Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جنوری 2010

ہ رسالہ

13 - 15
صراطِ مستقیم
ایف جے،وائی(January 22, 2010)

ملفوظات حضرت پھولپوریؒ مرتب شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
(گذشتہ سے پیوستہ)

حضرت مولانا رومیؒ نے عارفین کاملین کی اس جلالت شان کو دوسری جگہ یوں فرمایا ہے کہ

خم کہ از دریا درو راہے شود
پیش او جیحونہا زانو زند

جس مٹکے کے اندر کوئی نلکی سمندر سے لگی ہو اور اس راستے سے اس مٹکے میں سمندر سے پانی جوش ماررہا ہو تو وہ مٹکا دیکھنے میں تو بظاہر مٹکا ہے لیکن اس کے فیضِ عظیم کے سامنے بڑے بڑے جیحون جیسے دریا زانوئے ادب طے کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہمارے حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب دادا پیر رحمة اﷲ علیہ بھی تھے صرف کافیہ تک تعلیم تھی لیکن قلب میں ایک راستہ حق تعالیٰ کی ذات پاک سے ملا ہوا تھا جس کا اثر یہ تھا

بینی اندر خود علومِ انبیائ
بے کتاب و بے معید و اوستا

حضرت حاجی صاحبؒ کا ظاہری مبلغ علم تو صرف کافیہ تک تھا لیکن

خم کہ از دریا درو راہے شود
پیش او جیحونہا زانو زند

حضرت مولانا رشید احمد صاحب محدث گنگوہیؒ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ، حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اﷲ علیہ جیسے چوٹی کے علماءہند آپ کے سامنے زانوئے ادب طے کرتے تھے۔ اور حضرت مولانا قاسم صاحبؒ تو فرماتے تھے کہ میں حضرت حاجی صاحب کے علم ہی سے معتقد ہوکر ان کا مرید ہوا ہوں۔

حضرت حاجی صاحب رحمة اﷲ علیہ کے یہاں مثنوی شریف کا جو درس ہوتا تھا اس میں علماءہند کے علاوہ بیرونِ ہند کے علماءبھی شریک درس ہوتے تھے۔ بات کیا تھی بات وہی تھی

خم کہ از دریا درو راہے شود
پیش او جیحونہا زانو زند

جس مٹکے میں سمندر سے راستہ ہوجاتا ہے اس کے سامنے بہت سے جیحون جیسے دریا زانوئے ادب طے کرتے ہیں۔

الغرض حق تعالیٰ کی دوستی کے لیے جن دو شرطوں کا آیت الذین اٰمنوا وکانوا یتقون کے اندر ذکر ہے یعنی ایمان بالغیب اور تقویٰ ان دونوں شرطوں کا حصول عالمِ ارواح میں روح کے لیے ممکن نہ تھا کیونکہ وہاں تو تمام مغیبات سامنے تھیں اور تقویٰ کے اسباب نہ تھے۔

روح مجرد میں اعضاءتھے ہی نہیں جن سے گناہ کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور تقویٰ کی تعریف یہ ہے کہ گناہ کی خواہش اور تقاضے پیدا ہوں اور پھر خوف حق سے ان تقاضوں پر عمل نہ کرے۔ عالم ارواح میں ایسے اسباب مطلقاً موجود نہ تھے نہ وہاں غضب کا مادہ تھا نہ وہاں شہوت کا مادہ تھا نہ وہاں ان تقاضوں پر عمل کرنے کے اسباب تھے، وہاں صرف بندے رہتے ہماری عبدیت پر ولایت کا تاج وہاں نہ رکھا جاتا۔ میاں کی رحمت نے اور ان کے کرم عظیم نے ارواح کو اجسام کے ساتھ دنیا میں بھیج کر بڑا احسان فرمایا ہے کہ آج اس عالمِ ناسوت میں ایمان بالغیب اور تقویٰ کی برکت سے کیسے کیسے غوث اور ابدال و اقطاب و اوتاد اور نجباءو نقباءپیدا ہوئے ہیں اور نہ جانے کتنے بے شمار اولیاءاﷲ روئے زمین پر ہوتے رہےں گے۔ میاں کے اس کرم پر جان قربان کردینا چاہیے کہ غلاموں کو دوست بنانے کے لیے روحوں کو اعضاءعطا فرماکر دنیا میں بھیجا ہے۔اسی کو مولانا فرماتے ہیں

شہوتِ دنیا مثال گلخن است
کہ از و حمام تقویٰ روشن است

دنیا کی یہ خواہشات مثل بھٹی کے ہیں جب ان خواہشات کے تقاضوں کو حق تعالیٰ کی مرضی میں بندہ جلادیتا ہے تو اس سے تقویٰ کا حمام روشن ہوجاتا ہے۔ لفظ تقویٰ ایسا جامع لفظ ہے جو اپنے اندر دین کے تمام جزئیات اور کلیات فروع اور اصول کو لئے ہوئے ہے کیونکہ جب ڈر ہوگا تو تمام احکام کو بجالانے کی فکر ہوگی، اسی طرح تمام گناہوں سے بچنے کی فکر بھی ڈر ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ پس تقویٰ یعنی خدا کا خوف تمام اعمال و احکام پر پابندی اور تمام گناہوں سے پرہیز سب کا ذریعہ ہے۔ قرآن کا عجیب اعجاز ہے ایمان بالغیب اور تقویٰ کے اندر سارا دین جمع فرمادیا ہے۔ اور یتقون صیغہ مضارع کا ہے جس کے اندر حق تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ ہمارے اولیاءہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں مرتے دم تک ڈرتے رہتے ہیں۔ اس ڈر ہی کے سبب انتقال کے وقت ان کے کان میں لا تخافوا ولا تحزنوا کی بشارت دی جاتی ہے یعنی دنیا میں بہت ڈر چکے، اتنا ڈرتے تھے کہ گوشہ چشم سے بھی غیر محرم پر نگاہ نہ کرتے تھے اب عالم بدل رہا ہے دنیا میں ہمارے خوف سے تم ہر وقت غمگین رہتے تھے آج کے دن لاتخافوا سے تمہاری مہمان نوازی کی جائے گی یعنی اب خوف مت کرو اور غم نہ کرو۔ اسی کو حضرت عارف رومیؒ فرماتے ہیں

لاتخافوا ہست نزل خائفاں

یعنی نہ ڈرنے کی بشارت ڈرنے والوں ہی کو دی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ کسی بے خوف سے یہ نہیں کہا کرتے ہیں کہ تم خوف مت کرو، حق تعالیٰ کا اپنے اولیاءسے موت کے وقت لاتخافوافرمانا صاف دلیل ہے کہ ان کے اندر خوف بھرا ہوا تھا ہر نہی اپنے مخاطب کے اندر منہی عنہ کے اثبات کی دلیل ہوتی ہے۔ یتقون کے لفظ سے حق تعالیٰ نے اپنے دربارِ خاص سے غیر مخلصین کو اور فاسقین فاجرین کو نکال دیا

عشق از اول چراخونی بود
تاگریزد ہر کہ بیرونی بود

مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ عشق اول وہلہ میں خونی کیوں نظر آتا ہے تاکہ غیر مخلص اور مدعی کاذب ہمت ہار کر راہِ فرار اختیار کرلے۔ اسی مضمون کو ہمارے خواجہ صاحب نے یوں فرمایا ہے کہ

بڑی عشق میں ہیں بہاریں مگر ہاں
گھری خارزاروں سے پھلواریاں ہیں

غیر عاشق ایک زخم لگنے سے راہ فرار اختیار کرتا ہے اور عاشق صادق کی شان یہ ہوتی ہے کہ

آں نہ من باشم کہ روز جنگ بینی پشتِ من
آں منم کاندر میانِ خاک و خوں بینی سرے

(سعدیؒ)

ایک عاشق صادق کہتا ہے کہ میں وہ نہیں ہوں کہ جنگ کے دن تو میری پیٹھ دیکھے یعنی میں شکست خوردوں کی طرح پشت دکھا کر بھاگنے والا نہیں ہوں میں وہ ہوں کہ تو میرا سر ُاس وقت خاک اور خون کے درمیان لتھڑا ہوا دیکھ لے گا۔

یتقون کے لفظ سے ولایت کی خاص علامت حق تعالیٰ نے بتادی کہ میرا ولی بندہ مجھ سے ہر وقت ڈرتا رہتا ہے اور کیوں ڈرتا ہے؟ محبت کے مارے کہ میاں نہ معلوم میرے ان اعمال سے خوش ہیں یا ناخوش ہیں۔ ایک بزرگ حافظ امام الدین صاحب جو شاہ گلزار صاحبؒ کے خلیفہ تھے ان کا واقعہ یاد پڑا کہ وہ کہیں چلے جارہے تھے کہ کسی دیہاتی ہندو نے ہندی زبان میں یہ شعر گایا

جھلنی تو گڑہایوں پیا اپنے مناسے
پیا منا بھاولا کہ نائے

ایک عورت اپنے شوہر کو خطاب کرکے کہتی ہے کہ اے پیا یعنی اے میرے شوہر جھلنی (جو کہ ایک زیور ہے ناک میں عورتیں پہنتی ہیں) تو اپنی طبیعت کے پسند سے بنوالیا ہے لیکن معلوم نہیں ہے کہ آپ کو بھی پسند آوے یا نہ آوے اور مطلب تو صرف پیا کی پسند سے ہے۔

اس شعر کا سننا تھا کہ حضرت حافظ امام الدین صاحب جو صاحب نسبت بزرگ تھے سرِ راہ بےہوش ہوگئے ایک حال طاری ہوگیا جب ہوش ہوا تو احباب نے عرض کیا کہ حضرت آپ بے ہوش کیوں ہوگئے؟ فرمایا کہ اس ہندی شعر سے میرے قلب پر ایک کیفیت طاری ہوگئی حق تعالیٰ کی پسندیدگی اور اپنے اعمال کی گندگی کا نقشہ اس شعر میں نظر آگیا یعنی اس عورت کو اپنے شوہر سے اس درجہ عشق ہے کہ وہ اپنے زیور سے خوش نہیں ہے محض اس بناءپر کہ ابھی میرے شوہر نے اس کو دیکھا نہیں ہے، جب تک وہ دیکھ کر اپنی پسندیدگی کا اظہار نہ کردے اس وقت تک اس عورت کو اپنی جھلنی کے متعلق تشویش ہے۔ اسی طرح مرنے سے پہلے اپنے اعمال کے متعلق ہم اپنی رائے سے کیسے سمجھ لیں کہ یہ قابل قبول بھی ہیں، معیار اور کسوٹی کھوٹے کھرے ہونے کی تو میاں کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاءاﷲ مرتے دم تک ڈرتے رہتے ہیں اس ڈر کا کبھی ان سے انقطاع اور انفکاک نہیں ہوتا ہے۔اگر کسی کے قلب سے یہ ڈر نکل جائے تو اسی وقت اس کی ولایت بھی ختم ہوجائے کیونکہ ولایت کے لیے تقویٰ کی شرط لگی ہوئی ہے اور شرط کے فوت ہونے سے مشروط کا فوت ہونا لازم آتا ہے۔ دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ اگر آپ کے یہاں کوئی معزز اور محترم مہمان آجائے اور آپ رات دن اس کا اکرام اور ہر طرح سے اس کی ضیافت و مہمان نوازی کرلیں لیکن مہمان کے رخصت ہونے کے وقت میں آپ کا دل کھٹکتا ہے کہ نہ معلوم اس مہمان معزز کے مزاج پر کون سی بات گراں خاطر ہوئی ہو، کیونکہ ضیافت اور مہمان نوازی تو ہم نے اپنی عقل اور اپنی طبیعت و مذاق کے مطابق کی ہے مہمان کے مذاق اور مزاج کا پورا علم نہ کسی کو ہوتا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ رات دن ساتھ رہنے والے خادموں کو سالہا سال مزاج شناسی سکھانے کے باوجود ان سے بعض خدمات مزاج کے خلاف ہوہی جاتی ہیں جب ہم کو اپنی طبیعت کا اور مزاج کا یقینی علم پوری طور پر نہیں ہوتا ہے تو دوسروں کی طبیعت جو ہمارے احساس سے بھی الگ تھلگ ہے اس کا علم کیسے ہوسکتا ہے۔ طبائع اور امزجہ کا یقینی علم مخلوقات کے لیے حاصل ہونا عقلاً محال ہے۔ یہ صرف خالق کی شان ہے جو اپنے پیدا کئے ہوئے تمام ذرات کے اتصال اور انفصال سے پورا پورا باخبر ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : الا یعلم من خلق وہو الطیف الخبیر بھلا کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا ہے اور وہ بہت باریک بیں اور پورا باخبر ہے۔ (پارہ ۹۲ سورہ ملک)

حاصل یہ ہے کہ جب وہ معزز مہمان رخصت ہونے لگتا ہے تو میزبان صدہا اکرام اور خدمات کے باوجود ادب سے عرض کرتا ہے کہ آپ کی کما حقہ ہم سے خاطر نہ ہوسکی کوئی بات گراں خاطر ہوئی ہو تو اس کو معاف فرمائیے گا۔ جب ایک انسان دوسرے انسان کا کما حقہ حق ادا نہیں کرسکتا ہے تو اﷲ تو اﷲ ہے وہ خالق اور مالک ہے۔ دنیا میں عالم غیب کے نمونے موجود ہیں۔ اﷲ والے جو اپنے اعمال اور اذکار پر نازا ں ہونے کے بجائے ڈرتے رہتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی سمجھ حق تعالیٰ نورانی فرمادیتے ہیں، وہ نفس سے یوں کہہ دیتے ہیں کہ جب حق تعالیٰ میرے مرنے کے بعد مجھ سے فرمادیں گے کہ تیرے اعمال سب قبول ہیں اس وقت ان اعمال پر اچھلیں گے اور خوشیاں منائیں گے، دنیا میں چونکہ اپنے اعمال کے متعلق ہم کو میاں کی خوشی اور ناخوشی کا یقینی علم نہیں ہے اس لیے دنیا ناز کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں ناز کرنا اعمال پر ناز بے جا ہے اور قبل از وقت ناز ہے۔اسی کو حضرت بڑے پیر صاحب فرماتے ہیں

ایماں چو سلامت بلب گوربریم
احسنت بریں چستی و چالاکی ما

حضرت غوث پاکؒ فرماتے ہیں کہ جب ایمان کو سلامتی سے ہم قبر میں لے جاویں گے تو اس وقت ہم اپنی چستی اور چالاکی پرآفریں کہیں گے اور دنیا میں جب تک دین کی کشتی نفس و شیطان کے تھپیڑوں سے دوچار ہے اس وقت تک ناز کرنا حماقت ہے۔ یہ وقت تو ہر وقت حق تعالیٰ سے آہ و زاری کے ساتھ سلامتی کے ساتھ پار ہونے کی دعا کرنے کا ہے

خوش سلامت ما بہ ساحل باز بر
اے رسیدہ دست تو در بحر و بر

الذین اٰمنوا وکانوا یتقون میں لفظ آمنوا سے حق تعالیٰ نے تمام بے ایمانوں کو اپنے دربار سے نکال دیا اس کے بعد یتقون فرماکر بے عمل اور بے خوف اہل ایمان مدعیان باطل کو نکال دیا۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter