Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1430ھ

ہ رسالہ

6 - 18
***
دینی مدارس اور دہشت گردی کی تازہ لہر
مولانا قاری محمدحنیف جالندھری
وطن عزیز اس وقت بدامنی اور دہشت گردی کی جس لہر کی لپیٹ میں ہے اس پر ہر دردِ دل رکھنے والا پاکستانی فکر مند ہے، اس دہشت گردی کے اسباب ووجوہات اور اس کے پسِ منظر کے حوالے سے بہت کچھ کہا اور سنا گیا ہے، لیکن ان دنوں ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے ڈانڈے دینی مدارس کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ دینی مدارس ” تنگ آمد بجنگ آمد“ کا مصداق بن جائیں۔ دینی مدارس قیام پاکستان سے لے کر آج تک دینی اور علمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور اس عرصے میں یہ ادارے کسی قسم کی دہشت گردی میں نہ کبھی ملوث رہے ہیں اور نہ ہی ان اداروں نے کسی قسم کے تشدد کا درس دیا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ان اداروں کو دہشت گردی سے منسوب کرنے کی بھونڈی کوشش کی جاتی رہی ہے ،پہلے پہل جب مدارس کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بارے میں جھوٹا اور بے بنیاد پرپیگنڈہ کیا جانے لگا تو ارباب مدارس نے ہر فورم پر ایسے مبہم الزامات عائد کرنے کے بجائے ان مدارس کی نشان دہی کرنے کو کہا جہاں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہو یا جہاں اسلحہ موجود ہو۔ چناں چہ نہ تو کسی مدرسے کے بارے میں ٹھوس شواہد پیش کیے جاسکے اور نہ ہی کہیں سے اسلحہ برآمد کیا جاسکا، بلکہ خود وزارت داخلہ نے اس حوالے سے اعلیٰ سطحی تحقیقات کرنے کے بعد یہ رپورٹ پیش کی کہ پاکستان کا کوئی مدرسہ بھی دہشت گردی میں ملوث نہیں ، ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کے بعد پروپیگنڈہ کا یہ سلسلہ رک جاتا، لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہوا اور اب پروپیگنڈہ کا سلسلہ ایک قدم آگے بڑھ گیا اور مدارس پر چھاپے مارکر اور مدارس کے بے گناہ طلبا کو حساس اداروں کے ذریعے غائب کرواکر دہشت گردی کا ملبہ مدارس پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امن وامان کی موجودہ سنگین صورت حال اور مذہبی قوتوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم کے باوجود مدارس کے منتظمین،اساتذہ اور لاکھوں طلبا کو اس دہشت گردی سے خود کو الگ تھلگ رکھنے اور وطن عزیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مشکلات کھڑی نہ کرنے کی بنا پر اہل مدارس کو خراج تحسین پیش کیا جاتا لیکن الٹا مدارس کے لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہے اوردھونس، دباؤ اور خوف پر مبنی پالیساں تشکیل دی جارہی ہیں، حالاں کہ بارہا اس کا تجربہ کیا جاچکا ہے کہ طاقت اور دباؤ پر مبنی پالیسیوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔
ایک بات او راہل مدارس محسوس کرتے ہیں کہ 7/7 کے بعد جس طرح برطانوی آرڈر کی تعمیل میں مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تھا، اسی طرح ان دنوں بھی مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے مدارس کو تنگ کیا جارہا ہے، حالیہ دنوں میں متعدد مدارس پر چھاپے مارے گئے ۔ اسلام آباد کے ایک مدرسہ میں کمانڈوز، حساس اداروں اور پولیس کی بھار ی نفری نے اس انداز سے یلغار کی جیسے انڈین فوج کشمیر کی کسی بستی پر لشکر کشی کیا کرتی ہے ۔جب ان لوگوں سے اس ”یلغار“ کی وجہ معلوم کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک ایسے طالب علم کی تلاش میں آئے ہیں، جو لال مسجد میں زیر تعلیم تھا اور آپریشن سائلنس کے دوران اس پر مقدمات بنائے گئے او راس کے جملہ کوائف کا ریکارڈ سیکورٹی اداروں کے پاس موجود ہے اور وہ صرف دو دن قبل عدالت میں بھی پیش ہوا تھا ، عدالت میں پیشی کے موقع پر بھی اس کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے جاسکتے تھے، اسے سانحہ لال مسجد سے اب تک گزرنے والے پونے دوبرسوں کے دوران کہیں سے بھی حراست میں لیا جاسکتا تھا ، اگر اس سے کوئی جرم سرزد ہوا تو صرف دو پولیس اہلکار آکر مدرسہ انتظامیہ سے اس طالب کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرسکتے تھے ، اس معاملے پر وفاق المدارس سے رجوع کیا جاسکتا تھا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور اس مدرسے پر یلغار کر دی گئی۔ اس یلغار کا انداز بتاتا ہے کہ یہ سب کچھ بدنیتی پر مبنی ہے، یہ تو صرف ایک مثال ہے، ورنہ اس وقت ملک کے قریباً اکثر اداروں کو اسی قسم کی صورت حال کا سامنا ہے۔ اسلام آباد ہی کے ایک دینی ادارے میں حساس اداروں کے اہلکار نمازِ فجر سے قبل آدھمکے او رمدرسہ انتظامیہ سے ایک طالب علم کے بارے میں پوچھ گچھ کی اور اسے ساتھ لے جانے کا مطالبہ کیا ، انتظامیہ نے لاکھ کہا کہ یہ طالب علم ہماری ذمہ داری میں ہے، آپ اس کے بارے میں کوئی ثبوت پیش کریں ، کوئی پوچھ گچھ کرنی ہے تو ہم آپ کو موقع فراہم کرتے ہیں ، یہیں پوچھ گچھ کر لیں، لیکن وہ طالب علم کو ساتھ لے جانے پر مصر رہے اور بالآخر انہوں نے دباؤ ڈال کر مدرسہ انتظامیہ کو اس بات پر قائل کر لیا کہ کہ وہ بھی اس طالب علم کے ساتھ جائیں اور سرسری پوچھ گچھ کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسے واپس لے آئیں۔ چناں چہ مدرسے کے دو نمائندے ان کے ساتھ چلے گئے ۔ انہیں قریبی تھانے میں لے جاکر صاف جواب دے دیا گیا کہ آپ لوگ واپس چلے جائیں، یہ طالب علم آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا او راب صورت حال یہ ہے کہ اس تھانے کا ایس ایچ او بھی اس طالب علم کے بارے میں اظہار لاعلمی کر رہا ہے۔ اسلام آباد کا ایک معیاری دینی ادارہ، جس مسجد سے ملحق ہے آج سے دس برس قبل اس مسجد کی منتظمہ کمیٹی سے مالی خورد برد کے الزام میں برطرف ہونے والے ایک شخص کو حال ہی میں دوبارہ مسجد کمیٹی میں عہدے کے حصول کا شوق چڑھا تو اس نے اس مدرسہ کے خلاف جھوٹے الزامات پر مبنی درخواست دے دی اور پھر حساس اداروں نے اس شخص سے شواہد کا مطالبہکیے بغیر مسجد ومدرسہ کے منتظمین کا ناک میں دم کیے رکھا۔ یہ تو صرف اسلام آباد کی چند مثالیں ہیں، ملک کے دیگر حصوں کے مدارس کے حالات اس سے کہیں زیادہ ابتر ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں اس طرح کے واقعات سے مدارس میں اشتعال اور انتشار پیدا ہوتا ہے ، نوجوان طلبا میں رد عمل کی سوچ پر وان چڑھتی ہے، جو انہیں تشدد پر آمادہ کرتی ہے اور پھر ایسے طلبا کے دہشت گردی کے واقعات میں استعمال ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس صورت حال میں مدارس کی نمائندہ تنظیموں او رمنتظمین کے لیے یہ صورت حال خاصی پریشان کن ہے۔ نوجوان طلبا ہم سے مسلسل پوچھتے ہیں کہ آخر ہمارا جرم کیا ہے جس کی پاداش میں ہم سے امتیاری سلوک کیا جاتا ہے ؟ آخر کب تک صبر کے گھونٹ پیتے رہیں گے؟ جب یہ سوچ مزید پختہ ہوتی ہے تو ایسے ناراض نوجوان مدارس کو خیر باد کہہ جاتے ہیں کیوں کہ یہ طلبا جب تک مدارس کے نظم اور چار دیواری کے اندر ہوتے ہیں انہیں کسی منفی سرگرمی میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی، بلکہ داخلے کے موقع پر ان سے یہ عہد لیا جاتا ہے کہ ” وہ دوران تعلیم اپنی تمام تر توجہ حصول تعلیم پر مرکوز رکھیں گے او رہر قسم کے لایعنی مشاغل سے اجتناب کریں گے اور ملک میں کام کرنے والی تمام تنظیموں سے الگ تھلگ رہیں گے اور بالخصوص سیاسی سرگرمیوں سے مکمل اجتناب کریں گے“ یہ عبارت قریباً تمام مدرس کے داخلہ فارم میں موجود ہوتی ہے ۔ اس لیے مدارس میں زیر تعلیم طلبا کے کسی بھی منفی سرگرمی کے لیے استعمال ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں لیکن اگر وہ مدرسہ چھو ڑ کر چلے جائیں تو وہ کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتے، اس لیے مدارس کے طلبا کو مدارس کی محفوظ چار دیواریوں کے اندر ہر اساں کرنے کا سلسلہ فی الفور بند ہونا چاہیے، تا کہ وہ کسی قسم کے انتہائی اقدام او ربغاوت پر آمادہ نہ ہوپائیں۔ یہاں ایک اوربات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ مدارس کی حیثیت سے تو کبھی بھی دہشت گردی کی حمایت نہیں کی گئی لیکن اگر خدا نخواستہ کوئی طالب علم انفرادی طور پر کسی منفی حرکت کا مرتکب پایا بھی جائے تو اس کی وجہ سے مدارس کے پورے سسٹم کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، جیسے حکومت نے خود اجمل قصاب کے معاملے میں ”نان اسٹیٹ ایکٹرز“ کا تصور پیش کیا تھا ،اسی طرح اگر کوئی مدارس سے متعلقہ شخص ایسے کسی عمل میں ملوث پایا گیا تو وہ بھی مدارس کے حق میں ”نان مدارس ایکٹرز“ ہیں، ان کے انفرادی افعال پر مدارس پر یلغار کرنے سے گریز کیا جائے ۔ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی راہ میں مدارس رکاوٹ نہیں بنیں گے، تاہم ثبوت اور شواہد کا مطالبہ ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے او رکسی کو اس کی اجازت بھی نہیں دے سکتے کہ وہ وجہ بتائے بغیر مدارس کے طلبا کی ماورائے قانون اغوا کاری کا ارتکاب کرے۔
اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے اجلاس کے بعد حکومت کو یہ بھی پیش کش کی گئی ہے کہ مدارس اورمذہبی طبقات کی نمائندہ قیادت موجودہ دہشت گردی کے خاتمے، امن وامان کی بحالی اور ناراض لوگوں سے مفاہمت کے لیے ہر ممکنہ کردارا ادا کرنے پر آمادہ ہے ۔ لیکن یہاں تو الٹی گنگابہہ رہی ہے کہ دہشت گردی کی آگ کو بجھانے کے لیے ارباب مدارس کا تعاون حاصل کرنے کے بجائے مدارس کو تنگ کرکے بعض جذباتی نوجوانوں کو دہشت گردی کا راستہ دکھانے اور دہشت گردی کی اس آگ پر تیل چھڑکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

Flag Counter