Deobandi Books

ماہنامہ الابرار مارچ 2010

ہ رسالہ

12 - 15
صراطِ مستقیم
ایف جے،وائی(March 17, 2010)

ملفوظات حضرت پھولپوریؒ مرتب شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

(گذشتہ سے پیوستہ)

حضرت شاہ عبدالقادر صاحب دہلویؒ نے اس مقام پر ہر ایک جماعت منعم علیہم کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ نبی وہ لوگ ہیں جن کو اﷲ کی طرف سے وحی آوے یعنی فرشتہ ظاہر میں پیغام کہہ جاوے اور صدیق وہ ہے کہ جو وحی میں آئے ان کا جی آپ ہی اس پر گواہی دے اور شہید وہ ہے جن کو پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم پر ایسا صدق آیا کہ اس پر جان دیتے ہیں اور نیک بخت وہ جن کی طبیعت نیکی ہی پر پیدا ہوئی ہے۔

ان انعام والے بندوں کو اﷲ تعالیٰ کا انعام دے دینا دنیا و مافیہا کی سلطنت سے مستغنی رکھتا ہے ان کی تبلیغ اور دعوتِ الی اﷲ بدون معاوضہ ہوتی ہے۔

بدون اجرت ہر نبی کا اپنی قوم کو تمام عمر تبلیغ کرنا اور ان کا قوم کی طرف سے طرح طرح کی ایذا رسانیوں پر صبر جمیل کا پہاڑ ہونا یہ خود پتہ دیتا ہے کہ ان کے باطن میں کوئی نعمت عظیمہ ہوتی ہے جو ان کو اجرت سے مستغنی کردیتی ہے اور تکلیف پر صبر جمیل کا پہاڑ بنا ئے رکھتی ہے۔ اﷲ والوں کی طرف سے دعوت الی اﷲ اور اہل شر کی طرف سے مسلسل فتنہ پردازی کے متعلق مولانا رومیؒ عجیب عبرت ناک مضمون بیان فرماتے ہیں

زاغ در رز نعرہ زاغاں زند

بلبل از آواز او کے کم کند

کوا میدان میں اپنی آواز غالب کرنا چاہتا ہے لیکن بلبل اس کی آواز مکروہ سے اپنی خوش آوازی ترک نہیں کرتی ہے، اسی طرح دین کے مخالفین کی مکروہ شورشوں سے اہل حق نے اپنا تبلیغی کام بند نہیں کیا ہے۔

گر پلیدی پیش مارسوا بود

خوک و سگ را شکر و حلوا بود

اگرچہ ہمارے نزدیک یعنی اہل حق کے نزدیک پلیدی یعنی بددینی رسوا ہے یعنی بری ہے لیکن خنزیر طبع اور سگ خصلت اشخاص کے لیے بد دینی ہی حلوا ہے۔

نُقل خارستان غذائے آتش است

بوئے گل قوت دماغ سرخوش است

خارزار درخت آگ کی خوراک ہوتے ہیں اور پھول کی خوشبو پاکیزہ دماغ کی غذا ہوتی ہے یعنی اہل حق کے دینی کارناموں میں رخنہ اندازی اہل نارکا شیوہ ہوتا ہے اور اہل اﷲ کے باطنی پھول یعنی نسبت مع اﷲ کے فیوض و برکات کی خوشبو پاکیزہ طبائع کی غذا ہوتی ہے۔

صراط مستقیم یعنی دین کا راستہ اﷲ والوں کی صحبت کے بدون ملنا محال ہے۔ اور یہ دعویٰ ہمارا نہیں ہے قرآن کا دعویٰ ہے سورہ فاتحہ میں صراط مستقیم کی حق تعالیٰ نے جو تفسیر فرمائی ہے اسی کے اندر یہ دعویٰ موجود ہے کیونکہ صراط الذین انعمت علیہم‘ صراط مستقیم کا بدل ہے اور بقاعدہ نحو مقصود بدل ہی ہوا کرتا ہے، درخواست ہی میں بتادیا کہ تم جو سیدھا راستہ مجھ سے طلب کرتے ہو تو وہ سیدھا راستہ ہمارے انعام یافتہ بندوں کا راستہ ہے صراط الذین انعمت علیہم۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے اور ایک جگہ حق تعالیٰ نے اسی مضمون کو اور موکد فرمایا ہے فرماتے ہیں واتبع سبیل من اناب الی جو بندے کہ میری طرف متوجہ ہیں ان کا راستہ اختیار کرو ظاہر ہے کہ اﷲ کی طرف متوجہ رہنے والے اور رجوع کرنے والے اﷲ والے ہی ہوتے ہیں۔ بندہ اﷲ والوں ہی کے ذریعے اﷲ کے دربار میں پہنچتا ہے۔ راستے کی سیدھائی راہبر کی سیدھائی پر موقوف ہے اور راستے کی کجی راہبر کی کجی سے ہوتی ہے۔ ایک ناواقف مسافر جب اسٹیشن پر اترتا ہے تو اپنا سامان ہر مدعی راہبر کے حوالے نہیں کرتا ہے وہ فوراً قلی کی تلاش میں لگ جاتا ہے قلی کی خاص وردی دیکھ لینے پر بھی مطمئن نہیں ہوتا جب تک قلی کے بازو پر سرکاری نمبر نہیں دیکھ لیتا اور جب اس نمبر کو محفوظ کرلیتا ہے تب اس کی اقتداءکرتا ہے ،سارا سامان اس کے حوالے کرکے اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہے منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ دنیا کے نمونے آخرت کے لیے نمونہ عبرت ہےں۔ جب دنیا کا سامان بدون قلی کا نمبر معلوم کئے ہوئے اس کے حوالہ نہیں کرتے ہیں تو دین ہی کیا ایک ایسا سستا سودا ہے جو ہرکس و ناکس کے سپرد کردیا جائے۔ مولانا فرماتے ہیں

اے بسا ابلیس آدم روئے ہست

پس بہر دستے نباید داد دست

مولانا فرماتے ہیں کہ اے لوگو بہت سے ابلیس آدمی کی صورت میں پھرتے ہیں، پس ان ابلیس خصلت انسانوں کے ہاتھ میں اپنا دین مت سونپ دینا۔ حق تعالیٰ شانہ نے صراط مستقیم فرمانے کے بعد ان افراد کی علامت بھی بیان فرمادی جن کے ذریعہ سے صراطِ مستقیم پر چلنا نصیب ہوتا ہے صراط الذین انعمت علیہم سے اہل اﷲ کی صحبت اختیار کرنے پر اس قدر قوی استدلال ہے جس کا انکارردالنصوص کے مترادف ہے۔ انعام پانے والے بندے سیدھے راستے پر چل کر دربار سے انعام حاصل کرچکے ہیں وہ دربار تک پہنچے ہیں تمہیں بھی دربار تک پہنچادیں گے۔ دربار تک پہنچا ہوا بندہ محقق ہوتا ہے اس کی بات میں یقین کا نور ہوتا ہے جو سامع کے دل کو متاثر کردیتا ہے۔ برعکس اناڑی جو خود راستہ طے نہیں کئے ہوئے ہے اس کی بات میں یقین کا اثر نہیں ہوتا ہے جو کچھ بزرگوں کی کتابوں سے علوم اور معارف چرا کر بیان بھی کرتا ہے تو وہ باتیں اس کی زبان سے بہکی بہکی سی معلوم ہوتی ہیں کیونکہ وہ خود ان باتوں کی لذت سے نا آشنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے امرتی کبھی نہ کھائی ہو اور وہ کسی کتاب سے پڑھ کر یا کسی امرتی کھانے والے سے سن کر امرتی کی لذت کو بیان کرے تو اس کے چہرے اور لب و لہجہ سے امرتی کی لذت کا درجہ حال اور درجہ یقین ظاہر نہ ہوگا۔ ہمارے خواجہ صاحب فرماتے ہیں

یک نظر میں آشیاں گم گشتہ کو

بھانپ لیں ہم ہئیت پرواز سے

دوسری مثال غیر محقق کی یہ ہے کہ جیسے ایک شخص جغرافیہ کا نقشہ دیکھ کر امریکہ کا راستہ کسی کو سمجھا رہا ہو اور دوسرا شخص جو امریکہ کو خود آنکھوں سے دیکھ آیا ہو اور وہ کسی کو امریکہ کا راستہ سمجھا رہا ہو دونوں کی باتوں میں اور لب و لہجے میں اور طرز تقریر میں باعتبار کیفیت اور حالت اور یقین کے زمین اور آسمان کا فرق محسوس ہوگا۔ انہیں دونوں مثالوں سے محقق پیر اور اناڑی پیر کا فرق سمجھ لینا چاہیے

