Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1430ھ

ہ رسالہ

16 - 18
***
حیاتِ انسانی کا دوسرا مرحلہ ۔۔۔ برزخ
مولانا حذیفہ وستانوی
للہ کی ذاتِ بابرکت ازلی و ابدی ہے، یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، گویا دوصفات اللہ کی ذات میں موجود ہیں۔ یہ منجملہ خصائص الٰہیہ کے ایک خصوصیت ہے۔ اللہ جل جلالہ کے علاوہ کوئی ازلی ابدی نہیں، مادی نظریات جس کو ”مغربی نظریات“ بھی کہہ سکتے ہیں‘، نے دنیا کے فنا و بقا کے بارے میں بہت ٹھوکریں کھائیں، کبھی کہا کہ دنیا ازلی اور ابدی ہے، کبھی کہا ازلی نہیں مگر ابدی ضرور ہے، کبھی کہا ازلی بھی نہیں اور ابدی بھی نہیں؛ گویا اسے اس بات کو تسلیم کرنا پڑا کہ ایک نہ ایک دن اس دنیا کو فنا ہونا ہے، آج کی سائنس اسی نتیجہ پر پہنچی ہے۔ جب کہ اسلام اس بات کو آدم علیہ وسلم کے زمانہ سے ہی کہتا چلا آرہا ہے۔ 
گویا سائنس دین فطرت، یعنی اسلام سے دس پندرہ ہزار سال پیچھے ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ کیوں کہ اسلام دین الٰہی ہے اور سائنس مذہب انسانی ہے، اب کہاں خالق اور کہاں مخلوق، کہاں اللہ اور کہاں انسان؟ ابھی قریبی زمانہ کے ایک ولی اللہ اور مشہور بزرگ، جنہیں محی السنہ (سنتوں کو زندہ کرنے والا) کہا جاتا ہے۔ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی رحمة اللہ علیہ ایک موقع پر ارشاد فرماتے ہیں کہ انسان ازلی تو نہیں البتہ ابدی ضرور ہے۔ کیوں کہ حیات دنیوی کے بعد انتقال کرکے وہ حیات اخروی کی طرف منتقل ہوگا اور پھر وہاں خالدین (ہمیشہ ہمیشہ کے لیے) جنت میں یا جہنم میں رہے گا۔
قرآن و حدیث کی نصوص سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں تین مراحل یا اَدوار سے سابقہ پڑ تا ہے، جیساکہ ” عقائد اہل سنت و الجماعت “ کی سب سے معتبر ترین کتاب ”العقیدة الطحاویة“ کے مصنف محدث و فقیہ ابوجعفر الطحاوی تحریر فرماتے ہیں کہ ”إن الدور ثلاثة: دار الدنیا، ودار البرزخ، ودار القرار وقد جعل اللہ لکل دار احکاما تخصہا، ورکب ہذا الانسان من بدن ونفس وجعل احکام الدنیا علی الابدان، والارواح تبع لہا، وجعل احکام البرزخ علی الارواح، والابدان تبع لہا، فإذا کان یوم حشر الاجساد وقیام الناس من قبورہم صار الحکم والنعیم والعذاب علی الارواح والاجساد جمیعا“۔ (شرح العقیدة الطحاویة:392)
اللہ جزاءِ خیر عطا فرمائے امام ابوجعفر طحاوی کو، کہ آپ نے کتنے اچھے پیرائے میں انسان کے مراحل حیات اور اس پر مرتب ہونے والے احکامات کو بیان کیا، آپ فرماتے ہیں: ”دار تین ہیں: 1)دار الدنیا۔2)دار البرزخ۔3)دارالقرار۔ 
اللہ رب العزت نے ان میں سے ہر ایک دار کے لیے مخصوص احکام ٹھہرائے۔ دوسری جانب انسان کو بدن اور نفس سے مرکب پیدا کیا، دنیاوی احکام کو ابدان پر لازم کیا اور برزخ کے احکامات ارواح پر اور جب قیامت قائم ہوگی تو بدن اور نفس دونوں کو یا جنت کی نعمتیں ملیں گی یا جہنم کا عذاب۔“
ان تینوں مراحل حیات کو سمجھنے سے پہلے انسان کو خود اپنے آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ جب خود اپنے آپ کو نہیں سمجھے گا تو کیسے وہ اپنے متعلقات کو سمجھ سکتا ہے؟
لہٰذا انسان کو یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ نے دنیا میں کوئی چیز بے سود، بیکار، بلا کسی غرض و مقصد کے نہیں پیدا کی، ہر چیز کی تخلیق کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد، حکمت اور مصلحت کارفرما ہوتی ہے۔ اب جب ساری مخلوقات کو حضرت انسان کی خدمت کے لیے کسی نہ کسی مقصد سے پیدا کیا، جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:﴿خلق لکم ما فی السموات و الارض﴾۔ تو ذرا غورکیجیے! خود انسان کی تخلیق کا مقصد کتنا عظیم ہوگا۔ قرآن اسے بھی بیان کرتا ہے : ﴿و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون﴾۔انسان اور جنات کو میں نے محض اپنی عبادت کی غرض سے پیدا کیا۔
اسی لیے انسانی زندگی اللہ کے نزدیک اس کی اہمیت کے پیش نظر بڑی ہی منظم، مرتب اور مربوط ہے۔ اس کی زندگی کا کوئی مرحلہ عبث نہیں، اس کی نشوو نما بھی تدریجی، اس کی عقل بھی تدریجی، لہٰذا اللہ تک پہنچنے کے لیے اس کی زندگی بھی تدریجی۔ پہلے حیات دنیا، جس میں وہ روح و بدن دونوں کی اصلاح کا مکلف۔ اس میں بھی بدن اصل اور روح تابع۔ اگر اصلاح ہوگئی تو برزخ میں، جو تقرب الی اللہ اور جنت اور آخرت کی پہلی منزل ہے، روح کو سکون مل جائے گا اور بدن اس کے تابع ہوگا۔ اور آخرت میں بدن اور روح یا تو نعمت کے سزاوار یا عذاب کے امیدوار ہوں گے۔ اب ہم یہاں انسان کی منزل ثانی برزخ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ انشاء اللہ!
حیاتِ برزخ
برزخ، لغت میں کہتے ہیں دو چیزوں کے درمیان حائل حجاب کو۔ (لسان العرب ابن منظور:116/1)
برزخ کی اصطلاحی تعریف
مابین الدنیا و الآخرة من وقت الموت الی البعث فمن مات فقد دخل البرزخ.
دنیا اور آخرت کے درمیان کی زندگی کو برزخ کہتے ہیں۔ یعنی موت سے لے کر قیامت تک کا مرحلہ۔ (الصحاح جوہری:419/1)
برزخ کا ذکر قرآن میں
اللہ کا ارشاد ہے: ﴿ومن ورائہم برزخ الی یوم یبعثون﴾۔(سورة المومنون) دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿سنعذبہم مرتین ثم یردون الی عذاب عظیم﴾. (سورہ توبہ)۔ اور ایک جگہ ارشاد ہے: ﴿و ان للذین ظلموا عذابا دون ذلک و لکن اکثرہم لا یعلمون﴾․ (سورہ طور)۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے: ﴿ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکا ونحشرہ یوم القیمة اعمی﴾․ (سورة طہ) 
ان آیات کریمہ میں سے بعض آیتیں صراحتاً حیاتِ برزخ پر دلالت کر رہی ہیں۔ اور بعض آیتیں اشارةً حیات برزخ کی غمازی کرتی ہیں۔ 
امام ابن القیم الجوزیہ فرماتے ہیں: یہ جان لینا چاہیے کہ عذاب قبر اور نعمتِ قبر درحقیقت عذاب برزخ اور نعیم برزخ ہی ہے اور اس سے کسی کو خلاصی اور نجات نہیں ہے۔ چاہے انسان کو جلادیا جائے، چاہے درخت پر لٹکادیا جائے اور اس کی راکھ کو ہوا میں اڑا دیا جائے، یا کسی مومن صالح کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال کر مار دیا جائے، ہر ایک کو برزخ کے عذاب یا اس کی نعمتوں سے لامحالہ دوچار ہونا ہے۔ جیساکہ بنواسرائیل کے اس گناہ گار شخص کے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے، جس نے اپنی اولاد کو جلاکر خاک کرنے اور پھر اسے ہوا میں اڑا دینے کی وصیت کی تھی، مگر اللہ نے ہوا اور سمندر کو حکم دے کر اسے زندہ کیا اور اس سے سوالات کیے، اگر کوئی برزخ کا انکار کرتا ہے تو گویا اللہ کی قدرت اور الوہیت کا انکار کررہا ہے۔ (الروح:73)
عذاب قبر پر حضرت علی کی بہترین دلیل
ایک مجوسی امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے پاس تین مردہ سروں کی کھوپڑیاں تھیں۔ اس نے کہا، اے عمر! تمہارے صاحب (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں کہ جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسرے دین پر مرے گا وہ آگ میں جلایا جائے گا۔ اس مجوسی نے یہ آیت پڑھی: ﴿النار یعرضون علیہا غدوا و عشیا﴾۔ (صبح اور شام یہ لوگ آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں)۔ (کشف الرحمن)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صحیح ہے۔ یہ سن کر اس مجوسی نے وہ تینوں سر نکالے اور کہا یہ سر میرے باپ کا ہے، یہ سر میری ماں کا ہے اور یہ سر میری بہن کا ہے، یہ تینوں مجوسی دین پر مرے ہیں، میں اپنا ہاتھ ان کی کھوپڑیوں پر رکھتا ہوں، تو مجھے گرمی محسوس نہیں ہوتی (یعنی تمہارے پیغمبر کے قول کے مطابق ان کھوپڑیوں کو گرم ہونا چاہیے، کیوں کہ یہ آگ پر پیش کی جاتی ہیں)۔
یہ سن کر حضرت عمر نے اپنے خادم کو بھیج کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بلایا، جب حضرت علی تشریف لائے تو حضرت عمر نے مجوسی سے کہا کہ اچھا اب تو ذرا اپنے اعتراض کو دہرا دے۔ اس نے اعتراض دہرایا۔
اعتراض سن کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک لوہا اور پتھر منگوایا۔ جب حاضر کیا گیا تو آپ نے مجوسی سے کہا کہ تو اس لوہے اور پتھر پر ہاتھ رکھ کر بتا کہ گرم ہے یا سرد؟ مجوسی نے ہاتھ رکھ کر کہا، یہ تو سرد ہے۔ حضرت علی نے پھر فرمایا، اچھا تو لوہے کو پتھر پر مار۔ جب مجوسی نے لوہے کو پتھر پر مارا تو اس میں سے چنگاری نکل پڑی۔
اس پر حضرت علی نے مجوسی کو مخاطب کرکے فرمایا، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ٹھنڈے پتھر اور لوہے کے درمیان میں آگ پیدا کردی ہے، اسی طرح وہ اس چیز پر قادر ہے کہ جن کھوپڑیوں میں تجھ کو گرمی محسوس نہیں ہوتی ان کے اندر گرمی پیداکردی ہواور وہ تجھے محسوس ومعلوم نہ ہورہی ہو، یہ کھوپڑیاں جن کو تو سرد محسوس کررہاہے ان کو اللہ تعالی ٰ اس طرح آگ پر پیش کرتاہے کہ تو ان گرمی محسوس نہیں کرتا، حالاں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آگ میں جلتی رہتی ہیں، یہ بات سن کر مجوسی لا جواب ہوگیا۔ (موت اور قبر کے حیران کن واقعات اور جدید تحقیقات:327,326)
برزخ کے سلسلہ میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ 
ہم مسلمان ہیں، اللہ رب العزت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ دے کر بھیجا ان تمام پر ایمان جازم، یقین پیہم رکھتے ہیں، عقل اسے تسلیم کرے یا نہ کرے، لہٰذا ہمارا عقیدہ ہے کہ قیامت قائم ہونے والی ہے، جنت اور جہنم برحق، حساب حق ہے، صراط حق ہے، اسی طرح برزخ اور عذاب قبر بھی برحق ہے، اگر کسی کو درندہ بھی کھا جائے تو وہ برزخ سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا۔
عذابِ قبر پر اکابرین کے تحقیقی دلائل
حضرت علامہ سیوطی  فرماتے ہیں کہ عذاب قبر کا ذکر قرآن اور سنت میں بہت جگہ آیاہے۔ اس لیے یہ حق ہے اور دو فرشتوں کا مُردوں سے سوال کرنا حق ہے اور اس پر ایمان لانا فرض ہے۔
حضرت ابو عبد اللہ  کا بیان ہے کہ قبر کا عذاب حق ہے، اس سے وہی شخص انکار کرسکتاہے جو خود گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا ہو۔
علامہ قرطبی اور حافظ ابن قیم رحمہما اللہ تعالیٰ نے ذکر کیاہے کہ زندیق ، بے دین اور ملحد لوگ عذاب قبر، قبر کی تنگی اورکشادگی کا انکار کرتے ہیں اور ان کا اعتراض یہ ہوتاہے کہ جب ہم کسی قبر کو کھول کر دیکھتے ہیں تو نہ فرشتے مُردے کوگُرزسے مارتے ہوئے نظر آتے ہیں، نہ اس میں سانپ وغیرہ ہوتے ہیں اور نہ آگ نظر آتی ہے۔ مردہ اپنی اصلی حالت میں سویا رہتاہے، جس حالت پر قبر میں سلایاگیاتھا اور قبر کا طول وعرض بھی وہی رہتاہے جو دفن کرتے وقت تھا، اسی طرح سولی دیا گیا مردہ اور جانوروں کی خوراک بن جانے والا مردہ دونوں سے یہ سب سوال و جواب کب اور کیسے کیے جاتے ہیں؟ان پر بے دینوں کا اعتراض ہے۔
علمائے حق نے اس کا جواب دیا ہے کہ اللہ تعالی بڑا ہی قادر ہے، اس نے مردوں کے احوال کو زندوں کی آنکھوں سے مخفی رکھاہے، یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کہ فرشتے آتے جاتے ہیں،لیکن ہم ان کو نہیں دیکھ پاتے اور انبیاء علیہم السلام ان کو دیکھتے تھے،ان سے بات چیت کرتے تھے، بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ جبرئیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے جاتے تھے، وحی کا القا کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے وحی لیتے اور حاضرین مجلس نہ ان کو دیکھتے تھے اور نہ ان کی بات سنتے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ بصروبینائی کی قوت ایک ایسی چیز ہے جو خداکی قدرت میں ہے۔ انسان کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے اور اللہ ہی کی قدرت ہے کہ کبھی بہت بڑے مجمع کو تھوڑا کرکے دکھاتاہے اورتھوڑی سی جماعت کو بہت زیادہ پیش فرمادیتاہے۔ چنانچہ قرآن میں واقعہ بدر کے متعلق ہے:
”واذ یریکموہم اذا التقیتم فی اعینکم قلیلا ویقللکم فی اعینہم لیقضی اللہ امرا کان مفعولا“․
”اور وہ وقت یاد کرو کہ جب تم بالمقابل ہوئے تو تمہاری آنکھوں میں دشمنوں کو تھوڑادکھایا اور ان کی نگاہ میں تم کو زیادہ کرکے دکھایا، تاکہ اللہ تعالیٰ کے اس کام کو پورا کرو، جس کا ہونا طے شدہ تھا“۔(کشف الرحمن)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ بدر کے دن کفار ہماری نگاہوں میں تھوڑے کردیے گئے۔ اسی دن کا واقعہ ہے کہ میں نے اپنے پاس کے ایک آدمی سے کہاکہ یہ کفار ہم کو سترکی تعدادمیں نظرآتے ہیں۔اس نے کہا، نہیں، بلکہ وہ سوکی تعداد میں ہیں، لیکن جب ہم نے کفار کے ایک آدمی کوپکڑکر پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہزار کی تعداد میں تھے۔
اللہ کی قدرت کا کرشمہ بدر کے دن یہ بھی دیکھنے میں آیاکہ شیطان لعین نے مسلمانوں کی طرف سے فرشتوں کولڑتے ہوئے دیکھااور کافروں نے فرشتوں کو نہ دیکھا۔ چناں چہ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ ابلیس قبیلہ بنی مدلج کے ایک آدمی کی صورت میں شیاطین کے گروہ کے ساتھ گروہ کفار میں آیا،اس کے پاس ایک جھنڈا بھی تھا، ابلیس نے کفارکو ہمت دلاتے ہوئے کہا، آج تم پر کوئی جماعت غلبہ نہ پاسکے گی، کیوں کہ تمہارا پشت پناہ میں ہوں۔
اسی دوران حضرت جبرئیل علیہ السلام ابلیس کی طرف متوجہ ہوئے، جب اس نے جبرئیل علیہ السلام کو دیکھاتوپیٹھ پھیرکر بھاگااوراس کے ساتھ شیاطین کا گروہ بھی بھاگ گیا، کفارنے ابلیس کو (جو آدمی کی صورت میں تھا)آوازدی کہ تم تو ہماری مددکرنے کو کہہ رہے تھے، کیوں بھاگتے ہو؟ابلیس نے کہاکہ میں وہ چیزدیکھتاہوں جو تم نہیں دیکھتے۔(بیہقی)
حضرت امام غزالی رحمة اللہ تعالیٰ عذاب قبر کے بیان میں فرماتے ہیں کہ”تم کو تصدیق کرناچاہیے کہ قبر میں سانپ کاٹتے ہیں، لیکن ہم تم اس کا مشاہدہ نہیں کرسکتے، کیوں کہ ہماری آنکھیں ملکوتی امور کے مشاہدے کی قوت نہیں رکھتیں، جو چیزآخرت سے تعلق رکھتی ہے وہ عالم ملکوت سے ہے، تم سوچو کہ صحابہ کرام نزول جبرئیل پر کس طرح ایمان لاتے تھے، حالانکہ انہوں نے مشاہدہ نہیں کیاتھا۔ بس وہ ایمان محض اس دلیل سے لایا کرتے تھے کہ اگرچہ ہم جبرئیل کونہیں دیکھتے، لیکن حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کامشاہدہ کرتے ہیں، اگر تم اس بات پر ایمان رکھتے ہوکہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کا مشاہدہ کرتے تھے، جن کا ہم نہیں کرسکتے ، تو اس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کہ قبر میں عذاب اورسوال وجواب بر حق ہے، نیز جبرئیل  کو بغیر دیکھے ہوئے اور بغیر آواز سنے ہوئے اگر وحی کے نزول پر صحابہ کے ایمان کی طرح تم بھی ایمان لاتے ہوتوقبر کے حالات پر ایمان لانا اس سے آسان تر ہے۔“(احیاء العلوم)
حضرت امام غزالی نے ایک دوسری مثال سے بھی عذاب ِ قبر کوثابت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ” ایک شخص خواب کی حالت میں ہوتاہے اور خواب میں سانپ دیکھتاہے اور اس سے ایذا پاتاہے اور خواب میں ہی چیختاچلاتاہے، کبھی کبھی اس کی پیشانی عرق آلود ہوجاتی ہے اور کبھی اپنی جگہ سے حرکت بھی کرتاہے، سونے والا جوکچھ ایذا پاتاہے اپنی جان پر پاتاہے،اور خواب میں اس کا مشاہدہ بھی کرتاہے،حالاں کہ ہم اگر اس عالم میں سونے والے کو دیکھیں توبالکل ساکن نظر آئے گا، نہ اس کے پاس کوئی سانپ نظر آئے گا،اور نہ کوئی دوسری چیز نظر آئے گی، خواب میں وہ جو تکلیف محسوس کرتاہے جاگنے والے کو اگر نظرنہ آئے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ قبر میں مردے پرجو کچھ گزرتی ہے اس کے ادراک سے زندوں کی نگاہیں عاجز ہیں،وہ ایک دوسرے عالم میں ہوتاہے، اس عالم کے حالات کو زندوں کی نگاہوں سے مخفی رکھاگیاہے اور اس مخفی رکھنے میں اللہ تعالی کی بڑی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔“(احیاء العلوم)
حضرت امام غزالی نے ایک تیسرا طرزبھی اختیارکیا ہے اور یہ بھی عذاب قبر کو ثابت کرتاہے، آپ  فر ماتے ہیں کہ”سانپ بذات خود ایذا نہیں دیتا، بلکہ وہ زہرایذادیتاہے جو سانپ سے تم کو پہنچتاہے اور پھر بذات خود زہر موذی نہیں ہے، بلکہ موذی وہ اَلم و تکلیف ہے جو زہر سے تم کو پہنچتی ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اصل ایذا تو وہ ہے جو کہ سانپ کے کاٹنے سے پہنچتی ہے، اگر یہی اثر بغیر سانپ کے کاٹنے کے اور بغیر زہرکے حاصل ہوجائے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ،لیکن اگر اس اثرکو بیان کیا جائے تو اسی وقت انسانوں کی سمجھ میں آسکے گا، جب کہ اس کو کسی سبب کی طرف منسوب کرکے بیان کیاجائے۔ مثلاً یہ کہاجائے کہ فلاں کو اتنی تکلیف پہنچی، جیسے اس کو سانپ، بچھونے کاٹ کھایاہو، لیکن اصل تکلیف تو وہ ہے جس کو نہ ہماری آنکھ دیکھ سکتی ہے اور نہ ہم اس کا ادراک کرسکتے ہیں؛اسی طرح عذاب قبر کاحال ہے کہ ہم اس کے ادراک سے عاجزو بے بس ہیں۔“(احیاء العلوم)
حضرت حافظ ابن قیم نے کتاب الروح میں عذاب قبر کو ثابت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ”اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں وہ مناظر پیدا کردیے ہیں کہ عذاب قبر سے بھی زیادہ عجیب وغریب ہیں۔ مثلاً حضرت جبرئیل  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتے ،کبھی آپ ان کو نہ دیکھتے نہ سنتے اور کبھی انسان کی شکل میں آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کلام کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھنے والے بھی سن لیتے اور کبھی ایسابھی ہوتاکہ قریب والے ان کی آواز نہ سنتے، نہ ان کو دیکھتے، کبھی کبھی جرس کی آواز کی طرح وحی آتی ،لیکن اس کی آواز آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا حاضرین میں سے کوئی نہ سنتا۔ یہ جِنْ حضرات ہمارے درمیان زورزور سے بات چیت کرتے ہیں،لیکن ہم ان کی باتوں کو نہیں سنتے۔ بعض موقعوں پر فرشتے کفارکوکوڑوں سے مارتے تھے، ان کی گردنیں مارتے تھے اور ان کو ڈانٹتے تھے، لیکن صحابہ وہاں موجودرہتے ہوئے بھی نہ فرشتوں کو دیکھتے تھے اور نہ ان کی باتیں سنتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بہت سے حوادث کو بنی آدم سے چھپاکر رکھا ہے۔ ذراغورکیجیے، جبرئیل  آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن شریف کا دور کرتے، لیکن حاضرین مجلس نہیں سنتے، جو شخص اللہ تعالی کی عظمت اور اس کی قدرت کا قائل ہوگا، وہ اس بات کابھی قائل ہوگاکہ وہ ایسے حوادث پیداکرسکتاہے اور کرتاہے جس سے مخلوق کی نگاہوں کو بازرکھے، اس میں بھی اس کی کوئی حکمت ہے اور انسانوں کے لیے سراسر رحمت ہے، کیوں کہ بندوں کی سماعت وبصارت اتنی کمزورہے کہ ان حوادث کا ادراک کرکے بھی صحیح سالم نہیں رہ سکتی۔
قبر کے احوال کو بعض لوگوں پر ظاہر کرکے اس کی تصدیق آسان فرمادی ہے ، چناں چہ جن لوگوں نے قبر کے احوال کو سنا، ان میں سے بہت سے بیہوش ہوگئے، ان پر غشی طاری ہوگئی اور تھوڑی دیر زندہ رہ کرزندگی سے متمتع نہ ہوسکے۔ بعض کاپردہٴ قلب پھٹ گیا اورمرگئے، اللہ تعالیٰ نے یہ پردہ بڑی حکمت سے رکھاہے اور یہ بندوں پر بڑارحم وکرم ہے۔ قبر کی وسعت و تنگی کے بارے میں بھی جو لوگ شک رکھتے ہیں، وہ محض جہالت کی وجہ سے ہے، جب ہم خود اس پر قادرہیں کہ ایک قبر اندراندر دس بیس گزچوڑی کردیں اوراوپرسے لوگ اس کو نہ دیکھ سکیں تو پھررب العالمین اور قادر مطلق اس سے عاجزکس طرح ہوسکتا ہے؟ وہ ذات اقدس جس پر چاہے اور جس قدرچاہے قبر کشادہ یا تنگ کردے اور لوگوں کی نگاہوں سے اس وسعت وتنگی کو مستورومخفی رکھے۔
الغرض قبر کی فراخی وتنگی اور روشنی و شادابی اور آگ وغیرہ کا عالَم دنیا کے معروف عالَم سے الگ ہے،اس لیے اس پر قیاس نہ کرناچاہیے۔قبر میں سبزہ، پھول یاآگ وغیرہ ایسے نہیں ہیں جودنیا میں ہیں،اس لیے زندوں کو اس کا احساس نہیں ہوسکتا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے کہ قبر کی مٹی کو یاپتھروں کو اس قدر گرم کردے کہ دنیا کی آگ سے زیادہ اور دنیاکے انگاروں سے زیادہ گرم ہوجائے یامٹی کو اس قدرخوشگوارکردے کہ چمن کی راحت حاصل ہوجائے۔
یہ تو قبر کی بات ہے ، ہم تو اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ اگر میت لوگوں کے سامنے رکھی ہوئی ہو تو اللہ تعالیٰ کی قدرت میں یہ بھی ہے کہ دو فرشتوں کوبھیج کر اس سے سوال کرے اور میت ان کو جواب دے اور ان کے سوال و جواب کو حاضرین نہ سن سکیں۔ فرشتے اس کوماریں اور حاضرین کو اس کا پتہ نہ ہوسکے، جس طرح ایک سونے والا اگر خواب میں اذیت پاتاہے تو ہم اس کے پاس ہوتے ہوئے بھی بے خبر رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے یہ بھی بعید نہیں ہے کہ قبر کی مٹی اور پتھروں کو شق کرکے فرشتے داخل ہوجائیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پتھرکو فرشتوں کے لیے ایسا ہی لطیف کردیاہے جیسے ہوا کو پرندوں کے لیے سہل کردیاہے۔پتھرمادی جسم والوں کے لیے روک بن سکتے ہیں،لیکن ارواح لطیفہ کے لیے روک نہیں بن سکتے۔
الغرض اللہ تعالیٰ نے ان احوال کو پوشیدہ رکھاہے، اپنے بعض بندوں پر ظاہرفرمادیتاہے، لیکن تمام لوگوں پر ظاہر کرنا حکمت کے موافق نہیں ہے۔ ایمان بالغیب بھی تو ضروری ہے اور یہ اسی طرح حاصل ہوگاجب کہ ان چیزوں کو پوشیدہ رکھاجائے۔مزید یہ بھی مصلحت ہے کہ اگریہ امور ظاہر ہو جائیں تو لوگ دفن کرناچھوڑدیں، جیسا کہ حدیث شریف میں گذرچکاہے کہ:
”اگریہ اندیشہ نہ ہوتاکہ تم لوگ اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑدوگے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعاکرتاکہ عذاب قبر کو جس طرح میں سنتاہوں، اسی طرح تم کو بھی سنادے“۔
اور چوں کہ بہائم کے بارے میں یہ حکمت نہ تھی، اس لیے ان کو سنادیاگیا، جیسا کہ یہ واقعہ ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچرپر سوارہوکر ایک قبر کے پاس سے گذرے تو، چوں کہ مردے کو عذاب دیا جارہاتھا، اس لیے وہ اس قدر بھڑکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی پشت سے گرتے گرتے بچے۔“(موت اور قبر کے حیران کن واقعات اور جدید تحقیقات:333-328)
(جاری)

Flag Counter