خانہ“ سے واقفیت رکھنے کے ساتھ کتابوں سے بھی وابستگی رکھتے ہوں، کتاب خواں اور تحقیق نگار کے ذوق و مزاج سے آگاہ ہوں، جوآنے والے طلبہ ، اساتذہ ، اور دوسرے متلاشیان ِ کتاب کاکھل کراستقبال کرتے ہوں، اُن کی راہ تک رہے ہوں اور کسی نووارد، بے وقتیے کے آنے پر چیں بجبیں نہ ہوں، کیوں کہ کتابوں کی حفاظت نہایت ضروری گردانے جانے کے باوجود قرا ت ومطالعہ کا ہرگزمتبادل نہیں ، لوگوں نے کتابیں پڑھنے کے لیے لکھی ہیں ، محض رکھنے اور سجانے کے لیے نہیں۔ 
حفاظت کے نام پر کوئی بھی ایسارویہ اختیارکرنا صحیح نہیں ، جس سے آنے جانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو اور وہ کتب خانہ سے استفادہ کے لیے آنے کوشدیدمجبوری کے ساتھ جوڑدیں ، ایسی کتابیں کس کام کی، جن سے باآسانی استفادہ نہ کیا جاسکتاہو، مطالعہ کا شوق بڑھانے میں لائبریرین کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے ۔
حدیث اور علوم حدیث پرقدیم وجدیدلٹریچر فراہم کرنے کی باقاعدہ اور منظم کوششیں کی جائیں، اتفاقیہ اور ہدایا وتحائف پر قناعت کرنے کے بجائے متحرک پروگرام کے تحت کتابیں، رسائل اور مضامین وغیرہا جمع کیے جائیں، حدیث اور علوم حدیث سے متعلق نئے الیکٹرانک ذر ائع، فہرست نماذخیرے بھی فراہم کیے جانے کے باقاعدہ سلسلے ہوں، تاہم معذور لوگوں کے اِن آلات اورعدیم الفرصت یا کم ہمت لوگوں کے لیے تیارکیے گئے اِن پروگراموں سے استفادہ کے دوران اپنے تحفظات کونظراندازنہ کیاجائے ۔
دوسری طرف سہولیات کی فراہمی کے ساتھ اساتذہ ، طلبہ میں ٹھوس علمی استعدادکا ذریعہ بننے والے رجحانات کوفروغ دیاجائے ، استعدادکی پختگی کو ہردم مدنظر رکھاجائے ،مطالعہ کرنے اور لکھتے پڑھتے رہنے کوعمومی رواج دیا جائے ، پختہ استعداد اور ٹھوس فکر وخیال کے آڑے آنے والے تمام تر اسباب کا بخوبی جائزہ لے کر ان کی درجہ بدرجہ حوصلہ شکنی کی جائے، نصابی کتابوں کے اردوتراجم کے فروغ کی حوصلہ شکنی کی جائے، طلبہ ،اساتذہ ہر فن کے مصادر، بنیادی کتابوں اوربنیادی شخصیات پر توجہ مرکوزرکھیں ،صرف پختہ کار لوگوں کونمونہ قرار دیا جائے۔
حدیث اور علوم حدیث کی تربیت گاہوں میں سلف صالحین اور اکابرینِ امت کے ساتھ علمی وروحانی رشتوں کومضبوط کرنا بھی لازمی حصہ ہو ، اِس کاماحول قائم کیاجائے، کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دینی مدارس وجامعات کانصاب صرف لفظی وتحریری تعلیم پرہی مشتمل نہیں، بلکہ مخصوص علمی وروحانی ماحول بھی اُس کا ضروری حصہ ہے، جو شروع سے مستند درسگاہوں میں توارثاًوتعاملاً منقول وموجود رہاہے اور اِسی علمی وروحانی ، عملی وتحریکی جامعیت کی بناپر اِن اداروں نے عظیم خدمات انجام دی ہیں ۔

Flag Counter