Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۳۰ھ - جولائی ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

4 - 11
گھر کے سربراہ پر گھر کی حفاظت لازم ہے !
گھر کے سربراہ پر گھر کی حفاظت لازم ہے!

”قال النبی ا وانما الامام جنة یقاتل من ورائہ ویتقی بہ،،۔ (بخاری)
یعنی آنحضرت ا نے فرمایا: سربراہ مملکت مسلمانوں کے لئے ڈھال کی مانند ہوتا ہے جس کی پشت پناہی سے دشمنوں سے جنگ لڑی جاتی ہے اور جس کے ذریعے دشمنوں کی آفات سے حفاظت حاصل کی جاتی ہے۔
آج سے تین، چار سال پہلے مجھے پاکستان سے باہر سفر پر جانے کا اتفاق ہوا۔ افریقی ملک زامبیا کے شہر لوساکا سے ہم اپنے چند احباب کے ساتھ سیر وتفریح کی غرض سے پڑوسی ملک زمبابوے چلے گئے، ہم نے افریقہ کے جنگلات اور صحراؤں کی خوب سیر کی اور ہرقسم کے جنگلی حیوانات کے دیکھنے سے لطف اندوز ہوئے ،لیکن اس طویل سفر میں ہم نے شیروں کی ایک خاص قسم کو نہیں دیکھا تھا،جس کو ”چیتا،، کہتے ہیں، چنانچہ ہم زمبابوے میں حیوانات کے ایک بڑے فارم میں چلے گئے، وہاں ایک بہت بڑا احاطہ تھا ،جس کے ارد گرد لوہے کا بہت بڑا جنگلہ لگا ہوا تھا، اس میں ”چیتا،، بیٹھا ہوا تھا ،ہم خوش ہوگئے اور جنگل کے اس بادشاہ کا نظارہ کرنے لگے۔ ظہر کی نماز کے بعد کا وقت تھا چیتے کے کھانا آنے میں دیر ہوچکی تھی، چیتا غضب میں تھا کہ اتنے میں اس کا کھانا آگیا ،کسی جانور کی پوری ران خادموں نے چیتے کے سامنے رکھ دی اور چیتا بڑے سلیقہ سے اس کو پنجوں میں دباکر کھانے لگا، ہم اس کا تماشہ دیکھ رہے تھے کہ اچانک چیتے نے سراٹھایا اور ادھر ادھر پریشان نگاہوں سے دیکھنے لگا، اس نے گوشت کو ویسے ہی چھوڑدیا اور اپنے باڑے میں ایک طرف چلا گیا اور کافی فاصلہ پر جاکر اس نے لمبی لمبی گھا س میں کسی چیز کو پالیا اور زمین پر بیٹھ کر اس چیز کی نگرانی شروع کردی، چیتا سر اٹھاکر نہایت خوف سے اس چیز کو دیکھتا تھا اور پاؤں کو آہستہ آہستہ آگے بڑھاتاتھا ،ہم حیران تھے کہ قصہ کیا ہے ، کافی دیر کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ چیتے کے اس باڑے میں باہر سے سانپ گھس آیا ہے، اب تو ہمیں مزید دلچسپی ہونے لگی کہ اب کیا ہوگا اور اس محاذ آرائی کا کیا نتیجہ نکلے گا، اب نہ سانپ ادھر ادھر جانے کی ہمت رکھتا ہے اور نہ چیتا اس پر چھپٹنے کی جرأت کرتا ہے ۔ لیکن انتہائی حساس انداز سے چیتا سانپ کے پاس کبھی زمین پر بیٹھ جاتا ہے اور کبھی حملہ کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے، وہاں دیکھنے والوں میں ایک بوڑھا انگریز اور اس کی بوڑھی بیوی بھی تھی ،اس بوڑھی عورت نے کہا کہ اگر یہ سانپ اس چیتے کو ڈنگ مار دے تو چیتا مرجائے گا۔ اس سے فارم کا عملہ پریشان ہوگیا اور انہوں نے اپنے بڑے افسروں سے رابطہ کیا، کچھ دیر بعد ایک ڈاٹسن گاڑی آئی، اس میں لوھے کا ایک لمبا سلاخ تھا ،جس کے اوپر والے حصہ میں شیشہ نما چوڑا لوہا لگا ہوا تھا، مزدوروں نے بہت مشکل سے چیتے کو ذرا پیچھے کردیا اور پھر اس سلاخ کے ذریعہ سانپ پر حملہ کرکے اسے زخمی کردیا اور پھر اسی سلاخ پر اس کو اٹھا کر باہر گاڑی میں ڈال دیا اور گاڑی نامعلوم مقام کی طرف چل پڑی، سانپ اور چیتے کا یہ مقابلہ تقریباً ایک گھنٹے سے جاری تھا ،جب سانپ کا خطرہ ختم ہوا، تب چیتا اپنے وقار کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنے کھانے پر آکر بیٹھ گیا اور اطمینان سے گوشت کھانے لگا۔
