Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۲۹ھ ستمبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

9 - 10
ہماری معاشرتی زندگی کی ایک جھلک
ہماری معاشرتی زندگی کی ایک جھلک


یہ معلوم ہوکر انتہائی صدمہ ہوا کہ کراچی کے ہوٹل میں کوئی کلب قائم ہوا ہے جس کا نام ”جہنمی“ رکھا گیا ہے اور کلب کے ممبروں نے شب کو دعوت دی ہے‘ اس دعوت کا نام ”شیطانی ڈنر“ رکھا گیا‘ یہ افسوسناک خبر روز نامہ ”حریت“ کراچی ۶/ستمبر ۱۹۶۷ء کے پرچہ میں شائع ہوئی‘ انا للہ! یہ تو واقعہ ہے کہ یہ کلب تو واقعی ”جہنمی“ ہے اور اس کے ممبران واقعی ”شیطان“ ہیں اور اس حیثیت سے یہ اسم بامسمی اور ”زبانِ خلق نقارہٴ خدا“ کا مصداق ہے‘ لیکن اس واقعہ میں ہماری معاشرتی زندگی کا ”جلی عنوان“ ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کے قلوب خوفِ خدا سے کس قدر خالی ہوچکے ہیں اور معاصی پر جرأت‘ بے حیائی‘ اور قلبی قساوت کہاں تک پہنچ گئی ہے‘ یہ صحیح ہے کہ معصوم صرف انبیاء کرام علیہم السلام کی ہستیاں ہیں‘ عصمت ان کا خاصہ ہے‘ ان کے سوا کون ہے جو معصومیت کا دعویٰ کرے اور سراپا تقصیر انسان سے کیونکر یہ ممکن ہے کہ ہرمعصیت سے دامن بچائے؟ کوتاہی اور لغزش‘ خطا وتقصیر لوازمِ بشریت سے ہے‘ لیکن انسانیت ہی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ فرماں بردار اور اطاعت شعار انسان گناہوں کو گناہ سمجھے اور اپنی تقصیر کا اعتراف کرے۔ شیخ سعدی علیہ الرحمة کے دو شعر جو در حقیقت تصوف کا نچوڑ ہے‘ اسی حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں:
بندہ ہماں بہ کہ ز تقصیر خویش
عذر بدرگاہ خدا آورد
ورنہ سزا وار خداوندیش
کس نتواند کہ بجا آورد
انسان کا کمال اور اس کی بدنصیبی
انسانِ باکمال کا یہ کمال کافی ہے کہ ہمیشہ اپنے آپ کو قصور وار سمجھے ‘ گناہوں سے استغفار کرے‘ گناہوں پر ندامت اور شرم محسوس کرے‘ گناہ پر اصرار سے بچے‘ اس کے دل میں حق تعالیٰ کا خوف موجود ہو‘ مغفرت کی امید رکھتا ہو اور معاصی کے برے انجام سے بے خوف نہ ہو‘ یہی ایمان کی خاصیت ہے کہ خوف ورجاء (امید وبیم) دونوں ساتھ ساتھ ہوں۔ انسان کی بدنصیبی اس وقت شروع ہوتی ہے جب کہ اسے گناہوں پر اصرار‘ عاقبت کی فکر سے بے نیازی ہو‘ اور اس سے بڑھ کر شقاوت یہ ہوتی ہے کہ گناہوں کو کمال سمجھا جائے‘ ان پر فخر کیا جائے‘ شرم وحیا اور خجالت وندامت کا نام ونشان نہ ہو‘ اس سے بھی آگے بدنصیبی کی آخری منزل یہ ہوتی ہے کہ گناہوں سے استہزاء کرے اور شرعی اسلامی حقائق کے ساتھ تمسخر کرے‘ جب نوبت یہاں تک پہنچتی ہے تو انسانی شقاوت اور اس کی قلبی قساوت کی انتہاء ہوتی ہے ‘ ظاہر ہے کہ جنت‘ جہنم‘ ملائکہ‘ شیاطین وغیرہ وہ کلمات ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء ورسل نے شرائع الٰہیہ وکتبِ سماویہ میں ان کا ذکر فرمایا ہے اور انبیاء علیہم السلام کی زبانی ان کے حقائق بتلادئے گئے ہیں‘ کون مسلمان ہے جو ان حقائق سے بے خبر ہوگا؟اب اگر کوئی مسخرہ افسانوں‘ ڈراموں‘ سینماؤں اور کلبوں میں ان حقائق کو مسخ کرکے ان سے ٹھٹھا کرے تو انتہائی شقاوت بھی ہوگی اور پورے دینِ اسلام کی توہین بھی‘ قرآن کریم کا استخفاف بھی ہوگا اور تعلیماتِ نبویہ کا استہزاء بھی اور جب کسی ”اسلامی مملکت“ میں اس جرمِ شنیع کا ارتکاب کیا جائے اور پھر اس کی خبریں اور تصویریں اخبارات میں چھاپی جائیں تو اس اسلامی مملکت کی بے حرمتی ہوگی اور اگر اس حکومت کا مذہب واقعی دینِ اسلام اور کتاب وسنت ہے تو گویا بیک وقت اسلام اور حکومت دونوں کی توہین ہوگی‘ اس صورت میں سب سے پہلے ایک اسلامی حکومت کافرض ہوگا کہ وہ ان بدلگاموں کو روکے اور سخت سزا دے‘ اور اگر اس پر سکوت کیا جائے تو مجرمانہ غفلت ہو گی‘ جس کے نتیجہ میں تمام معاشرہ خدا کے قہر کی زد میں آکر برباد ہوسکتا ہے‘ الغرض اگر مدعی اسلام قوم اور معاشرہ میں یہ وبا سرایت کرجائے تو حالات انتہائی خطرناک ہوجاتے ہیں اور عذابِ الٰہی کے آنے کا خطرہ قریب تر ہوجاتا ہے۔ افسوس اس کا ہے کہ ملک میں فواحش ومنکرات کے روز افزوں سیلاب نے نوبت یہاں تک پہنچادی ہے‘ اسلامی اخلاق واقدار کو بری طرح ذبح کیا جارہا ہے‘ اندرونی طور پر دلوں سے خوفِ خدا نکل گیا اور خارج میں حکومت کے نظام سے فواحش ومنکرات اور بے حیائیوں پر احتساب کا سلسلہ ختم ہوگیا‘ جس کے نتیجہ میں پورا معاشرہ ذوقِ معصیت سے چور‘ بے تمیزیوں میں غرق اور تباہی وبربادی کے آخری کنارے پر کھڑا ہے۔ جب معاشرے میں یہ خرابیاں اس حد تک پہنچ جاتی ہیں تو چند صالح افراد کا صلاح وتقویٰ قوم کو تباہی وبربادی سے نہیں بچاسکتا۔قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”واتقوا فتنة لاتصیبن الذین ظلموا منکم خاصةً‘ واعلموا ان الله شدید العقاب“۔ (الانفال:۳۵)
ترجمہ:․․․․”اللہ تعالیٰ کے اس عذاب سے بچو جو صرف ظالموں پر نہیں پڑے گا اور یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب سخت ہے“۔
متعدد احادیث میں یہ مضمون ہے کہ آنحضرت ا سے دریافت کیا گیا کہ کیا امت پر صالحین کے ہوتے ہوئے عذاب آسکتا ہے؟ فرمایا: ہاں! اگر برائی اور خباثت کی کثرت ہو‘ البتہ صالحین شہادت کی موت مریں گے۔ اگر بالفرض آخرت کی بھلائی اور جنت کی نعمتوں سے استغناء ہے‘ اگرچہ یہ بھی انتہائی بدنصیبی ہے تو دنیا کی خیر منانے کے لئے بھی اس خدا فراموش ناپاک زندگی سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ افسوس کہ عقلیں مسخ ہوگئیں‘ خیر وشر کی تمیز ہی ختم ہوگئی‘ پاکیزہ زندگی کی برکات سے جہاں آخرت کی نعمتیں ملتی ہیں‘ آخرت سے پہلے دنیا میں بھی راحت وسکونِ قلب نصیب ہوتا ہے اور عذابِ الٰہی سے نجات نصیب ہوتی ہے‘ شہوات کی زندگی میں انہماک کبھی مسلمان قوم کو راس نہیں آیا‘ جب کبھی مسلمان قوم اس قسم کی حیوانی زندگی میں مبتلا ہوئی‘ اس کے دردناک اور عبرت ناک نتائج سامنے آئے‘ تاریخ کے صفحات اس پر شاہد ہیں اور عرب کی حالیہ تباہی اس کی تازہ ترین عبرت ناک مثال ہے۔ ہم اس ملک کے تمام دانشوروں ‘ صحافیوں اور اربابِ اقتدار سے نہایت اخلاص‘ درد اور دلسوزی سے صاف صاف کہنا چاہتے ہیں کہ اگر چند دن اور جینے کی خواہش ہے توعقل ودانش کا تقاضا یہ ہے کہ خدا کی زمین کو مزید ناپاک ہونے سے بچاؤ‘ خدا کے علم اور عفو ودرگذر کو چیلنج نہ کرو‘ یہ وقت عیش وعشرت‘ فسق وفجور اور خرمستیوں کا نہیں‘ عذابِ الٰہی کے بادل سروں پر منڈلارہے ہیں اور ہماری بدعملی اور بدعقلی نے پہلی امتوں کا وہی نقشہ پیدا کردیا ہے جو بالآخر ان کی تباہی وبربادی پر منتج ہوا‘ ارشاد خداوندی ہے:
”واذا اردنا ان نہلک قریة امرنا مترفیہا ففسقوا فیہا فحق علیہا القول فدمرنا ہا تدمیراً“۔ (بنی اسرائیل:۱۶)
ترجمہ:․․․”جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہاں کے اہل ثروت فسق وفجور میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘ پس ہمارا فیصلہ اس پر نافذ ہوتا ہے اور ہم اسے پوری طرح تباہ وبرباد کردیتے ہیں“۔
عالم انسانیت اور پیٹ کا مسئلہ
کسی موسم کی اچانک اور غیر معمولی تبدیلی کمزور طبائع کے لئے ہیجان واضطراب کا باعث بن جاتی ہے‘ بعض کے لئے موت کا پیغام لاتی ہے اور بعض کے لئے مختلف امراض کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے‘ کسی مریض پر اگر بحرانی کیفیت طاری ہوجائے اور اس کی حالت دگرگوں نظر آنے لگے تو اس کے گھروالوں‘ تیمار داروں اور معالجوں کی توجہ ہر طرف سے ہٹ کر مریض پر جم جاتی ہے‘ وہ نہ صرف اپنا سب کاروبار بھول جاتے ہیں‘ بلکہ یہ حادثہ انہیں انسان کی طبعی ضروریات سے بھی غافل کردیتاہے اور اہم سے اہم مشاغل ثانوی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں‘ بالکل یہی حال اس وقت عالم انسانیت کا ہے‘ وہ اپنی تمام خوبیوں کے باوجود پیدائشی طور پر کمزور طبیعت واقع ہوئی ہے ”خلق الانسان ضعیفاً“ مال وجاہ کی محبت اس کا موروثی مرض ہے‘ مادیت کے مختلف موسموں کی تبدیلی کے زیر اثر وہ ہمیشہ نت نئے امراض کا شکار رہا ہے اور ناپختہ عزمی تلون اور سپر اندازی اس کی فطرت بن کر رہ گئی ہے‘ ادھر کچھ مدت سے اسے ”شکمی حادثہ“ بھی پیش آگیا ہے‘ جس کے نتیجہ میں اس پر بحرانی کیفیت طاری ہے اور وہ موت وحیات کی کشمکش میں گرفتار ہے‘ انسانیت کے غمخواروں‘ تیمار داروں اور معالجوں کی تمام تر توجہات کا مرکز اس وقت ”مسئلہ ٴ شکم“ بنا ہوا ہے‘ چنانچہ آج کل تمام عالم میں عموماً اور دولت خداداد پاکستان میں خصوصاً ”معاشی نظام“ کا ایک اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہے‘ گویا دنیا میں دوسرا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا‘ اگر دینی سطح پر دیکھئے تو اسلام کے معاشی نظام تقسیم دولت‘ گردش دولت وغیرہ وغیرہ مسائل پر گرماگرم بحثیں ہیں اور اخبار وجرائد میں مضامین ومقالات کا ایک طومار نظر آتا ہے‘ اگر سیاست کے میدان میں آیئے تو ایک شوربرپا ہے‘ کہیں مساوات کے نعرے ہیں‘ کہیں سوشلزم کی دہائی ہے‘ کہیں اسلام کی پیوند کاری ہے‘ کہیں مزدوروں کا نام استعمال کیا جارہا ہے‘ گویا تمام عالم میں صرف ایک ہی مسئلہ اور وہ ہے پیٹ کا مسئلہ‘ اور دنیا کی ساری تگ ودو کا محور بس ایک پیٹ ہے‘ دوسری طرف سرمایہ داری نازک حالت میں ہے‘ سرمایہ دار سراسیمہ ہیں اور سرمایہ داروں کی حمایت کرنے والے حکمران بدحواس ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح جلد سے جلد پیٹ کا مسئلہ حل ہوجائے تو انہیں سکون واطمینان کا سانس نصیب ہو‘ تیسری طرف جاہلیت کی علمبردار انقلابی پارٹیاں اور اسلامی ممالک میں ریشہ دوانی کرنے والی طاقتیں اس صورت حال سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور حکومتوں کے لئے مشکلات پیدا کررہی ہیں۔ بلاشبہ اس صورت حال کا اصلی سبب تو وہ سنگدلی اور بے رحمی ہے جو فقراء ومساکین کے ساتھ کی گئی ہے اور وہ غلط نظام حکومت ہے جس نے رعایا کے پسماندہ افراد کی خبر گیری کے بجائے انہیں مختلف طریقوں سے استحصال کا نشانہ بنایا ہے اور ان سب سے بڑھ کر وہ بے ہودہ نظام معیشت ہے جس نے بینکاری‘ قمار بازی اور ساہوکاری کے ذریعہ معاشرے کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا‘ ایک طبقہ کو دولت کی فراوانی کا تخمہ (بدہضمی) ہے اور دوسری طرف عام طبقہ زندگی قائم رکھنے کے لئے بنیادی وسائل سے بھی محروم ہے‘ یہ صورت حال یقینا خدا فراموشی کی سزا ہے جو قوموں اور حکومتوں کو مل رہی ہے‘ لیکن بعض لیڈروں کے غلو کی بھی انتہاء ہوگئی ہے کہ انہیں تمام اسلام اور سارے قرآن کریم میں سوائے اس مادی نظام کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتا‘ اس سلسلہ میں قرآن کریم کی آیات کی تحریف وتبدیل سے بھی یہ لوگ نہیں ڈرتے اور بلاخوف تردید نہایت صفائی کے ساتھ قرآنی مفہومات اور حقائق کو مسخ کرکے آج کل کی نام نہاد ”مساوات“ کے دلائل پیش کئے جارہے ہیں‘ کوئی سورہٴ نحل کی آیت : ”والله فضل بعضکم علی بعض فی الرزق‘ فما الذین فضلوا برادی رزقہم علی ما ملکت ایمانہم فہم فیہ سواء“ (النحل:۷۱)سے مساوات کے لئے استدلال کرتا ہے اور کوئی سورہٴ سجدہ کی آیت: فقدر فیہا اقواتہا فی اربعة ایام سواء للسائلین“(حم السجدہ:۱۰) میں تحریف کررہا ہے‘ حالانکہ پہلی آیت تفاضل اور عدم مساوات کے لئے نص صریح ہے اور دوسری آیت کا اس موضوع سے تعلق ہی نہیں کوئی ”نحن قسمنا بینہم معیشتہم“ سے غلط استدلال کرکے مساوات کا نتیجہ نکال رہا ہے اور تعجب ہے کہ بعض مشاہیر اہل قلم بھی ان غلط فہمیوں میں بھٹک رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر حیرت کی بات یہ کہ بعض اہل حق کی جماعت سے وابستہ لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں۔ بلاشبہ معاشی اور مالی نظام عالم کون وفساد کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہے اور حق تعالیٰ نے معاشرے کے اس مادی نظام کی اصلاح کے لئے ایک مستقل رسول حضرت شعیب علیہ الصلاة والسلام جیسی جلیل القدر شخصیت کو مبعوث فرمایاہے‘ جنہوں نے خرید وفروخت اور تجارتی لین دین میں ظالمانہ‘ غیر عادلانہ اور بے رحمانہ نظام معیشت کی اصلاح کے لئے پیغمبرانہ دعوت دی اور شاید تاریخ انسانیت میں یہ سب سے پہلا ظالمانہ معاشرتی نظام تھا کہ آسمانی وحی کے ذریعہ اصلاح کی دعوت دی گئی اور اسے تسلیم نہ کرنے پر بارگاہِ قدس کی عدالت سے اس قوم کی تباہی کا فیصلہ کیا گیا‘ قرآن کریم کی ایک مستقل سورت کا موضوع ہی لین دین میں کمی اور نقصان کرنے والوں کی بدانجامی کا بیان کرنا ہے‘میری مراد سورہٴ تطفیف سے ہے۔ امام حجة الاسلام غزالی نے ”جواہر القرآن“ میں یہ بحث کی ہے کہ قرآن کریم نے تجارت اوربیع وشراء وغیرہ نظام معیشت کو اس لئے ذکر کیا ہے کہ نظام معاش جب تک قابل اطمینان نہ ہو تو فلاح معاد کی طرف توجہ مشکل ہوتی ہے‘ دینی خدمات کی انجام دہی کے لئے ضروری ہے کہ معاش ومعیشت کا نظم ونسق درست ہو‘ حجة الاسلام کے الفاظ یہ یاد پڑتے ہیں:
”ومالم ینتظم امر المعاش لایتم امر المعاد والتبتل الیہ تعالیٰ“۔
اسی وجہ سے قرآنی ہدایات اور پیغامات ِ ربانیہ میں تجارت کو ”فضل“ سے تعبیر کیا گیا ہے‘ اور اسی لئے سود اور سٹے‘ جوئے اور رشوت کو شدید طور پر حرام کردیا گیا ہے اور سخت ترین وعید سنادی گئی ہے اور دنیا وآخرت دونوں میں اس کے برے انجام پر متنبہ کردیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ حقوق العباد کی حفاظت کا یہ بنیادی نکتہ ہے‘ قرآن کریم جیسے آخری پیغام حیات میں اس پر کیونکر توجہ نہ دی جاتی اور مستقبل میں جو مختلف نظام معیشت پیدا ہونے والے تھے ان کی اصلاح کے بارے میں بنیادی ہدایات کو قرآن حکیم کیسے نظر انداز کرسکتا تھا اور ان سے حق تعالیٰ کا آخری پیغام نجات‘ دستور حیات‘ اور نظام ہدایت کیونکر خالی ہوسکتا تھا‘ فقراء ومساکین اور یتامیٰ وایامیٰ کے لئے صدقات وعشر اور خیرات وانفاق کا عظیم الشان نظام نازل فرمایاہے‘ بلکہ زکوٰة وعشر کو مالی فریضہ اور عظیم الشان عبادت قرار دیا ہے‘ اس سے انکار کرنے کو کفر وارتداد کہا گیا ہے‘ ان فرض وواجب صدقات کے علاوہ عام خیرات وانفاق کے لئے ترغیب دلائی ہے‘ ان کے لئے آخرت کے اجر وثواب اور جنت نعیم کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں‘ کیا دنیا کا کوئی بھی نظام معیشت آسمانی ہو یا غیر آسمانی اسلام کے اس حیرت انگیزنظام مواسات کی ہم سری کا دعویٰ کرسکتا ہے؟ کیا دنیا کا کوئی نظام ایسا ہے جس نے غربیوں‘ کسانوں اور مزدوروں کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہونے دیا ہو۔ معاشی علوم ہوں یا معیشت کے نکات‘ اقتصادی نظام ہو یا مال ودولت کمانے کا نظم‘ قرآن کریم کا دامن اس سے متعلق ہدایات سے لبریز ہے‘ یہ حقائق سب صحیح سب درست ہیں‘ کسی کو مجال انکار نہیں‘ لیکن اسلام کو موجودہ معاشی تحریکوں پر منطبق کرنا‘ اس کی سراسر مادی تعبیریں کرنا اور کھینچ تان کرنصوص سے وہی کچھ منوانا جو آج کے معاشیین کہتے ہیں‘ بدترین غلطی اور مقامات نبوت سے بے خبری کی دلیل ہے‘ وحی الٰہی اور نبوت ورسالت کا حقیقی منصب ان حقائق الٰہیہ کو بیان کرنا ہے جن کے ادراک سے انسانی عقول قاصر ہیں‘ جہاں تک نہ عقل افلاطون پہنچی ہے نہ ارسطو کا فلسفہ‘ نہ یونان کے حکماء پہنچے ہیں نہ ورمٰہ کے قانون دان‘ نہ مارکس کو اس کی ہوالگی ہے نہ لینن کو۔
قرآن کریم کیا ہے؟
قرآن کریم تذکیر وموعظت کی کتاب ہے‘ مابعد الطبیعات کے ربانی حقائق‘ حق تعالیٰ کی ذات وصفات اور اس کی قدرتِ جلال وجمال کا مرقع ہے‘ جنت‘ دوزخ ‘ ملائکہ‘ حشر اجساد‘ معاد‘ قیامت کی تفصیلات‘ مابعد الممات کے احوال‘ برزخ کے واقعات‘ عبادات وطاعات کے اصول ومہمات کی عظیم الشان دستاویز ہے‘ حضرت رسالت پناہ ا نے اپنے قول وعمل سے ان رموز واشارات کی شرح اور ان مجمل ہدایات کی تفصیل فرمائی ہے‘ چنانچہ قرآن وحدیث اور کتاب وسنت دونوں لازم وملزوم ہیں‘ دونوں میں تفریق کا امکان نہیں‘ البتہ حدیث جاننے اور پرکھنے کے لئے فن کی اعلیٰ مہارت چاہئے اور یہی حال قرآن کریم کا بھی ہے‘ جتنا اونچا کلام ہوگا اس کے سمجھنے میں اتنی ہی دقت ہوگی‘ ناقصین نے جب بھی دخل دیا‘ الحاد وتحریف دنیا کے سامنے آئی۔ بہرحال قرآن وحدیث کی تعلیم کا نقطہٴ آغاز وہ اساسی وبنیادی عقائد وحقائق ہیں جو ہزاروں سال سرمارنے کے باوجود عقل مجرد کی گرفت میں نہیں آسکتے‘ پھر اس کی جامعیت کا یہ حال ہے کہ تمام احکام الٰہیہ خواہ عبادات ہوں یا معاملات‘ انفرادی مسائل ہوں یا اجتماعی‘ راعی کے مسائل ہوں یا رعیت کے‘ معاشرت کے آداب ہوں یا تجارت کے اصول‘ الغرض زندگی کا کوئی گوشہ اور کوئی موضوع ایسا نہیں جسے کتاب وسنت نے بیان نہ کیا ہو‘ اور اسلام کی ہرنوع کی تعلیمات میں ایسی متانت ورزانت اور اعتدال ومیانہ روی ہے کہ عصر حاضر کی نام نہاد اصلاحی تحریکیں اس کی گرد کو بھی نہیں پاسکتیں‘ قرآن کریم اگرچہ جدید اصطلاح میں دستور یا قانون کی کتاب نہیں‘ جسے عنوانات ودفعات پر مرتب کیا گیا ہو لیکن اس میں انسانیت کے تمام ہمہ گیر مسائل کی طرف اصولی اشارات دیئے گئے ہیں جو آنحضرت ا کی سنت مبارکہ اور سیرت طیبہ میں متشکل ہوکر سامنے ہیں‘ خلافت راشدہ کی تشریحات اور فقہاء امت کی تنقیحات کے بعد وہ ایسا کامل ومکمل دستور ہے کہ دنیا کا کوئی دستور نہ اس کی ہمسری کرسکتا ہے‘ نہ کر سکے گا۔ واضح رہے کہ قرآن کریم کے ارشادات وتعلیم نبوت کے دوحصے ہیں:
ایک حصہ تو ان شرعی احکامات کا ہے جن کا درجہ قانون کا ہے‘ اس میں کوتاہی کرنے پر نہ صرف یہ کہ” اسلامی حکومت“ گرفت کرسکتی ہے‘ بلکہ ایسا شخص شرعی اصطلاح میں عاصی اور گنہ گار بھی ہے جس کے لئے آخرت کی سزا وعقوبت کی دھمکی دی گئی ہے‘ زکوٰة عشر‘ صدقہٴ فطر اور دیگر صدقات واجبہ اسی شعبہ میں داخل ہیں۔
دوسرا حصہ اخلاقی ترغیبات کا ہے‘ ان کا درجہ قانون کا نہیں‘ بلکہ اخلاقی فضیلت کاہے‘ انفاق فی سبیل اللہ کا ایک بڑا حصہ دوسری قسم سے وابستہ ہے۔
آج کل بہت سے نااہل قرآن کریم میں غور کرتے ہوئے ان دونوں حصوں کو باہم ملادیتے ہیں‘ یہی وہ خلط مبحث ہے جو ان کی خامی ونااہلی کی دلیل ہے‘ آج کل معاشی مسائل میں یہ خلط مبحث انتہاء کو پہنچ گیا ہے‘ ان دو حصوں کو الگ سمجھنے کے لئے عہد نبوت کی عملی زندگی آنحضرت ا کی سیرت مقدسہ اور پھر خلافتِ راشدہ کے دور میں ان قوانین ومسائل کی تشکیل سے دونوں کا امتیاز واضح ہو جاتا ہے۔ غزوہ ٴ تبوک میں عسرت وتنگدستی عام تھی‘ دور درازکا سفر تھا‘ ایک منظم طاقت سے مقابلہ تھا اور جزیرة العرب سے باہر جاکر جہاد کرنا تھا‘ ایسے نازک موقع پر بھی حضرت رسول اللہ ا نے کسی مالدار سے جبراً کوئی استحصال نہیں کیا‘ بلکہ صرف ترغیب دی ۔ اعلان کردیا ۔ جنت ومغفرت کے وعدے سنا دیئے: فرمایا:
”من یجہزجیش العسرة اضمن لہ الجنة“ ۔
چونکہ قلوب کی اصلاح ہوچکی تھی‘ اس لئے ہر شخص نے اپنی ہمت واستطاعت کے مطابق جتنا چاہا برضا ورغبت پیش کردیا اور ضرورت پوری ہوگئی‘ یہی طرز ومعاملہ تمام اسلامی ادوار میں رہا‘ بعد کے بعض ادوار میں ایسے واقعات ضرور پیش آئے‘ جبکہ تاتاریوں کا سیلاب آیا تو بعض ممالک میں ان کے مقابلہ کے لئے بیت المال کا خزانہ کافی نہ تھا‘ اس وقت علماء نے فتویٰ دیا کہ جہاں ایسی صورت پیش آئے کہ بیت المال کا خزانہ کافی نہ ہو اور تمام اونچے مناصب والوں کی اعانت بھی کافی نہ ہو تو عوام سے ان کے فاضل اموال لئے جاسکتے ہیں‘ لیکن یہ حق بھی ان اسلامی حکمرانوں کو ہوتا ہے جو اسلامی قوانین ملک میں نافذ کرچکے ہوں اور اسلامی حکومت صحیح معنی میں اسلامی حکومت ہو‘ جس کی سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ معاملات وحقوق میں پورے کا پورا اسلامی قانون نافذ کرے‘ شرعی تعزیرات وحدود کا اجراء کرے اور معاشرے کو کتاب وسنت کا پابند بنائے‘ اسلامی سلطنت کے سربراہ کو یہ حق حاصل ہے کہ ملک کے فقراء ومساکین کی کفالت یا ریاست کی دفاعی ضروریات کے لئے اگر بیت المال کی رقم ناکافی ہو تو اغنیاء سے ترغیبی چندہ اور قرضہٴ حسنہ لے اور اگر اس سے بھی ضرورت پوری نہ ہو اور اربابِ دولت وثروت بخل سے کام لیں اور وہ رضا کارانہ طور پر دینے کے لئے آمادہ نہ ہوں تو ان سے زبردستی وصول کرے‘ تا آنکہ وہ ہنگامی ضرورت پوری ہوجائے‘ ہمارا خیال ہے کہ کسی صحیح اسلامی معاشرہ میں یہ نوبت آہی نہیں سکتی۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم: ۱۴۲۹ھ ستمبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: مکالمہ بین المذاہب کا مقصد
Flag Counter