Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۲۹ھ ستمبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

4 - 10
فضائل اعمال پر اعتراضات
فضائل اعمال پر اعتراضات
ایک اصولی جائزہ
(۲)

اعتراضات اور ان کی حیثیت
اس کتاب پر جو اعتراضات ہوئے ان کی جزئیات میں جانے کا تو موقع نہیں‘ اصولی طور سے کچھ معروضات پیشِ خدمت ہیں‘ ان اعتراضات کی تین قسمیں ہیں: ۱- وہ اشکالات جو کسی طالبِ حق کو پیش آتے ہیں اور اس کا ذہن تھوڑی بہت وضاحت سے صاف ہوجاتا ہے‘ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے وضاحتی خطوط کے مجموعہ ”کتب فضائل“ پر اشکالات اور ان کے جوابات“ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں‘ مثلاً دیکھئے مکتوب نمبر ۱۱ جس میں حضرت امام شافعی کے متعلق دن رات میں قرآن کریم کے ساٹھ ختم کرنے کی بات پر استبعاد کا جواب دیا گیا ہے۔ اور مکتوب نمبر ۱۲ جس میں منبر نبوی کے متعلق اس استفسار کا جواب ہے کہ آنحضرت ا کا منبر تین درجوں کا تھا یا اس سے کم وبیش کا؟
۲- وہ اعتراضات جن کا تعلق اس عقلیت پسندانہ رجحان سے ہے جو تمام ہی نصوص حدیث کو اپنی نام نہاد عقل سلیم کے خلاف قرار دے کر یا اپنی عقل نارسا کے بموجب قرآن سے معارض قرار دیتے ہوئے ٹھکرا دینے کا قائل ہے‘ خواہ ثبوت واستناد کے اعتبار سے ان کی حیثیت کتنی ہی مضبوط ہو‘ اور خواہ علماء امت نے اس کی کتنی ہی معقول توجیہات کی ہوں‘ جیسے:
۱- فضلاتِ نبی کی طہارت پر اعتراض جناب تابش مہدی صاحب نے ”تبلیغی نصاب ایک مطالعہ“ (ص:۳۵تا۳۹) میں حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت مالک بن سنان کے رسول اللہ ا کے نکلے ہوئے خون کو پینے یا چوسنے کے واقعہ اور اس سے فضلات ِ نبی کی طہارت پر شیخ کے استدلال کا بڑے گھناؤنے انداز میں مذاق اڑایا ہے‘ حالانکہ اولاً تو ثبوت کے اعتبار سے اس طرح کے واقعات میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ حضرت ابن الزبیر کا واقعہ متعدد سندوں سے مروی ہے۔ (دیکھئے مستدرک حاکم‘ج: ۳ص:۵۵۴ مجمع الزوائد‘ج: ۸ص:۲۷۰)
امام بیہقی نے سنن کبری‘ج: ۷ص:۶۷ میں فرمایا :
”وروی ذلک من اوجہ آخر عن اسماء بنت ابی بکر‘ وعن سلمان فی شرب ابن الزبیر دمہ “۔
حافظ ہیثمی نے فرمایا:
رواہ الطبرانی والبزار‘ ورجال البزار رجال الصحیح غیر ہنید بن القاسم وہو ثقة“
حافظ شمس الدین ذہبی نے بھی سیر اعلام النبلاء‘ج: ۳ص:۳۶۶ میں اس پر صحت کا حکم لگایا ہے۔
اسی طرح حضرت مالک بن سنان کا واقعہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ ۳/۳۴۶ میں ابن ابی عاصم‘ صحیح ابن السکن اور سنن سعید بن منصور کے حوالے سے نقل کیا ہے‘ لیکن بے چارے ناقد نے حکایات صحابہ میں صرف تاریخ الخمیس اور قرة العیون کا حوالہ پاکر اس کو ”میلاد گوہر“ اور ”یوسف زلیخا“ جیسی کتاب کی روایت قرار دے دیا۔ نیز آیت قرآنی: انما حرم علیکم المیتة والدم الخ“ کے منافی قرار دیتے ہوئے عقل صریح کے بھی خلاف قرار دیا ہے‘ حالانکہ روایات کی قوت کو دیکھتے ہوئے مذاہب اربعہ کے محققین نے اس کو آنحضرت ا کی خصوصیت قرار دیا ہے‘ آیت کریمہ کا سرے سے کوئی ٹکراؤ ہی نہیں ہے‘ اس مسئلہ پر تفصیل ومحققانہ کلام کے لئے دیکھئے مضمون مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ ماہنامہ بینات کراچی بابت شوال ۱۴۰۹ھ۔
۲- مسئلہ توسل میں افراط وتفریط پایا جاتا ہے‘ ادلہ شرعیہ کی روشنی میں علمائے دیوبند نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ انتہائی معتدل ہے‘ حضرت رسول پاک ا کے وسیلے سے دعاء کے جواز کے سلسلہ میں حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے ”فضائل اعمال“ میں جو کچھ لکھا ہے‘ افراط وتفریط سے محفوظ اور مضبوط دلائل پر مبنی ہے‘ فضائل ذکر باب دوم کی فصل نمبر ۳ میں حدیث۔
”عن عمر قال قال رسول الله ا لما اذنب آدم الذنب الذی اذنبہ‘ رفع راسہ الی السماء فقال: اسالک بحق محمد الا غفرت لی فاوحی الله الیہ الخ“۔
متعدد کتب حدیث کے حوالے اور کئی ایک متابعات وشواہد کے ساتھ درج ہے‘ جس سے مسئلہ ٴ توسل بخوبی ثابت ہوتا ہے‘ مگر کوئی صاحب غیظ وغضب میں بھر ہوا خط شیخ کولکھتے ہیں کہ یہ حدیث سراسر موضوع ہے‘ قرآن کریم کی آیات :
وقال ربکم ادعونی استجب لکم الخ (مؤمن:۶۰) واذا سألک عبادی عنی فانی قریب الخ“
وغیرہ کے منافی ہے اور عقل کے بھی خلاف ہے کہ اس دعاء سے اللہ کے متعلق سوء ظن پیدا ہوتا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔شیخ رحمہ اللہ نے نہایت ٹھنڈے انداز میں تفصیلی جواب مرحمت فرمایا کہ:
” آپ کو تو قرآن وحدیث میں کھلا ہوا تعارض نظر آتا ہے اور مجھے اس کا واہمہ بھی نہیں ہوتا۔ آپ نے لکھا کہ:یہ حدیث موضوع ہے۔ مجھے اب تک بھی اس حدیث کا موضوع ہونا کہیں نہیں ملا۔مسئلہ کے متعلق مزید تسلی وتشفی کے لئے دیکھئے وضاحتی خطوط کا مجموعہ۔“ (کتب فضائل پر اشکالات اور ان کے جوابات ص:۱۳۹تا ۱۵۴‘ نیز ص:۱۷۰ تا ۱۸۴)
۳- وہ تنقیدات جن کی حیثیت علمی ہے اور ان میں بعض پہلوؤں سے وزن بھی محسوس کیا جاتا ہے‘ ان تنقیدات کا محور مجموعہ فضائل اعمال کی حدیثوں کی استنادی حیثیت ہے‘ یعنی ناقدین کے بقول شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے ان رسائل میں کثرت سے ضعیف بلکہ موضوع حدیثوں کو داخل کردیا ہے جس سے دین کی اصل شبیہ مسخ ہوکر رہ گئی ہے۔آخر الذکر دونوں قسم کی تنقیدات عموماً مخلصانہ تنقید کی بجائے ایسے لوگوں کی جانب سے کی گئی ہیں جو مؤلف رحمہ اللہ سے مسلکی اختلاف رکھتے ہیں‘ چنانچہ ان کی تنقیدات حد درجہ جارحانہ ہیں‘ اپنے نظریہ کے خلاف احادیث پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے بجائے ان کی طرف سے مصنف اور کتاب سے استفادہ کرنے والوں پر کھل کر تہمتوں کی بوچھاڑ کی گئی ہے۔
۱-ملاحظہ ہو‘ ایک ناقد صاحب کا لب ولہجہ:
”واہم کتاب عند التبلیغین ”کتاب تبلیغی نصاب“ الذی الفہ احد رؤسائہم المسمی محمد زکریا الکاندھلوی ولہم عنایة شدیدة بہذا الکتاب فہم یعظمونہ کما یعظم اہل السنة الصحیحین وغیرہما من الکتب‘ وقد جعل التبلیغیون ہذا الکتیب عمدة ومرجعاً للہنود وغیرہم من الاعاجم التابعین لہم‘ وفیہ من الشرکیات‘ والبدع والخرافات‘ والاحادیث المرضوعة والضعیفة شئ کثیر فہو فی الحقیقة کتاب شروضلال وفتنة“۔ (حمود بن عبد اللہ التویجری فی کتابہ القول البلیغ فی التحذیر من جماعة التبلیغ ص:۱۱)“۔
یعنی تبلیغی جماعت والوں کے نزدیک اہم ترین کتاب تبلیغی نصاب (مجموعہٴ فضائل اعمال) ہے جس کو محمد زکریا نامی ان کے کسی پیشوا نے تالیف کیا ہے‘ یہ لوگ اس کتاب کی اسی طرح تعظیم کرتے ہیں جس طرح اہل سنت صحیحین وغیرہ کتب حدیث کی کرتے ہیں‘ ان لوگوں نے اس کتاب کو ہندوستانیوں اور دوسرے عجمی وابستگان تبلیغ کے حق میں اصل مدار اور مرجع کی حیثیت دے رکھی ہے‘ جبکہ ا س کتاب میں مشرکانہ اعمال‘ بدعات وخرافات اور ضعیف وموضوع حدیثوں کی ایک بڑی مقدار ہے‘ در حقیقت یہ کتاب برائی‘ گمراہی اور فتنہ کا پلندہ ہے۔
۲- ملاحظہ ہو ایک اور صاحب کی گل افشانی:
”یہودیوں کی سازش یہ رہی ہے کہ وہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے اندر سے روحِ جہاد ختم کردیں‘ اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لئے یہودی مشن نے ہر دور میں علماء اور مذہبی جماعتوں کو ہی استعمال کیا اور مسلمانوں کے اندر سے روح جہاد کو ختم کرنے میں اب تک کے تمام لٹریچر میں تبلیغی نصاب کو نمایاں مقام حاصل ہے‘ یہ اس لئے بھی کہ لوگ(اسے) حدیث کی کتاب کہنے لگے ہیں جبکہ حدیث نام کی کوئی چیز اس میں مشکل ہی سے مل پاتی ہے“۔ (تابش مہدی تبلیغی نصاب ایک مطالعہ ص:۵۷)
۳- یہی صاحب ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
”حضرت شیخ الحدیث صاحب نے اپنی اس کتاب میں بے سند اور دین سوز روایتیں نقل کی ہیں‘ یا انہوں نے چند ایسے مشاغل دین میں شامل کئے ہیں جن کا ثبوت نہ احادیث نبوی سے ملتا ہے اور نہ صحابہ کرام کی مقدس زندگیوں سے“۔ (ایضاً ص:۶۷)
۴- ایک ناقد صاحب قدرے ٹھنڈے لب ولہجہ میں ناصحانہ تبصرہ یوں فرماتے ہیں:
”ایسی حدیثوں کو عوام کے سامنے پیش کرکے یہ تأثر دینا کہ یہ ارشادات رسول ہیں‘ دین کے لئے کمزور بنیادیں تلاش کرنے اور لوگوں کی نظروں میں دین کو مشتبہ بنا دینے کا باعث ہے‘ اس سے بدعات کی راہیں کھلتی ہیں‘ ملت کے اندر تفرقہ بندی‘ اور طرح طرح کے فتنوں کا سامان ہوتا ہے“۔ (شمس پیرزادہ موضوع اور ضعیف حدیثوں کا چلن ص:۲۰)
بات چاہے کتنی ہی غلط ہو‘ آج کی پُر آشوب دنیا پروپیگنڈے کے زور سے غلط کو صحیح باور کرانے میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب ہو ہی جاتی ہے‘ ہمارے نزدیک ان تنقیدات کی حیثیت سوائے تشکیکات کے اور کچھ نہیں اور یہ تشکیکات عام قاری کے سامعہ ودماغ میں جب تسلسل کے ساتھ پہنچتی ہیں تو وہ ایک حد تک ضرور متأثر اور غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے‘ اس لئے ہم اصولی طور سے کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ہمارے سامنے غور وخوض کے تین نکتے ہیں:
۱- مجموعہ ”فضائل اعمال“ کی معتبریت اس کے مصادر ومآخذ کے آئینے میں کیا ہے؟
۲- حدیثوں سے استدلال واستشہاد کے وقت کیا اصطلاحی اعتبار سے ان کا صحیح ہونا ضروری ہے‘ یا اس سے کم تردرجہ کی حدیثیں بھی کافی ہیں؟ اگر ہیں تو کس حد تک؟ علماء امت کا کیا معمول رہا ہے؟
۳- ترغیب وترہیب کے باب میں نصوص قرآن وسنت کے علاوہ بزرگوں کے اقوال‘ افعال‘ حکایات اور منامات ومبشرات کا سہارا لینا درست ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس حد تک؟
پہلا نکتہ
پوری کتاب پر سرسری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ براہ راست جن مصادر ومآخذ سے حضرت شیخ نے استفادہ کیا ہے ان کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے‘ کسی بھی باب کاآغاز ان قرآنی آیات سے فرماتے ہیں جن سے زیر بحث موضوع پر صراحتاً‘ دلالتاً‘ یا اشارتاً روشنی پڑتی ہو‘ پھر مختلف کتب تفسیر وغیرہ کی ورق گردانی کے بعد ان کی مناسب تشریح وتوضیح فرماتے ہیں‘ اس میں زیادہ تراعتماد تفسیر ابن کثیر اور حافظ سیوطی کی الدر المنثور پر ہوتا ہے جو تفسیری روایات کے اہم ومستند مجموعے ہیں۔پھر احادیث کے انتخاب میں عموماً درج ذیل کتابوں پر اعتماد فرماتے ہیں:
۱- الترغیب والترہیب للحافظ عبد العظیم بن عبد القوی المنذری (ت:۶۵۶ھ) شروع سے آخر تک دیکھ لی جائے سب سے زیادہ حدیثیں اسی کتاب سے شیخ نے لی ہیں‘ اس لئے ”فضائل اعمال“ کی کسی ایسی حدیث پر تنقید جو ترغیب منذری سے ماخوذ ہو‘ درحقیقت حافظ منذری رحمہ اللہ پر تنقیدہوگی۔
حافظ منذری کی حدیث میں مہارت تامہ کی تعریف حافظ ذہبی نے کی ہے‘ منذری کے شاگرد حافظ عز الدین الحسینی (ت:۶۹۵ھ) کی زبانی ان کے مقام ومرتبہ کو سنئے‘ فرماتے ہیں:
”کان عدیم النظیر فی معرفة علم الحدیث علی اختلاف فنونہ‘ عالماً بصحیحہ‘ وسقیمہ‘ ومعلولہ‘ متبحراً فی معرفة احکامہ‘ ومعانیہ‘ ومشکلہ‘ قیماً بمعرفة غریبہ‘ واعرابہ‘ واختلاف الفاظہ‘ ماہراً فی معرفة رواتہ وجرحہم وتعدیلہم‘ ووفیاتہم‘ وموالیدہم‘ واخبارہم اماماً‘ حجة‘ ثبتاً‘ ورعاً‘ متحریاً فیما یقولہ وینقلہ‘ متثبتا فیما یرویہ ویتحملہ‘ اھ“ (تقدمہ جواب الحافظ المذری للاستاذ الشیخ ابو غدة ص:۲۹ نقلاً عن کتاب ”المنذری وکتابہ لوفیات النقلہ للدکتور بشار عواد)
یعنی تمام علوم حدیث کی معرفت میں اپنی نظیر آپ تھے‘ حدیثوں میں صحیح‘ ضعیف‘ معلل کے شناور تھے‘ حدیثوں کے معانی اور ان کے مدلول فقہی‘ مشکل کلمات کے ضبط‘ متعارض ومختلف الفاظ حدیث میں تطبیق وترجیح کے ماہر‘ راویان حدیث کی جرح وتعدیل‘ ان کے حالات ‘ ولادت ووفات کی معرفت تامہ رکھتے تھے‘ بذات خود ثقہ حجت اور متقی تھے‘ جو کچھ نقل کرتے پوری چھان پھٹک کے بعد کرتے۔
ترغیب وترہیب میں مصنف نے (۳۰) امہات کتب حدیث سے انتخاب کیا ہے جس میں صحیح‘ حسن‘ ضعیف‘ واہی ہرطرح کی حدیثیں جمع کی ہیں‘ بلکہ بعض حدیثوں پر بعض حضرات نے وضع کا بھی حکم لگایاہے‘ یہ کتاب آپ نے اپنے بعض زاہد صفت اور عملی ترقی کے خواہش مند طلبہ کے اصرار پر ان کے حسن نیت اور اخلاص کو دیکھتے ہوئے لکھی‘ اور انہیں خیال تک نہ گذرا کہ کہیں روح جہاد ان سے ختم نہ ہوجائے‘ ان کا عقیدہ فاسد نہ ہوجائے اور یہ صرف مسجد کے لوٹے بن کر اپنا دین دنیا برباد نہ کر لیں۔
کتاب کے مشتملات کی استنادی حیثیت جاننے کے لئے مصنف کی درج ذیل عبارت بغور پڑھئے:
”فان کان الحدیث صحیحاً‘ او حسناً‘ او ماقاربہما صدرتہ بلفظہ عن‘ وکذلک ان کان مرسلاً‘ او منقطعاً‘ او معضلاً او فی اسنادہ راوٍ مبہم‘ او ضعیف وثق‘ او ثقة ضعف‘ وبقیة رواة الاسناد ثقات اوفیہم کلام لایضر‘ اور روی مرفوعاً‘ والصحیح وقفہ او متصلاً‘ والصحیح‘ ارسالہ‘ او کان اسنادہ ضعیفاً‘ لکن صححہ او حسنہ بعض من خرجہ ثم اشیر الی ارسالہ او انقطاعہ او عضلہ او ذلک الراوی المختلف فیہ‘ واذا کان فی الاسناد من قبل فیہ کذاب‘ او وضاع‘ اومتہم او مجمع علی ترکہ او ضعفہ او ذاہب الحدیث او ہالک او ساقط او لیس بشئ او ضعیف جداً اولم ارفیہ توثیقاً بحیث لایتطرق الیہ احتمال التحسین‘ صدرتہ بلفظہ روی‘ولا اذکر ذلک الراوی ولاما قیل فیہ“۔
یعنی مصنف کے نزدیک جو حدیث صحیح‘ حسن یا ان دونوں کے قریب ہوتی ہے اس کو تو ”عن“ کے ذریعہ شروع کرتے ہیں جو علامت ہے اس بات کی کہ حدیث قابل عمل ہے۔
اسی طرح یہ علامت ان حدیثوں پر بھی لگاتے ہیں جن کی سند مرسل‘ منقطع یا معضل ہو‘ یا اس کا کوئی راوی نام کے بغیر مبہم طور سے مذکور ہو‘ یا جمہور کے نزدیک ضعیف ہو‘ بعض نے اس کو ثقہ قرار دیا ہو‘ یا جمہور کے نزدیک ثقہ ہو بعض نے اس کو ضعیف ٹھہرایا ہو‘ جبکہ سند کے بقیہ رجال ثقہ ہوں یا ان پر ایسا کلام ہو جو مضر نہ ہو‘ ان تمام صورتوں میں حدیث کو ”عن“ سے شروع کرنے کے بعد ان کی علتیں ذکر کرتے ہیں۔
اور اگر سند میں کوئی ایسا راوی ہو جس کو ائمہ جرح وتعدیل نے کذاب‘ وضاع‘ متہم یا متفقہ طور سے ضعیف یا متروک کہا ہو‘
یا ذاہب الحدیث ہالک‘ ساقط‘ لیس بشئ‘ ضعیف جداً
وغیرہ کے الفاظ کہے ہوں‘ یا مصنف کے دیکھنے میں حدیث کی تحسین کا کوئی امکان نہ ہو تو اس وقت اس حدیث کو ذکر کرتے وقت ”روی عن“ (صیغہٴ مجہول) سے تعبیر کرتے ہیں اور کوئی تبصرہ نہیں کرتے‘ گویا ضعف کی دو علامتیں ہیں‘ ایک ”روی“ (صیغہٴ مجہول) کی تعبیر‘ دوسری مصنف کی خاموشی۔
دیکھئے اول الذکر صورتوں میں کئی ایک ضعف ہیں‘ لیکن حافظ منذری ترغیب وترہیب میں ان کو نقصان دہ نہیں مانتے اور مؤخر الذکر کو انتہائی ضعف کے باوجود ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک حد تک باب ترغیب وترہیب میں مؤثر مان کر ذکر دیتے ہیں ۔ شیخ رحمہ اللہ بھی بالکل اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے شدید ضعف والی حدیثوں کو ”روی عن“ سے تعبیر کرتے ہیں جیسے کہ مثال آرہی ہے:
شیخ محمد عبد الحئی الکتانی اپنے رسالہ ”الرحمة المرسلة فی شان حدیث البسملة“ میں حافظ سیوطی کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ :
”اذا علمتم بالحدیث انہ فی تصانیف المنذری صاحب الترغیب والترہیب فارووہ مطمئنین“ (کما فی تعلیق الشیخ ابوغدہ علی الاجوبة الفاضلة ص:۹۱۲)
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حافظ منذری اگر کسی حدیث پر اعتماد کریں تو وہ قابل اعتماد ہے۔
۲- حافظ منذری نے اگر حاکم کا حوالہ دیا ہوتا ہے تو شیخ براہ راست مستدرک اور اس پر حافظ ذہبی کا نوٹ بھی ملاحظہ فرماکر درج کرتے ہیں۔
۳- حافظ منذری کسی حدیث کو احمد ‘ طبرانی‘ ابو یعلیٰ‘ بزار‘ کے حوالہ سے اگر نقل کرتے ہیں تو شیخ اسی پر اکتفاء کرنے کے بجائے حافظ ہیثمی (ص:۸۰۷ھ) کی ”مجمع الزوائد“ کی طرف بھی مراجعت فرماتے ہیں‘ کیونکہ اس کتاب میں احمد‘ بزار ابویعلیٰ کے مسانید اور طبرانی کے معاجم ثلاثہ کے زوائد کو جمع کرنے کے ساتھ ان کی اسنادی حیثیت پر بھی کلام کیا گیا ہے ‘چنانچہ شیخ وہاں سے اختلاف الفاظ اور ہیثمی کا کلام نقل فرماتے ہیں۔
۴- اسی طرح حافظ سیوطی کی جامع صغیر سے بکثرت نقل فرماتے ہیں جو مختصر متون حدیث کا انتخاب صحیحین سمیت تقریباً تیس امہات کتاب سے کیا گیا ہے۔ اور حدیثوں کے درجات صحیح‘ حسن‘ ضعیف کی نشان دہی رموز کے ذریعہ کی گئی ہے‘ چنانچہ شیخ اس سے نقل کرتے وقت ”ورقم لہ بالصحة“ وغیرہ کی تعبیر اختیار کرتے ہیں۔
۵-۶- کتب صحاح وسنن کا مشہور ومتداول مجموعہ مشکوٰة المصابیح اور جمع الفوائد (جو چودہ کتب حدیث کا مجموعہ ہے) سے بھی گاہ بگاہ انتخاب کرتے ہیں۔
۷۔ فضائل درود میں خاص طور سے زیادہ انحصار حافظ شمس الدین سخاوی (ت:۹۰۲ھ) کی ”القول البدیع فی الصلاة علی الحبیب الشفیع“ پر ہے‘ اور حافظ سخاوی اپنے ذوق تنقید‘ وسعت نظر اور اعتدال پسندی میں ممتاز ہیں‘ ان کی کتاب ”المقاصد الحسنہ“ لوگوں میں رائج اور زبان زد حدیثوں کی تحقیق میں مرجع نہیں‘ بلکہ عمدة المراجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
مذکورہ بالا معروضات سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ”مجموعہ فضائل اعمال“ اپنے حدیثی مآخذ کے اعتبار سے معتبر کتاب ہے۔
ایک خلجان
البتہ ایک خلجان ہنوز باقی ہے کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ آیات واحایث کی تشریح کے ذیل میں بکثرت ایسی کتابوں کے حوالے سے احادیث وآثار نقل کرتے ہیں جن کی استنادی حیثیت کمزور ہے اور ان میں موضوعات کی کثرت ہے‘ نیز وہ حدیثیں دوسری مستند کتب میں نہیں ملتیں‘ مثلاً:فقیہ ابو اللیث سمرقندی کی ”تنبیہ الغافلین“ (جس کے متعلق حافظ ذہبی نے فرمایا : ”فیہ موضوعات کثیرة“ سیر اعلام النبلاء ۱۶/۳۲۳) یا جیسے ”قرة العیون“ (جس کو شیخ نے تو جگہ جگہ فقیہ ابو اللیث ہی کی طرف منسوب کیا ہے‘ لیکن مجھے کافی تلاش کے باوجود ان کی اس نام کی کوئی کتاب نہیں ملی‘ بلکہ یہ کتاب درحقیقت شیخ ابوبکر الاحسائی کی ہے جو حافظ ابن الجوزی کی کتاب : ”التبصرة“ کی تلخیص واختصار ہے۔ پورا نام ”قرة العیون المبصرة بتلخیص کتاب التبصرة“ ہے۔
بہرکیف اس میں بھی موضوعات کی تعداد خاصی ہے‘ یا جیسے امام غزالی کی احیاء العلوم جس میں موضوعات کی تعداد اتنی ہے کہ علامہ تاج الدین سبکی طبقات الشافعیہ الکبریٰ (۴/۱۴۵) میں اس کی بے اصل روایات کو بیان کرنا شروع کیا تو یہ سلسلہ اڑتیس صفحات تک پہنچ گیا یا جیسے ابن حجر عسقلانی سے منسوب ”المنبہات“ جس کا حافظ کی طرف انتساب محتمل ہے ‘اس کتاب میں بھی موضوعات کی کثرت ہے‘ اس خلجان کا ازالہ اگلے نکتہ میں خود بخود ہوجائے گا۔
مؤیدات وشواہد کا اہتمام
واضح رہے کہ روایت میں اگر ضعف ہوتا ہے تو کئی ایک مصادر کو کنگہال کر اس کے شواہد ومؤیدات جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،جن کی مجموعی حیثیت اس مضمون کو وزنی بنادیتی ہے‘ مثلاً:
”روی انہ علیہ الصلاة والسلام: قال من ترک الصلاة ‘ حتی مضی وقتہا‘ ثم قضی عذب فی النار حقباً والحقب ثمانون سنة‘ والسنة ثلاث مائة وستون یوماً‘ کل یومٍ کان مقدارہ الف سنة کذا فی مجالس الابرار۔قلت لم اجدہ فیما عندی من کتب الحدیث الا ان مجالس الابرار مدحہ شیخ مشائخنا الشاہ عبد العزیز الدہلوی۔واخرج ابن کثیر‘ فی تفسیر قولہ تعالیٰ: ”فویل اللمصلین الذین ہم عن صلاتہم ساہون“ عن ابن عباس  ان فی جہنم لوادِ تستعیذ جہنم من ذلک الواد فی کل یومٍ اربعمائة مرة اعد ذلک الوادی للمرائین من محمد ا ۔وذکر ابو اللیث السمرقندی فی قرة العیون عن ابن عباس وہو مسکن من یوخر الصلاة عن وقتہا ۔وعن سعدبن ابی وقاص مرفوعاً:” الذین ہم عن صلاتہم ساہون“قال:ہم الذین یؤخرون الصلاة عن وقتہا‘ وصحح الحاکم والبیہقی وقفہ‘ واخرج الحاکم عن عبد اللہ فی جہنم بعید القعر‘ خبیث الطعم‘ وقال: صحیح الاسناد“۔
ہم نے اس مثال کو اس لئے اختیار کیا کہ یہ خاص طور سے ناقدین کے نشانہ پررہی ہے‘ حضرت شیخ کی زندگی میں اور ان کے بعد بھی خوب اعتراضات ہوئے‘ اس کو نقل کرنے کے بعد شیخ نے خود لکھا کہ مجالس الابرار میں ایسے ہی ہے‘ مجھے اپنے پاس موجود کتب میں نہیں ملی‘ ہاں مسند الہند شاہ عبد العزیز دہلوی رحمہ اللہ نے اس کتاب کی تعریف کی ہے‘ اس کے باوجود شیخ جانتے ہیں کہ اتنی بات کافی نہیں اور چونکہ مذکورہ حدیث کا مضمون نماز کو اپنے وقت سے مؤخر کرکے پڑھنے پر سخت وعید ہے‘ اس لئے:
۱- تفسیر ابن کثیر سے
”فویل للمصلین الذین ہم عن صلاتہم ساہون الذین ہم یراؤن“
کی تفسیر میں حضرت ابن عباس  کا اثر (جو حکماً مرفوع ہے) نقل کیا کہ جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے جو امت کے ان ریاکاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ ۲- پھر قرة العیون سے ابن عباس کا اثر نقل کیا کہ یہ وادی ان لوگوں کا ٹھکانہ ہے جو نماز قضا کرکے پڑھتے ہیں۔
۳- اور یہی مضمون حضرت سعد بن ابی وقاص سے بھی مرفوعاً نقل کیا ہے اور حاکم وبیہقی نے اس کا موقوف ہونا ہی صحیح قرار دیا ہے۔
غور کیجئے مجموعی طور سے یہ معلوم ہوا کہ نماز میں غفلت کرنے اور قضا کرکے پڑھنے والے کی سزا جہنم میں سخت ترین رکھی گئی ہے‘ خواہ ایک حقب کی تعیین ثابت نہ ہو‘ اسی لئے جب بعض حضرات نے شیخ کو اس کے خارج کرنے کا مشورہ دیا تو شیخ نے جواب دیا کہ:”ابھی تک اس ناکارہ کی سمجھ میں اس حدیث کے نکالنے کی وجہ سمجھ میں نہآئی“۔ (کتب فضائل پر اشکالات ص:۱۳۱)
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم: ۱۴۲۹ھ ستمبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: قصص القرآن (تحقیقی جائزہ)
Flag Counter