اس قصہ اور اس منظر نامے سے ہمیں جو عبرت حاصل ہوئی میرے خیال میں ہر عقلمند کو وہ عبرت حاصل ہونی چاہئے اور وہ یہ کہ چیتے نے جونہی اپنے گھر میں باہر سے کوئی خطرہ محسوس کیا اس کے بعد اس نے کھانے کو منہ تک نہ لگایا ، بلکہ کھانا چھوڑ کر چلاگیا اور اپنے گھر کے خطرے کا دفاع کیا اور جب تک خطرہ تھا چیتا کسی اور چیز کی طرف متوجہ نہ ہوا۔سوچنا یہ ہے کہ اگر ایک جانور میں اپنے گھر اور ماحول کی حفاظت کا اتنا خیال ہے تو ہم مسلمانوں کو اپنے ایمان ،اپنے اسلام ،اپنی جان اور اپنے وطن کی حفاظت کا خیال کیوں نہیں؟اور پاکستان جو ہمارا گھر ہے، ہمارے سربراہوں کو اپنے اس گھر کی حفاظت کی فکر کیوں نہیں؟ چاروں طرف سے ملک بیرونی دشمنوں کے چنگل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے اور ہمارے ارباب حل وعقد فحاشی پر فحاشی کی محفلیں سجا رہے ہیں، وطن کی بچیاں فریاد کررہی ہیں اور ہم اپنے رقص وسرود اور اپنے فسق وفجور میں لگے ہوئے ہیں اور ایک الٹا سیدھا بیان اخبارات میں داغ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس ہماری ذمہ داری پوری ہوگئی۔
توڑدی تلوار اور ہاتھ میں لئے بلے ہم نے
بیٹیاں لٹتی رہیں اور ہم دعا کرتے رہے
امریکہ کو دیکھ لیجئے وہ ہم سے ہزاروں میل دور ہے اور سات سمندرپار ایسے خطے میں واقع ہے جہاں کسی مسلمان ملک کی سرحد بھی اس سے نہیں ملتی ہے مگر اس کے باوجود وہ جب ہزاروں میل دور کہیں پر اپنے ملک کے لئے خطرہ محسوس کرتا ہے تو وہ فوراً وہاں کارروائی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ ہمارے لئے خطرہ ہے، اس کو ختم کرنا ہمارا حق ہے، چنانچہ جھوٹا بہانہ بناکر اس نے افغانستان پر حملہ کردیا پھر اور زیادہ جھوٹ بول کر اس نے عراق پر حملہ کردیا پھر خطرہ کی آڑ میں اس نے صومال پر حملہ کردیا پھر سوڈان کو دھمکیاں دے کر قابو کرلیا ، لیبیا پر اس نے حملہ کردیا اور اس وقت وہ پاکستان پر حملہ آور ہوچکا ہے اور چیخ چیخ کر جھوٹ بول رہا ہے کہ سوات کے طالبان امریکہ کے لئے خطرہ ہیں، بونیر اور دیر کے طالبان دنیا کے لئے خطرہ ہیں، وزیرستان امریکہ کے لئے خطرہ ہیں ، امریکہ خطرہ کی گھنٹی بجاکر اپنے تمام لاؤ لشکر کے ساتھ منظم انداز سے مسلمانوں پر حملہ کرکے طاقت استعمال کر رہا ہے اور علاقوں پر قبضہ جما رہا ہے ، لیکن ہمارے حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، بلکہ ان کے حملوں کی ذمہ داری خود قبول کررہے ہیں کہ یہ حملہ ہم نے کیا ہے ،اپنے مسلمانوں کو ہم نے مارا ہے اور آگے بھی مارے جائیں گے۔ عقل کا تقاضہ تو یہ ہے کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں جاکر آواز بلند کرے کہ ہمیں ان ظالموں کے ظلم سے بچاؤ، اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ عوامی غیض وغضب پاکستانی افواج کے بجائے امریکہ اور اتحادی افواج کی طرف جائے گا۔ حکومت پاکستان اگر ڈٹ کر اپنی پالیسی تبدیل کردے تو انشاء اللہ یہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے بھی بچ جائے گا اور امریکی اتحادی افواج کی چال اور اس کے بچھائے ہوئے جال سے بھی بچ جائے گا ۔ ادھر ہمارے پڑوسی ازلی دشمن بدبخت ہندوستان کو دیکھ لیجئے وہ پاکستان کے کونے کونے پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور ہر وقت چیختا رہتا ہے کہ پاکستان ہمارے لئے خطرہ ہے اور اس کے اندر مجاہدین ہمارے لئے خطرہ ہیں اور سوات کا نظام عدل ہمارے لئے خطرہ ہے اور مجاہدین کے ٹریننگ سینٹر ہمارے لئے خطرہ ہیں، حالانکہ اگر انصاف کی نظروں سے دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کی بقاء کے لئے سب سے بڑا خطرہ امریکہ اور اس کے اتحادی اور ہندوستان اور اسرائیل ہے، کیا ہم یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ امریکہ جو اسلحہ بنارہا ہے اور ہزاروں ایٹم بم تیار کررہا ہے اور افغانستان میں آکر ہمارے سینے پر بیٹھ کر اس ملک کے چپے چپے میں اپنے جوانوں کو اسلحہ کی تربیت دے رہا ہے، کیا یہ پاکستان اور عالم اسلام کے لئے خطرہ نہیں ہے؟ اور بھارت میں جو جگہ جگہ اسلحہ کی تربیت دی جارہی ہے اور وہاں کی انتہاء پسند اسلام دشمن ہندو تنظیمیں جو تربیت حاصل کررہی ہیں کیا وہ پاکستان کے لئے خطرہ نہیں ہیں۔اور اسی طرح بھارت جو ہرطرف سے اسلحہ اکٹھا کررہا ہے اور پاکستان کے لئے گھیرا تنگ کررہا ہے کیا وہ پاکستان کے لئے خطرہ نہیں ہے؟ پاکستان نے کبھی میڈیاکے ذریعے ان خطرات پر انگلی اٹھائی ہے؟ افسوس تو اس پر ہے کہ پاکستان کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ بھارت اور افغانستان کے بارے میں خاموشی کی پالیسی اپنائے اور اس پر عمل کرے، چنانچہ پاکستان ان ممالک کے خلاف خاموش ہے اور ایسے وطن کے وفادار اور دیندار طبقہ علماء اور مدارس کے لئے صبح وشام تیز وتند زبان استعمال کررہا ہے ،ہائے افسوس!
دل کے پھیپھڑے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ
پاکستان کا دشمن تو بن گیا دوست اور اس کے دوست کو دشمن کہا گیا، کیا کمال ہے اس چور کا جو الٹا کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے۔
چہ دلاور است دزدکہ بکف چراغ دارد
ذرا غور کیجئے! اس طرح پاکستان کا اسلحہ اور ایٹم بم تو کافروں کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے لیکن اپنے اسلحے کے ڈھیر ان کو نظر نہیں آتے۔ مسلمان پر یہ اعتراض ہے کہ یہ شدت پسند اور جنگجو ہیں مگر اپنے ظالم جنگجو کو نہیں دیکھتے، اسی بے انصافی کی پیٹ سے جذباتی شدت پسند جنم لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ:
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیب ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ مغرب سے درگزر
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رجب المرجب۱۴۳۰ھ - جولائی ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: ایک خط کا جواب !
Flag Counter