Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1431ھ

ہ رسالہ

1 - 17
***
ربیع الثانی 1431ھ, Volume 26, No. 4
خدا کے دربار میں
مولانا عبید اللہ خالد
ظلم خواہ کسی بھی شکل میں ہو، ظلم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف جو نازیبا اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں اور جس طرح میڈیا میں خبریں شائع ہورہی ہیں، وہ صرف امریکا ہی کے لیے نہیں تمام اتحادی ممالک نیز ان کے نام نہاد مسلمان دوستوں کے لیے بھی انتہائی شرم کی بات ہے۔ خود سرکاری سطح پر امریکا کی جانب سے عافیہ صدیقی کے بارے میں شواہد کو چھپانا اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ امریکا خود اس عمل کو جرم سمجھتا ہے لیکن طاقت کے زعم میں اندھا اور باؤلا ہو کر یہ سب کچھ کررہا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی عدالت کی جانب سے عافیہ کے خلاف فیصلہ اس بات کی ایک ناکام کوشش ہے کہ امریکی اب تک جو کچھ مظلوم اور کمزور خاتون کے ساتھ کرتے چلے آئے ہیں، اس ظلم کو دنیا کی نظروں میں قانونی شکل دے دی جائے۔ 
لیکن کیا کسی بھیانک ظلم کو قانون کی شکل دے دی جائے تو وہ درست ہوجاتا ہے؟ کوئی ذی ہوش اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دے گا۔
ڈاکٹر عافیہ کی کہانی سنتے ہیں تو ذہنوں میں محمد بن قاسم کی تصویر ابھرتی ہے جس نے صرف ایک خاتون کے خط پر ہزاروں میل کا سفر طے کرکے اس خاتون اور اس کے ساتھ اور بہت سے مظلوموں کو راجا داہر کی قید سے آزاد کرایا تھا۔ لیکن آج صرف ایک مظلوم عورت کو کافروں کی قید سے چھڑا نا ناممکن معلوم دیتا ہے، حال آنکہ آج جو وسائل مسلمان حکم رانوں کے پاس موجود ہیں وہ پہلے کبھی نہ تھے۔ ہاں!!!وہ مسلمانوں کا عروج تھا اور یہ مسلمانوں کا زوال ہے۔ 
مسلمانوں کے عروج و زوال کی یہ داستان کئی صدی پر مشتمل ہے۔ جب تک مسلمان اسلام کے فطری قوانین پر عمل کرتے رہے وہ برابر نہ صرف ترقی کرتے رہے، بلکہ ان کی دھاک بھی غیروں کے دل و دماغ پر بیٹھی رہی۔ یہ دھاک مذہبی اور دنیوی ہر دو اعتبار سے تھی۔ مگر جب مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب ہم اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں اور کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکتا تو مسلمانوں نے بالخصوص مسلم حکم رانوں نے چھوٹے اور پھر بڑے گناہ کرنے شروع کر دیے اور پھر یہی گناہ ان کے جبر و استبداد اور عیش وآرام کی صورت میں ظاہر ہونے لگے۔ چنانچہ یہی وہ مرحلہ ہے جب ہمارے ہی حکم رانوں نے عوام کی دولت کا استحصال کرتے ہوئے عوام پر ظلم و ستم کرنا شروع کردیے تاکہ وہ اپنے حقوق نہ مانگ سکیں۔ 
یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ اب وہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔ دوسری جانب عوام نے تمام تر ذمے داری حکم رانوں کے سر رکھ دی کہ اب ہمیں کچھ سمجھنے اور کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر حکم رانوں نے اپنے تئیں ظلم و استبداد کو اپنی روش بنایا تھا تو اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں تھا کہ عام لوگ بھی خدا سے بے پروا ہوجاتے اور اپنی زندگیوں کو گناہوں میں غرق کر ڈالتے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوام پر جب ان کے حکم راں ظلم توڑتے تو عوام اللہ کی طرف رجوع کرتے، لیکن عام مسلمانوں نے بھی اپنے بادشاہوں کی روش پر عمل کرتے ہوئے گناہوں کی دلدل میں دھنسنا شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ شاہ و رعایا سبھی اسلام کے فطری قوانین سے بے پروا اور خدا سے دور ہوتے چلے گئے۔
یہ کیفیت کم و بیش کئی صدیوں سے جاری ہے۔ افسوس ! ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہم جتنا خدا سے دور ہوئے ہیں، اتنا ہی دنیا کے مصائب میں گرفتار ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود خدا کی طرف واپسی کے لیے تیار نہیں، حال آنکہ خدا کے دربار کے در ہمارے لیے ہر دم کُھلے ہوئے ہیں کہ کب ہم اپنے گناہوں سے نادم اور تائب ہوکر اس کے در پر دستک دیں اور وہ ہماری مدد کو دوڑ پڑے۔

Flag Counter