Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جنوری 2010

ہ رسالہ

8 - 15
ملفوظات حضرت والا ہردوئیؒ
ایف جے،وائی(January 22, 2010)

(گذشتہ سے پیوستہ)

ملفوظ نمبر۳۳۳:

ارشاد فرمایا کہ دنیا کا سفر مشکل ہے آخرت کا آسان ہے یہاں کے سفر کے لیے ٹکٹ کے بعد ریزرویشن اپنے اختیار میں نہیں ہوتا اور آخرت کے سفر کے لیے ایمان جو جنت کا ٹکٹ وہ بھی اختیار میں دے دیا اور ریزرویشن بھی اختیار میں دے دیا وہ ثم استقاموا ہے جیسی استقامت ہوگی اسی درجہ کا جنت میں مقام ملے گا اور مرنے سے پہلے ہی ریزرویشن کی بشارت لا تخافوا ولا تحزنوا وابشروبالجنة اللتی کنتم توعدون۔

ترجمہ: نہ اندیشہ کرو آخرت کے ہولناک حالات کا اور نہ غم کرو دنیا کے چھوٹنے کا اور بشارت تم کو اس جنت کی دی جاتی ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔

ملفوظ نمبر۴۳۳:

ارشاد فرمایا کہ اگر بیماری طویل بھی ہو تب بھی الحمد شریف کی کثرت سے تلاوت کرکے پانی پر دم کرکے پلانا بہت مفید ہے۔

ملفوظ نمبر۵۳۳:

ارشاد فرمایا کہ جس طرح اہل اﷲ کی محبت مطلوب ہے اسی طرح ان کی خفگی سے بھی بچنا مطلوب ہے حضرت مرزا مظہر جانِ جاناںؒ نے فرمایا کہ مجھے کوئی تکلیف دیتا ہے تو اس کو کچھ ڈانٹ ڈپٹ لیتا ہوں کیونکہ میرا تجربہ ہے کہ اس کو اگر معاف کردوں تو بھی کوئی بلا اس پرنازل ہوجاتی ہے۔

ملفوظ نمبر۶۳۳:

ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا محمد اﷲ صاحب دامت برکاتہم خلیفہ حضرت تھانویؒ کا سفر حجاز مقدس میں ایک جگہ ساتھ ہوا مولانا زیادہ عمر کے بزرگ ہیں اس کے باوجود مجھے فرمایا کہ تم اوپر چارپائی پر لیٹو ہم نیچے لیٹیں گے چونکہ چارپائی ایک ہی تھی۔ حضرت کا حکم سمجھ کر اوپر لیٹ گیا۔ لیکن میں نے احباب سے عرض کیا کہ اچھا بھائی آپ لوگ یہ بھی سمجھ لیجئے کہ موتی دریا میں نیچے ہوتا ہے اور بلبلہ اوپر ہوتا ہے اور ترازو کا وزنی پلہ نیچے ہوتا ہے اور ہلکا پلہ اوپر ہوتا ہے۔

ملفوظ نمبر۷۳۳:

ارشاد فرمایا کہ سنتوں کو خوب پھیلانا چاہیے کہ ایک دو سنت ہر روز ہر مدرسہ اور ہر مسجد میں سکھائیں سنتوں کے پھیلنے سے بدعت خودبخود فنا ہونے لگے گی۔ ایک انگریزی اسکول کے لڑکے کو ایک سنت ہر روز سکھائی گئیں جب بیس سنتیں یاد ہوگئیں تو ان پر عمل کی برکت سے انگریزی بالوںکے متعلق خود ان کو توفیق ہوئی پوچھا کہ بالوں کی سنت کیا ہے۔ بس ہپی بال خودبخود ختم کرنے کی توفیق ہوگئی، اتباع سنت کی برکت عجیب ہے گلزار سنت اور تعلیم الدین سے ایک ایک سنت روز یاد کرائی جائے اور طلباءاپنی نوٹ بک میں نوٹ کرلیں۔

ملفوظ نمبر۸۳۳:

ارشاد فرمایا کہ گھڑی کا مقصد تھا کہ صفِ اول میں نماز ادا کریں تکبیر اولیٰ فوت نہ ہو مگر آج کل گھڑی کا مقصد برعکس ہوگیا ہے یعنی کاہلی اور تاخیر کا سبب بن گئی ہے۔ گھڑی اس نیت سے دیکھتے ہیں کہ ابھی جماعت میں کتنے منٹ باقی ہیں اور حجرے میں باتیں کرتے رہتے ہیں۔

ملفوظ نمبر۹۳۳:

ارشاد فرمایا کہ جوتے پر پالش کی چہرے پر مالش کی مکان پر پلاسٹر کی ضرورت ہے ہرجگہ جمال مطلوب ہے مگر قرآن پاک کے جمال اور صحت سے پڑھنے کی فکر نہیں۔

ملفوظ نمبر۰۴۳:

ارشاد فرمایا کہ ایک ادارہ میں حاضری ہوئی شرح تہذیب اور مقامات یاد ہے مگر کھانے پینے اور نماز کی سنتیں یاد نہیں۔

ملفوظ نمبر۱۴۳:

ارشاد فرمایا کہ جہاں سنتوں کو خوب پھیلایا گیا وہاں کے عوام سے وہ بدگمانی جو ہمارے اکابر کے ساتھ تھی جاتی رہی اور ان کی سمجھ میں آگیا کہ یہ تو بڑے ہی اصلی عاشقِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ ہر سنت کا طریقہ اسہل اجمل اور اکمل ہے۔

ملفوظ نمبر۲۴۳:

ارشاد فرمایا کہ غیبت کرنا مردہ بھائی کا گوشت کھانا کیوں ہے؟ کیونکہ جس کی غیبت کی جارہی ہے وہ غائب ہونے کے سبب اپنے الزام کے عدم دفاع میں مثلِ مردہ ہے۔

………………..

وعظ بمقام مسجد بیت المکرم بعد نماز فجر لاہور مطابق ۴صفر ۹۹۳۱ھ

فاما من طغیٰ و اٰثرا الحیوة الدنیا فان الجحیم ہی الماویٰ و اما من خاف مقام ربہ و نہی النفس عن الہوی فان الجنة ہی الماوی

ارشاد فرمایا کہ ان آیات کے اندر حق تعالیٰ شانہ نے ۲ باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک چیز تو مطلوب ہے دوسری مہروب ہے۔ اگر کسی مسلمان سے پوچھا جاوے کہ کیا جنت میں جانا چاہتے ہو؟ تو ہر ایک کہے گا بےشک ہم کو جنت مطلوب ہے اور اگر کسی سے معلوم کیا جاوے تو کیا جہنم میں جانا چاہتے ہو تو ہر شخص جواب دےگا نہیں خدا بچائے ۔

اب جنت کا راستہ اور جہنم کا راستہ سن لیجئے۔ جو جس راستے پر چلے گا وہاں ہی پہنچ جاوے گا۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں سرکشی اور نافرمانی کا راستہ جہنم کا ہے فرعون کا تذکرہ سورہ نازعات پارہ ۰۳میں ہے فرعون کو سات سو سال کی زندگی دی گئی ۰۰۴ سال تک اس کو دردسر بھی نہ ہوا نعمت کی قدر کے بجائے سرکشی میں مبتلا ہوگیا سرکشی کے بھی درجے ہیں اول نمبر کا سرکش باغی کہلاتا ہے جو حکومت ہی کو تسلیم نہیں کرتا اور دوم نمبر کا سرکش وہ ہے جو حکومت کو تسلیم کرتا ہے مگر احکام کو بجا نہیں لاتا۔ باغی کی سزا سزائے موت یا حبس دوام ہے درجہ دوم والا بھی باغی کے ساتھ کچھ دن رہے گا پھر سزا پاکر مدت سزا گزار کر مطیعین کے ساتھ آجائے گا۔ اور حکومت کے وفادار کو پنشن دائمی ملتی ہے۔

نیک لوگ کہاں رہیں گے اور برے لوگ کہاں رہیں۔ دونوں کا کیا مقام ہے اور ان کا نام کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ان الابرار لفی نعیم وان الفجار لفی جحیم

”نیک لوگ جنت میں اور فاجر سرکش لوگ جہنم میں ہوں گے“

طغیان اور سرکشی کا سبب کیا ہوتا ہے؟ حیوٰة دنیا کی حد سے زیادہ محبت کہ آخرت پر ترجیح دینے لگے۔ دنیا کی محبت ہی ہر گناہ کی جڑ ہے اگرچہ جہنم توصرف باغیوں کے لیے ہے جن کو کافر اور مشرک کہا جاتا ہے۔ اعدت للکافرین مگر کچھ دن کے لیے گنہگار مسلمان بھی داخل کئے جائیں گے جو بدون توبہ مرجائیں گے۔

درمیان وعظ ایک صاحب ذکر کررہے تھے، حضرت نے فرمایا کہ ذکر کو ملتوی کردیجئے جب دنیا کی ضرورت سے ذکر کو ملتوی کردیتے ہیں جس کو طبعی حاجت کہتے ہیں تو شرعی حاجت یعنی وعظ سننے کے لیے کیوں ملتوی نہیں کرتے۔

دنیا کو ترجیح دینا آخرت پر کس طرح ہوتا ہے اس کی کچھ مثالیں بیان کرتا ہوں تاکہ سمجھ میں آجاوے مثلاً عورت نامحرم سامنے آئی بدنگاہی کرلی خدا کا خوف نہ کیا قانون شکنی کردی۔ دوسری مثال نماز کا وقت ہوگیا پڑا سو رہا ہے۔ تیسری مثال آمدنی حلال قلیل تھی دوسروں کا عیش دیکھ کر لالچ آئی رشوت لینا شروع کردی حرام آمدنی سے نہ ڈرا۔ لاٹری اور معمہ اور سٹہ اور سود و جوا کا ارتکاب کیا ہر حکم عدولی کرنے والا نافرمانی کرنے والا دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے والا ہے اور یہی جہنم کا راستہ ہے یعنی سرکشی کا اور جس کا سبب دنیا کی شرعی حد سے زیادہ محبت کرنا ہے اور جنت کا راستہ کیا ہے بری خواہش پیدا ہوئی اس کو دبا دیا واما من خاف مقام ربہ ونہی النفس عن الہویٰ قیامت کے دن حق تعالیٰ کے سامنے حساب کتاب کا خوف ہواا ور نفس کی خواہش کو دبادیا بس یہی جنت کا راستہ ہے۔

وقتی طور پر نفس کو دبانا آسان ہے مگر دائمی طور پر نفس کو دبانا باطنی خشیت اور تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں اور خوف و خشیت اہل خشیت اور اہل خوف کی صحبت سے ملتی ہے مگر بعض لوگوں کو یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر ہم اﷲ والوں کے پاس جائیں گے تو ہم کو ناجائز دنیا اور گناہ کے لطف چھوڑنے پڑیں گے۔ تو میرے دوستوں چھوڑنا نہیں پڑے گا خود چھوڑ دوگے پڑنا تو بادل ناخواستہ ہوتا ہے۔ خود دل چاہے گا سب گناہ چھوڑنے کو اﷲ تعالیٰ نے حیدرآباد میں اس کی ایک مثال میرے قلب میں عطا فرمائی ہے وہ یہ کہ مثلاً ایک شخص پانچ ہزار روپے رشوت لے کر جارہا ہے راتہ میں اس کا ایک دوست موٹر سائیکل دوڑا کر آیا اور کان میں کہا کہ ان نوٹوں کے بعض پر دستخط ہیں تم کو پھنسانے کے لیے ایسا گیا پولیس تمہاری تلاش میں تعاقب کررہی ہے یہ شخص اسی وقت تمام نوٹوں کو خوشی خوشی پھینک دے گا یا نہیں یا وہاں دستخط والے نوٹوں کو تلاش کرے گا۔ اس وقت اس شخص کو پھینکنا پڑے گا یا خوشی خوشی پھینکے گا اور ان نوٹوں کو پھینک کر غم محسوس کرے گا؟ اس وقت یہ خوشی ان نوٹوں کی جدائی سے کیوں ہورہی ہے سزا کے یقین اور خوف سے پس جہنم کا خوف اور اﷲ تعالیٰ کے غضب اور قہر کا خوف جب تک اﷲ والوں کے پاس آنے جانے سے پیدا ہوگا تو سب ناجائز کاموں سے خود ہی بھاگو گے اور خوشی خوشی چھوڑدوگے۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter