Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۳۰ھ - جولائی ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

8 - 11
چند اہم اسلامی آداب !
چند اہم اسلامی آداب
(۶)

ز:۔حضرت میمون بن أبی شبیب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر ایک سائل آیا، آپ نے اسے روٹی کا ٹکڑادیا(اور وہ چلا گیا)پھر ایک اور سفید پوش سائل آ یا تو آپ نے اسے بٹھا کر کھانا کھلایا ، جب آپ سے دونوں میں امتیاز کرنے کے بارے میں پوچھا گیا توآپ نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”انزلوا الناس منازلہم ․“
ترجمہ :۔”لوگو ں کے ساتھ ان کی حیثیت کے مطابق معاملہ کرو۔“
ج:۔حضرت ابوسعید سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چھوٹا بچہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث یاد کرتا تھا ،لیکن ادب کی وجہ سے مجلس میں بات نہیں کرتا تھا، کیونکہ وہاں ایسے حضرات موجود تھے جو مجھ سے بڑی عمر والے تھے۔
لہٰذا سنت یہ ہے کہ مجلس میں جو عمرکے اعتبار سے بڑا ہو، یا افضل ہو، یابڑا عالم ہو ،یعنی مجلس میں ایسا شخص موجود ہو جو دوسرں میں کوئی امتیازی وصف رکھتا ہو، چاہے عمر میں بڑا ہو یاعلم کے اعتبار سے یا وجاھت یا اہل بیت کے شرف کے اعتبار سے یا عہدہ ومنصب کے اعتبار سے یا جہاد فی سبیل اللہ کے اعتبار سے یا جود وسخاء کے اعتبار سے یا ان جیسی دوسری صفات کے اعتبار سے ہو تواکرام کی ابتداء اس سے کی جائے ۔
خلاصہ یہ کہ مہمانی اور اکرام میں سنت یہ ہے کہ کسی امتیازی وصف والے آدمی سے شروع کیا جائے ،پھرجو اس کے دائیں جانب ہو، تاکہ دونوں نصوص میں تطبیق ہو جائے ،یعنی جن نصوص میں دائیں طرف سے شروع کرنے کاحکم ہے ، یا جن نصوص میں (کبّر کبّر) اور (لیس منّا من لم یوقر کبیر نا)اور (ابدؤا بالا کابر)وارد ہوا ہے۔
بعض لوگ نصوص کے سمجھنے میں غلطی کی بنا ء پر نصوص کو صحیح محل پر حمل کرنے میں کوتاہی کا شکار ہوئے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ : سنت یہ ہے کہ جو شخص میزبان کے دائیں جانب ہو، چاہے کوئی بھی ہو، اس سے شروع کیا جائے ۔اور ان احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں دائیں طرف سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،حالانکہ یہ حکم اس وقت ہے جب مجلس میں موجود سب افراد عمر کے اعتبارسے یا دوسری صفات کے اعتبار سے برابر ہوں تو اس صورت میں جو بھی دائیں جانب ہو ،اس سے شروع کیا جائے ۔
لیکن اگر وہ سب باقی تمام صفات میں برابر ہوں لیکن ان میں ایک کسی اور جہت سے ممتاز ہو، مثلاً عمر میں سب سے بڑا ہو تو اس سے ابتداء کی جائے گی، کیونکہ اس وصف کی وجہ سے اسے دوسروں پر فوقیت حاصل ہوگی،لہذا اس وصف کو ترجیح دیتے ہوئے اس شخص سے ابتداء کی جائے گی ۔
امام ابن رشد رحمہ تعالی اپنی عظیم کتاب ”البیان والتحصیل“ میں فرماتے ہیں کہ:
اہل مجلس کے حالات اگر ایک جیسے یاقریب قریب ہوں تو ابتداء دائیں طرف سے کی جائے گی ۔ مکارم اخلاق میں یہی پسند یدہ طریقہ ہے ۔کیونکہ اس میں کسی کو کسی پر ترجیح کا اظہار نہیں ہوتا
لیکن اگر مجلس میں کوئی عالم ہو ،سن رسیدہ یا صاحب فضل ہو تو سنت طریقہ یہ ہے کہ اس بڑے سے ابتداء کی جائے،چاہے وہ جہاں بھی بیٹھاہو ۔پھر اس کی دائیں سے شروع کیا جائے ۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پیش کیا گیا جس میں پانی ملایا گیا تھا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمانے کے بعد اپنے دائیں بیٹھے ہو ئے اعرابی کو دیا۔جبکہ آپ کے بائیں جانب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشادبھی فرمایا :․․․الایمن فالایمن ․تو بائیں جانب والے کو پہلے نہیں دیا جائے گا ،چاہے وہ دائیں جانب والے کے مقابلہ میں اپنے علم وفضل اور بڑی عمر کی وجہ سے ابتداء کا زیادہ مستحق ہو ،الا یہ کہ دائیں والے سے اجازت لے کر بائیں والے کو پہلے دیا جائے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ،کہ ایک دفعہ آپ کو پینے کی کوئی چیز پیش کی گئی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا ، آپ کے دائیں جانب ایک بچہ اور بائیں جانب بڑی عمر کے حضرات تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے سے فرمایا :کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اسے ان حضرات کو دے دوں؟ تو لڑکے نے کہا : بخدا ہرگز نہیں یا رسول اللہ ! میں آپ کی طرف سے پہنچنے والے حصہ پر کسی کو تر جیح نہیں دیتا ، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروب اس لڑکے کے ہا تھ میں دے دیا ، جس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ یہ اس کا حق ہے ۔(امام ابن رشد کی بات ختم ہوئی)
لہٰذا یہ بات واضح ہو گئی کہ جب مجلس میں کوئی ممتاز شخصیت نہ ہو تو مطلق دائیں طرف سے شروع کرنا ہی شرعی طریقہ ہے ،جیسا کہ ابھی ابھی ذکر ہوا۔ لیکن اگر مجلس میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جس میں کوئی ایسا وصف پایا جاتا ہے جسے شارع علیہ السلام نے باعث شرف قرار دیا ہے تو بلا شک ابتداء اسی صاحب فضل سے کی جائے گی ۔
اور قائل کے اس زعم کے مطابق کہ میزبان شروع کرے جو بھی اس کے دائیں جانب بیٹھا ہو،وہ چاہے بچہ ہو، چھوٹا لڑکا ہو ، صدر مجلس کا نو کر ہو ،یا اس کا ڈرائیور ہو ، جب کہ بعض اوقات ڈرائیور غیر مسلم بھی ہو تے ہیں ۔یا قبیلہ کے سردار کاڈرائیور ہو ، جب کہ مجلس کا سرتاج کبھی بڑا عالم ،گورنر ، دادا،یا والد کاصاحب فضل چچا ہو تاہے ، تو بتائیے کہ کیا اسلام کے احکام اور آداب اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ان بزرگانِ قوم کو چھوڑ کر اکرام اورضیا فت کی ابتداء بچوں،خادموں اورڈرائیوروں سے کی جائے ، پھران کے بعد جوان سے اعلیٰ ہوں یا ان جیسے ہوں ان سے کی جائے؟!حالانکہ کبھی سرتاج مجلس سے پہلے دسیوں چھوٹے لوگ ہو تے ہیں ۔ تواس صورت میں میزبان کبھی دس اور کبھی بیس چھوٹوں کے بعد صدر مجلس تک پہنچے گا۔
اس لئے فقہ اسلام اور آداب اسلام اس سے منزہ ہیں کہ وہ اس بے ترتیبی اور فطری ادب کے خلاف کرنے کی اجازت دیں۔
ہاں اگر اہل مجلس میں کوئی چھوٹا یا ایک عام آدمی خود پانی مانگتا ہے تو وہ مانگنے کی وجہ سے اس بات کا حق دار ہو جاتا ہے کہ اس کی فرمائش پوری کی جائے اور اس سے ابتداء کی جائے ،اور اس کے بعد اس کے دائیں جانب والے کو دیا جائے، چاہے وہ سب سے زیا دہ کم سن یا کم مرتبہ والا ہو ،اور جب اس چھوٹے کو پانی وغیرہ پیش کیاجائے اور وہ دیکھے کہ اس سے کوئی بڑا اس پانی وغیرہ کی طرف دیکھ رہا ہے اور وہ ایثار کرتے ہوئے اس بڑے سے ابتداء کرتا ہے اوراسلامی ادب کی رعایت کرتا ہے تو اس نے ایک بڑی فضیلت حاصل کر لی ،جس سے اس کی چہک مہک بڑھے گی ،اور اس کی قدر ومنزلت اور ثواب میں اضافہ ہو گا،
ادب :۱۹
اپنے والد محترم اور والدہ محترمہ کا پورا پورا ادب واحترام ملحوظ رکھیں ،کیونکہ وہ دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں آپ کے ادب کے زیا دہ حقدار ہیں۔
ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :یارسول اللہ ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیا دہ کون حقدار ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”امّک ،ثم امّک ،ثم امّک ،ثم ابوک ،ثم ادناک ادناک۔“ (بخاری)
یعنی تیری ماں ،تیری ماں ،تیری ماں ،پھر تیرا باپ ،پھر درجہ بدرجہ۔
حضرت ہشام بن عروہ نے اپنے والد عروہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا، وہ ایک شخص کے آگے آگے چل رہا ہے ،یعنی آپ نے اس آگے چلنے والے سے پو چھا :یہ تمہارے کیا لگتے ہیں ؟اس نے کہا : یہ میرے والد ہیں،اس پر آپ نے فرمایا:اس کے آگے مت چلو ،اور جب تک وہ نہ بیٹھ جائے تم مت بیٹھو، اور اس کا نام لے کر مت پکا رو ،
(بخاری فی الادب المفرد)و(مصنف عبد الرزاق)
ابن وھب نے امام مالک بن انس رحمہ اللہ کے شاگرد امام عبدالرحمن بن القاسم عتقی مصری رحمہ اللہ․․․ جن کی پیدائش ۱۳۲ھ میں اور وفات ۱۹۱ھ میں ہوئی ہے․․․کے بارے میں حکایت نقل کی ہے کہ ان کے سامنے موطا امام مالک پڑھی جارہی تھی کہ فوراً کھڑے ہوگئے اور دیر تک کھڑے رہے ، پھر بیٹھ گئے ۔جب ان سے اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمانے لگے : میری والدہ مکان کے اوپر سے نیچے اتری تھی اورکچھ مانگ رہی تھی اور وہ کھڑی رہی تو میں اس کے قیام کی وجہ سے کھڑا رہا ، پھر جب وہ اوپرچلی گئی تومیں بیٹھ گیا ۔
جلیل القدر تابعی حضرت طاوٴس بن کیسان فرماتے ہیں کہ :سنت میں سے یہ بھی ہے کہ چار قسم کے لوگوں کااحترام کیا جائے :عالم کا،بڑی عمر والے کا ،حاکم کااور والدکا اوریہ گنوارپناہے کہ انسان اپنے والد کو اس کے نام سے پکارے ۔
ادب :۲۰
امام حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ اپنی کتاب (الکافی) فی فقہ السادةالمالکیة میں فرماتے ہیں:والدین کے ساتھ احسان کرنا لازمی فرض ہے اور یہ آسان کام ہے․․․جس کے لئے اللہ آسان کردے․․․اور ان کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ :اولادان کے سامنے تسلیم خم کرے ،گفتگو نرم کرے ،اور ان کی طرف محبت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے ،ان کے ساتھ گفتگو کے وقت اپنی آواز بلند نہ کر ے ،مگر اس صورت میں کہ ان کو سنانا مقصود ہواورجو نعمت اللہ نے انہیں دی ہے اسے ان کے ہاتھوں میں پھیلادے،اورکھانے پینے کی چیزوں میں ان کے بالمقابل اپنے آپ کو ترجیح نہ دے ۔اور جب والد کے ساتھ چلے تو اس کے آگے نہ چلے اور مجلس میں اس سے پہلے گفتگو نہ کرے ،جب کہ وہ جانتا ہو کہ والد اس کا زیادہ حقدار ہے ،اور جتنا ممکن ہو ان کی ناراضگی سے بچے اور ان کو خوش کرنے میں اپنی طاقت خرچ کردے۔
والدین کو خوش رکھنا نیکی اور افضل اعما ل میں سے ہے ،جب وہ اسے پکاریں تو فورا جواب دے ،چاہے دونوں پکاریں یا کوئی ایک ۔اگر وہ نفلی نماز میں ہو تو نماز مختصر کرکے اس سے فارغ ہو کر فوراََ ان کاجواب دے ۔اسی طرح والدین پر بھی یہ حق ہے کہ اولاد سے نرمی کا برتاؤ کریں، اپنے ساتھ نیکی کرنے پر اس کی مدد کریں ،اور اس کے ساتھ نہایت رفق اور شفقت کامعاملہ کریں ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی انسان اطاعت اور فرائض بجالاتاہے ۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رجب المرجب۱۴۳۰ھ - جولائی ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: کڑوا سچ جناب حامد میر کی خدمت میں !
Flag Counter