Deobandi Books

ماہنامہ الابرار مارچ 2010

ہ رسالہ

14 - 15
شرعی مسائل کے جوابات
ایف جے،وائی(March 17, 2010)

دارالافتاءجامعہ اشرف المدارس کراچی۔

سوال: مسئلہ یہ ہے کہ میری ہمشیرہ عید کے تیسرے دن رہنے آئی تھی کچھ دن بعد واپس گئیں جس روز واپس گئیں تو نند سے معمولی بات پر جھگڑا ہوگیا سب سسرال والے ہمشیرہ پر بہت غصہ کرتے رہے پھر ہمشیرہ نے مجھے فون کرکے بلوالیا تو میرے بہنوئی صاحب نے مجھ سے غصہ میں یہ الفاظ کہے کہ ”میں نے اس کو فارغ کردیا“ اس کو لے جائیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ الفاظ کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے یا نہیں؟ جب کہ ہمشیرہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنی ہمشیرہ کو بھی فون پر یہ کہا ”میں اسے فارغ کردوںگا“۔ نیز یہ بات بھی معلوم کرنی ہے کہ ان الفاظ میں نیت کا کیا اعتبار ہے کیوں کہ بہنوئی صاحب اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ان الفاظ کی ادائیگی سے میری طلاق دینے کی نیت نہیں تھی۔نیز جس وقت یہ بات ہورہی تھی اس موقع پر بہنوئی صاحب نے طلاق کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔

جواب: واضح رہے کہ ”میں نے اس کو فارغ کردیا“ ان الفاظ کنائی میں سے ہے جن کو اگر غصہ کی حالت میں کہا جائے تو اس سے طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے اگرچہ طلاق کی نیت نہ ہو۔ لہٰذا صورت مسﺅلہ میں جب آپ کے بہنوئی نے اپنی بیوی کو غصہ کی حالت میں کہا کہ ”میں نے اس کو فارغ کردیا“ تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔ اور طلاق بائن کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت کے اندر یا عدت گذر جانے کے بعد بیوی کی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتا ہے۔

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک آدمی اسکول میں ماسٹر ہے جس کی تنخواہ 20000ہزار ہے اب اس ماسٹر نے دوسرے ماسٹر سے دس ہزار روپیہ کا وعدہ کرلیا ہے یعنی دوسرا ماسٹر پہلے ماسٹر کی جگہ پر اسکول جائے گا اور بچوں کو پڑھائے گا جبکہ پہلا ماسٹر اسکول نہیں جاتا ہے اور جب تنخواہ لیتا ہے تو درمیان میں تقسیم کردیتا ہے اب یہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب: اسکول انتظامیہ نے پہلے ماسٹر کو جو ملازم رکھا ہے وہ شریعت کی اصطلاح میں ”اجیر خاص“ کے زمرے میں آتا ہے اور اجیر خاص کا حکم یہ ہے کہ وہ اس وقت اجرت کا مستحق ہوتا ہے جبکہ وہ معاہدے کے مطابق خود اپنا تمام وقت اسکول میں دے اس کو شرعاً اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ دوسرے شخص کے ساتھ ایسا عقد کرے۔ لہٰذا اگر وہ اپنی جگہ کسی دوسرے کو بھیج دے اور خود حاضر نہ ہو تو معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے نہ تو وہ خود اجرت کا مستحق ہوگا اور نہ ہی دوسرا ماسٹر اسکول انتظامیہ سے کچھ لینے کا مجاز ہوگا اور جو تنخواہ اب تک مذکورہ طریقہ پر اسکول انتظامیہ سے حاصل کی گئی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ تنخواہ دوبارہ اسکول انتظامیہ کو لوٹا دے۔ اور پہلے ماسٹر نے اسکول انتظامیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جو دوسرے ماسٹر کو تنخواہ پر رکھا ہے یہ شریعت کی اصطلاح میں اجارہ فاسدہ کے زمرے میں آتا ہے اور اجارہ فاسدہ کی صورت میں ”اجرت مثل“ لازم ہوتی ہے نہ کہ مقررہ اجرت اور اجرت مثل معروف اجرت کو کہتے ہیں یعنی اس قسم کے ماسٹر کو اتنے وقت کی عام طور پر جتنی اجرت دی جاتی ہے۔ اتنی اجرت پہلے ماسٹر پر دوسرے ماسٹر کی لازم ہوگی۔

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ امریکہ کے ٹینک اور جنگی گاڑیاں امریکہ سے کراچی ‘ پھر کراچی سے افغانستان کو منتقل کی جاتی ہیں اور پھر وہاں مسلمانوں کے خلاف استعمال کی جاتی ہیں اب پوچھنا یہ ہے کہ ڈرائیوروں کا جو کرایہ ہوتا ہے وہ ان کے لیے جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر وہی ٹینک وغیرہ کراچی سے لاہور منتقل ہوجائےں اور لاہور میں ہی رہ جائیں تو پھر ان ڈرائیوروں کے لیے وہ کرایہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب: جس صورت میں یہ غالب گمان ہو کہ ٹینک اور جنگی گاڑیاں وغیرہ مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوں گی تو اس صورت میں ان کا ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا اور اس کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کرنا کفار کی ظالمانہ کاروائیوں میں ان کی مدد اور تعاون کرنا ہے، جو کہ جائز نہیں ہے لہٰذا اس کام کی اجرت لینا بھی جائز نہیں۔

سوال: میں ایک اسکول چلا رہا ہوں اس اسکول میں ایک عورت سامان بیچتی ہے جس سے میں کرایہ کے طور پر روزانہ 10روپے لیتا ہوں۔ یہ 10روپے میرے لیے حلال ہیں؟

جواب: مسئلہ مذکورہ میں آپ کا اس عورت سے کرایہ کے طور پر روزانہ 10روپے لینا جائز ہے۔

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام، مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جہاد فرض ہونے کی صورت میں مندرجہ ذیل امور کے لیے اپنا مال خرچ کرنا کیسا ہے؟ جبکہ اس بات کا قطعی علم ہو کہ محاذ پر مجاہدین کو مال و اسباب کی اشد ضرورت ہے۔ بیوہ بہن اور یتیم بچوں کے گھر کی خوراک مستقل بنیادوں پر اٹھانا، وہاں پر زیادہ خرچ کرنا اور فرض جہاد کے مصارف میں کم خرچ کرنا۔ کیا اس سلسلے کو اسی طرح جاری رکھا جائے یا جہاد میں زیادہ دیا جائے اور وہاں پر کم یا دونوں جگہ پر برابر یا تمام کا تمام فرض جہاد کے لیے وقف کیا جائے۔

جواب: جس وقت جہاد فرض ہوجائے اور مجاہدین کو محاذ پر مال و اسباب کی اشد ضرورت ہو تو حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ بیت المال سے اس کا بندوبست کرے اور اگر بیت المال میں اتنا مال موجود نہ ہو تو حکومت رعایہ میں سے اصحاب ثروت کے ذمہ ان کی حیثیت کے مطابق اس کا انتظام لازم کرسکتی ہے۔ البتہ جن لوگوں پر ریاست لازم نہ کرے ان کے لیے بھی یہ مناسب ہے کہ بھرپور مالی اور جانی تعاون کریں ۔ لیکن یہ ہر قسم کا تعاون اس بچے ہوئے مال سے کیا جائے گا جو نفقاتِ واجبہ ادا کرنے کے بعد رہ جائے۔ اور صورت مسﺅلہ میںبیوہ بہن کا نان نفقہ اس کے والدین کی عدم موجودگی یا صاحب حیثیت نہ ہونے کی صورت میں حقیقی بھائی پر لازم ہے۔ جہاں تک اس بیوہ بہن کے یتیم بچوں کا تعلق ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ اگر ان بچوں کی ملکیت میں کچھ مال ہے تو ان کے مال میں سے ان کا نا ن نفقہ ہوگا اور اگر نہیں تو پھر اگر ان کے دادا یا چچا موجود ہیں تو انہی پر ان کا نفقہ لازم ہوگا لیکن اس صورت میں ماموں کے لیے ان کا نفقہ اٹھانا باعث اجر و ثواب ہوگا، اور اگر دادا اور چچا بھی نہیں تو ان کا نان نفقہ ان بچوں کے ماموں پر لازم ہے۔ لہٰذا متوسط نان نفقہ کے فرض کی ادائیگی کے بعد جو مال بچ جائے اسے جہاد کے مصارف میں دے سکتا ہے۔

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے دس سال پہلے کسی دوسرے شخص کو کچھ پیسے ادھار دیئے مثلاً دس ہزار روپے۔ اب دس سال بعد اس ملک کی کرنسی کی قیمت بڑھ گئی تو اب اس صورت میں موجودہ زمانے کے لحاظ سے قیمت بڑھا کر دے گا یا دس سال سے پہلے کے لحاظ سے وہ قیمت دس ہزار ہی ادا کرے گا۔ اگر اس شخص نے دس سال پہلے افغانستان کی کرنسی کے پیسے دس ہزار روپے دوسرے شخص کو ادھار دیئے تھے اور اب دس سال بعد وہ دونوں پاکستان میں ہیں اور قرض دینے والا شخص تقاضا کررہا ہے ادھار ادا کرنے کا تو اب اس صورت میں کس کرنسی کا اعتبار کیا جائے گا اور کس طرح اس کو پیسے ادا کئے جائیں گے۔

جواب: (۱)دس برس قبل جتنی رقم جس ملک کی کرنسی میں قرض لی تھی اتنی ہی رقم اسی ملک کی کرنسی میں ادا کرنا ضروری ہے، کرنسی کی قیمت کے بڑھنے یا کم ہونے کی وجہ سے رقم کی مقدار میں اضافہ کرنا سود شمار ہوکر حرام ہوگا۔(۲) صورت مسﺅلہ میں مقروض پر دس ہزار افغانی روپے یا ان کی موجودہ قیمت ہی ادا کرنا لازم ہے۔

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری عمر تقریباً ۰۶ سال ہے اور میری بیوی کی عمر ۴۵ سال ہے ہماری کوئی اولاد نہیں اور عدم اولاد کی وجہ سے اکثر لڑائی جھگڑا رہتا ہے زندگی گزارنا بہت مشکل ہے تو کیا ہم ایدھی سینٹر سے بچہ لے سکتے ہیں جو کہ اکثر و غالباً ناجائز اولاد ہوتے ہیں کیا شرعاً ایسا کرنا صحیح ہے؟

ہم اس بچے کی پرورش ایسے ہی کریں گے جیسے اپنی اولاد کی اور جو پردے کے احکامات ہوں گے ان پر بھی پابند رہیں گے اور بچے کی نسبت اس بچے کے حقیقی باپ ہی کی طرف ہوگی جو نامعلوم ہے وراثت کے حوالے سے بھی شرعی احکام پر عمل کیا جائے گا۔براہ کرم اس مسئلہ کا تسلی بخش جواب ممنون فرمائیں۔

جواب: اگر آپ ان تمام شرعی حدود کی رعایت کریں گے جن کا آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے تو مذکورہ صورت میں بچہ گود لینا جائز اور باعث اجرو ثواب ہے۔

سوال: (۱) یہ ہے کہ زید اپنی دو جریب زمین بطور اجارہ بیس ہزار کے عوض ایک سال کے لیے بکر کو دیدیتا ہے۔ زید بکر سے کہتا ہے چاہے تو اس زمین سے نفع حاصل کرلے یا نقصان اس کا ذمہ دار تو خود ہوگا تاریخ مقررہ پر میں اپنی زمین واپس لوں گا۔ کیا اس طرح کرنا صحیح ہے یا نہیں؟

(۲) زید نے اپنی پانچ جریب زمین پانچ ہزار کے عوض گروی کے طور پر بکر کو دے دی جس وقت زید پانچ ہزار واپس کرنے پر قادر ہوگا تو زمین ملے گی ورنہ زمین بکر کے زیر استعمال رہے گی کیا اس طرح کرنا شریعت کی روشنی میں درست ہے یا نہیں وضاحت فرمائیں۔

جواب: (۱) صورت مسﺅلہ میں اس طرح زمین اجارہ پر دینا جائز ہے۔

(۲) صورت مسﺅلہ میں زمین کا اس طرح سے گروی رکھنا جائز نہیں ہے۔ البتہ زمین کو اس طرح سے گروی رکھا جاسکتا ہے کہ مرتھن یعنی جس کے پاس زمین گروی رکھی گئی وہ اس سے کسی قسم کا تصرف نہیں کرے۔ بلکہ صرف اپنے قبضہ میں رکھے۔
Flag Counter