Deobandi Books

ماہنامہ الابرار مارچ 2010

ہ رسالہ

10 - 15
عظمتِ صحابہؓ
ایف جے،وائی(March 17, 2010)

عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کا یہ بیان
۳ دسمبر ۲۹۹۱ئ، ڈھاکہ بنگلہ دیش میں ہوا۔ (ادارہ )

اَلحَمدُ ِﷲِ وَکَفٰی وَسَلاَ م عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِینَ اصطَفٰی اَمَّابَعدُ

فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ بِسمِ اﷲِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

یٰاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ

وَقَالَ تَعَالٰی وَالَّذِینَ جَاھَدُوا فِینَا لَنَھدِیَنَّھُم سُبُلَنَا وَاِنَّ اﷲَ

لَمَعَ المُحسِنِینَ وَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ

اَلمَراُ عَلٰی دِینِ خَلِیلِہ فَلیَنظُراَحَدُکُم مَن یُّخَالِلُ

مولانا شاہ محمد احمد صاحب ہمارے وہ بزرگ ہیں کہ میں جب بالغ ہوا تو ان کی صحبت میں مجھے تین سال الٰہ آباد میں رہنا نصیب ہوا اور الحمدُللہ ہمارے اکابر نے ان کی بہت تعریف کی ہے، میرے شیخِ اوّل شاہ عبدالغنی صاحب رحمة اﷲ علیہ اور موجودہ شیخ شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم ان سے بے حد محبت فرماتے تھے اور ان کی بہت تعریف کرتے تھے۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب نے ایک مرتبہ علمائے ندوہ سے خطاب فرمایا، اُن کے اِس قول کو میرے شیخ شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے مدینہ پاک میں علماءکو سنایا اور میں آپ حضرات کو ڈھاکہ میں سنا رہا ہوں، جو مال میں نے اپنے شیخ سے مدینہ پاک میں حاصل کیا وہ مال بِلا محنت و مشقت آپ کو یہیں مفت میں دے رہا ہوں۔

حضرت مولاناشاہ محمد احمد صاحب نے علماءندوہ سے خطاب فرمایا کہ اے علماءندوہ! شریعت نے نظر لگ جانے کو تسلیم کیا ہے اَلعَینُ حَقّ اور اس کی جھاڑ پھونک کرنے کی اجازت بھی دی ہے چنانچہ اولاد ِ جعفر کو نظر لگ جایا کرتی تھی لِحُسنِ صُورَتِہ وَ لِحُسنِ سِیرَتِہ کیونکہ وہ صورتاً اور سیرتاً حسین تھے، ان کی والدہ نے سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ اولادِ جعفر کو نظر لگ جاتی ہے اَفَاَستَرقِی کیا مجھے جھاڑ پھونک کی اجازت ہے؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اجازت عطا فرمائی کہ قرآنِ پاک یا حدیثِ پاک سے جو کلمات ثابت ہوں ان سے جھاڑ پھونک کرسکتی ہو۔

دینی مجلس میں اونگھنا غفلت کی علامت ہے

(ایک صاحب بیان کے دوران اونگھنے لگے تو ارشاد فرمایا کہ)جو لوگ بیان سنتے وقت سو جاتے ہیں ان سے میں تین سوال کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے روزہ افطار کرتے وقت کبھی کسی کو سوتے دیکھا ہے؟ یا اُس وقت نظر دہی بڑے پر ہوتی ہے اور کان اللہ اکبر کی آواز پر لگے ہوتے ہیں، اس موقع پر میں نے آج تک کسی کو سوتے نہیں پایا لہٰذا اللہ تعالیٰ کی محبت کی باتیں سنتے وقت آنکھ بند کرنا اور سونے والے کی صورت بنانا صحیح نہیں ہے۔ نمبر دوجب شادی ہوتی ہے اور اُمید ہوتی ہے کہ بیوی آرہی ہے اس وقت بھی میں نے کسی جوان کو سوتے ہوئے نہیں پایا کہ بیوی آرہی ہو اور وہ کہے کہ بھئی ہم کو سخت نیند آرہی ہے۔ ایک شوہر اپنی بیوی کا انتظار کر رہا تھا کہ خبرآئی کہ ابھی تو پاﺅں میں مہندی لگی ہے، جب یہ خشک ہوگی پھر آئے گی تو شاعر کہتا ہے

آئی خبر کہ پاﺅں میں مہندی لگی ہے واں

بس خوں ٹپک پڑا نگہِ انتظار سے

تیسری بات کسی مہتمم صاحب کو یا مدرسہ کے کسی سفیر کو یا کسی عالم کو دس لاکھ ٹکہ چندہ مل گیا ہو تو پیسہ لیتے وقت اس کو نیند آتی ہے؟ یا ساری رقم گن کر ہی سانس لیتا ہے یعنی بغیر سانس لیے جلدی جلدی گنتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کی محبت اس سے کہیں زیادہ ہونی چاہیے، لہٰذا جب دین کی بات ہورہی ہو تو آنکھیں کھول کر سنو، صحابہ نے پیٹ پر پتھر باندھ کر دین کی بات سنی، بھوک و پیاس تومحبت میں اُڑ جانی چاہیے۔ اگر کسی کی بیوی کہیں دور چلی جائے یا بچے کہیں دور پڑھنے چلے جائیں تو نیندخراب ہوجاتی ہے اور وہ ہر وقت انہی کی یاد میں لگا رہتا ہے۔ اس دنیاوی محبت کے بارے میں مولانا رومی فرماتے ہیں

اے کہ صبرت نیست از فرزند و زن

صبر چوں داری ز رب ذوالمنن

اے دنیا والو ! تمہیں بیوی بچوں پر تو صبر نہیں آتا مگر اللہ تعالیٰ پر کیسے صبر آجاتا ہے؟ ذکر کیے بغیر کیسے نیند آجاتی ہے؟ آپ عشق کا سبق، درسِ محبت مچھلیوں سے سیکھئے، مچھلی جہاں بھی ہوگی وہاں پانی ضرور ہوگا، اگر بغیر پانی کے کہیں مچھلی نظر آئے تو سمجھ لو کہ مردہ ہے یہاں تک کہ اگر شہر میں بھی آپ کہیں مچھلیاں دیکھیںگے جیسے بعض دکان دار مچھلیاں رکھتے ہیں تو مچھلی رکھنے کے برتن میں پانی ضرور ہوگا، مومن کی شان بھی یہی ہے کہ جہاں بھی رہے اللہ تعالیٰ کی یاد میں رہے اور اﷲ کی محبت کا دریائے قرب اپنے ساتھ رکھے

جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں

کوئی محفل ہو ترا رنگِ محفل دیکھ لیتے ہیں

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینے کے بازار میں گندم خرید رہے تھے، اونٹ پر گندم لد رہا تھا اور حضرت عمر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمتِ رسالت پر تقریر فرما رہے تھے، یہ ہے عاشقوں کی شان

جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں

کوئی محفل ہو ترا رنگِ محفل دیکھ لیتے ہیں

اہل اللہ کی اچھی نظر لگنے کے ثمرات

تو مولانا شاہ محمد صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ اے علمائے ندوہ جب بری نظر لگ جاتی ہے اور اسلام اس کو تسلیم کرتا ہے تو کیا اللہ والوں کی اچھی نظر نہیں لگ سکتی؟ مرقاة شرح مشکوٰة کی عبارت ہے: فَکَیفَ نَظَرُ العَارِفِینَ الَّذِی یَجعَلُ الکَافِرَ مُومِنًا وَالفَاسِقَ وَلِیًّا وَالجَاھِلَ عَالِمًا وَالکَلبَ اِنسَانًا

بس مولانا کی یہ بات سن کر علمائے ندوہ مولانا سے بیعت ہوگئے یہاں تک کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ الٰہ آباد میں مصنف عبدالرزاق کا عربی حاشیہ اور تخریج لکھنے والے مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی مولانا شاہ محمد احمد صاحب سے دعا لینے آئے ہوئے ہیں حالانکہ مولانا بڑے عالم نہیں تھے۔ حضرت مولانا علی میاں ندوی کو بھی دیکھا پوچھا کیسے آئے؟ کہا مولانا سے دعا لینے آیاہوں۔ یہ ہے آہ و فغاں کا اثر، یہ ہے وہ راز کہ مولانا گنگوہی رحمة اللہ علیہ، مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ، حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اللہ علیہ علم کے یہ آفتاب و مہتاب سب کے سب حاجی صاحب کی خدمت میں بیعت ہوئے، سلوک طے کیا اور جب صاحبِ نسبت ہوگئے تو پھر ان کے نورِ نسبت سے سارا ہندوستان چمک گیا۔

میرے شیخ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے چشم دید واقعہ بیان فرمایا کہ جب حکیم الامت کانپور میں صدر مدرس تھے، تقریباً پچیس سال کی عمر تھی، حضرت کو اللہ تعالیٰ نے بنایا بھی حسین و جمیل تھا، حضرت نے تقریر فرماتے فرماتے ایک نعرہ مارا ہائے امدادُ اللہ اور بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ بعد میں ایک بیرسٹر نے جو فارسی داں بھی تھے حکیم الامت سے کہا کہ اگر آپ بیرسٹر ہوتے تو آپ کے دلائل سے جج اور عدالتیں لرزہ براندام ہوجاتیں، یہ علوم آپ کو کہاں سے حاصل ہوئے ؟ یہ سوال اس نے فارسی میں کیا

تو مکمل از کمالِ کیستی

تو مجمل از جمالِ کیستی

یہ کمال آپ کو کہاں سے نصیب ہوا؟ یہ جمال آپ کو کہاں سے عطا ہوا؟ حکیم الامت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے اس کوفارسی میں ہی جواب دیا

من مکمل از کمالِ حاجیم

من مجمل از جمالِ حاجیم

حاجی امداد اللہ صاحب کی صحبت اور ان کے فیض و برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو یہ کمال عطا فرمایا ہے، ہمارے دلوں میں شیخ کی جو نسبت منتقل ہوئی ہے اسی کی برکت سے آج امت میں ہمارا نام روشن ہورہا ہے، جو اپنے کو اﷲ کے لیے مٹاتا ہے اسی کو اﷲ چمکاتا ہے۔

تواضع کے معنیٰ اور اس کا طریق حصول

حدیثِ پاک ہے: مَن تَوَاضَعَ ِﷲِ رَفَعَہُ اﷲُ (مشکوٰة المصابیح،کتابُ الاداب، بابُ السلام)

حدیث کی بلاغت دیکھئے، علومِ نبوت خود دلیلِ نبوت ہیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مَن تَوَاضَعَ اور اس کی جزا کے درمیان ایک لفظ اور عطا فرمایا تاکہ ایسا نہ ہو کہ لوگ جزا یعنی بلندی کی لالچ میں تواضع کریں تو اخلاص نہیں رہے گا۔ اسی لیے مَن تَوَاضَعَ ِﷲِ فرمایا کہ اللہ کے لیے تواضع اختیار کرو اور تواضع بھی خود اختیار نہیں کرو بلکہ کسی اللہ والے سے تواضع سیکھو، کسی اﷲ والے کی جوتیاں سیدھی کرو پھر دیکھو اللہ کیوں نہیں ملتا۔

اﷲ کیسے ملتا ہے؟

شاہ عبد الغنی صاحب رحمة اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ مٹھائی ملتی ہے مٹھائی والوں سے، کپڑا ملتا ہے کپڑے والوں سے، امرود ملتا ہے امرود والوں سے، آم ملتا ہے آم والوں سے۔ آپ کسی کپڑے والے سے جاکر کہو کہ ایک کلو مٹھائی د ے دو تو وہ کیا کہے گا؟ دماغ کے ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہوجائیے، ڈاکٹر سے دماغ کا علاج کرائیے، آپ کپڑے کی دکان پر مٹھائی لینے آئے ہیں؟ اور اگر مٹھائی کی دکان پر جا کر کہو کہ پانچ گز کپڑا دے دو تو وہ بھی یہی کہے گا کہ ہاں جناب آپ بھی اسی (Category) کے آدمی ہیں، آپ بھی جائیے دماغ کے ہسپتال میں۔

تو شاہ عبد الغنی صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ آم، آم والوں سے، امرود، امرود والوںسے، کباب، کباب والوں سے، مٹھائی، مٹھائی والوں سے اور کپڑا کپڑے والوں سے ملتا ہے تو اللہ بھی اللہ والوں سے ملتا ہے۔ دنیامیں کوئی ولی اللہ ایسا نہیں گذرا جس نے کسی اللہ والے کی صحبت نہ اُٹھائی ہو جیسے دیسی آم لنگڑے آم کی پیوند کے بغیر لنگڑا آم نہیں بن سکتا، آپ دیسی آم کو لنگڑے آم سے متعلق ایک لاکھ کتابیں مع سند اور مصنفین کے نام کے ساتھ یاد کرادیںبلکہ سوانح مصنفین کا بھی حافظ بھی بنا دیں لیکن جب تک اسے لنگڑے آم کی قلم نہیں لگے گی اُس وقت تک دیسی آم لنگڑا آم نہیں بنے گا۔ میرے شیخ شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے جب میری اس مثال کو سنا تو ہنس کر فرمایا کہ دیسی آم لنگڑے آم کی صحبت اور قلم سے لنگڑا آم ہوتا ہے لیکن دیسی دل، غفلت کا مارا دل، حُبِّ جاہ اور دنیا کے مال کا مارا ہوا دل جب اللہ والوں کے دل سے پیوند کھاتا ہے تو لنگڑا دل نہیں بنتا، تگڑا دل بن جاتا ہے اور اس کے پاس جتنے بگڑے دل رہتے ہیں وہ بھی تگڑے دل بن جاتے ہیں۔ حضرت نے کیا عمدہ بات فرمائی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ سمجھیں کہ ہم اللہ والوں کے دل سے اپنا دل پیوند کریں گے تو کہیں ہمارا دل لنگڑا نہ ہوجائے۔ واہ رے شیخ! اس کو شیخ کہتے ہیں، فرمایا کہ اللہ والوں کے دل سے جب تمہارا دل پیوند ہوگا تو تگڑا دل بنے گا اور اتنا تگڑا ہوگا کہ سارا معاشرہ، سارا زمانہ آپ کو مرعوب نہیں کرسکتا ان شاءاللہ تعالیٰ اور آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ صاحب ہم زمانہ کے ہاتھوں مجبور ہوگئے تھے بلکہ اللہ والوں کی صحبت کے بعد وہ ایمان، وہ یقین عطاہوگا کہ آپ اہل ِ زمانہ سے ببانگِ دُہل یہ اعلان کریں گے

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

اہل اﷲ سے کیسا تعلق ہونا چاہیے؟

جو شخص معاشرے سے، سوسائٹی سے، حُبِّ مال سے، حُبِّ جاہ سے دب کر مسلک ِ اہل حق چھوڑ دے تو سمجھ لو کہ اس ظالم نے اہل ُاللہ کے دل سے صحیح طریقے سے پیوند کاری نہیں کی۔ ٹنڈو جام میں دیسی آم کو لنگڑا آم بنانے کا بہت بڑا ایگریکلچرل ڈیپارٹمنٹ ہے، وہاں میں نے سائنسدان طالبِ علموں سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے دیسی آم کی شاخ کو لنگڑے آم کی شاخ سے اتنا مضبوط کیوں باندھا ہوا ہے؟ اگر تھوڑی سی (Loosing ) ہو یعنی ڈھیلا ڈھالا تعلق ہو تو کیا حرج ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر دیسی آم کی شاخ میں اور لنگڑے آم کی شاخ میں ذرا سا بھی فاصلہ ہوگا، ذرا سا بھی فصل ہوگا اور مضبوطی کے ساتھ کس کر نہیں باندھیں گے تو اس فصل کی وجہ سے، اس جدائی اور ڈھیلے پن کی وجہ سے لنگڑے آم کی سیرت، صورت اور خاصیت دیسی آم میں منتقل نہیں ہوگی۔ یہ ہے راز کُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ کا کہ اپنے شیخ سے جتنا زیادہ تعلق ہوگا اتنا ہی فیض منتقل ہوگا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شیخ اور مربی کی محبت و تعلق کو تین جملوں سے سکھا دیا، ان کا یہ سبق قیامت تک کے لیے درسِ محبت اور درسِ ادب ہے۔ ہر شخص اپنے شیخ اور مربی کے بارے میں اس سے سبق لے سکتا ہے۔ سرور ِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر مجھ کو ساری دنیا میں تین چیزیں محبوب ہیں نمبر۱۔ خوشبو، نمبر۲۔نیک بیوی، نمبر۳۔ قُرَّةُ عَینِی الصَّلٰوةُ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔ جب میں سجدہ میں سر رکھتا ہوں

کیا کہوں قربِ سجدہ کا عالم

یہ زمیں جیسے ہے آسماں میں

اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ پاک سے تعلق کی لذت

حضرت شاہ فضلِ رحمن صاحب گنج مراد آبادی رحمة اللہ علیہ نے حکیم الامت رحمة اللہ علیہ سے فرمایا کہ مولوی اشرف علی تم میرے خاص ہو اس لیے بتاتا ہوں کہ جب فضلِ رحمن سجدے میں سر رکھتا ہے تو اتنا مزہ آتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے میرا پیار لے لیا ہو اور فرمایا کہ ان شاءاللہ تعالیٰ جب میں جنت میں جاﺅں گا تو وہاں بھی تلاوت کرتا رہوں گا، جب حوریں آئیں گی کہ میاں ذرا ہماری طرف بھی توجہ کرو تو ان سے کہوں گا کہ بیبیو! اگر اللہ تعالیٰ کا کلام سننا ہے تو تشریف رکھو ورنہ اپنا راستہ لو۔ اور ہم لوگوں کے دل میں کیا ہے وہ بھی سنائے دیتا ہوں کہ خدا کے عاشقوں کا تو یہ مقام ہے جبکہ ہمارے یہ جذبات ہیں

دنیا سے مر کے جب تم جنت کی طرف جانا

اے عاشقانِ صورت! حوروں سے لپٹ جانا

حدیث کلمینی یا حمیرا کی تشریح از مولانا گنگوہی

تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے، اسی وجہ سے تہجد میں آپ اتنا طویل قیام فرماتے تھے کہ پاﺅں میں سوجن آجاتی تھی، ایک رکعت میں کئی کئی پارے پڑھتے تھے، اسی وجہ سے آپ کی روحِ مبارک تہجد کے وقت اس اونچے مقام پر پہنچتی تھی کہ عرشِ اعظم کا طواف کرتی تھی اور جب فجر کا وقت قریب ہوتا تو آپ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرماتے تھے کَلِّمِینِی یَاحُمَیرًا اے حمیرا مجھ سے باتیں کرو۔ مولانا گنگوہی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کی یہ گفتگو بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایسی نہیں تھی جیسی ہم لوگ اپنی بیویوں سے بہ تقاضائے بشریت کرتے ہیں بلکہ بہ تقاضائے عظمتِ الوہیت عرشِ اعظم کا طواف کرتی ہوئی اپنی روحِ مبارک کو آپ مسجدِ نبوی کے مصلیٰ پر اتارنے کے لیے یہ گفتگو فرماتے تھے تاکہ فجر کی امامت کا حق ادا ہوسکے ورنہ اگر روحِ مبارک عرشِ اعظم کا طواف کرتی رہتی تو آپ فجر کی نماز پڑھانے پر قادر نہ ہوتے

نمودِ جلوہ بے رنگ سے ہوش اس قدر گم ہیں

کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

درود شریف سے پہلے استغفار پڑھنے کی حکمت

حضرت مولانا گنگوہی سے ایک شخص نے سوال کیا کہ میں پہلے درود شریف پڑھا کروں یا پہلے استغفار کروں؟ آپ نے فرمایا کہ تم پہلے کپڑے دھوکر بعد میں عطر لگاتے ہو یا پہلے عطر لگا کر پھر کپڑے دھوتے ہو؟ اس نے کہا کہ پہلے کپڑے دھوتے ہیں پھر عطر لگاتے ہیں تو فرمایا کہ پہلے استغفار اور توبہ کرکے اپنی روح کو نجاستِ معصیت سے پاک صاف کرلو پھر درود شریف کاعطر لگایا کرو۔ یہ ہیں علوم ہمارے اکابر کے ھٰوُلاَئِ اٰبَائِی فَجِئنِی بِمِثلِھِم یہ جواب میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمة اﷲ علیہ نے نیوٹاﺅن کی مسجد میں مولانا یوسف بنوری رحمة اﷲ علیہ کے سوال پر دیا تھا، اختر بھی اس وقت موجود تھا اور شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم بھی موجود تھے، بڑے بڑے علماءحاضر تھے کیونکہ میرے شیخ نے جن سے حدیث پڑھی تھی انہوں نے حضرت گنگوہی رحمة اﷲ علیہ سے حدیث پڑھی تھی۔ اس لیے میں مولانا گنگوہی کی بات دو واسطوں سے آپ کو نقل کر رہا ہوں، اختر اپنے شیخ شاہ عبد الغنی رحمة اﷲ علیہ سے روایت کرتا ہے اور میرے شیخ اپنے استاد مولانا ماجد علی جونپوری سے روایت فرماتے تھے اور وہ روایت کرتے تھے مولانا گنگوہی سے۔ مولانا گنگوہی کی بات پر یہ بات یاد آگئی۔

شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمة اﷲ علیہ کے والد مولانا یحییٰ صاحب رحمة اﷲ علیہ حضرت گنگوہی رحمة اﷲ علیہ سے بیعت تھے اور ایسے محبوب مرید تھے کہ ایک مرتبہ حضرت گنگوہی سے کہہ کر گئے کہ مغرب تک آجاﺅں گا لیکن جب مغرب تک نہیں آئے تو مغرب پڑھ کر حضرت گنگوہی اپنے صحن میں ان کی یاد میں روتے ہوئے یہ شعر پڑھتے رہے

مت آئیو او وعدہ فراموش تو اب بھی

جس طرح سے دن گذرا ، گذر جائے گی شب بھی

یہ ہیں اللہ والے جو اپنے شاگردوں سے اس طرح سے محبت کرتے تھے کہ پریشانی میں ٹہل رہے ہیں اور یہ شعر پڑھ رہے ہیں

مت آئیو او وعدہ فراموش تو اب بھی

جس طرح سے دن گذرا ، گذر جائے گی شب بھی

اﷲ تعالیٰ نے علماءکو اہل ذکر کیوں فرمایا؟

مولانا ماجد علی جونپوری مولانا یحییٰ صاحب کے ساتھ پڑھتے تھے، مولانا یحییٰ نے بارہا کہاکہ مولوی ماجد علی بخاری شریف کی روح تم کو تب ملے گی اور تم صحیح عالم تب بنو گے جب کسی اللہ والے سے بیعت ہوجاﺅ گے اور اللہ اللہ بھی کرو گے کیونکہ علماءکو اللہ تعالیٰ نے اہلِ ذکر سے خطاب فرمایا ہے: فَاسئَلُوا اَھلَ الذِّکرِ اِن کُنتُم لاَ تَعلَمُونَ (سورةُ النَّحل، اٰیة:۳۴)

اے دنیا والو! اگر تم بے علم ہو تو علماءجن کو میں اہلِ ذکر سے تعبیر کر رہا ہوں ان سے سوال کر لیا کرو۔ شاہ عبد الغنی صاحب فرماتے ہیں کہ علماءکو اللہ تعالیٰ نے اہلِ ذکر فرمایا ہے، اگر ہم مولوی لوگ بھی خدا کی یاد میں کمی کریں تو بتاﺅ اس آیت کی نعمت کی ناشکری ہے یا نہیں؟

دوستی کا اصل حق

مولانا ماجد علی جونپوری کو تصوف سے اور مرید ہونے سے مناسبت نہیں تھی لیکن واہ اس کو کہتے ہیں دوست! جب مولانا یحییٰ نے دیکھا کہ یہ آزادی چاہتا ہے اور کسی اللہ والے کے ہاتھ پر اپنے کو نہیں بیچ رہا ہے تو سوچا کہ یہ ظالم محروم رہے گا کہ ایک قطب العالم، محدثِ عظیم، اپنے وقت کے اتنے بڑے فقیہ کہ اگر دعوی اجتہاد فرماتے تو نباہ دیتے، یہ قول حکیم الامت تھانوی کا ہے۔ تو مولانا یحییٰ نے مولانا ماجد علی جونپوری کو مرید کرنے کی ایک ترکیب نکالی، ایک دن مولانا گنگوہی نے بخاری شریف پڑھاتے ہوئے درمیان میں وقفہ فرمایا تو مولانا یحییٰ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت آپ مولوی ماجد علی کو بیعت فرما لیجیے، ذرا عنوان دیکھیے، یہ نہیں کہا کہ مولوی ماجد علی بیعت ہونا چاہتے ہیں یہ تو جھوٹ ہوجاتا اس لیے یہ فرمایا کہ آپ مولوی ماجد علی کو بیعت فرما لیں۔ مولانا گنگوہی سمجھے کہ مولوی ماجد علی نے انہیں وکیل بنایا ہے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا، اب اتنا بڑا شیخ، قطب العالم، محدثِ عظیم اپنے شاگرد کی طرف ہاتھ بڑھائے تو وہ شاگرد کتنا نالائق ہوگا جو ہاتھ کھینچ کر کہہ دے کہ میں بیعت نہیں ہونا چاہتا لہٰذا انہوں نے بھی فوراً ہاتھ بڑھایا اور بیعت ہوگئے۔ میرے مرشدِ اوّل شاہ عبد الغنی صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ساری زندگی مولانا ماجد علی جونپوری مولانا یحییٰ صاحب کو شکریہ کا خط لکھتے رہے کہ مولانا یحییٰ تمھارا مجھ پر اتنا بڑا احسان ہے جس کا بدلہ خدا ہی قیامت کے دن تمہیں عطا فرمائے گا کہ مجھ جیسے نالائق کو تم نے مولانا گنگوہی کے ہاتھ پر بیعت کراکے اتنے بڑے قطب العالم کے سلسلے میں داخل کردیا، اگر تم مجھ پر یہ مہربانی نہ کرتے تو میں محروم رہ جاتا۔

چھینک آنے پر الحمدﷲ کہنے کی حکمت

میرے شیخ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ مولانا گنگوہی نے طلباءسے دریافت فرمایا کہ جب چھینک آتی ہے تو شریعت نے الحمد للہ کہنے کا حکم کیوں دیا؟ طلباءنے کہا حضرت ! محدثینِ کرام نے لکھا ہے کہ بخاراتِ ردِّیہ جو دماغ میں ہوتے ہیں چھینک آنے سے نکل جاتے ہیں، خروجِ بخاراتِ ردِّیہ سے دماغ کو آرام ملتا ہے اس لیے الحمد ﷲ کہہ کر اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ حضرت گنگوہی نے فرمایا کہ ایک جواب اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو یہ عطا فرمایا کہ چھینکتے وقت انسان کی شکل بگڑ جاتی ہے اور ایسی بگڑتی ہے کہ اگر خدا چھینک کو وہیں روک دے اور پچھلی شکل پر اس کو واپس نہ لائے تو اسے کوئی نہیں پہچان سکتا یہاں تک کہ بیوی بھی گھر میں نہیں گھسنے دے گی کہ یہ کون جانور آرہا ہے تو چھینکنے کے بعد الحمد ﷲ کہنا اسی بات کا شکریہ ہے کہ یا اللہ میری شکل جو بگڑگئی تھی آپ نے دوبارہ اسے درست فرما دیا۔ اُولٰئِکَ اٰبَائِی فَجِئنِی بِمِثلِہِم یہ ہیں ہمارے باپ داداﺅں کے علوم!

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی غشی کی وجد آفریں توجیہ

مولانا گنگوہی نے فرمایا کہ جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر اِقرَا بِاسمِ رَبِّکَ نازل ہوئی اور جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے معانقہ کیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو تھوڑی دیر کے لیے غشی سی آگئی اور گھر واپس ہوکر آپ نے فرمایا زَمِّلُونِی زَمِّلُونِی اے خدیجہ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ آپ پر یہ کیفیت کیوں طاری ہوئی ؟ کیا نعوذباللہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی طاقت زیادہ تھی؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پاک صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو معراج میں وہ مقام عطا فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اے اللہ کے نبی! اب میں آگے نہیں بڑھ سکتا، اب اگر میں آگے بڑھا تو میرے پر جل جائیں گے، یہ آپ کا مقام ہے، آپ آگے جائیے۔ تو مولانا گنگوہی نے اس کا ایسا پیارا جواب دیا کہ آپ بھی مست ہوجائیں گے ان شاءاللہ، فرمایا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جبرئیل علیہ السلام کی ہیبت سے بے ہوش نہیں ہوئے تھے بلکہ آپ کو عرب کے کافروں کے آئینے میں اپنا حسنِ نبوت نظر نہیں آیا کیونکہ وہ تاریک آئینے تھے لیکن جب جبرئیل علیہ السلام کا روشن آئینہ نظر آیا تھا اور آپ پر اپنا مقام ِ نبوت، حسنِ نبوت، جمالِ نبوت منکشف ہوا تو اپنے ہی جمالِ حسن سے آپ بے ہوش ہوگئے

غش کھا کے گر گئے تھے وہ آئینہ دیکھ کر

خود اپنے حسن ہی سے وہ بے ہوش ہوگئے

ایک شیر بکریوں میں رہتے ہوئے سمجھتا تھا کہ میں بھی بکری ہوں ۔ ایک دن دریا میں اپنی شکل دیکھی تب اس نے کہا لاَحَولَ وَلاَ قُوَّةَ اِلاَّ بِاﷲِمیں تو کچھ اور ہوں لہٰذا ایسی دھاڑ ماری کہ ساری بکریاں ڈر کر بھاگ گئیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے آئینہ جبرئیل میں مقامِ نبوت کو منکشف فرمایا، اپنے ہی جمالِ نبوت سے آپ پر غشی طاری ہوگئی

غش کھا کے گرِ گئے تھے وہ آئینہ دیکھ کر

خود اپنے حسن ہی سے وہ بے ہوش ہوگئے

کیا تعبیر کی ہے ذرا سوچیے اس کو اُولٰئِکَ اٰبَائِی فَجِئنِی بِمِثلِہِمکیسی محبت کی تعبیر کی ہے اور مقامِ نبوت کو کس طرح بیان کیا ہے۔

صحابہ کا مقامِ عشق

تو دوستو! یہ عرض کررہا تھا کہ اپنے شیخ و مربی کی محبت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرامین اور ان کی محبت سے سیکھو، صحابہ کا تو وہ مقام ہے کہ محبت خود ان سے محبت کرنا سیکھے، ان کے سامنے محبت خود آدابِ محبت نہیں جانتی، صحابہ کی محبت سے محبت کرنا سیکھو، صحابہ کی محبت سے سبق لو کہ محبت کیا چیز ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ آپ نے فرمایا ہے کہ کائنات میں آپ کو تین چیزیں پسند ہیں تو ابوبکر کو بھی پوری کائنات میں تین چیزیں پسند ہیں۔ نمبر۱: اَلنَّظَرُ اِلَیکَ

جب میں آپ کو ایک نظر دیکھتا ہوں تو مجھ کو ساری دنیا کی لذتوں سے زیادہ مزہ آتا ہے۔ مرید کا بھی یہی مقام ہونا چاہیے کہ جب شیخ کو ایک نظر دیکھے تو ساری کائنات کی لذتوں سے زیادہ اسے مزہ آئے بشرطیکہ شیخ متبع سنت، متبع شریعت اور صاحبِ نسبتِ عظمیٰ ہو۔ نمبر۲: وَالجُلُوسُ بَینَ یَدَیکَ

اے اللہ کے نبی! جب آپ کے پاس بیٹھتا ہوں تو مجھے ساری کائنات کی لذات سے زیا دہ آپ کے پاس بیٹھنا لذیذ معلوم ہوتا ہے۔ نمبر۳: وَاِنفَاقُ مَالِی عَلَیکَ

اور آپ پر اپنا مال خرچ کرنا مجھے کائنات کی ساری لذتوں سے زیادہ لذیذ معلوم ہوتا ہے، مگر جو صحابی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر مال خرچ کرتا تھا تو آپ اس مال کو جہاد میں خرچ کرتے تھے، اپنی بلڈنگ نہیں کھڑی کرتے تھے لہٰذا جو اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر فدا کر دے اور نعمتوں سے زیادہ نعمت دینے والے کو پیار کرے وہ اصلی ولی اللہ ہے، یہ نہیں کہ نعمتوں کو دیکھ کر، اپنی خوبصورت بیوی کو دیکھ کر، بال بچوں کو دیکھ کر، کباب بریانی دیکھ کر نعمت دینے والے کو بھول جائے۔

نعمت دینے والا نعمت سے افضل ہے

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: فَاذکُرُونِی اَذکُرکُم وَاشکُرُوا لِی وَ لاَ تَکفُرُونِ (سورةُ البقرة، آیة:۲۵۱)

حکیم الامت نے اس کی یہ تفسیر فرمائی ہے کہ تم ہم کو یاد کرو اطاعت کے ساتھ، ہم تم کو یاد کریں گے عنایت کے ساتھ، اگر اطاعت نہیںہے تو سبحان اللہ بھی قبول نہیں، جماعت سے نماز ہورہی ہے اور تم الگ بیٹھ کر سبحان اللہ پڑھ رہے ہو، عورت سامنے ہے اور تم نظر بچانے کے بجائے ماشاءاللہ ماشاءاللہ کہہ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو کیا جمال دیا ہے، یہ اطاعت ہے؟ حرام نمک چکھنا جائز ہے؟ البتہ اپنی بیوی کا نمک چکھنا حلال ہے لیکن اس کی بھی اتنی محبت نہ ہو کہ قیسِ ثانی بن جاو اور اﷲ کو بھول جاو۔

مفسر عظیم علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کو مقدم فرمایا اور شکر کو موخر فرمایا تو اس سے تصوف کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا کہ نعمتوں سے زیادہ نعمت دینے والے کو یاد کرو، جو نعمت دیکھ کر منعم سے غافل ہوجائے، مال و دولت اور نوٹوں کی گڈیاں دیکھ کر اﷲ سے غافل ہوجائے، حبِّ جاہ کی وجہ سے اﷲ سے غافل ہوجائے کہ سارا بنگلہ دیش اُس کو سلام کرے، جاہ کا نشہ ہو یا مال کا یا حسن کا اگر وہ خدا تعالیٰ سے غافل کردے تو ایسا شخص ولایتِ عظمٰی سے محروم رہے گا۔ علامہ آلوسی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کو شکر پر کیوں مقدم کیا: فَاِنَّ اﷲَ تَعَالٰی قَدَّمَ ذِکرَہ عَلٰی شُکرِہ ِلاَ نَّ حَاصِلَ الذِّکرِ الاِشتِغَالُ بِالمُنعِمِ وَاِنَّ حَاصِلَ الشُّکرِ الاِشتِغَالُ بِالنِّعمَةِ

فَلاِشتِغَالُ بِالمُنعِمِ اَفضَلُ مِنَ الاِشتِغَالِ بِالنِّعمَةِ

یعنی جب نعمت دینے والے کا حکم آجائے تو نعمتوں کو چھوڑ کر نعمت دینے والے کی محبت اور اطاعت میں لگ جاﺅ، حسین و جمیل عورت سامنے آجائے، حسین و جمیل لڑکا سامنے ہو لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان اس وقت نہ بھولو یعنی نگاہوں کی حفاظت کرو، اگر حسین لڑکا سامنے آجائے تو یہ کہو کہ اس کا حسن و جمال اس کی بیوی کو مبارک ہو۔

اسلام میں عورتوں کے حقوق

اگر بیوی اپنے حسین شوہر کو پیار کرلے تو جائز ہے یا نہیں؟ بلکہ مستحب ہے: اِدخَالُ السُّرُورِ فِی قَلبِ المُومِنِ اَفضَلُ مِن عِبَادَةِ الثَّقَلَینِ (المرقاة،کتابُ الاداب، بابُ الحب فی اﷲ ومن اﷲ)

اس سے شوہر کا دل خوش ہوجائے گا کہ نہیں؟ اور اگر حسین عورت پر اچانک نظر پڑگئی تو کہو یا اللہ اس کا حسن اس کے شوہر کو مبارک ہو، میری لیے وہی ہے جو آپ نے مجھے عطا فرمائی ہے، میرے لیے دنیا میں کوئی عورت اس سے بڑھ کر نہیں جو آپ نے مجھے عطا فرمائی۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ جنت میں مسلمان عورتیں حوروں سے زیادہ خوبصورت کر دی جائیں گی۔ بس چند دن صبر کر لو جیسے پلیٹ فارم کی چائے جیسی بھی ہو بحالتِ مجبوری پی لیتے ہو اسی طرح اگر مسلمان بیویاں شکل میں کمتر ہیں تو ان کو حقیر مت سمجھو، وہ جنت میں حوروں سے زیادہ حسین کردی جائیں گی۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مسلمان بیویوں کو یہ فضیلت کیوں ملے گی؟ آپ نے ارشاد فرمایا: بِصَلاَ تِھِنَّ وَ صِیَامِہِنَّ وَ عِبَادَتِہِنَّ اَلبَسَ اﷲُ وُجُوہَہُنَّ النُّورَ (روح المعانی، ج:۷۲، ص:۶۲۱)

حکیم الامت فرماتے ہیں کہ ایک شخص کی بیوی سے کھانے میں غلطی سے نمک تیز ہوگیا، اس کے شوہر نے اسے کچھ نہیں کہا اور یہ سوچا کہ اگر میری بیٹی سے نمک تیز ہوجاتا تو میں یہی چاہتا کہ میرا داماد اس کی پٹائی نہ کرے، اسے معاف کردے، اے خدا یہ بھی کسی کی بیٹی ہے اور سب سے بڑھ کر آپ کی بندی ہے، میں آپ کی خاطر اسے معاف کرتا ہوں۔ جب اس کا انتقال ہوا تو ایک ولی اللہ نے اسے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ تیرے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے معاصی پر گرفت فرمائی، میں سمجھا کہ شاید جہنم میں جاﺅں گا، لیکن آخر میں فرمایا کہ اے شخص! تو نے ایک دن میری بندی کو نمک تیز کرنے کی غلطی پر معاف کردیا تھا اور میری خاطر میری بندی سمجھ کر نہ اس کو گالی دی نہ پٹائی کی، تیرے اس عمل کے بدلے میں آج میں تجھ کو معاف کرتا ہوں ۔

آدابِ شیخ

تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان تین باتوں سے محبتِ شیخ کا سبق لو کہ ہمیں اپنے شیخ سے ایسی محبت کرنی چاہیے کہ ایک نظر متبع سنت مربی اور مرشد کو دیکھنا ہمیں سارے جہان سے عزیز تر ہو، اس کے پاس بیٹھنے کی نعمت سارے جہان کی نعمتوں سے عزیز تر ہو اور جب شیخ ہمارا مال دین کے راستے میں خرچ کرائے تو اس پر مال خرچ کرنا سارے عالم کی نعمتوں سے لذیذتر ہو۔

آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ والدین کو ایک نظر محبت سے دیکھنے کا ثواب ایک حج مقبول کے برابر ہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ فضیلت سن کر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ پھر تو ہم بہت زیادہ ثواب لے لیں گے، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت بڑی ہے، وہاں کوئی کمی نہیں۔ اور جو ماں باپ کو ستاتا ہے اس کو موت نہ آئے گی جب تک دنیا ہی میں خدا عذاب نہ دے دے۔

اﷲ والوں کو احترام کی نظر سے دیکھنے پر اﷲ ملتا ہے

ایک صاحب نے آج ہی سوال کیا کہ جب ماں باپ کو محبت سے دیکھنے پر ایک حجِ مقبول کا ثواب ملتا ہے تو شیخ جو روحانی باپ ہے اس کو دیکھنے سے کیا ثواب ملے گا؟ میں نے کہا کہ بھئی دیکھو! ماں باپ کو محبت سے دیکھنے پر ایک حجِ مقبول کا ثواب ملے گا مگر حجِ فرض ادا نہیں ہوگا ورنہ سارا روپیہ بچا کر ابا اماں کو دیکھ لو اور کہہ دو میں نے حج کرلیا تو جب ماں باپ کو جو جسمانی تربیت کرتے ہیں محبت سے دیکھنے پر حجِ مقبول کا ثواب ملتا ہے تو شیخ جو روحانی تربیت کرتا ہے اللہ کے لیے اس کو احترام کی نظر سے دیکھنے پر اللہ ملتا ہے: اِذَا رُاُوا ذُکِرَ اﷲُ (مسند احمد،مسند الشامین)

اﷲ والے وہ ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے۔

جاری ہے۔
Flag Counter