Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۲۹ھ ستمبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

7 - 10
عنایت اللہ مشرقی اور ان کی تفسیر”التذکرة“
عنایت اللہ مشرقی اور ان کی تفسیر
”التذکرة“

انہی باطل پرستوں کی تفاسیر میں سے ایک تفسیر عنایت اللہ مشرقی امرتسری کی بھی ہے ،جس کا نام موصوف نے ”التذکرة“ رکھا ہے ،اس شخص کے احوال تو اونچے پہاڑ پر جلتی آگ سے بھی زیادہ واضح ہیں ،یہ شخص اس سر سید احمد خان کے راستے پر گامزن ہے، جس کا مختصر تذکرہ ا اصول اسلام کے منہدم کرنے میں گذرا ہے، موصوف کی رائے مکمل طورپرسرسید دہلوی کے وضع کردہ باطل اصول کے بالکل موافق تھی ،جب اس کی یہ تفسیر ”التذکرة“ شائع ہوئی اور علمائے حق نے اس کو دیکھا تو بالاجماع اس کے کفر کا فتویٰ دیا ،اہل حق علماء میں سے کوئی بھی اس فتویٰ کی تائید میں پیچھے نہیں رہا، اس ملحد نے تو سرسید سے بھی زیادہ باطل نظریات قائم کئے ،کہتا ہے کہ:
”اسلام اور صراط مستقیم تو یہ ہے کہ خدائے پاک کی کائنات میں ان بکھری نعمتوں سے نفع مند ہوا جائے ”جو شخص ان نعمتوں سے منتفع ہوا، وہ مسلمان ہے اور جو ان نعمتوں سے محروم رہا ،وہ کافر ہے“۔
اصحاب الجنة اور اصحاب النعیم
(جنت والے اور نعمتوں میں رہنے والوں )کی تشریح یوں کرتا ہے کہ:
”یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو یہود ونصاریٰ کہتے ہیں“ ۔
اور اس کے بالمقابل
اصحاب النار واصحاب الجحیم
( دوزخ والوں )کی تشریح یوں کرتا ہے کہ:
”یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں“ ۔
ان باتوں پر استدلال وہ اس آیت سے کرتا ہے:
”ان الارض یرثہا عبادی الصالحون“
کہتا ہے کہ:
” اہل حکومت وسلطنت نصاریٰ ہیں اور وہ نیکوکار ہیں ،اس لئے کہ زمین کی وراثت وسلطنت انہی لوگوں کہ قبضہ میں ہے“۔
اس ملحد وزندیق کے نزدیک پل صراط، حساب وکتاب،حشر ومعاد،جنت ودوزخ کسی چیز کا کوئی تصور نہیں، بلکہ الٹا جنت ،اس کے ذکر کردہ احوال ،سمندر، نہریں اور محلات وغیرہ کا مذاق اڑاتا ہے ۔
اور
”الذین انعمت علیہم“
سے مراد اس کے نزدیک اہل حکومت ہیں اور
”صراط الذین انعمت علیہم“
میں بھی منعم علیہم ،اس کے نزدیک یہی اہل حکومت ہیں ،اور جس قوم کو فرماں روائی اور سلطنت حاصل نہ ہو ،اس شخص کے نزدیک وہ ”ضالون“ یعنی گمراہ ہیں اور وہی لوگ ”مغضوب علیہم“ یعنی خداوند کریم کے غضب کے مستحق ہیں ،یہاں تک کہ اس زندیق نے یوں بھی کہہ ڈالا کہ:
”نصاریٰ باوجود عقیدہٴ تثلیث کے مسلمان ہیں“
اس زندیق کے نزدیک کفر واسلام کا تعلق عقائد واقوال سے نہیں، صرف اعمال سے ہے ،اور نہ ہی اس کے نزدیک اسلام کی بنیاد ان پانچ اصولوں پر ہے جن کا ذکر حضور پاک ﷺ کہ ارشاد گرامی ”بنی الاسلام علی خمس“ میں آیا ہے، بلکہ اس کے نفس وشیطان نے اس کو وسوسہ میں ڈالا، جس کی بنیاد پر اس نے از خود دس اصول بنالئے۔ نمازیں اور دیگر شرعی اعمال واحکام پر اس زندیق کے نزدیک نجات کا دار ومدار نہیں ہے ،ہاں! اتنا ضرور ہے کہ کبھی کبھی جنت ودوزخ کا ذکر کرکے قاری کو التباس میں ڈالتا ہے، لیکن یہ بھی محض دھوکہ اور فریب ہے،جن پر وہ قلبی طور پر ایمان نہیں لایا ہے ،اس لئے کہ جنت و دوزخ کے مخالف عقائد ونظریات کا وہ برملا اعلان کرتا ہے ،انہی باطل عقائد ونظریات کی طرح یہ شخص اور بھی کئی بدتر افکار کا حامل ہے ۔ خلاصہ یہ کہ اس ملحد کے کفر کے اسباب بے شمار ہیں ،جن کو اس مقام پر بیان نہیں کیا جاسکتا ،اس ملحد نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا نام ”خاکساران“ رکھا تھا اور لوگوں کو اس کی امداد اور اس میں شمولیت کی دعوت دیتا تھا اور اس اکیڈمی کا مقصد بھی وہ خفیہ سازشیں تھیں جنہیں اس مقام پر بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔
واللہ الہادی الی الحق۔
چند مزید تفاسیر پر تنبیہ
میرے اس مقدمہ ”یتیمة البیان“ کے طبع ہونے کے بعد ،ان چالیس سالوں میں دیگر کئی تفاسیر منظر عام پر آئیں ،میرا مطلب ہے کہ وہ تفاسیر جو عصر حاضر میں بھی لکھی گئی ہیں، نہ کہ وہ قدیم تالیف کردہ تفاسیر جو حال میں طبع ہوئیں ،جن میں ”تفسیر القرطبی“ یا ”تفسیر القاسمی“ جو دمشق وغیرہ سے حال ہی میں طبع ہوئی ہیں، ان جیسی تفاسیر پر تبصرہ مقصود نہیں ہے ،بلکہ معاصر مصنفین کی تفاسیر پر نقد وتبصرہ ،اس ذیلی نوٹ میں مقصود ہے،ان تفاسیر میں سے بعض تفاسیر اہل علم ودانش اور ارباب تقویٰ کی تالیف کردہ ہیں اور بعض ان مصنفین کی ہیں جنہیں علمی کمال اور ان علوم میں جن کو مفسر محتاج ہو، رسوخ وثبات حاصل نہیں ہے یا پھر وہ محض گمراہ فرقوں کی جماعت کا فرد ہے۔ آخری دو قسموں کی تفاسیر پر کچھ مناقشات وتنبیہات ذکر کی جائیں گی ،اس لئے کہ ان تفاسیر میں بعض ابحاث شاہراہ مستقیم سے منحرف اور سلف کے سیدھے راستے کے مدمقابل ہیں ۔
مجھے افسوس ہے کہ : ”یتیمة البیان“ کی دوبارہ طباعت کی جارہی ہے اور کچھ حذف واثبات کے بعد یہ کتاب دوبارہ منظر عام پر آئے گی ،لیکن میری صحت تفصیلی بحث اور واضح تر بیان وتحریر سے معذور ہے، جس کی بناء پر میں مجبور ہوں کہ صرف اشارات پر اکتفاء کروں اور اشارات عقلمند وہوشمند کو کافی ہوا کرتے ہیں۔
واللہ الہادی الی الصواب
۱- معارف القرآن
یہ تفسیر حضرت استاذ مفتی مولانا محمد شفیع دیوبندی کی ہے․․․الله تعالیٰ ان کی حیات میں عافیت کے ساتھ برکت دے․․․ جو آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے ،اس تفسیر کا ماخذ حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی کی ”بیان القرآن“ ہے۔ مولانا نے اس تفسیر ”بیان القرآن“ کو واضح عبارات کی صورت میں ملخص کردیا ہے اور مزید چند ایسے مسائل وابحاث ذکر فرمائی ہیں جن کے اہل عصر محتاج ہیں ،ہمیں اس تفسیر پر تعریفی کلمات رقم کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ،اس لئے کہ یہ وہ بہترین تفسیر بن چکی ہے ،جس سے عالم وغیر عالم ہر شخص مستفید ہورہا ہے۔
۲- معارف القرآن:
یہ حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی کی تفسیر ہے ،جس میں وہ سورہٴ فاطر کے اختتام تک پہنچ سکے اور سورہٴ حجر تک یہ تفسیر طبع بھی ہوچکی ہے ،یہ بھی نہایت عمدہ تفسیر ہے ،جس میں قاری بہترین نفیس منقول ابحاث پائے گا، مذکورہ بالا دونوں تفاسیر اردو زبان میں ہیں اور ہندوستان وپاکستان میں خوب رائج ہیں۔ ۳- حضرت مولانا عبد الماجد دریاآبادی کی اردو زبان میں ترجمہ وتفسیر جن پر عربی تفاسیر کی منقول عبارات سے فوائد تفسیریہ تعلیق فرمائے گئے ہیں اور بعض مواضع میں مولانا نے ایک ہی مضمون کے متعلق کئی ابحاث جمع فرمادی ہیں ،اس تفسیر میں جدید علوم وفنون اور مختلف تحقیقات کے متعلق بعض وہ ابحاث بھی ذکر کی گئی ہیں جو انگریزی زبان میں لکھی گئی کتابوں سے ماخوذ ہیں ،اسی طرح بعض تاریخی ابحاث بھی عمدہ پیرائے میں ذکر کی گئی ہیں،اس تفسیر کا اسلوب بیان گذشتہ عہد کی کتابوں، انجیل، کماریٰ،تلمود کی طرح کا ہے ۔ لیکن اس بات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مؤلف کو دینی علوم میں رسوخ وکمال حاصل نہیں ہے اور عربی علوم جن میں صرف،نحو اور بلاغت سرفہرست ہیں ،ان کے متعلق بھی موصوف ادنیٰ واقفیت رکھتے ہیں، نیز عقائد میں بھی تصلب اور مضبوطی نہیں رکھتے ہیں ،اس لئے اس تفسیر پر کلی اطمینان نہ رکھ لینا چاہئے اور یہ تفسیر محتاج ہے کہ کوئی معتبر ومستند عالم دین اس تفسیر کا حرف بحرف شروع سے اخیر تک مطالعہ کرے اور اس تفسیر کے متعلق رائے پیش کرے، تاکہ عوام کے لئے صبح روشن ہوجائے۔
۴- تفہیم القرآن
یہ استاذ مودودی کی قلمی کاوش ہے ،بیشک مؤلف موصوف اردو زبان کے بہترین صحافی اور ادیب تھے اور صحافت میں ان کو وہبی ملکہ عطا کیا گیا تھا ،اردو طرز انشاء میں بھی عجیب اسلوب تحریر کے حامل تھے ،مختلف ومتفرق موضوعات کے منتشر مسائل کے حل کرنے میں ان کا قلم سیل رواں کی سی ایسی روانی رکھتا ہے جو عوام کے لئے جاذب نظر اور نئی نسل کے قلوب کو اپنی جانب مائل کرنے والا ہے ۔بعض ابحاث میں موصوف نئی طرز فکر ونظر کے مطابق بحث فرماتے ہیں ۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ ماننا پڑتا ہے کہ موصوف کو دینی علوم میں رسوخ وکمال نہیں اور نہ عربی ادب اور بلاغت کے علوم سے کچھ واقفیت ہے، چنانچہ اپنے اردو تحریر وانشاء کے ذوق کو بلیغ عربی گفتگوکے طرز سے مقید اور مزین فرماتے ہیں اور ہمیشہ دیگر مفسرین کے طور طریق پر اپنی گفتگو کی بنیاد رکھتے ہیں، لیکن جب اسی مضمون کی تعبیر اپنے خاص اسلوب میں کرنا چاہتے ہیں تو صراط مستقیم چھوڑ کر درست آراء ونظریات سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ مؤلف محترم کی خودرائی اور خود پسندی بعض مرتبہ موصوف کے قلم سے ایسا کھیل کھیل جاتی ہے جو موصوف کے لئے دائمی جہالت اور شرمندگی کا داغِ نمایاں کا باعث ہواکرتی ہے اور ہرمسئلہ کے متعلق ان کی تحقیق وتنقیح باوجود اس کے کہ موصوف اردو طرز تحریر وانشاء پردازی کے سوا، دیگر فنون کے متعلق انتہائی کوتاہ نظر واقع ہوئے ہیں اور سلف صالحین کی عیب جوئی ان کی تمام ترکتب وتصنیفات کا لازمی جز ہواکرتی ہیں ،اسی بناء پر ان کی اس تفسیر میں بھی کئی قابل گرفت ابحاث‘ مناقشات واعتراضات اور مختلف مضامین کے متعلق تنبیہات کی وضاحت نہایت ضروری ہے۔ یہ مختصر رسالہ تو ان تمام مناقشات وتنبیہات سے تفصیلی بحث بمع مثال بیان کردینے کی گنجائش نہیں رکھتا، لیکن چند مثالوں پر ہم اکتفاء کرتے ہیں، جن سے شمار کرنے والا راضی ہوجائے گا۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم: ۱۴۲۹ھ ستمبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: ”او“لیول کی اسلامیات میں فرقہ واریت
Flag Counter