Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1430ھ

ہ رسالہ

12 - 18
***
عربی زبان
دلشاد احمد، متخصص فی الادب العربی
اطراف عالم میں مختلف زبان وبیان کے علاوہ متضاد نظریات، مختلف افکار، متنوع اطوار کے قسماقسم کے لوگ آباد ہیں، جن میں اس ظاہری خدوخال، ملک وقوم، انداز واسلوب، خیالات وتفکرات میں اختلاف وانتشار، قرآنی ہدایت کے مطابق محض شناسائی، باہمی معرفت جان پہچان میں بہترین ممدومعاون ہے۔
عربی زبان بھی ایک جامع ترین زبان ہے، جس کا ایک ایک لفظ اپنے اندر معانی کا ایک خزانہ سموئے ہوئے ہے او رجوں جوں عرب ممالک میں قدرتی پٹرول اور تیل کے بیش بہا ذخائز دریافت ہوتے گئے تو ں توں عجمی ممالک کا عرب ممالک سے بین الاقوامی رشتہٴ تجارت استوار ہو تا گیا اور اب یہ زبان ایک انٹرنیشنل زبان بن چکی ہے۔
اس لیے اب اس کی افادیت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور عالمی روابط کے لیے بھی اس کی حاجت پہلے سے کئی گنا زیادہ ہوتی جارہی ہے، اب بہت سے حساس اہم علمی ادارے اس کی ترویج واشاعت پر خصوصی توجہ دینے لگے ہیں ، تاکہ اس کمی ، بحران ، علمی فقدان، بے توجہی، بے اعتنائی کی وجہ سے اپنے گم گشتہ سرمایے اور قیمتی خزانے کی بازیابی اورمافات کی تلافی وتدارک جلد از جلد ممکن ہو سکے۔
اب اس زبان کی خصوصیات، امتیازات اوراس کی احتیاج وضرورت کسی عاقل اور دانا سے سے مخفی نہیں، لیکن اس کے بنیادی، خصوصی عوامل سے نقاب کشائی بھی بے ثمرنہیں، چناں چہ رسالت مآب سرکار دو عالم ،نبی اقدس، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے چودہ سو برس قبل یوں فرمایا ہے۔
”عربوں سے محبت کرو،کیوں کہ میں عربی ہوں اور قرآن عربی زبان میں ہے او راہل بہشت کی بھی یہی بولی ہے۔“ اور حضرت امیر المؤمنین عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنہ نے بھی معنی خیز کلام ارشاد فرمایا ہے :” عربی زبان سیکھو۔ کیوں کہ یہ تمہارے دین کا حصہ ہے۔“
اس کی اہمیت اس سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ تمام دینی ودنیاوی ، نقلی وعقلی علوم وفنون اسی زبان میں مرتب ومدون ہو کر ایک وافر ذخیرہ جو دنیا کی بڑی لائبریریوں اور کتب خانوں کی صورت میں کئی ممالک میں محفوظ وموجودہے اور ان اہم علوم وفنون کی اصل حقیقت تک پہنچنا اور ان میں دقیقہ رسی اور نکتہ دانی کی حد تک کمال حاصل کرنا او راس کے معنی خیز مطالب سمجھنا عربی ادب میں مہارت اور اس پر عبور حاصل کیے بغیر خیال محال ہے #
ایں خیال است ومحال است و جنوں
چناں چہ اس کے بغیر کوئی مفسر نہیں بن سکتا اور اسے پس پشت ڈال کر کوئی محدث نہیں ہو سکتا ، ا س سے چشم پوشی کرکے کوئی فقیہ نہیں کہلاسکتا ، اس سے لاعلم رہ کر دعوائے اجتہاد تماشا ہے۔ اس سے نظر یں چراکر منطقی صف میں کھڑا ہونا افسانہ ہے، اس سے بے وفائی کرکے عشق علم کی سخن گوئی فریب ہے ، اس سے نا آشنارہ کر بزم علم کی شمع جلانا ظلمت ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ زبان ہے جو علمی خزانوں کی کنجی ہے، جس کے ناپید ہونے کے سبب امت میں جہالت کا دور دورہ ہے ایسے لوگوں کی علمی حلقوں میں بہتات ہے جو بغیر سوچے سمجھے فتویٰ دیتے ہیں، موضوع روایات تقریروں میں پیش کرتے ہیں ، نصوص میں بے تحاشہ بلادلیل غلط تاویلات کرتے ہیں اور بلا تحقق تدریس کرتے ہیں، بالآخر ضلوا فاضلوا کے مصداق ٹھہرتے ہیں۔
﴿ظہر الفساد فی البروا البحر بما کسبت ایدی الناس﴾
عربی زبان سے دور کر دینے والے عوامل
عربیت سے بے بہرہ کرنے والے بہت سے محرک ہیں، جن میں سے چند بنیادی اہمیت کے حامل اور قابل ذکر ہیں۔ وہ یہ کہ انگریزی ہمارے سرکاری محکموں میں رائج ہو چکی ہے، چناں چہ پولیس، فوج خواہ بحری ہو یا بری اور فضائیہ، ریلوے، بجلی اور گیس اور دیگر محکمہٴ جات میں انگریزی مروج ہے، دنیاوی تعلیم گاہوں، اسکول وکالجز اور ہماری تمام یونیورسٹیز میں انگریزی کو فوقیت اور اسی مضمون کو ترجیح دی جاتی ہے او رمغربی تہذیب سے متاثر طبقہ انگریزی زبان کے لیے ایک بڑی رقم خرچ کرتا ہے اور یہ زبان ان میں اس لیے پسندیدہ نہیں کہ یہ تہذیب وتمدن کی زبان ہے بلکہ اس لیے پسندیدہ ہے کہ یہ چند ایٹمی قوتوں کی زبان ہے، جن سے تمام ممالک لرزاں ہیں۔
جب کہ اس کے بالمقابل عربی زبان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے کہ یہ اب صرف چند گنے چنے مدرسوں کی زینت بن کر رہ گئی اور چوں کہ اس کی تعلیم مفت دی جاتی ہے، اس لیے اس کی کوئی قدر وقیمت بھی نہیں۔
عربی زبان کے لیے ممد ومعاون امور
اس میں ممدومعاون بننے والے بہت سے امور ہیں، جن میں سے چند انتہائی قابل التفات ہیں وہ یہ کہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں گفتگو عربی میں کی جائے، خواہ مسجد میں ہوں یا مدرسہ میں، کلاس میں ہوں یا لائبریری میں ، کینٹین میں ہوں یا مطعم میں ، میدان میں ہوں یا تفریح گاہ میں اور یہ کہ عربی میں لکھنے پر خصوصی توجہ دی جائے کہ اسباق ، پیغامات، اجازت نامہ، امتحانی جوابی پرچے سب عربی میں لکھے جائیں اور عربی ادب کی کتب کا مطالعہ کیا جائے ،عرب اور ان کے شعرا کی تاریخ پڑھی جائے، ان کے اشعار اور قصیدے پڑھے جائیں اور یہ کہ صرف نحوی قواعد کا پاس ولحاظ رکھا جائے، ترکیب اور اعراب کے اعتبار سے عبارت پڑھنے اور لکھنے میں خاص صحت کا خیال رکھا جائے اور یہ کہ محاورات اور عرب کے کلام کے مطابق عربی کا استعمال ہو اور انہیں جیسا لہجہ اپنا یا جائے۔
اور درسی وغیر درسی انجمنوں کے سالانہ یا ماہانہ ادبی مقابلوں میں شرکت کی جائے او رمختلف موضوعات پر مقالے لکھیں جائیں او رانسان کو پیش آمدہ حالات پر وقتا فوقتا مکالمے کیے جائیں، مثلاً ڈاکٹر اور مریض پر، یا ڈرائیور اورمسافرپر ، یا استاذ شاگردپر، یا میاں بیوی پر ، یا ماں بیٹی پر ، چھوٹے بڑے پر، دو دوستوں پر، باپ بیٹے پر، مالک ومزدور پر ، بازار او راس کی چیزوں پر، درزی، نائی، سبزی فروش، موچی، چشمے ، گوشت، پھل فروٹ والے پر۔ غرض کھانے ، اٹھنے بیٹھنے، لکھنے پڑھنے، تعلیم وتربیت، علم وعمل، سیر وتفریح، سیاست وتجارت، درس وتدریس، صناعت ،زراعت ،ریل، جہاز، کشتی، بحری بیڑے ہر قسم کے نشیب وفراز، زمان ومکان، موسم، میدان ، چرند پرند، قبائل واقوام، ملک وملت غرض سوئی سے چھوٹی چیز سے لے کر ہاتھی اور اس سے بڑی بڑی چیزوں کے بارے میں، انسان سے متعلق پیدائش سے لے کر موت اور اس کے بعد کے تمام جزئی وکلی حالات سے متعلق موضوع مرتب کیے جائیں (تو واقعی درخت اگر قلم بن جائیں ساتوں سمندر سیاہی بن جائے اور ابنا ئے آدم کاتب بن جائیں تو الله کی تعریف ختم نہیں ہو گی اگرچہ سات سمندر اور بھی لے لیے جائیں)۔
الله تعالیٰ عربی زبان سے محبت کی بناپر جنت نصیب فرمائیں۔ والمرء مع من احب۔

Flag Counter