چراغ مردہ کجا شمع آفتاب کجا

حق تعالیٰ نے انعام یافتہ بندوں کی جو تفسیر پانچویں پارے میں ارشاد فرمائی ہے اس میں ان کی علامات بھی موجود ہیں یعنی نبوت صدیقیت شہادت اور صلاحیت کی جن بندوں پر سرکاری مہریں لگی ہوئی ہیں انہیں سے سیدھا راستہ حاصل ہوگا۔ نبی کی نبوت صدیق کی صدیقیت شہداءکی شہادت صالحین کی صلاحیت پتہ دیتی ہے کہ یہ حضرات انعامات سے نوازے گئے ہیں اور ان نعمتوں کو انعام فرماکر عجیب بات بتادی کہ دنیا کے تمام خزانے ایک طرف اور ہمارے یہ انعامات ایک طرف۔ دنیا اور دنیا کی تمام نعمتیں ان انعامات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں کیونکہ دنیا کی نعمتوں کو حق تعالیٰ نے متاع غرور فرمایا ہے ان کو انعام نہیں فرمایا ہے، دنیا کی دولت و سلطنت دھوکے کی پونجی ہے۔

انعام نبوت کے بعد انعام صدیقیت کا درجہ ہے۔ حضرت مولانا اسماعیل صاحب شہیدؒ نے فرمایا تھا کہ صدیق آئینہ نبوت ہوتا ہے نبیین‘ صدیقین‘ شہداءاور صالحین کے ساتھ رفاقت سے صراط مستقیم یعنی سیدھا راستہ ملتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان حضرات کے متعلق و حسن اولئک رفیقا فرمایا ہے اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔ ان انعام پانے والے بندوں کو حق تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں تو یہ محض خبر دینا نہیں ہے بلکہ اس خبر سے مقصود یہ ہے کہ ان کو اپنا رفیق بنالو، ہم فرما رہے ہیں کہ یہ بہت اچھے ساتھی ہیں تم اپنی سمجھ سے نہ جانے کس بدترین کو اپنا ہمقرین بنالو۔

اسی کو حضرت عارف فرماتے ہیں

مہر پاکاں درمیان جاں نشاں

دل مدہ الا بمہر دل خوشاں

پاک بندوں کی محبت کو اپنی جان میں پیوست کرلو خبردار دل کسی کو مت دینا مگر ان کو جن کے دل اﷲ کی محبت سے اچھے ہوگئے ہیں الاّمن اتی اﷲ بقلب سلیم قلب سلیم کا ترجمہ حضرت مرشدیؒ نے پاک دل فرمایا ہے۔ پاک بندوں کے سینوں میں پاک دل ہوتا ہے۔ حضرت فرید الدین عطارؒ فرماتے ہیں

بے رفیقے ہر کہ شد در راہِ عشق

عمر بگذشت و نشد آگاہ عشق

بے رفیق یعنی رہبر کے بغیر جس نے عشق کے راستے میں قدم رکھا اس کی عمر گزر گئی اور عشق سے آگاہ نہ ہوا۔

رفیق کا لفظ قرآن میں موجود ہے بزرگان دین بڑے پتے کی بات کہتے ہیں ان کی سب باتیں قرآن و حدیث ہی سے ماخوذ ہوتی ہے مگر علماءظاہر کی نگاہ وہاں تک رسا نہیں ہوتی ہے۔ مفسرین نے و حسن اولٰئک رفیقا میں رفاقت سے رفاقت فی الآخرة مراد لیا ہے۔ لیکن وہ رفاقت فی الآخرہ دنیا ہی کی رفاقت کا ثمرہ ہوگی جس نے دنیا میں ان پاک بندوں کو اپنا رفیق نہ بنایا ہوگا اس کو وہاں بھی ان حضرات کا ساتھ نصیب نہ ہوگا۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter